گذشتہ دنوں عدالتی حکم کے نام پر کراچی میں قائم تاریخی اسلامیہ کالج کمپلکس کو خالی کروانے کی کوشش اور پولیس کی یلغار کے بعد عجیب وغریب صورت حال قائم ہوگئی۔
اسلامیہ کالج کمپلکس کا مسئلہ آج شہر ِقائد کا اہم اور حسّاس مسئلہ ہے، جس کا تعلق اس ادارے میں زیرِتعلیم ہزاروں طلبا و طالبات کے تعلیمی مستقبل سے ہے۔ گذشتہ کئی روز سے یہ مسئلہ ذرایع اِبلاغ پر موضوع ِبحث ہے ، کالج اساتذہ تنظیم ’’سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن‘‘ بھی اس مسئلے پر احتجاج کر رہی ہے۔
میں ’اسلامیہ کالج کمپلکس‘ سے متعلق معاملات سے بہ خوبی واقف ہوں ، عدالتوں میں اس تعلیمی کمپلکس کی ملکیت کے دفاع کی جنگ بھی لڑتا رہا ہوں، جس کی پاداش میں مجھے مختلف انواع کی سازشوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ، دھمکیاں بھی سہنی پڑیں اور انتقامی کارروائیوں کا شکار بھی ہونا پڑا، جس کی تفصیلات خاصی طویل ہیں۔
موجودہ صورت حال میں، میں شدّت سے محسوس کررہا ہوں کہ اسلامیہ کالج کمپلکس کے ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کی جانب سے ’اسلامیہ کالج کمپلکس‘ سے بے دخلی کے مسئلے پر احتجاج تو ہو رہا ہے، مگر اس مسئلے کو دنیا کے سامنے اس کے حقیقی تناظر میں پیش نہیں کیا جارہا، بلکہ کچھ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کی جانب سے غیرذمّہ دارانہ بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جو اسلامیہ کالج کے کیس کو مزید خراب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اسلامیہ کالج کے مسئلے کو مضبوط قانونی دلیلوں اور ثبوتوں کے ذریعے اجاگر کرنے کے بجائے کم زور دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔ کبھی اسلامیہ کالج کمپلکس کے بانی اے ایم قریشی کے خانوادے کی خواتین کو کیمروں کے سامنے پیش کرکے اور ان سے بیانات دلوا کر اسلامیہ کالج کمپلکس کے سرکاری ملکیت ہونے کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تو کبھی محکمۂ تعلیم کالجز کے افسران ِ بالا کی جانب سے اسلامیہ کالج کمپلکس کے کرائے کی ادائی کے غیرذمّہ دارانہ بیان سے کیس کو مزید خراب کیا جا رہا ہے۔
اس مسئلے میں دل چسپی رکھنے والی ایک سیاسی جماعت اور طلبا تنظیم کی جانب سے بھی اسلامیہ کالج کمپلکس کے حق میں بے جان اور بودی دلیلیں پیش کر کے جان دار قانونی دلیلوں اور اصل حقائق کے پیش کرنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔
اسلامیہ کالج کمپلکس پر اپنے حق کی دلیل میں قریشی خاندان کی خواتین کا سڑکوں پر بیان اتنی اہمیت کا حامل نہیں، جتنا اسی خاندان کے ایک مرد اور اے ایم قریشی کے کامران نامی نواسے کا خصوصی طور پر امریکا سے آکر عدالت ِ عالیہ میں اسلامیہ کالج کمپلکس کے سرکاری تحویل میں رہنے کے حق میں دیا جانے والا وہ بیان ہے جس کی قانونی حیثیت بھی ہے، مگر اس بیان کا کہیں ذکر نہیں ہو رہا۔
دنیا کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اسلامیہ کالج کمپلکس آج جس زمین پر قائم ہے اس کی فراہمی میں قائداعظم کے معتمد ساتھی اور تحریک ِ پاکستان کے عظیم رہنما مولانا شبّیر احمد عثمانی کا کیا کردار تھا۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کمپلکس کی زمین کے ایم سی نے برائے نام قیمت پر ’’ٹرسٹ‘‘ کو الاٹ کی تھی ، یہ نہیں بتایا جارہا کہ اسلامیہ کالج کمپلکس کی موجودہ عمارت کی تعمیر پر کل 25 لاکھ روپے لاگت آئی تھی، جس میں سے 10 لاکھ حکومت ِ پاکستان نے فراہم کیے اور 15 لاکھ روپے بہاول پور بینک میں کھولے گئے اکاؤنٹ میں کراچی کے عوام کی جانب سے عطیہ کی گئی رقم سے حاصل کئے گئے۔
یہ نہیں بتایا جارہا کی جس آج اسلامیہ کالج کمپلکس جس ’’ٹرسٹ‘‘ کے حوالے کیا جا رہا ہے، اس کی قانونی حیثیت روزِاوّل سے متنازع رہی ہے اور اس ’’ٹرسٹ‘‘ میں ’’ٹرسٹ ڈیڈ‘‘ میں طے شدہ اصول کے مطابق کراچی کے ممتاز شہریوں اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے نمائندوں کو بطور ’’ٹرسٹی‘‘ نمائندگی دینے کے بہ جائے ایک مخصوص خاندان کے افراد کو نمائندگی دی گئی۔
جس سے ’’ٹرسٹ‘‘ کی قانونی حیثیت متنازع ہوگئی ، یہ نہیں بتایا جا رہا کہ سنہ 1971ء میں اس وقت کے اسلامیہ کالج کے تین سینئر اساتذہ ، انیتا غلام علی (سابق وزیرِتعلیم) ، اعجاز محمود (سابق رکن قومی اسمبلی) اور پروفیسر حیدرعبّاس کی جانب سے ’’ٹرسٹ‘‘ کی قانونی حیثیت کو سندھ بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں عدالت کی جانب سے ’’ٹرسٹ‘‘ کو غیرقانونی قرار دیے جانے کا امکان تھا، مگر سنہ 1972ء میں بھٹّو حکومت کی جانب سے اسلامیہ کالج کمپلکس سمیت تمام نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیے جانے کے اور ’’ٹرسٹ‘‘ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تینوں اساتذہ کے سرکاری ملازمین ہو جانے کے باعث یہ مقدمہ غیر موثر ہو جانے کے نتیجے میں ’’ٹرسٹ‘‘ اپنی حیثیت میں برقرار رہا، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ ماضی میں حکم رانوں کی ہم دردیاں کالج کے بجائے مدعی پارٹی کے ساتھ رہیں، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ جس ’’رینٹ کنٹرولر‘‘ کی عدالت کی جانب سے سنہ 2008ء میں جاری کردہ حکم کو بنیاد بناکر اسلامیہ کالج کمپلکس کو خالی کروایا جارہا ہے۔
اس رینٹ کیس میں اسلامیہ کالج کمپلکس کی اصل مالک یعنی حکومت سندھ تو فریق ہی نہیں تھی اور نہ ہی کیس کی سماعت کے دوران اس کا موقف سنا گیا، نیز عدالت کا یہ حکم اس وقت کی ’’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘‘ کے خلاف تھا، جو نہ اس کمپلکس کی مالک تھی، نہ اس کے بارے میں کچھ واقفیت رکھتی تھی ، یہ نہیں بتایا جارہا کہ ’’رینٹ کنٹرولر‘‘ کی عدالت نے سنہ 1962ء میں تحریر کیے جانے والے جس ’’رینٹ ایگریمنٹ‘‘ کی بنیاد پر اسلامیہ کالج کمپلکس کو ’’ڈیفالٹر‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مدعی کو حوالگی کا فیصلہ دیا۔
وہ ’’رینٹ ایگریمنٹ‘‘ قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں تھا کیونکہ یہ ایگریمنٹ ’’ٹرسٹ‘‘ اور کالج پرنسپل کے مابین قرار پایا تھا اور کالج کا پرنسپل خود ’’ٹرسٹ‘‘ کا ملازم تھا نیز ’’ٹرسٹ ڈیڈ‘‘ کے مندرجات کے مطابق ٹرسٹ ایسا ’’رینٹ ایگری منٹ‘‘ کرنے کا مجاز بھی نہ تھا ، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ اسلامیہ کالج کمپلکس کی ملکیت کا مدعی ، عدالتوں میں حکومت ِ سندھ کی جانب سے ادا کردہ دس لاکھ روپے روپے کی رقم کو کمپلکس کا کرایہ ظاہر کرتا رہا وہ دراصل سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کمپلکس کی مرمّت اور تزئین و آرائش کے لیے ادا کی جانے والی رقم تھی۔
یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ ’’رینٹ کنٹرولر‘‘ کی عدالت کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل (جس میں ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم ِ امتناع حاصل کیا گیا تھا) اور جس میں سرکار کی جانب سے وہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پیش ہو رہے تھے، جو اب سندھ ہائی کورٹ کے معزّز جج ہیں اور میں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر ، ڈائریکٹوریٹ کالجز کے نمائندے کے طور پر ان کی معاونت کر رہا تھا۔
اس اپیل کے زیرِسماعت ہونے کے درمیان مجھے ڈپٹی ڈائریکٹر کے منصب سے ہٹاکر پریمیر کالج بھیج دیا گیا، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ میرے تبادلے کے بعد اسلامیہ کالج کمپلکس سے متعلق مختلف عدالتوں میں زیر ِ سماعت مقدمات کی پیروی نہیں کی گئی (اس امر کے ٹھوس اور ناقابلِ تردید دستاویزی ثبوت ریکارڈ پر ہیں) جس کے نتیجے میں عدالتی حکم ِ امتناع ختم ہوگیا اور ’’رینٹ کنٹرولر‘‘ کا کالج کمپلکس خالی کروانے کا حکم ایک مرتبہ پھر بحال ہوگیا۔
یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ محکمۂ تعلیم کالجز اور ریجنل ڈائریکٹوریٹ کالجز کراچی کی مجرمانہ بے پروائی سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل مسترد ہوگئی اور سرکار کو پتا ہی نہ چلا، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ ’’رینٹ کنٹرولر‘‘ کی جانب سے رینٹ کیس میں اسلامیہ کالج کمپلکس خالی کروا کے مدعی پارٹی کو دینے کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں دائر اپیل مسترد ہونے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں جن افسران کی ذمّہ داری تھی، انھیں نظرانداز کرتے ہوئے اس وقت کے سیکریٹری کالجز کی جانب سے مجھ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے۔
اس معاملے میں غیرمتعلقہ ہوتے ہوئے بھی اس اپیل کے ضمن میں محکمۂ تعلیم کالجز کا ’’فوکل پرسن‘‘ مقرّر کیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ تحریری احکامات کیوں جاری کیے گئے کہ وہ سب مجھ سے تعاون کریں، یہ کیوں نہیں بتایا جارہا کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے اسلامیہ کالج کمپلکس کو بچانے کے لیے سپریم کورٹ میں دائر اپیل کے ضمن میں محکمے کی جانب سے مجھے ’’فوکل پرسن‘‘ مقرّر کیے جانے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ ہدایت جاری کرنے کے باوجود کہ وہ مجھ سے مکمل تعاون کریں۔
سب سے بڑے اور اہم اسٹیک ہولڈر یعنی ریجنل ڈائریکٹر کالجز نے مجھ سے تعاون کرنے کے بجائے، اسلامیہ کالج کمپلکس کی فائلیں میرے حوالے کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیا؟ واضح رہے کہ مذکورہ اپیل کے ضمن میں ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے طلب کردہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی انتہائی اہم میٹنگ اور اس کے بعد ڈائریکٹر جنرل کالجز کی جانب سے منعقدہ اسی نوعیت کی میٹنگ میں قائم قام ریجنل ڈائریکٹر نے شرکت نہیں کی جس کی اطلاع بروقت سیکریٹری کالج ایجوکیشن کو دی گئی۔
سیکریٹری کی جانب سے سخت رویّہ اپنانے پر قائم مقام ریجنل ڈائریکٹر کراچی نے مطلوبہ فائلیں میرے حوالے کیں، تو بہت تاخیر ہو چکی تھی، بہرحال حسب حکم میں نے مطلوبہ تمام اہم دستاویزات ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے حوالے کر دیں، یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اسلامیہ کالج کمپلکس کے انتہائی اہم اور حسّاس مقدمے میں مجھے حکومت سندھ کی جانب سے ’’فوکل پرسن‘‘ مقرّر کیے جانے کے باوجود اس وقت کے قائم مقام ریجنل ڈائریکٹر کراچی نے حکّام ِ بالا سے مجھے ’’فوکل پرسن‘‘ مقرّر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مجھے ’’فوکل پرسن‘‘ کی ذمّہ داریوں سے ہٹانے کے لیے خط و کتابت کیوں کی اور سب سے بڑھ کر یہ بھی بتائیں کہ اس وقت کے پاکستان شپ اونر کالج کے پرنسپل پروفیسر صلاح الدّین ثانی نے، خود کو ’’سندھ کالج پرنسپلز ایسوسی ایشن‘‘ کا صدر ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور رجسٹرار ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور رجسٹرار اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ (مجھے سپریم کورٹ میں دائر اپیل کے سلسلے میں جن کی معاونت کرنا تھی) کو خطوط لکھ کر مجھے اس اہم ترین اپیل میں بحیثیت حکومت ِ سندھ کی جانب سے مقرّر کردہ ’’فوکل پرسن‘‘ ایڈووکیٹ جنرل کی معاونت سے روک دیا گیا۔
یہ بھی بتایا جائے کہ اسلامیہ کالج کمپلکس کا کیس خراب کرنے میں کس کس ذمّے دار نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور کس کس نے سازش کی، بدنصیبی سے میں اسلامیہ کالج کمپلکس کے معاملے میں محکمۂ تعلیم کالجز کے کردار سے زیادہ مطمئن نہیں، مگر سول سوسائٹی، تمام علم دوست تنظیموں اور میڈیا سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے کراچی کی اس عظیم مادرِعلمی کے تحفّظ کو یقینی بنائیں گے۔ میں نے زیرِنظر تحریر میں جن حالات و واقعات کو بیان کیا ہے ان کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مستند اور ناقابل ِتردید دستاویزی ثبوت اور گواہ موجود ہیں۔
The post کراچی کا تاریخی اسلامیہ کالج appeared first on ایکسپریس اردو.