لفظ ’’ معذوری ‘‘ انسانی جسم کی ناقابل واپسی مستقل خرابیوں کا احاطہ کرتا ہے جس میں جسمانی نقل و حرکت کی دشواریوں، سماعت وبصارت کی خرابی، مخصوص سیکھنے کی معذوری اور دماغی صحت کے مسائل شامل ہیں جو بالعموم ایک انسان کے معاشرے میں مساوی بنیادوں پر مکمل و مؤثر کردار کی ادائیگی میں رکاوٹ بن سکتے۔
بین الاقوامی یوم برائے معذور افراد، عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پوری دنیا میںہرسال تین دسمبرکومنایا جاتا ہے۔ یہ دن ہر سطح پر معذور افراد کے حقوق و بہبود کو فروع دینے اور معذور افراد کی سیاسی ، سماجی، اقتصادی و ثقافتی زندگی کی صورتحال کے بارے میں بیداری و آگہی پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ سے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اندازاً ایک بلین سے زیادہ افراد معذوری کا شکار ہیں۔
یہ تعداد دنیا کی تقریباً 15 فیصد آبادی کے برابر ہے، جس میں 190 ملین (%3.0) 15 سال یا اس زیادہ عمر کے لوگوں کو کام کرنے میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اور انہیں اکثر صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے فراہم کردہ اندازے کے مطابق اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ تقریباً 6.2 فیصد پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں معذوری کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ذرائع کی جانب سے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہیں، جس کے مطابق پاکستان میں معذور ( ہر قسم کے افراد) کا تخمیہ اندازاً 27 ملین تک کا ہے۔
معذور افراد کے لیے دنیا بھر میںنہ صرف قانون سازی کی جاتی ہے بلکہ ان کی سہولیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر سطح پر اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ وہ حتی المقدور معاشرے میں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کرسکیں ۔
پاکستان میںبھی اس ضمن میں مختلف ادوار کے دوران قانون سازی کی جاتی رہی۔ سب سے پہلے کی جانے والی قانون سازی 1981ء کے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے کی گئی جس میں پہلی ترمیم 2015 ء اور بعد ازاں 2020 ء میں ترامیم کی گئیں۔
اس کے بعد 18 ویں ترمیم کی روشنی میں صوبائی حکومتوں نے اپنے تئیں بھی قانونی مسودے تیار کئے۔ عالمی سطح پر کئے جانے والے اقدامات کے تحت پاکستان کی جانب سے معذور افراد کے حقوق کے کنونشن کی توثیق کیے کم و بیش ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
مگر اس کے باوجود وفاقی سطح سے لے کر صوبائی سطح تک جو عملی اقدامات کئے گئے وہ انتہائی غیر اطمینان بخش ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش 70 لاکھ جسمانی معذورین گھروں میں محض اس وجہ سے مجبور و پابند ہیں کیونکہ انہیں وہیل چئیر تک رسائی نہیں ہے۔
معذور افراد کی زندگیوں کو قدرے آسان بنانے کیلئے جہاں انکے تفویض کردہ معذورین کوٹے برائے نوکری پرمن وعن تمام ادارے کام کریں، وہیں تمام سطح کی حکومتوں کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ اس بات کو عملی طور پر یقینی بنائیں کہ نوکری کوٹے پر ٹھیک انداز میں عمل کے ساتھ ساتھ کیا معذور افرادکو وہ تمام سہولیات بھی میسر ہیں جن کے باعث ان افراد کی آمد و رفت و دیگر ضرویات زندگی میں آسانی میسر آتی ہے۔
یہ وہ ضروریات ہیں جن میں معاون ٹیکنالوجی یعنی ایسی اشیاء جن کی بناء پر معذور انسان کیلئے سیکھنے، کام کرنے، روزمرہ زندگی بہتر بنانے جیسی سہولیات بشمول بیت الخلاء ، داخلے/ چلنے کے راستے میں سہارے پر مبنی سہولت ، وھیل چئیرز ، سکوٹر، واکرز، بصری و سمعی آلات شامل ہیں۔
معذور افراد کی معاونت کے لیے جہاں ٹیکنالوجی کی معاونت ایک اہمیت رکھتی ہے، وہیں ان خصوصی افراد کے لیے اساتذہ ،گفتگو و روز مرہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ماہرین جن میں اسپیچ لینگوئج تھراپسٹ اور آکپیشنل تھراپسٹ کے ساتھ ساتھ بحالی ( ری ہیبی لیٹیشن ) انجینیرز شامل ہوتے ہیں۔
معذور افراد میں ان کی معذوری منفی خیالات بھی لاتی ہے۔ اس بناء پر ان میں بالخصوص خوف، ہچکچاہٹ اور کسی بھی کام کے آغاز کے لیے خود اعتمادی میں کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اس بناء پرعام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ معذور افرادگھر میںرہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے آپ کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور کر لیتے ہیں بلکہ ایک خوامخواہ کے ’’ معذوری خول‘‘ کے اندر اپنے آپ کو بند کر لیتے ہیں۔ اس صورت حال کے باعث معذور افراد میں ایک سماجی بدنامی، امتیازی سلوک اور ایک شرمندگی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔
پاکستانی ( وفاقی ) قوانین کے مطابق معذور افراد کے لیے دوفیصد نوکری کاکوٹہ ہے جوکہ معلوم تعداد برائے معذورین کے تناسب سے کافی کم ہے مگر اس کے باوجود اس پر بھی تمام سطحوں پرعمل درآمد نہیں ہوتا ہے جہاںملکی سطح پرقوانین پر عملی اقدامات کی شدید ضرورت ہے تاکہ معذور افراد میں مثبت طرز زندگی کی بنیاد رکھی جا سکے۔
وہیں پاکستان کے متعلقہ شماریاتی اداروں کابھی فرض ہے کہ وہ پاکستان بھر کے معذور افراد کے درست اعداد و شمار مرتب کر کے قوم کو آگاہ کریں۔ اس کام کے لیے نادراسے بھی معاونت لی جا سکتی ہے۔
معذور افراد کیلئے عالمی سطح میں منائے جانے والے دن کو بھی وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری سطح پر آگاہی کے دن کے طور پر منانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے اس اہم طبقے کے حقوق کا نہ صرف تحفظ ہو بلکہ اس کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد کے لیے بھی لوگوں میں آگاہی پیدا ہو تاکہ تعلیمی اداروں سے لیکر معاشرے کے تمام طبقات میں اور معذور افراد کی ہمت افزائی کی جائے۔ اس ضمن میں چند امور کی جانب بالخصوص توجہ مرکوز کرنی چاہیے:
معذور افراد کے لیے تمام عوامی جگہوں پر نقل و حرکت میں معاونت کیلئے خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں۔ تمام مساجد ، شاپنگ مالز، ہسپتال ، اسکول وکا لجز، یونیورسٹیز ، دیگر عمارات میں وہاںکی انتظامیہ معذور افراد کے لیے آمد وفت کی سہولیات یقینی بنائے۔
تمام تعلیمی اداروں ، سرکاری ونجی اداروں اور ہسپتالوں ( بالخصوص سرکاری ) میں بیت الخلاء (واش روم) میںکموڈ کی سہولت، ویل چیئرز کا راستہ ، مخصوص سہولیات جیسے کہ بریل لفٹ و ٹریک کے ساتھ ساتھ ٹیکٹائل پیونگ ( paving Tactile) شامل ہونی چاہییں۔
بڑی عمارات میں فاصلے طے کرنے کیلئے وہیل چئیرز اور شٹل سروس ٹرانسپورٹ کی سہولیات معذور افراد کی آمد ورفت کے لیے سہولت کا باعث ہوں گی ۔
معذور افراد اور ان میں معاشی ناہمواری معاشرے میں ایک عجیب تعلق بنا لیتے ہیں۔ لہذا معاشی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے معذور افراد بالخصوص گھر کے لیے روزی روٹی کمانے والے کیلئے ریاست خصوصی طور پر خیال رکھے۔ ہمارا دین اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں مساوات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقے کے بنیادی حقوق کا ہر سطح پر تحفظ ہو۔
اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق، معذوری لوگوں کو زندگی میں اپنے شوق کو تلاش کرنے اور اس کا تعاقب کرنے سے نہیں روکتی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کم و بیش71 فیصد معذور افراد بے روزگار ہیں۔
اس شرح میں گزشتہ چند برسوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ ملازمت کے امیدواروں کی جسمانی ساخت کا روزگار کے فیصلوں پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور اس تصور سے پاکستانی معیشت کو سالانہ ایک بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ری ہیبیلیٹیشن (Rehabilitation) کے ماہر افراد ایک خلاء کے انداز میں معذور افراد کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
بہتر نتائج کیلئے مربوط سہولیات پر مبنی اداروں کی اشد ضرورت ہے، جہاں یہ ضروری امر ہو کہ بحالی کے ماہرین افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و رابطے پر مبنی معذور افراد کو سہولیات فراہم کریں اور ایک کثیر الضابطہ ٹیم کی طرز پر بحالی کی خدمات فراہم کی جائیں۔
ہمیں بحیثیت فرد ، معاشرہ ، ادارہ اور بالخصوص حکومتی سطح پر کسی بھی دستاویز میں جسمانی طور پر معذور یا ذہنی طور پر معذور جیسی توہین آمیز اصلاحات سے گریز کرنا چاہیے۔ پالیسی سازوں اور عام شہریوں کی ذہن سازی اور معذور افراد کے ساتھ رویے و برتاؤ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت معذوری کو صحت عامہ کیلئے اہم مسئلہ گردانتا ہے۔ معذور افراد کیلئے بہت سے چیلنجز ہیں اور ایسے میں روزگار بہر حال بنیادی ضرورت ہے۔ معاشرے کی تمام اہم اکائیوں پر فرض ہے کہ ایک مساوی معاشرے کی تشکیل میں معذور افراد کو عملی انداز میں عزت کے ساتھ ترقی میں شامل رکھیں، اور یقیناً ان کی شرکت کے ملکی ترقی و استحکام میں دور اس اثرات مرتب ہوں گے۔
The post بین الاقوامی یوم برائے معذوراں appeared first on ایکسپریس اردو.