جیمز گیلیگر
اسکاٹ لینڈ اور ہالینڈ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کسی ویکسین کے جواب میں ہمارے مدافعتی نظام کے ردعمل کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہماری پیدائش کیسے ہوئی تھی، یعنی نارمل ڈیلیوری یا آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے۔
اس تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ نارمل ڈیلیوری یا قدرتی طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں میں ویکسین لگانے کے بعد پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی مقدار آپریشن (سی سیکشن) کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں دگنا ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس فرق کی وجہ مدافعت پیدا کرنے والے وہ اچھے بیکٹیریا ہیں جو پیدائش کے وقت ہمارے جسم میں جمع ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آپریشن سے پیدا ہونے بچوں میں بھی مدافعت یا قدرتی تحفظ موجود ہوتا ہے، تاہم ہو سکتا ہے انھیں نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت زیادہ پروبائیوٹِک یا ویکسین کی اضافی خوراک دینا پڑے۔
ہماری پیدائش کا لمحہ ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب ہم ماں کی بچہ دانی کی جراثیم سے نکل کر ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہر طرف خوردبینی جرثوموں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس خوردبینی حیات میں شامل مائیکروبز (بیکٹیریا، فنگی، وائرس اور آکیاہ) ہمارے جسم کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں اور آخر کار ان کی تعداد ہمارے ’انسانی‘ خلیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔
اگر ہم قدرتی طریقے یعنی آپریشن کے بغیر اس دنیا میں آتے ہیں تو جن مائیکروبز سے ہمارا پالا سب سے پہلے پڑتا ہے وہ ہماری ماں کی اندام نہانی میں موجود ہوتے ہیں لیکن اگر آپ آپریشن یا سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کا اس دنیا میں آنے کا راستہ دوسرا ہو جاتا ہے اور آپ کا پالا جن جرثوموں سے پڑتا ہے وہ انسانی جلد پر پائے جاتے ہیں یا ہسپتال اور گھر کی ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔
حالیہ تحقیق میں یونیورسٹی آف ایڈمبرا اور نیدر لینڈ کی اٹریچٹ یونیورسٹی کے ماہرین اس بات کا جائزہ لے رہے تھے کہ ہماری پیدائش کے بعد ہمیں دی جانے والی مختلف ویسکینز پر ان جرثوموں یا مائیکروبز کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ماہرین نے 120 نوزائیدہ بچوں کے پہلے گہرے سبز رنگ کے پاخانے (میکونیئم) سے لے کر ایک برس کی عمر تک کے پاخانے پر تحقیق کی۔
جرنل آف نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں اس تحقیق کے شائع ہونے والے نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ جو بچے اندام نہانی کے راستے پیدا ہوتے ہیں ان میں بائفائیڈو بیکٹیریئم اور ایسکیرکیا کولائی نسل کے مائیکروبز کی مقدار زیادہ تھی۔
ان نتائج کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مفید بیکٹیریا کی مقدار زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب ایسے بچوں کو نیوموکوکل اور مینیگوکوکل قسم کی ویکسین لگائی جائے گی تو ان میں بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی اینٹی باڈیز کی مقدارتقریباً دوگنا ہو گی۔ اس سے پہلے دیکھا جا چکا ہے کہ ہمارے جسم میں موجود مائیکروبائیوز فْلو اور تپ دق (ٹی بی) کی ویکسین پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
حالیہ تحقیق کے حوالے سے یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے شعبہ امراض اطفال کی سربراہ، پروفیسر ڈیبی بوگارٹ کا کہنا تھا کہ ’عین پیدائش کے وقت مائیکروبز اور ہمارے مدافعتی نظام کے درمیان پہلا رابطہ اہم ہوتا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ بیکٹیریا مختلف قسم کے کیمیائی اجزا خارج کرتے ہیں، جنھیں فیٹی ایسڈ کہا جاتا ہے۔ یہ فیٹی ایسڈ ہمارے مدافعتی نظام کو بتاتے ہیں کہ اب کام شروع کر دو۔
اگر یہ فیٹی ایسڈ نہ ہوں تو جسم میں بی سیلز قسم کے خلیوں کی نشوونما کمزور پڑ جاتی ہے اور یہ وہی خلیے ہیں جو ہمارے جسم میں سفید خلیے پیدا کرتے ہیں جو بیماری کے خلاف لڑتے ہیں۔ اس تحقیق میں جن نوزائیدہ بچوں کا مطالعہ کیا گیا وہ تمام صحت مند تھے، مدت پوری ہونے پر پیدا ہوئے تھے اورانھیں کسی دوسرے مرض کا سامنا نہیں تھا۔
اس حوالے سے کیا کیا جا سکتا ہے؟
اکثر آپریشن یا سی سیکشن اس وقت کیا جاتا ہے جب اس کا مقصد ماں یا بچے کی صحت کو محفوظ بنانا ہوتا ہے۔ حالیہ عرصے میں ’وجائنل سیڈِنگ‘ کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے جس میں آپریشن سے پیدا ہونے والے بچے کے جسم پر ماں سے خارج ہونے والا قدرتی مائع لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور تحقیق میں یہاں تک کیا گیا کہ ماں کے معدے میں پائے جانے والے بیکٹیریا بچے کے جسم میں ڈالے گئے۔
ان تمام تجربات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ بچے کو وہ مائیکروبز مل جائیں جو اسے سی سیکشن کی وجہ سے نہیں مل سکے۔ تاہم، پروفیسر بوگارٹ کہتی ہیں کہ ’خیال کی حد تک تو سی سیکشن والے بچوں کو یوں مائیکروبز دینا شاید بہترین حل ہو، لیکن عملی طور پر یہ ایک خاصا پیچیدہ عمل ہے کیونکہ یہ طریقہ بچے کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔‘ اسی لیے پروفیسر بوگارٹ کہتی ہیں کہ سی سیکشن سے پیدا ہونے والے بچوں کو مفید بیکٹیریا کا ملغوبہ (جیسے پروبائیوٹِک) دینا ’زیادہ محفوظ‘ ہو گا۔ اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ سی سیکشن والے بچوں کو ویکسین کی اضافی خوراک دی جائے۔‘
دوسری جانب، مدافعتی نظام کے ماہر اور یونیورسٹی آف ایڈمبرا سے ہی منسلک ، پروفیسر نیل مابوٹ کے مطابق یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کسی بچے میں زیادہ اینٹی باڈیز پیدا ہونے کا براہ راست تعلق مائیکروبز سے ہوتا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ تحقیق نے بہرحال یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ ہم نوزائیدہ بچوں، خاص طور پر آپریشن سے پیدا ہونے والے بچوں، کے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے، ویکسین کے بہتر اثرات اور ان بچوں کو دیگر انفیکشنز سے بچانے کے لیے مفید بیکٹیریا پلا سکتے ہیں۔‘
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے بائیو سائنس کے ماہر، ڈاکٹر جارج سوّا کا کہنا تھا کہ ’یہ مضمون اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے ہمیں ان عوامل کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملے گی جو نوزائیدہ بچوں میں ویکسین اور مائیکروبائیوم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق نسبتاً محدود پیمانے پر کی گئی ہے اور کوئی حتمی نتائج اخذ کرنے سے پہلے ہمیں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
The post نارمل ڈیلیوری سے پیدا ہونیوالے بچے زیادہ صحت مند appeared first on ایکسپریس اردو.