ڈاکٹرمحمداخترہنجرا
(فزیوتھراپسٹ)
’’درد‘‘ اصل جسم کا تنبیہی نظام ہے جو اضافی زخم سے بچانے پرمرکوز ہوتا ہے۔ دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جسم کے اندر یا باہر بیماری یا لاعلمی کی وجہ سے کوئی زخم واقع ہو چکا ہے۔ تاہم اگر درد زیادہ دیر تک رہے تو اسے سنجیدگی سے لے کر کسی ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہئے۔
ہمارے ہاں آج کل سب سے زیادہ جس درد کا مسئلہ لوگوں کو در پیش ہے وہ ’ کمر درد ‘ ہے۔ عمر کے ابتدائی حصے میں 16 سے 25 سال کی عمر میں جو درد واقع ہو تا ہے وہ عموماً مکینکیل ہوتا ہے جو ہماری لاعلمی، ٹھیک طرح سے نہ بیٹھنے، دفتر میں سارا سارا دن بیٹھنے رہنے، لانگ ڈرائیو، تکلیف دہ بستر اور دیگر وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جبکہ درد کی دوسری قسم وہ ہے جو عمر کے آخری حصے میں کمر کی ہڈیوں میں Degenerative changes اور ہڈیوں کے بھربھرے پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس درد کو Spondylitusکہتے ہیں۔ دونوں طرح کے درد کا بہترین علاج فزیو تھراپی ہے۔
ہمارے ہاں فزیو تھراپی کو سمجھنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ البتہ یورپی ممالک میں کمر درد ایک مہنگا ترین طبی مسئلہ ہے ۔ وہاں تقریباً ایک چوتھائی مریض اپنے کمر درد کی وجہ اپنے کام کو قرار دیتے ہیں۔
یوں تو کمر درد کئی صورتوں میں خود بہ خود ٹھیک ہو جاتاہے لیکن جن مریضوں کاکمر درد ٹھیک نہیں ہوتا ، انہیں اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور جلد از جلد کسی فزیو تھراپی سینٹر سے رابطہ کرنا چاہئے۔ اب پاکستان میں بھی فزیو تھراپسٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد مخصوص مہارت سے اس کام کو سر انجام دے رہی ہے۔ مستقبل میں مریض کو کمر درد اور پٹھوں کی تکلیف سے بچانا اور نئی تکنیک سے طاقت فراہم کرنا ہی فزیو تھراپسٹ کا کام ہے۔ برطانیہ میں تو کمر درد کو کم کرنے کے لئے واحد امید فزیوتھراپسٹ ہی کو سمجھا جاتا ہے۔
کمر درد کے علاج کے لئے فزیو تھراپی کے مختلف طریقوں کو آزمایا جاتا ہے۔ جن میں ورزش کا طریقہ سب سے زیادہ قابل اعتماد ہے۔ اس کے علاوہ جدید طرز کی مشینوں سے جن میں الٹراسونک تھراپی، لیزر،ٹینس ، بائیوفیڈ بیک اور کمر کی بافتوں کو کھینچنے کے لئے ٹریکشن اورمینول ٹکنیکس وغیرہ شامل ہیں، خدمات لی جاتی ہیں۔
فزیو تھراپی کے ایمرجنسی طبی مراکز نے کمر درد میں مبتلا مریضوں کی شرح میں تقریباً 40 فیصد تک کمی کر دی ہے۔ امید ہے کہ یہ شرح مزید کم ہو گی۔ ایسے مریض جنہیں پہلے سرجری کا مشورہ دیا جاتا تھا، اب اگر دو سے چار ہفتے فزیو تھراپی کروالیں تو انہیں خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ ِعلاج کی شرح کامیابی 50 سے 60 فیصد تک ہے۔
دراصل مرض کی درست تشخیص ایک مشکل اور کافی ذمہ دارانہ کام ہوتا ہے جس میں درد کرنے والے حصے کے نیچے بافتوں میں یا پھر ان بافتوں میں، جن کی وجہ سے درد کسی دوسری جگہ محسوس ہوتا ہو ، کی تشخیص ضروری ہے۔ مثلاً اگر پنڈلیوں میں درد ہے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ درد صرف پنڈلیوں ہی میں ہے بلکہ اس کی درست تشخیص، مریض کی تفصیلی ہسٹری ہی سے معلوم ہو سکے گی۔ عموماً بافتوں اور ان کی بیرونی عصبی تاروں یا جڑوں میںخرابی ہی کو مریضوں کے درد کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
آخر میں چند ایک مفید باتیں… ایسے مریضوں کے لئے جنہیں عموماً کمر درد کی شکایت رہتی ہے ایسے افراد
صبح کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چہل قدمی کریں۔
کوئی وزنی چیز اٹھانا ہو تو بیٹھ کر اٹھائیں۔
دفاتر میں کام کرنے والے افراد زیادہ دیر ایک ہی پوزیشن میں ہرگز نہ بیٹھیں۔
ہر ایک گھنٹے کے بعد دو سے تین منٹ کے لئے اپنے دفتر ہی میں ہلکی پھلکی چہل قدمی کر لیا کریں۔
کرسی سے پوری طرح ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ ایسے مریضوں کے بیڈ رومز میں اگر شیشہ یا واش بیسن کافی نیچا لگا ہوا ہے تو انہیں کنگھی کرنے، چہرہ دھونے یا شیو بنانے کیلئے اپنی کمر کو جھکانا نہیں چاہئے بلکہ اپنے پائوں کوایک قدم آگے بڑھا کر کام کرنا چاہئے اورکروٹ لے کر اٹھناچاہئے۔
واش روم میں کموڈ استعمال کرناچاہئے، سیڑھیوں کاستعمال کم سے کم کرنا چاہئے اور زمین پرسونے سے اجتناب کرناچاہئے۔
The post کمردرد؛ اسباب اور علاج appeared first on ایکسپریس اردو.