بچوں کونیند کیوں نہیں آتی؟ اس کے کئی ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔
سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عام طور پر بچوں کوعلیحدہ بستر اورعلیحدہ کمرے میں سلایا جاتا ہے۔ ایسے میں بچے والدین سے الگ ہوکر ، خود کوتنہا اور بے سہارا سمجھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ رات کااندھیرا ، خاموشی اورتنہائی مل کر ان میں خوف کاجذبہ پیداکردیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بچے کیلئے سونا مشکل ہوجاتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچے سارا دن والدین کے پیار ومحبت سے بھرپور ماحول میں رہتے ہیں، اس کے عادی ہوتے ہیں لیکن سوتے وقت اس سے محرومی کاشکار ہوجاتے ہیں ، چنانچہ یہی احساس محرومی ان میں خوف اور تنہائی کااحساس پیدا کردیتی ہے۔ یقیناً جب بچے کے بڑے ہونے کاعمل جاری ہو تو اسے الگ سونے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق بچوں کی نیند کامسئلہ حل کرنے کی ایک آسان اورعملی تدبیر یہ ہے کہ ان کے سونے کے معمول میں باقاعدگی لائی جائے ۔ ان کے سونے کا وقت طے کرکے ، انہیں اسی وقت پر سونے کا پابند کیاجائے۔کمرے کی روشنیاں( لائیٹس) بند کرنے سے آدھا گھنٹہ پہلے کسی کھیل کود وغیرہ میں نہ لگنے دیں۔ اس سے بچے کی نیند اڑ سکتی ہے۔
اس کی بجائے بچے کوکسی ہلکے پھلکے کام میں لگائیں تاکہ دن بھر کی پھرتی میں کمی آجائے۔ رات کے کپڑے بدلوانا ، دانت صاف کرانا وغیرہ جیسے ہلکے پھلکے کام بچے کو ذہنی طور پر تیار کریں گے کہ اب سونے کا وقت آگیا ہے۔
سوتے وقت کے معمولات بچوں کے مزاج اورعادات میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طورپر بعض بچے اپنے والدین سے کہانی سننا پسند کرتے ہیں، بعض بچے اپنے سکول اور دن بھر کی مصروفیات اپنے والدین کوبتانا پسند کرتے ہیں، بعض بچے اپنے پسندیدہ کھلونے اپنے ساتھ لے کر سوتے ہیں۔ اوربعض بچے لوری سنتے ہوئے سونے کے عادی ہوتے ہیں۔
گھریلومعاملات مثلاً طلاق ، لڑائی جھگڑا ،کسی کی ملازمت چھوٹ جانا بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جو بچے کی نیند پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان معاملات پر زور و شور سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ گھر میں شور شرابا نہ ہو ، تب بھی افراد خانہ کا خون کھول رہا ہوتا ہے ، تحمل اور برداشت میں کمی ہوتی ہے ، ذرا سی بات پر غصہ اور اشتعال پیدا ہو جاتا ہے۔
جب بچوں کو سلانے کا وقت آجائے تو والدین ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے بچہ جاگتا رہے۔کمرے کی روشنیاں بند کرنا ، ضروری نائٹ بلب جلانا ان کی نیند میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر گھر میں بڑے ہیں تو وہ شور نہ کریں۔ بعض اوقات پنکھے کی آواز بھی سونے میں مدد دیتی ہے، ایسا شور بھی بچوں کے سونے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
عام طور پر شیر خوار اورنومولود بچوں کوگود میں یا جھولے میں سلایا جاتا ہے۔ جب بچہ سوجائے تو اسے بستر پر سلادیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو اپنی گود میں سلائیں گی ، اس کے سونے کے بعد اسے بستر پرلٹائیں گی تو اس سے یہ ہوگا کہ رات کے کسی پہر جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ خود کو آپ کی گود میں نہ پاکر گھبرائے گا۔ وہ سوچے گا کہ وہ سویا تو کہیں اور تھا لیکن اس وقت یہاں کیسے پہنچ گیا؟ یہ سوال اس میں خوف پیدا کردے گا۔
ہوسکتا ہے کہ بچہ رونا شروع کردے اور اس کی نیند اڑ جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بچے پرتھکن طاری ہونے لگے تب اسے بستر پر لٹا کر تھپکائیے۔ شیر خوار بچوں کی ماؤں کے لئے ایک اہم بات ، بعض مائیں سوتے وقت بچے کو دودھ پلاتی ہیں یہ طریقہ مضر صحت ہے۔
آپ غور کریں بچے کے سونے کامعمول کیا ہے؟ بعض بچے سوتے وقت بہت تنگ کرتے ہیں، چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔کبھی ایک اورکہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں تو کبھی آدھی رات کو کہیں اور جانے فرمائش کرتے ہیں۔ اس کی ایک خواہش پوری ہو تو دوسری فرمائش کا اظہار ہوجاتا ہے۔ اسے جتنا سمجھایا دھمکایا جائے، وہ سونے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔
ماہرین کے مطابق یہ بچے بڑھوتری کاعمل ہوتا ہے اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں ! مسلسل ایک مہینہ یا اس سے زیادہ عرصہ تک بچہ سوتے وقت پریشان کرے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ بعض بچے سونے سے پہلے اس لئے ضد کرتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کبھی اداسی( ڈپریشن) اسے گھیر لیتا ہے۔ایسے وقت میں بچہ بعض اوقات والدین پر دباؤ ڈالنا چاہتاہے اور اپنی باتیں منواتا ہے۔
اگر آپ کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو اپنے لہجے کودھیما اوراپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھیں ، بچے سے پیار سے بات کیجئے۔ اگر آپ جان لیں کہ بچہ آپ کی توجہ چاہتا ہے تو اسے پیار سے اطمینان دلائیں، تسلی دیں اوراسے باور کرائیں کہ اب تم نے دودھ پی لیا ہے، اب سونے کا وقت ہے ، سوجاؤ! ۔ عین اس لمحہ اس کے بستر سے ہٹ کر اپنے بستر پر آجائیں۔
جیسا کہ سطور بالا میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بچوں کے نہ سونے کی ایک بڑی وجہ بچوں میں خوف بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں بھوت، جن ، چڑیل وغیرہ کا تصور بھی بٹھا لیتے ہیں۔
رات کے اندھیرے میں انہیں پردوں کے سائے، دروازوں کی اوٹ میں یہی سب کچھ محسوس ہوتا ہے۔ بعض اوقات تشویش ، فکر (Anxiety) بچے کے ذہن پر بھوت پریت کا خیال مسلط کردیتی ہے جس سے بچہ سونہیں پاتا ، ایسی صورت میں بھوت پریت کے جھوٹے تصور کو اس کے ذہن سے محو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ بچہ اکیلے میں ڈرتا ہے۔
اس کا خوف دور کرنے کی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ کھیل کھیل میں بچے کے ساتھ مل کر بھوت پریت کو ڈھونڈا جائے اورپھربتائیں کہ یہاں کوئی بھوت پریت نہیں ہے، تم خواہ مخواہ ڈر رہے ہو۔ بچہ ڈر جائے توا س کے پاس بیٹھ کر اس سے ہلکی پھلکی باتیں کی جائیں، تاکہ اس کے ذہن سے خوف نکل جائے۔
بچوں کی نفسیات کے ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ بات سمجھ جائیں کہ بچہ خود کو آپ کی حفاظت میں رکھنا چاہتا ہے۔آپ کا مقابلہ اپنے بچے سے نہیں ہے، اس لئے بچے کے ساتھ زبردستی نہ کیجئے، اسے مارنا ، پیٹنا بالکل مناسب نہیں ہے۔ اگر بچے نہ سوئیں تو زبردستی سلانے ا ور زدوکوب کرنے کی کوشش مت کریں۔
ایک بار بچہ سوجائے تو اسے سوتے رہنا چاہیے۔ امریکی ماہر ڈاکٹر لنڈا کے مطابق’’ بچے کو تمام رات سونا ایسے ہی سکھانے کی ضرورت ہے جیسے وہ چلنا اوربولنا سیکھتا ہے‘‘۔ سات ،آٹھ سال کی عمر میں لڑکا باپ اورلڑکی ماں کے ساتھ سوئے۔ اوربڑے ہونے کی صورت میں بچوں کے بستر الگ کردیئے جائیں۔ یہ شرعی حکم بھی ہے اورمعاشرتی اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اگر آپ نے سونے جاگنے کا معمول بنا رکھا ہے اور بچہ اس پر عمل نہیں کرپا رہا تو غور کریں کیا والدین ہونے کی حیثیت سے آپ بچے پر سختی تو نہیں کر رہے ہیں ؟ یہ اہم سوال ہے ، اس پر بہت توجہ اوراحتیاط کی ضرورت ہے۔
ہفتے کے اختتام ( ویک اینڈ) پر بچہ رات کو دیر سے سوئے گا تو دیر سے اٹھتا ہے تو اس کی پرواہ مت کریں لیکن بہت زیادہ دیر تک نہ سوتا رہے۔ اگر بچہ رات کودیر سے سوئے گا اوردیر سے اٹھے گا اس کا لازمی نتیجہ ہوگا کہ اگلی رات اپنے معمول کے وقت پر اسے نیند نہیں آئے گی۔ نتیجتاً کام والے دن ( ورکنگ ڈے ) میں اسے اٹھانے میں بھی مشکل ہوگی چنانچہ بچے کے شیڈول میں اتنی ہی رعایت دی جائے جتنی مناسب ہو۔
بچے کی نیند کامعاملہ انتہائی نازک اوراہم ہوتا ہے لہذا خوب سوچ سمجھ کر اس پر عمل کریں کیونکہ بچے کی نیند کا معمول درست ہو اور اچھی نیند اچھی صحت کی ضمانت ہے۔
The post بچے کیوں نہیں سوتے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.