’’موجودہ سیاسی صورتحال اور مستقبل کا منظر نامہ‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئرپرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب)
اس وقت ملک میں محض سیاسی عدم استحکام نہیں ہے بلکہ ریاست اور معاشرے میں عدم تحفظ اصل مسئلہ ہے جو خاص و عام کو درپیش ہے۔
ہم سنتے آئے ہیں کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا، قانون کا اپنا انداز فکر ہوتا ہے لیکن تاریخ رقم ہوتی ہے اور نگاہ رکھتی ہے لہٰذا تاریخ اور سیاسی معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظر میں 75برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو سیاسی عدم استحکام شخصیات کا دیا ہوا بھی ہے اور اس میں سیاسی جماعتوں کی اپنی انتہائی بری کاردکردگی بھی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو کیا گورننس اس کی ترجیح ہوتی ہے؟ وہ حکومتی معاملات چلانے میں کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے؟ جب ہم کارکردگی دیکھتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار سے پہلے کس طرح کام کرتی ہیں اور برسر اقتدار آنے کے بعد کیا کرتی ہیں؟ سیاسی جماعتوں کو خود اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پہلی تین ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔
کیا لوگوں کے مسائل کے بارے میں وہ سنجیدگی سے اقدامات کرتی ہیں؟ وہ ملکی معاشی ترقی کو ترجیحات میں کہاں رکھتی ہیں؟ سب سے بڑی بات یہ کہ حکومت میں ہوتے ہوئے ان کا اپنے لوگوں کے ساتھ رابطہ کس طرح کا ہوتا ہے۔ یہی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو اس وقت ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں؟کیالوگوں کے مسائل کی نشاندہی، حکومت وقت کی توجہ دلوانا ہوتی ہے یا اس وقت محض تنقید اس لیے کی جاتی ہے کہ چاہے کوئی بھی طریقہ کار اپنا لیا جائے۔
انہیں کسی بھی طرح اقتدار مل جائے۔ دوسروں اور ماضی کی حکومتوں پر تنقید ہماری روایت ہے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ سیاسی جماعتوں و قیادت نے اپنا احتساب کیا ہو۔ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے اداروں کو جب اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو انہوں نے اُس وقت کن مفادات کے تحت کام کیا۔
کیا اس وقت کوئی ایسے کام ہوئے جن کی وجہ سے ہم آج یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہمارے ہاں گورننس، لوگوں کی سیاسی شمولیت اور عوام کبھی بھی ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ صرف عدم استحکام کا ہی شکار نہیں بلکہ عدم تحفظ کا بھی شکار ہیں۔
جب کسی ملک میں عدم تحفظ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو پھر لوگوں میں شدت پسندی آجاتی ہے، ان کے رویے اور طرز عمل میں تبدیلی قدرتی عمل ہے۔
اس وقت پاکستان کی قوم جو پہلے ہی بہت سارے مشکل مراحل سے اس نہج پر آئی تھی جہاں اسے مذہبی انتہا پسندی، لسانیت و نسلی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑا اب اسے سیاسی انتہا پسندی کا سامنا ہے ریاست پاکستان کو اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اندرونی عدم تحفظ، اندرونی عدم استحکام اور اندرونی عدم برداشت اس نہج تک آگئی ہے کہ جہاں پر صورتحال کو سنبھالنا اور قابو کرنا بہت زیادہ مشکل نظر آرہا ہے۔
پارلیمنٹ لوگوں کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے لہٰذا موجودہ حالات کا حل صرف پارلیمنٹ میں ہے۔ اس وقت ملک کی ایک بڑی جماعت احتجاج کر رہی ہے اور اپنے طریقے سے مطالبات سڑکوں پر منوانا چاہتی ہے۔ اس جماعت کا مطالبہ نئے انتخابات ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جماعت کے نزدیک بھی حل پارلیمنٹ ہی ہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اگر یہ لوگ موجودہ پارلیمنٹ میں آئیں اور یہاں فیصلہ کریں۔ اگر اختلافات شدید ہوتے گئے تو نقصان عوام کو ہوگا۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی عدم موجودگی میں طاقت کسی اور کے پاس چلی جائے گی۔ سیاستدانوں نے اگر اپنے کردار کی اہمیت کو نہ سمجھا تو سب کا نقصان ہوگا۔
سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار)
پاکستان کا موجودہ کرائسس بظاہر طور پر لگتا ہے کہ سیاسی بحران ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سیاسی نہیں بلکہ ریاستی بحران ہے۔ ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کا کھیل نظر آتا ہے تو دوسری طرف عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کی جو شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں وہ اچھی بات نہیں ہے۔
جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے یہ بنیادی طور پر پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ٹکراؤ کی سیاست جب بھی ہو اس کا نقصان سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت کو ہوتا ہے چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ ’رجیم چینج‘ کے بعد سے جو صورتحال بنی اس سے بنیادی بحران پیدا ہوا۔
عمران خان نے اپنی حکومت کی تبدیلی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ اور کچھ مقامی کرداروں کے ساتھ جوڑ کر بیانیہ بنایا۔ 13 جماعتوں پر مشتمل شہباز شریف کی حکومت ڈیلور نہیں کر سکی،نہ ہی عمران خان کے مقابلے میں کوئی متبادل بیانیہ بنا سکی اور نہ ہی فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر ہونے والی تنقید کا دفاع کرسکی۔
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ عمران خان کوئی زیادہ مزاحمت نہیں کریں گے لیکن عمران خان نے ایک غیر معمولی سیاسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان ’اگر مجھے اقتدار سے نکالا گیا تو میں سب کیلئے خطرناک ہوجاؤں گا‘ کو عملی جامہ پہنا دیا اور وہ اس وقت سب کیلئے خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں جو مذاکرات ہورہے تھے وہ ناکام ہوئے تو عمران خان نے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔
ان مذاکرات کی ناکامی کا اعتراف عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھی کیا گیا۔ اس ناکامی کے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ شنید ہے کہ پس پردہ ابھی بھی بات چیت چل رہی ہے، کوشش کی جارہی ہے کہ حالات کی گرمی کو کم کیا جاسکے۔
عمران خان نے لانگ مارچ میں تاخیر کی اور جب شروع کیا تو وہ بھی بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا، اس میں کوشش تھی معاملات مفاہمت سے حل ہوجائیں۔ عمران خان کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔
پہلا یہ کہ وہ فوری انتخابات چاہتے ہیں جو مارچ، اپریل میں ہوسکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نگران حکومت قائم کی جائے اور تیسرا آرمی چیف کے تقرری کے حوالے سے ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس اس کا مینڈیٹ نہیں ہے، نئی حکومت کو کرنے دی جائے۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان، تینوں ہی لچک نہیں دکھا رہے۔ سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ پولرائزیشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جو روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس اور تقاریر کی جا رہی ہیں اس سے معاشرے میں انتشار کو ہو امل رہی ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر معاملات حل کر لیں گے تو ایسا ممکن نہیں، اسٹیبلشمنٹ کو اس میں کردار ادا کرنا پڑے گا لیکن ابھی اسٹیبلشمنٹ بھی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ سب کو دیکھنا ہوگا کہ طرح سے معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
عمران خان پر جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے ، اس کے بارے میں عمران خان پہلے سے ہی کہہ چکے تھے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ مجھے پر قاتلانہ حملہ ہوگا اور اسے مذہبی رنگ دیا جائے گا۔ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات حل کرنے کیلئے کوشش ہو ہی ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر مارشل لاء یا قومی حکومت آجائے گی۔
میں بہت عرصے سے کہہ رہا ہوں کے نئے انتخابات کے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکتے،اس ضمن میں فوری طور پر آگے بڑھا جائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ معاملات اسی طرح آگلے سال ستمبر، اکتوبر تک رہیں گے تو یہ خام خیالی ہے،اس سے بہت نقصان ہوگا اور اس کے ملکی معیشت پربھی بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف سے بہت امید تھی مگر وہاں سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں مل سکا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین سے بھی کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوسکا، محض باتیں ہوئی ہیں اور ایسا کوئی عمل قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے ملکی معیشت فوری طور پر بہتر ہوسکے۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں انتشار اور عدم استحکام ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں کوئی بھی ملک اپنا سرمایہ ضائع نہیں کرے گا۔موجودہ مسائل کا بہترین حل انتخابات ہیں۔ شفاف انتخابات کی بات کو آگے بڑھایا جائے، کیونکہ انتخابات جتنے شفاف ہونگے، اتنا ہی ملک میں سکون ہوگا اور سب اسے تسلیم کر کے اپنا اپنا پارلیمانی کردار ادا کریںگے۔ سب کے لیے ’لیول پلے ئنگ فیلڈ‘ بہت ضروری ہے۔
ہم اس وقت مشکل ترین صورتحال سے دو چار ہیں جس میں ساستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خود عمران خان کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ ایسی بات کی جائے جو ہمیں اصلاحات کی طرف لے جائے۔ لگتا ہے کہ ہم اپنے دشمن خود بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے خود ہی مسائل پیدا کرنے ہیں اور خود ہی اس میں بگاڑ پیدا کرناہے۔
ہم مسائل کو حل کرنے کے بجائے بند گلی میں لے جا رہے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کے مسائل ماضی میں بھی رہے ہیں، اب دوبارہ سے ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو خود پریس کانفرنس کرنا پڑی جو حیران کن ہے۔
اداروں پر الزام تراشی مناسب رویہ نہیں، ادارے ہمارے ہیں، ان سے غلطیاں ہوسکتی ہیں، ان کی سالمیت اور خود مختاری ہمارے لیے اہم ہے، تمام فریقین کو مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنا ہونگے۔اداروں کو بھی چاہیے کہ سوچیں معاملات کس طرح حل کیے جا سکتے ہیں، طاقت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، جس طرح کے بیانات رانا ثناء اللہ دیتے ہیں، اس سے مزید انتشار کا خدشہ ہے۔ حکومت اور عمران خان کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
عمران خان پر حملہ، پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کیلئے اچھا شگو ن نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ، مل بیٹھ کر مسائل حل کرنا ہونگے اور آگے بڑھنا ہوگا۔ جب سے رجیم چینج ہوا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کیسز سامنے آرہے ہیں، اعظم سواتی، شہباز گل سمیت صحافیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے کہ افسوسناک ہے،اس حوالے سے حکومت کا مقدمہ کمزور ہے۔ سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی باتیں کی جا رہی ہیں، نئے قوانین لائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کی حکومت میں ’پیکا‘ ایکٹ لانے کی کوشش کی گئی تھی، اب پھر ایک قانون لایا جا رہا ہے کہ ریاست اور حکومت کے خلاف مواد شیئر کرنے پر قانونی کارروائی ہوگی۔ لوگوں کی آزادی کو چھینا نہ جائے۔ اسی طرح جو بھی جماعت آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرتی ہے تو اسے کرنے دینا چاہیے، رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ عمران خان کو بھی چاہیے کہ ریاستی رٹ کو چیلنج نہ کریں، پر امن طریقے سے احتجاج کریں۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)
سیاست میں عمومی طور پر دو چیزیں بڑی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ایک تاثر اور دوسرا بیانیہ جس سے لوگوں کے جذبات کو ابھارا جاسکے۔ سیاستدانوں کی تمام سرگرمیاں انہی دو چیزوں کے گرد گھومتی ہیں کہ کس طرح عوام میں اچھا تاثر قائم کیا جائے اور اقتدار کیلئے لوگوں کو جذباتی نعرے دے کر معاشرے میں تقسیم پیدا کی جائے جو سیاستدانوں کے حق میں ہو۔ پاکستان میں سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالے سے جذباتیت ہمیشہ سے رہی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں ایک اضافی فیکٹر جوکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں نہیں ہے، وہ براہ راست اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو 2015کے بعد سے تاثر بنانے کیلئے سوشل میڈیا کی صورت میں ایک ’ٹول‘ کا اضافہ بھی ہوا۔ سوشل میڈیا نے بہت سارے نئے زاویے متعارف کروائے ہیں، سوشل میڈیا ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی رائے دیتے ہیں، مشینی نظام کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔
اس ٹول کا سب سے بہتر استعمال تحریک انصاف نے کیا، اس وقت اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی اور عوام کو بتایا گیا کہ ففتھ جنریشن وار کی تیاری ہورہی ہے اور یہ ’کی بورڈ واریئرز‘ ہیں۔ سوشل میڈیا پر پارٹی لیڈر کا مثبت جبکہ مخالفین کا منفی تاثر پیدا کیا گیا ۔
پاکستان میں گزشتہ 6 ماہ کا جائزہ لیں تو ہم سوشل میڈیا کے استعمال کو اس سٹرٹیجی کے ساتھ پورے عروج پر دیکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ختم اور پی ڈی ایم کی حکومت آئی تو سوشل میڈیا نے بہت زیادہ رول پلے کیا، اپورٹڈ حکومت نا منظور، رجیم چینج جیسے ٹرینڈز چلائے گئے۔
سوشل میڈیا پر سنسنی بہت زیادہ پھیلائی جاتی ہے، چیک اینڈ بیلنس نہیں، اسٹیبلشمنٹ پر بہت تیزی سے حملے کیے گئے اور اعلیٰ فوجی قیادت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایسا فیکٹر ہے جس کے اثر کا شاید پہلے کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ ان ٹرینڈز نے سب کو حیران کر دیا اور ہمیں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ بیک فٹ پر نظر آئی۔
عمران خان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن پر نظر آتے ہیں، ان کے مخالفین بھی بیانیے کی دوڑ میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں یا لیپ ٹاپ سے معاملات بہتر ہوجائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا، یہ بیانیے کی جنگ ہے، اسے اسی انداز میں لڑنا ہوگا۔ پہلے ہمارے ہاں شہری اور دیہی علاقوں کے ووٹر مختلف طرح سوچتے تھے مگر اب سوشل میڈیا کی وجہ سے سب برابر ہوگیا ہے، دیہی علاقوں میں بھی سمارٹ فونز کی وجہ سے اب بیانیہ پہنچ رہا ہے۔
ملک کو سب سے زیادہ نقصان عدم استحکام کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس کے معیشت پر برے اثرات ہورہے ہیں، دوست ممالک اور آئی ایم ایف و دیگر ایجنسیاں بھی صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔ وزیراعظم نے چین کا دورہ کیا، اس میں بھی تحریری طور پر چیزیں نہیں دیکھی گئی۔ اس صورتحال میں پاکستان کا داخلی استحکام کا تاثر مضبوط کرنا ہے۔ عمران خان کا لانگ مارچ اور احتجاج یہی تاثر دیتا ہے کہ سابق حکمران اور بڑی جماعت سڑکوں پر ہے، لوگ اس کے ساتھ ہیں، جو چل رہا ہے وہ معمول کے مطابق نہیں ہے، اس میں کسی بھی وقت خلل پیدا ہوسکتا ہے۔
عمران خان پر حملہ افسوسناک ہے، اس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوا ہے اور اب ہر طرف احتجاج ہورہا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کے پاس استحکام کیلئے دو آپشنز تھی، ایک یہ کہ جس طرح تحریک انصاف نے آرمی چیف اور ان کے ادارے کو نشانہ بنایا، اس میںآرمی چیف خود کہتے کہ میں اب کام جاری نہیں رکھوں گا، نئے آرمی چیف آجاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔
دوسرا موقع یہ ہے کہ عام انتخابات کے مطالبے کو بات چیت کے ساتھ طے کر کے تاریخ دے دی جائے اورسب انتخابات کی تیاری کریں۔ تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں مثالی کامیابی حاصل کی ہے اور ثابت کیا کہ اس کی مقبولیت زیادہ ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف کی جانب سے سفارتی معاملات کی درست ہینڈلنگ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہوا لیکن جمہوریت تو یہی ہے کہ جو جمہور فیصلہ کریں حکومت اسی کی ہوگی۔
میرے نزدیک نئے آرمی چیف کی جلد تقرری کر دینی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔ مارشل لاء کا امکان ابھی کم ہے، فوج کو بھی اس کا ادراک لازمی ہوگا کہ اس سے ان کی ساکھ کو کیا نقصان ہوسکتا ہے لہٰذا وہ مارشل لاء کے بجائے نئے انتخابات کی طرف جائیں گے۔
The post ملک انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا… مذاکرات سے مسائل حل کرنا ہوں گے!! appeared first on ایکسپریس اردو.