غزل
خود بخود معرض ِ اظہار میں آ جاتے ہیں
تجربے زیست کے اشعار میں آ جاتے ہیں
کاٹ لہجے کی بدل جاتی ہے رفتہ رفتہ
رنگ اقرار کے انکار میں آ جاتے ہیں
اپنے پندار کے افسانے سنا کر کچھ لوگ
سر کے بل شاہ کے دربار میں آ جاتے ہیں
خود پسندی کے سبھی طور طریقے آخر
خود بخود جبہ و دستار میں آ جاتے ہیں
ایک بیمار معیشت کا ہیں نوحہ جاذبؔ
ننھے مزدور جو بازار میں آ جاتے ہیں
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
جنہیں یہ لوگ جگنو کہہ رہے ہیں
فلک سے ٹوٹ کر تارے گرے ہیں
تری آنکھوں سے خود کو دیکھنا ہے
مرے دل میں بھی کچھ منظر پڑے ہیں
کوئی منظر نہیں درکار اِن کو
غذا آنکھوں کی بس یہ رتجگے ہیں
تری باتیں مضامیں ہیں غزل کے
ترے عارض غزل کے قافیے ہیں
مری تاریک دنیا میں ابھی تک
ترے روشن دیے کے تذکرے ہیں
یہی لکھنا مرے کوچے کے بارے
کہیں پتھر کہیں پر آئینے ہیں
نکل کر آنکھ کے پنجروں سے اکثر
فصیلِ شب پہ منظر ناچتے ہیں
ابھی سے جانے کی تیاریاں ہیں
گھڑی پر تو ابھی بارہ بجے ہیں
(اسد رضا سحر۔ احمد پورسیال، جھنگ)
۔۔۔
غزل
ہر بار ہی کم وہ کبھی سارا نہیں ہوتا
جتنا مجھے ملتا ہے گزارہ نہیں ہوتا
پڑ جاتے ہیں وہ روح پہ کھانے کبھی گھاؤ
تن پر جنہیں کھانا بھی گوارا نہیں ہوتا
یک طرفہ محبت بھلی اس کام میں صاحب
نقصان تو ممکن ہے خسارہ نہیں ہوتا
ہم اور کسی بل پہ کھڑے ہوتے ہیں ہم کو
اس خاک کے پتلے کا سہارا نہیں ہوتا
وجدان بھی لازم ہے سرِ کوچۂ اسرار
ہر چیز کا آنکھوں سے نظارہ نہیں ہوتا
کیا دور ہے وہ قیس بنا پھرتا ہے جس نے
سر بھی کبھی دیوار پہ مارا نہیں ہوتا
( عزم الحسنین عزمی، گجرات)
۔۔۔
غزل
دل میں نفرت زباںپہ الفت ہے
کتنی وحشت میںآدمیّت ہے
گھرسے نکلوں توخوف رہتاہے
’’یہ اذیّت بڑی اذیّت ہے‘‘
اس قدرقتلِ عام جاری ہے
جیسے یہ وقت کی ضرورت ہے
کون قاتل ہے کون ہے مقتول
کون سوچے یہ کس کوفرصت ہے
شاہراہوں پہ خون بہتا ہے
ایک دوجے سے اتنی نفرت ہے
اپنے بچوں کو بیچ دیتی ہے
ماں کو ممتا سے بڑھ کے غربت ہے
خود کو گھر میں کریں مقفّل ہم
اب بچاـؤ کی ایک صورت ہے
سو ز ؔپھر سے ہماری آنکھوں کو
اک نئے خواب کی ضرورت ہے
(محمدعلی سوز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
تلخیوں کو بھلا دو چاہت میں
روٹھنا چھوڑ کر محبت میں
دل کو ایسا گماں کبھی نہ رہا
مارے جائیں گے ہم مروت میں
سارے دھنوان اس کو پالیتے
پیار ملتا اگر چہ دولت میں
دوست کہلائے گا وہی انساں
کام آتا ہے جو مصیبت میں
اپنے ہاتھوں سے خود کے کام کریں
کچھ کمی تو نہ ہوگی عزت میں
ہاتھ دھو کر پڑے ہیں سب پیچھے
ایک نشہ چھپا ہے شہرت میں
حور دنیا سے کیا غرض ہم کو
ہم گزاریں گے بس شرافت میں
( حوریہ حور۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
جو شامِ غم کو اندھیر شب اور صبحِ روشن کو شام مانے
کوئی تو ہجراں میں جاں سے جائے، کوئی تو غم کا مقام جانے
اگرچہ تم وہ بھلا چکے ہو،کبھی جو لکھی تھیں میری خاطر
ہیں یاد مجھ کو وہ ساری غزلیں،تمام نظمیں،تمام گانے
محبتوں کی محل سرا میں،ہیں سب سے پہلے تو خواب گاہیں
پھر اس سے آگے صلیب، زنداں، ہیں دار، طوق و غلام خانے
بس ایک بار انکا بولنا تھا، ہماری گویائی چھن گئی ہے
تمہی بتاؤاب انکے آگے، کریں گے کیسے کلام جانے
یہ بے حسی اور سرد مہری،بشر کو پتھر بنا رہی ہیں
فریب،الجھن و تلخیوں کے، ہیں ساتھ پھر گام گام طعنے
وہ اک شجر گھر کا کٹ گیا تو سبھی پرندے بھی روٹھ بیٹھے
کٹورے پانی کے بھی پڑے ہیں،نہ اب کے آئے ہیں کام دانے
جنابِ واعظ گئے بلائے فضائلِ صبر بھی بتائے
مگر جو بھوکے تھے تین دن کے،وہ آگئے ہیں حرام کھانے
(ثروت مختار۔بھکر)
۔۔۔
غزل
چلتے چلتے جو اک گلی آئی
بند کھڑکی سے روشنی آئی
آج کیمپس میں جی نہیں لگنا
آج کیمپس جو وہ نہیں آئی
اس کو دیکھا تو میرے چہرے پر
بعد مدت کے تازگی آئی
جس کے جانے پہ رونے والے کو
آج بچھڑا تو بس ہنسی آئی
وقت پلٹا ہے جب سے پھر اپنا
جانے والوں میں کچھ کمی آئی
(انعام شاہ۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
حرف الفاظ کی تجسیم کا ڈھب جانتا ہے
وہ جو اک اسمِ خدا وند ہے سب جانتا ہے
اس کی تہذیب کے خیمے میں دیا روشن ہے
جو شبِ قدر کو امکان کی شب جانتا ہے
اس کا جانا بھی یہاں ہونے کا موجب ہو گا
بے بسی کو وہ اگر حدِ ادب جانتا ہے
اس کی تکریم کو ملحوظ رکھا ہے میں نے
وہ مری وعدہ خلافی کا سبب جانتا ہے
فطرتاً آدمی اعصاب کا منکر ٹھہرا
خوش نصیبی کی دلالت کو غضب جانتا ہے
پہلے کی بات نہیں کرتی ہوں مہوش احسن
جو سخن فہم ہے وہ آپ کو اب جانتا ہے
(مہوش احسن۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
میں جی رہا ہوں اسے اور مجھے پتا ہی نہ ہو
یہ زندگی کہیں رب سے ملی سزا ہی نہ ہو
میں جس کے ظاہری پن پر اداس رہتا ہوں
وہ پھول کیا پتا اندر کہیں ہرا ہی نہ ہو
ہر اک عروج جڑا ہے کہیں زوال کے ساتھ
میں انتہا جسے سمجھا ہوں ابتدا ہی نہ ہو
شریک تو بھی مکمل تھا میرے گرنے میں
یہ اور بات ہے میں نے تجھے گنا ہی نہ ہو
کسی کے بارے میں وہ تو نہ کوئی بات کرے
کسی کے بارے میں جس نے کبھی سنا ہی نہ ہو
مٹا رہا ہوں جسے میں لرزتے ہاتھوں سے
اس ایک نام پہ سانسوں کا سلسلہ ہی نہ ہو
یہ لو لگانے سے پہلے خیال رکھتے ہیں
چراغ شام سے پہلے کہیں جلا ہی نہ ہو
(اسامہ ابرار۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
چلو چھوڑو میری جاناں ہیں یہ بیکار کی باتیں
چلو دریا کنارے پر کریں ہم پیار کی باتیں
ہے موسم عاشقانہ اور گھٹا ساون کی چھائی ہے
ذرا پھولوں سے ہو جائیں لب و رخسار کی باتیں
شب ہجراں ہے اور دل پہ اداسی چھائی جاتی ہے
کوئی آ کے سنائے اب مجھے بھی یار کی باتیں
مجھے معلوم ہے سن کر یہ تم کو رنج ہوتاہے
جو اکثر لوگ کرتے ہیں تیرے غمخوار کی باتیں
پھر اسکی شبنمی آنکھوں کی رنگت بڑھتی جاتی ہے
جو محفل میں وہ کرتاہے میرے اشعار کی باتیں
زمانے میں میری اس واسطے تکریم ہے یارو
میرے لب پہ جو رہتی ہیں صدا سرکار کی باتیں
ہے اس کے پھول سے چہرے پہ چھائی تازگی عابد
اسے دیکھوں تو یاد آئیں مجھے گلزار کی باتیں
(عابد علیم سہو۔جہان خان)
۔۔۔
غزل
ترے خلاف ہو جو بھی وہ کامیاب نہ ہو
خدا کرے تجھے الفت میں اضطراب نہ ہو
مرے ادھار سے خائف ہے تُو بھی پینے لگے
جہاں جہاں بھی تُو ڈھونڈے وہاں شراب نہ ہو
مرے خدا ترے بندے نے کچھ نہیں پایا
جو اب دکھایا ہے تو نے وہ صرف خواب نہ ہو
خدا کرے کہ نئی نسل شعر کہنے لگے
خدا کرے کہ نئی نسل یہ خراب نہ ہو
میں تھک گیا ہوں کمینوں کی خیر خواہی میں
میں ایسے کام کروں گا کہ اب ثواب نہ ہو
میں رات خواب میں کچھ ڈھونڈتا رہا صابر
سبھی ہوں پھول میسر مگر گلاب نہ ہو
(صابر چودھری۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
’’کنارہ‘‘
سمندر ڈھونڈتا ہے بس کنارہ
یہ ہے اک مرحلہ سارا کا سارا
سمندر کوئی بھی حد میں نہیں ہے
یہ بالکل آنسوؤں سا بہہ رہا ہے
یہ بس نمکین ہے سارا کا سارا
کبھی جو ریت پر کچھ لکھ دیا تو
بہا کر لے گیا سارا کا سارا
نصیبوں کا لکھا ہے ریت جیسا
جو یوں ہی بہہ گیا سارا کا سارا
حسیں لگتا کنارے پر کھڑے ہوں
مگر طوفان ہے سارا کا سارا
سفر جو کر رہے ہیں اس کے اندر
لگا ان کو ہے بس جہدِ مسلسل
جو اپنی عمر گزری اس سفر میں
لگا سب کچھ گماں سارا کا سارا
کبھی امید کا دامن جو تھاما
لگا بس وہ گماں سارا کا سارا
مسافر لوٹ کر جو جانا چاہیں
تو رستہ ہے بھنور سارا کا سارا
یہی ہے آنسوؤں کا حال بھی بس
سمندر ہے یہ دکھ سارا کا سارا
سمندر ڈھونڈتا ہے بس کنارہ
یہ ہے بس اک بھنور سارا کا سارا
( تسنیم مرزا۔ کراچی)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.