ایک زمانے میں کسی نہ کسی سیاست داں کے نام کے ساتھ دیواروں پر نعرہ لکھا ہوتا تھا،’’فلاں تری بولی، دشمن کے لیے گولی‘‘ واضح رہے کہ یہ وہ بولی نہیں جو منتخب ایوانوں میں تحریک اعتماد پیش ہونے کے دنوں میں لگائی جاتی ہے۔
اس بولی پر تو منتخب ارکان خود گولی کی طرح بولی لگانے والے کی سمت لپکتے ہیں، یہ ہے بولنے والی بولی۔ اہل سیاست کی بولی کا صرف یہی وصف نہیں کہ وہ دشمن کے لیے گولی ہوتی ہے، وہ دوست کے لیے بھی گولی ہی ہوتی ہے، وہ گولی جو چلائی نہیں دی جاتی ہے۔
اس بولی کے ذریعے وہ عوام کو لولی پاپ دیتے ہیں، بول بچن دیتے ہیں، تسلی، دلاسے اور جھانسے دیتے ہیں اور اسی کی مدد سے وہ مخالفین کو الزام اور طعنے دیتے ہیں۔
بولی سے اتنا کام لینے والے سیاست داں جب اپنی بولتی بند کرنے پر آئیں تو کوئی فیض کی پوری نظم ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ چیخ چیخ کر بھی سُنادے یہ لب بستہ ہی رہتے ہیں، گویا فیض ہی کی زبان میں کہہ رہے ہوں، بس۔۔۔ ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم ’’بس‘‘ دیکھیں گے۔ یہ چُپ سیاست داں بس ایک جگہ پائے جاتے ہیں، اور اس جگہ کا نام ہے اسمبلی۔
پلڈاٹ (پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی) کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دورحکومت میں، یعنی پاکستان کی پندرہویں قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران 342 رکنی ایوان میں 174 ارکان مکمل طور پر خاموش رہے اور ایک منٹ بھی نہیں بولے۔
ان میں پی ٹی آئی کے 84 ، مسلم لیگ (ن) کے 48 اور پی پی پی کے 23 ارکان شامل ہیں۔ بہت زیادہ بولنے والوں کو اکثر ایک جملہ سُننا پڑتا ہے،’’چُپ ہونے کا کیا لوگے؟‘‘ یہ حضرات تو کسی قیمت پر بولنا بند نہیں کرتے، لیکن ہمارے منتخب ارکان ان کی طرح نہیں، ان پر بولنے کے لیے فی کس 16.32روپے خرچ ہوئے لیکن یہ پھر بھی ہونٹ سیے رہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ منتخب ارکان قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دورا چپ چاپ کیوں بیٹھے رہے؟ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ہوسکتا ہے یہ ارکان بھوٹان، نیپال، موغادیشو، جبوتی، بارباڈوس وغیرہ سے تعلق رکھتے اور ہماری قومی زبان سے نابلد ہوں، چناں چہ ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ والے معاملے کے باعث ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ایوان میں بیٹھے رہتے ہوں۔ جس آسانی اور اپنائیت سے غیرملکی ہمارے ہاں وارد ہو جاتے ہیں۔
اس کے پیش نظر ایسا ہونا حیرت انگیز نہیں، اور اس پر اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے، بھئی یہ پیشکش ہم ہی نے تو کی ہے کہ ’’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘ اور یہ دعوت بھی ہم نے ہی دے رکھی ہے ’’آؤ بچو! سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘، تو اب ساری دنیا پاکستان کو بڑے پیار سے ’’میرا بھی تو ہے‘‘ قرار دیتی ہے، اور غیرملکی ’’بچے‘‘ اچھلتے کودتے سرحد پھلانگ کر پاکستان کی سیر کرنے آجاتے ہیں، سیر کرکرکے بھی طبیعت سیر نہیں ہوتی تو یہیں بس جاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ارکان زبان کو آرام دینے لیے اسمبلی میں آتے ہیں۔ آپ ہی سوچیں بے چارے جلسوں میں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں اپنے لیڈروں کے بیانات کی معقول تعبیریں اور تفسیریں کرتے ہیں۔
اپنی اپنی جماعت کے سربراہ کے سامنے اس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، پریس کانفرنسوں میں اپنے دُکھڑے سناتے ہیں۔۔۔۔ہائے غریب زبان کو کتنا تھکاتے ہیں، تھک ہار کر جب ایوان میں آتے ہیں تو ایئرکنڈیشنر کی ٹھنڈی ہوا اور آرام دہ کرسیاں پاتے ہیں، یہاں بیٹھتے ہی میٹھی نیند سوجاتے ہیں۔
ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ منتخب ارکان جون ایلیا صاحب کے پرستار ہیں اور ذرا سی ترمیم کے ساتھ ان کے اس شعر پر عمل پیرا رہے:
خموشی سے ادا ہو رسمِ ’’سیشن‘‘
کوئی ہنگامہ برپا کوں کریں ہم
ان کے شرمیلے ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ہے تو اندازہ لگائیے ہمارے سیاست داں کتنے شرمیلے ہیں، اب تک ہم پاکستانی سیاست میں ایک ہی ’’شرمیلا‘‘ سے واقف تھے، جنھیں اصولی طور پر شرمیلی ہونا چاہیے لیکن والدین نے شرمیلا نام رکھ دیا تو ان کا کیا قصور، یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہماری سیاست اور ایوان زیریں میں اتنی کثرت سے اور اس قدر شرمیلے پائے جاتے ہیں، تو طے پایا کہ جس طرح ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی، ایشیا کی سب سے بڑی مرچوں کی منڈی اور ایشیا کا سب سے بڑا بازار پاکستان میں ہیں اسی طرح ایشیا بھر میں سب سے زیادہ شرمیلے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پائے اور مستقل شرمائے لجائے جاتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خاموش ارکان بڑوں کے سامنے بولنا بے ادبی اور بدتہذیبی گردانتے ہوں اس لیے ایوان میں منہ بند کیے مؤدب بیٹھے رہے۔
بھئی آپ تو جانتے ہیں قومی اسمبلی میں ’’بڑے بڑے‘‘ موجود ہیں۔ یوں یہ سیاست داں ثابت کرتے ہیں کہ۔۔۔ادب پہلا قرینہ ہے ’’سیاست‘‘ کے قرینوں میں اور ’’بادب بانصیب بے ادب بے نصیب۔‘‘ تو دیکھیے ان کے نصیب کیسے کھلے کہ کچھ نہ کرنے اور چپ رہنے کے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں، دیگر سہولتیں اور غیرملکی دوسرے اس نصیب کا بونس ہیں۔
یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ انھیں قوم کے مصائب، مسائل اور غموں پر چُپ لگ گء اور اس چپ نے ان کے ہونٹ چپکا دیے۔ اب کوئی لاکھ کہتا رہے۔۔۔۔ ’’پورے سیشن‘‘ میں چپ کیوں ہو، کانوں میں رس گھولو، ہونٹ اگر خاموش ہیں ’’بھائی صاب‘‘ آنکھوں ہی سے بولو،۔۔۔۔ یا پوچھتا رہے ’’چپ چپ بیٹھے ہو ضرور کوئی بات ہے،۔۔۔۔ ان کی خاموشی نہیں ٹوٹتی۔
ناطق لکھنوی کا مشہور شعر ہے:
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
اگر اس شعر کو کلیہ بنایا جائے تو یہ خاموش ارکان سمندر کی طرح وسیع ظرف رکھنے والے قرار پائیں گے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ظرف عربی میں برتن کو کہتے ہیں، اور اردو کا محاورہ ہے خالی برتن بجتے ہیں۔
تو کُل ملا کر بات یہ ہوئی کہ انھیں غلط طور پر چمچا سمجھا جاتا ہے دراصل یہ برتن ہیں اور وہ بھی بہت بڑے برتن، جو لبالب بھرے ہوئے ہیں، اس لیے ذرا بھی نہیں بجتے، یہاں تک کہ ایوان کا گھنٹا بجتا ہے اور اجلاس ختم ہوجاتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ برتن ’’کھانے‘‘ ہی سے بھرے ہیں۔
اس معاملے کی ایک تشویش ناک وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ جن نمائندوں کو عوام نے اپنے مسائل پر آواز اٹھانے بھیجا ایوان میں بیٹھتے ہی ان کے گلے بیٹھ گئے۔ یہ سیاست دانوں کے گلے ہیں کوئی عام سیاسی کارکن تھوڑی ہیں کہ جب چاہا اٹھالیا، حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے۔ یہ وجہ ہے تو ہمارے لیے یہ بات بڑی پریشان کُن ہے۔
کل انتخابات ہوں گے تو ان بیٹھے گلوں کے ساتھ یہ ارکان کیسے اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین سے ٹکٹ مانگیں گے (آپ کو تو معلوم ہوگا جیسے لتا سے منسوب ہے کہ ’’مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے‘‘ اسی طرح اپنے راہ نماؤں کے سامنے ان سیاست دانوں کے گلے میں خود لتا بولنے لگتی ہیں) پھر انتخابات میں یہ گلے پھاڑپھاڑ کر تقریریں کیسے کریں گے۔
لہذا ضروری ہے کہ ان بیٹھے گلوں کو اٹھایا جائے۔۔۔۔نہیں نہیں کسی ایسے طریقے سے نہیں جو آپ سوچ رہے ہیں، اس طرح گلے نہیں اٹھیں گے گردن لمبی ہوجائے گی، ہمارا مطلب یہ تھا کہ انھیں علاج کے لیے امریکا یا برطانیہ بھیجا جائے، وہاں پہنچتے ہی ان کے گلے کُھل جائیں گے اور یہ کُھل کر بولنے لگیں گے۔
The post ہمارے شرماتے لجاتے سیاستداں appeared first on ایکسپریس اردو.