ویب ڈیسک: بات یوں شروع ہوئی کہ سات اکتوبر2022ء کو صبح صبح،ہمارے بزرگ معاصر محترم احمدعلوی نے ہندوستان سے ایک قطعہ ارسال فرمایا جو خاکسار نے اپنی واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں پیش کردیا۔ قطعہ یوں تھا:
کم پڑھوں کے واسطے اعراب لکھنے چاہییں
’ب‘ کے اوپر تھا زبر ا ور پیش اَزخود گڑھ لیا
بات اتنی سی تھی ، اِس سے ہوگئی اپنی طلاق
میں نے تو بَڑھیا لکھا تھا، اُس نے بُڑھیا پڑھ لیا
احباب نے اس بارے میں استفسار اور اظہارِ رائے شروع کیا تومیری طرح، اکثریت کی رائے یہی تھی کہ اصل لفظ ’گڑھنا‘ نہیں، بلکہ ’گھڑنا‘ ہے۔خود مجھے بھی اشتباہ ہوگیا کہ لفظ تو ’گھڑنا‘ ہی ہے، مگر ’گڑھنا‘ بھی مستعمل ہے، جبھی تو ہمارے بزرگ دوست نے برتا ہے۔اب تحقیق کا سفر شروع ہوا۔معلوم ہواکہ آن لائن لغات نے ’گڑھنا‘ کوباقاعدہ لفظ سمجھ کر اُس کے معانی ومفاہیم وہی درج کردیے جو ’گھڑنا‘ کے ہیں اور لگے ہاتھوں انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا۔جہاں تک مندرجہ بالا قطعے کی بات ہے تو فاضل بزرگ معاصر محترم شہاب الدین شہابؔ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ شاعر نے قافیہ باندھنے کے لیے ’گھڑنا‘ کی جگہ ’گڑھنا‘ لکھا ہے۔جب چھے دن گزرنے کے بعد، شاعر موصوف سے براہ راست استفسارکیا تو اُنھوں نے فرمایا: ”جی آپ نے درست فرمایا… لفظ میں قافیے کی مناسبت سے تحریف کی گئی ہے۔ معذرت خواہ ہوں“۔
’گڑھنا‘ بنیادی طور پر کوئی لفظ ہی نہیں، یعنی یہ لفظ ’گڑھ‘ بمعنی قَلعہ، حِصار، کوٹ(نیز نگر، علاقہ، جگہ، مقام;ظرفیت کے لیے مرکب میں، خصوصاً اسمائے خاص میں جُزوِ دُوَم کے طور پر، جیسے علی گڑھ، اعظم گڑھ وغیرہ)سے بنا ہوا نہیں، جیسا کہ سماعت میں دھوکا ہوتا ہے،بلکہ محض عوام النّاس کے صوتی تلفظ کی بِناء پر فرض کرلیاگیا اور اسے بھی رائج ومروج کے اصول کے تحت بعض لغات میں جگہ مل گئی،ورنہ اصل لفظ وہی ہے، گھڑنا جس کے معانی ہیں: 1)۔بنانا، وضع کرنا، ساخت کرنا، 2)۔ڈھالنا، بنانا، 3)۔جھوٹی بات یا جھوٹا قصہ گانٹھنا، بات بنانا، افسانہ تراشی کرنا (مختصر اُردو لغت، ناشر، اردو لغت بورڈ: جلد دوم)۔یہاں وضاحت ضروری ہے کہ پرانے لوگ ’گڈھ‘ لکھ کر ’گڑھ‘ ہی پڑھا کرتے تھے اور اَب بھی پرانی کتب میں ایسی مثالیں مل جائیں گی۔(اس ضمن میں ایک بظاہر غیرمتعلق، مگر بہت دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ننھے بچوں کو، شروع شروع میں سیدھے کھڑے ہوکرچلنے میں مددیا سہارادینے والے کھلونے ”گڈُولنا“ کا اصل نام بھی ”گڑُولنا“ ہے۔اب نئی نسل تو اُسی چیز کے انگریزی رُوپPram or Baby walkerسے آشنا ہے، بہرحال ابھی ہماری نسل کے لوگ یقینا اسے نہیں بھولے ہوں گے، بالکل اُسی طرح جیسے(بجلی کی فراہمی میں مسلسل تعطل اور ایندھن کی قلت کے مصنوعی بحران کے سبب)، مٹی کے تیل اور لکڑیوں کے جلانے سے چولھا استعمال کرنے کی پرانی روش کا آغاز ہوچکا ہے،(اس کالم کے بروقت لکھ کر ارسال کرنے میں اس وقت،بجلی کی فراہمی میں طویل تعطل مانع ہے)، لالٹین دوبارہ بازارمیں آگئی ہے..اور…لوگوں کی تعلیم وتربیت کے بڑے مرکز، فیس بک پر پوچھا جانے لگا ہے کہ ’جب فرِیج نہیں تھا تو کھانے کی چیزیں کیسے محفوظ رکھتے تھے‘۔جواب: ”نعمت خانہ“، ویسے اس سے بھی پہلے کی چیز، چھےِنکا‘ تھی۔بھولنے کی مثالیں تو بہت سی ہیں، اب ہم پوتڑے کہنا بھول کر Pamperیا Diaperکہنے لگے ہیں، لاڈ پیارمیں بگڑے ہوئے بچوں کو Pampered childکہنا عام ہے، مگر ایک چیز ہواکرتی تھی، پوتڑوں کے رئیس یعنی خاندانی رئیس، جو ظاہر ہے، اب شاذہی نظرآتے ہیں)۔
نوراللغات کے فاضل مؤلف مولوی نورالحسن نےّر(1865ء تا 6ستمبر 1936ء)نے پہلے لفظ ’گڑھنا‘ لکھا، ہندی الاصل قراردیا، پھر لکھا، دیکھیے،گھڑنا: 1)۔لکڑی کو کاٹ کر ہموارکرنا جیسے بڑھئی لکڑی گڑھتا ہے، 2)۔زیور بناناجیسے سُنار، زیور گڑھتا ہے، ؎ بنیں گے کس کا زیورچاند سورج+گڑھا کرتے ہیں زَرگرچاندسورج (آتشؔ)، 3)۔کناےۃً کوئی بات بنانا۔اس کے بعد فاضل مؤلف کا بیان چونکانے والا ہے: ”گھڑنا اور گڑھنا دونوں صحیح ہیں۔شعراء کے کلام میں گڑھنا کہیں نہیں ملا، لکھنؤ میں زبانوں پر گڑھنا اور دہلی میں گھڑنا ہے“۔گویا حضرت نے خواجہ حیدرعلی آتشؔ کا شعر نقل کرتے ہوئے لکھنوی املا ء برتا ہے۔مولوی سید احمددہلوی صاحب نے اپنی متشدد تحقیقی اُپچ کے سبب، لفظ ’گڑھنا‘درج نہیں کیا، البتہ شاعر اور صاحب ِ ذوق ہونے کے سبب، فرہنگ آصفیہ میں یہ باب بھی، اشعار کے ساتھ، خوب باندھا (بات کی بات ہے کہ صاحبِ نوراللغات، خود تو وکیل تھے، مگر اُن کے والد گرامی حضرت محسنؔ کاکوروی نامور نعت گو تھے،مجھے فی الحال کوئی حوالہ دستیاب نہیں، مگر گمان ہے کہ نیرؔ تخلص تھاتو موصوف شاعربھی ہوں گے۔نعت کائنات نامی ایک ویب سائٹ نے ان کا نام فہرست نعت گو شعراء میں شامل کیا ہے، مگر اُن کی نعت گوئی یا شاعری کا کوئی ذکر نہیں کیا)۔ابتداء میں ایک نامانوس محاورہ درج ہے، ”گھڑے کُمہار، بھرے سنسار“ اور پھر صابرؔ دہلوی کا یہ شعر نقل کیا ہے:
کہیں نہ داد ملی ،م ثلِ نالہ ئ زنجیر
کچھ ایسے لفظ گھڑے ہیں میرے فغا ں کے لیے
فعل متعدی ’گھڑنا‘ کے مفاہیم، آن لائن لغت ’ریختہ‘ نے محولہ بالا دوبڑی اور مستندلغات سمیت، مختلف لغات سے جمع کرکے یوں نقل کیے ہیں: بنانا، وضع کرنا، ساخت کرنا،واقع ہونا، آپڑنا،تراشنا، کاٹ کر ہموار کرنا، اینٹ پتھر وغیرہ کو تراش کر درست کرنا،زیور بنانا (سونے چاندی وغیرہ سے)،ڈھالنا، بنانا،گوندھ کرروٹی وغیرہ بنانا،جھوٹی بات یا جھوٹا قصہ گانٹھنا، بات بنانا، افسانہ تراشی کرنا،مارنا، پیٹنا، زد و کوب کرنا، لکڑی یا جوتی سے مارنا۔گَھڑْنا سے متعلق محاوروں میں ” سَر گَھڑْنا“ (ذِمّے ڈالنا، سر تھوپنا)،کَہانی گَھڑْنا(اپنے دماغ سے کوئی بات یا قصہ بنانا؛ قصہ گھڑنا، جھوٹ بولنا، ہرزہ سرائی کرنا، بے بنیاد بات کہنا)،آنکھ گَھڑْنا (لوہے کی سلاخوں یا سیمنٹ کی جالیوں وغیرہ میں حلقے یا آنکڑے بنانا)،قِصَّہ گَھڑْنا (جھوٹا قصّہ بنانا، بے بنیاد کہانی بنانا)، شِعْر گَھڑْنا(تُک بندی کرنا، شعر کہنا، شاعری کرنا)،بات گَھڑْنا(دل سے غلط بات بنا کے کہنا، بات بنانا)،باتیں گَھڑْنا (باتیں بنانا ;بیشتر مفروضہ، فرضی واقعات یا گفتگو وغیرہ، بیان کرنا)،لَفْظ گَھڑْنا (لفظ بنانا، لفظ اختراع کرنا)،تَقْدِیر گَھڑْنا (قسمت وضع کرنا، تقدیر کو بنانا)،بیڑی گَھڑْنا (لوہا گلا کر بیڑیاں بنانا)،زیوَر گَھڑْنا (زیور بنانا;سونے چاندی وغیرہ کا،پَتَّھر گَھڑْنا (سنگ تراشی: پتھر کو کاٹ چھانٹ کر تعمیری ضرورت کے لائق بنانا)،حِکایَت گَھڑْنا (بے بنیاد کہانی بیان کرنا)،فِقْرے گَھڑْنا (دل سے باتیں بنانا، نئی نئی باتیں گھڑنا)،لُغَت گَھڑْنا(رک: لغت تراشنا، اپنی طرف سے لفظ بنانا)،بات جی سے گَھڑْنا (جھوٹی بات بنانا، اپنی طرف سے من گھڑت بات کہنا): ؎ سلسلہ بات کا بگڑتا ہے+ نامہ بر بات جی سے گھڑتا ہے۔ داغؔ;نوراللغات)،بات دِل سے گَھڑْنا (رک: بات دل سے جوڑنا)۔
گھڑنا سے بات چل نکلی ہے تو ہمیں اپنے گھروں میں استعمال ہونے والا ’گھڑا‘ یعنی مٹی کامٹکا بھی یاد آتا ہے جو آج کم کم نظرآتاہے، مگر پھر وہی بات کہ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی مسلسل نااہلی، ناقص کارکردگی اور فرِیج کے مصنوعی ٹھنڈے پانی کے نقصانات کے پیش نظر، گھڑے اور صُراحی کا دَور بھی واپس آسکتا یا لایا جاسکتا ہے۔گھڑے سے جُڑی ہوئی ترکیب ’گھڑے پانی کے پڑنا‘ فعل لاز م ہے، مگر استعمال محاورے کی شکل میں ہوتاہے اور اس کی ایک اور شکل ہے، ”گھڑوں پانی پڑنا“۔فرہنگ آصفیہ کے بیان کی رُو سے ”پانی کے گھڑے بھرنا زیادہ بولتے ہیں“بمعنی نہایت شرمندگی ہونا، شرم کے پسینوں میں نہانا۔اسیرؔ لکھنوی کا شعر ہے:
تِرے کانوں کے آگے کان،گُل اکثر پکڑتے ہیں
حضورِ چشم ِ نرگس پر گھڑے پانی کے پڑتے ہیں
کیا کہنے صاحب! ایسی دقت پسندی کہ انسان مطلب پر غورہی کرتا رہ جائے…اب کتابو ں ہی تک محدودہے۔
’گھڑا‘سے جُڑا ہوا ایک لفظ ’گھڑانا‘ یعنی گھڑوانا، بنوانا (جیسے گہنایعنی زیور گھڑانا)بھی ہے۔ اس فعل متعدی کے ذیل میں فرہنگ آصفیہ نے ایک گیت کا مکھڑا بطور مثال پیش کیا ہے:
رات کہا، سےّاں! گہنا گھڑادوں، بھور بھئے دِکھلانے لاگے،اَنکھیاں، نہ مانوں رے لبار،توری بَتیاں
زیورگھڑنے یعنی بنوانے کی اُجرت یا مزدوری کو اِن دنوں تو(دکانداروں کی بولی کی تقلیدمیں) ”بَنوائی“ کہاجانے لگا ہے،مگر اِ س کے لیے پرانا لفظ ہے، ’گھڑائی‘۔پنجاب میں یہی لفظ ’گھڑت‘ یعنی ساخت یا بناوٹ کے معنوں میں استعمال ہواکرتا تھا۔گھڑت(اسم مؤنث بمعنی بناوٹ، ساخت، تصنع) کی مثال سمجھانے کے لیے مولوی سید احمد دہلوی صاحب نے بہادرشاہ ظفرؔ کے تین اشعار لکھے ہیں، جن میں ایک یہ ہے:
اے عشق تو بھِڑائے ہے،لوہے سے موم کو
ہوتی ہے شمع کے لیے گُلگیر کی گھڑت
گھڑت کا ایک اور مطلب ہے، بنائی ہوئی (یعنی گھڑی ہوئی)بات، اصل کے بَرخِلاف بات، جھوٹی بات۔اس کا نمونہ استعمال بھی ظفرؔ کے کلام میں ملتا ہے:
ہم جانتے ہیں لائے ہوتو دل سے گھڑکے بات
چھًپتی نہیں ہے آ پ کی تقریر کی گھڑت
اسی ’گھڑت‘ کے متعلق نوراللغات نے یوں گوہرافشانی کی ہے: ”گڑھنا، گڑھنے کا انداز
؎ سونے کی گھڑت ہے نہ جواہر کی جڑت کچھ
لفظوں کی تلازم ہے تقریرِ مرصّع
(شورؔ)“
یہ معلوم نہیں کہ شاعر،شورؔ کہاں کے تھے۔ویسے ہمارے عہد میں ایک بزرگ شاعرہوگزرے ہیں، پروفیسرشورؔ علیگ۔بقول ہمارے بزرگ معاصر، محترم راحت امین چغتائی (مرحوم): ”میں نے اپنی87 سالہ زندگی میں دوشاعر ایسے دیکھے جواپنی نظم اور نعت سے غزلیہ مشاعروں کو اُلٹ دیا کرتے تھے۔ اِن میں سے ایک تو مشہور نظم گو پروفیسر شورعلیگ تھے اور دوسرے نعت کے سرخیل، حافظ مظہر الدین۔حافظ صاحب نے مشاعروں میں ہمیشہ نعت یانظم پڑھی، اور بڑے ثقہ ادباو شعراء سے خراجِ تحسین وصول کیا“۔ (نعت رنگ، شمارہ نمبر ستائیس، آن لائن دستیاب)۔
گھڑت کا ایک اور تلفظ ہے، ’گھڑَنت‘ جس کے معانی کے ذیل میں لکھاگیا: (ہندی الاصل مؤنث لفظ): (1۔شکل، بناوَٹ، مُورَت (2۔گڑھنا، بات بنانا، گڑھوانا(نوراللغات)۔ یہ تلفظ خاکسار نے کہیں سنا ہے، مگر تعجب ہے کہ ایسے تغیرات یا اختلافات کو فرہنگ آصفیہ میں جگہ نہیں ملی۔یہ معاملہ دلّی اور لکھنؤ یا بِہار اور دیگر مقامات کے لسانی اختلافات ہی کا نہیں، بلکہ لغت نویس حضرات کی پسند، ناپسند کا بھی ہے جنھیں عموماً اور سہواً ماہرِلسانیات بھی سمجھ لیاجاتاہے۔بندہ فرہنگ آصفیہ کا بڑا قائل ہے، مگر ممدوح، مولوی سید احمد دہلوی کے بعض اسقام کو نظر اَنداز بھی نہیں کرتا۔
فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات نے اپنے عہد کے چلن کے عین مطابق، اردو لفظ کی تفہیم کے لیے فارسی معنی کا سہار ابھی لیا جو ہے ’ساختن‘۔ساختن فعل اور مصدر ہے۔مستند لغات دیکھیں۔یا۔کم وقت میں ایک نظر ہی ڈالنا مقصودہوتو ”آبادیس“ [https://abadis.ir ]
ملاحظہ فرمائیں جو گویا خلاصہ ہے مستند قدیم وجدید فارسی لغات کا۔ساختن کے مفاہیم (بطور فعل)، مستند وضخیم فارسی لغت، دھخدا (دیہہ/دِہ خدا) کی رُو سے یہ بیان کیے گئے: ساختن َ ] ت. [: (مص) بِناء ; بِناء کردن،عمارت،عمارت کردن،برآوردن،پی افکندن،بن افکندن، (یہ افگندن ہے)، بُنیان۔مزید وضاحت یوں کی گئی: || درست کردن، تصنیع،صنع،بعمل آوردن؛ چون ساختن جعبہ یا انگشتری را:
|| ابداع، اختراع،ایجاد، انشاء،نو آوردن، چیزی نو پدید آوردن،. چیزی نو نہادن: ساختن بوزرجمہر نرد را و بردن آن را با نامہ نزد رای ہند. (از عناوین شاہنامہ)،دیوان را مطیع خویش گردانید و بفرمود تا گرمابہ ساختند(نوروزنامہ)،اکنون پیدا کنیم کہ انگور از کجا آمد،و می چگونہ ساختہ اند(نوروزنامہ) حکماء جز این [ شراب ] چیزی نتوانستند ساخت کہ اندوہ دنیا کم کند، (نوروزنامہ) || آفریدن،خِلقت، پدید آوردن (در مورد باری تعالی)،بوجود آوردن،از نیست ہست کردن۔
ان سبھی الفاظ وتراکیب کی فہرست میں تعمیر کرنا، عمارت کی طرح بنانا،بنیاد ڈالنا، ایجاد کرنا، کوئی نئی چیز بنانا/تیارکرنا یا تحریرکرنا،گھڑنا، بغیر کسی بنیاد کے تخلیق کرنا (جو فقط خدائے بزرگ وبرتر کا خاصّہ ہے)،جیسے مطالب بتائے گئے۔یہ تمام گفتگو تھی، ’گھڑت‘ کے متعلق، اب کچھ اور۔
………………………..
خاکسارنے مدتوں پہلے کہیں کسی مستند لغت میں پڑھا تھا کہ لفظ ’فاش‘ ہمارے یہاں غلط رائج ہوگیا ہے، اس کی اصل شکل ’فاحِش‘ ہے۔ذہن میں تھا کہ اس کا حوالہ ”لغاتِ کشوری“ از مولوی تصدق حسین رضوی ہے، مگرخیر، یادداشت نے دھوکا دیا۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ نے جدہ(سعودی عرب)سے واٹس ایپ پر مجھے ٹوکتے ہوئے عربی لغات سے اقتباس پیش کیا،اب دوبارہ تحقیق توبعد میں کی، محض اتفاقاً ٹوئیٹر پر ایک ایرانی اخبار کی خبر سے معلوم ہوا کہ بندہ اپنے مؤقف میں حق بجانب تھا۔
خاکسار کا پیغام:واٹس ایپ حلقہ ’دائرہ علم وادب پاکستان: 29ستمبر2022
”گزشتہ دنوں میں نے کہیں لکھاکہ فاش غلطی نہیں، فاحش غلطی درست ہے…..اس پر اعتراض ہواتھا۔ابھی ابھی ٹوئیٹرپرایران کے حالیہ واقعات کے تناظرمیں یہ عنوان لکھاہوادکھائی دیا: ” سرکوب وحشیانہ معترضان ایران،نقض فاحش حقوق بشراست“۔ اس کا ترجمہ میں (خود اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے)گوگل سے کرکے دکھاتاہوں:
The brutal suppression of Iranian protesters is a gross violation of human rights
یعنی ایرانی مظاہرین پر وحشیانہ جبر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔یہاں لفظ نقض بھی بالکل درست استعمال ہواہے۔۔۔جو ہمارے یہاں سہوا ًنقص لکھااوربولاجاتاہے،جیسے نقص امن“۔(اس بابت، ماضی میں ڈاکٹر فہیم اعظمی سے بھی گفتگو رہی)۔
تہران، ایران سے مطبوعہ English-Persian Dictionary(از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی) میں بہرحال/Disclosing Discloseکا مطلب، فاش کردن، باز کردن، آشکارکردن اور Disclosureکا، فاش سازی، اِفشاء، بی (بے)پردہ گوئی، بیان کیا گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ اس بحث سے قطع نظر کہ اصل لفظ پہلے کیا تھا، فاش اُن کے یہاں بھی مستعمل ہے۔
آبادیس سے رجوع کیا تو اُس میں تمام متداول لغات سے اقتباسات نقل کرنے کے ساتھ ساتھ، یہ بیان سب سے نمایاں کیا:
فاحش: /fAheS/
مترادف فاحش: زشت، قبیح، بسیار، کثیر، آشکار، روشن، واضح، جسور، گستاخ، بی شرف
برابر پارسی: آشکار، بسیار، بی اندازہ، زشت، فراوان، ناپسند
اور اِ س کے بعد مزید وضاحت کے لیے یہ تفصیل پیش کی:
فارسی بہ انگلیسی:
conspicuous, egregious, flagrant, gross, crying, grievous, notorious, obscene
مترادف ہا:
tremendous (صفت)
ترسناک، عظیم، سرشار، عظیم الجثہ، فاحش، شگرف
exorbitant (صفت)
گزاف، فاحش، مفرط
egregious (صفت)
بزرگ، برجستہ، انگشت نما، نمایان، فاحش
inordinate (صفت)
فاحش، مفرط، بی اندازہ، غیر معتدل
اب آخرمیں اُن(محولہ بالا) پاکستانی عربی داں بزرگ کی تسلی کے لیے ”المنجد“ سے بھی اکتساب کرتاچلوں۔لفظ کی تفصیل میں بیان کیا گیا: الفاحِش ُ یعنی قبیح، بدخلق، بہت بخیل، ہروہ چیز جو حَد سے بڑھ جائے۔کہاجاتا ہے، ” غَبن’‘ فَاحِش ’‘ “ یعنی جبکہ اِتنا زیادہ نقصان ہوجائے جو عادتاً برداشت نہ کیا جاسکتاہو۔
ضمناً عرض کردوں کہ تحقیق کے سفر میں،اپنے بزرگ کرم فرما ڈاکٹر احمد بختیار (اے بی) اشرف صاحب و (فیس بک دوست)ڈاکٹر جلال صوئیدان صاحب کی مرتبہ ”اردو۔ترکی“/”ترکی۔اردولغت“ بھی ایک مرتبہ پھر دیکھی تو اِنکشاف ہوا کہ لفظ ’فاش‘ کے ترکی مفاہیم میں ’آشکار‘ اور ’اِفشا کرنا‘ (فارسی: اِفشا کردن) شامل ہیں، فاحش اُن کے یہاں نہیں، جبکہ فاحشہ بمعنی فاحشہ، طوائف، بازاری عورت موجود ہے۔
The post زباں فہمی نمبر 160؛ گھڑنا یا گڑھنا ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.