واہ کینٹ: 14اگست 1947 کو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزاد کی گئی ریاست کے لیے منتخب محض ایک لفظ پاکستان رائج تھا، جس کے تسلیم شدہ صوبے بنگال، پنجاب، سندھ اور اس وقت کا شمال مغربی سرحدی صوبہ تھا۔ اس کے علاوہ قلات، سوات، لسبیلہ، خیر پور، بہاولپور کی آزاد ریاستیں، کوئٹہ شہر اور اس کی چھاؤنی بھی پاکستان کے حصہ بن گئے تھے۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد ون یونٹ کی تجویز اور اس کے نفاذ کے بعدمشرقی اور مغربی حصے پر مشتمل دو پاکستان بن گئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس دن ون یونٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا پاکستان اسی دن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا تو غلط نہ ہوگا۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے دانش ور اور سیاسی ماہرین نے علاقائیت کے خاتمے کے نام پر کیے گے اس فیصلے پر شاذ ہی گفتگو کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نسل پاکستان بننے کے 75سال بعد بھی تاریخ کے اس سیاہ باب سے ناواقف ہے۔
پہلی بار یہ تجویز 2مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ممبر اسمبلی ملک فیروزخان نون نے پیش کی جس پر سندھ میں پُرزور احتجاج ہوا اور معاملہ وقتی طور پر دب گیا۔ 1953ء میں ممتاز محمد خان دولتانہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے وحدانی نظام حکومت کی تجویز پیش کی۔ انہیں یقین تھا کہ وفاقی نظام حکومت پاکستان کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو سکتا۔
جنرل ایوب خان کو ون یونٹ کے نفاذ کی تجویز کا خیال اس وقت آیا جب 4 اکتوبر 1954کو گورنر جنرل غلام محمد نے سندھ کے وزیراعلیٰ عبدالستار پیرزادہ کو برطرف کر کے ایوب کھوڑو کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جنہوں نے ون یونٹ کی تجویز کو اسمبلی سے منظور کرانے کا کارنامہ انجام دیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی کتاب ’’فرینڈ ناٹ ماسٹرز‘‘ ، جس کا ترجمہ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر پاکستانی عوام کے لیے اس کا ترجمہ ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ‘‘ کیا گیا، میں لکھا کہ 14اکتوبر 1954 کو بطور آرمی چیف اور حاضر سروس وزیر دفاع دورۂ امریکا کے دوران اچانک یہ تجویز ان کے ذرخیز ذہن میں آئی تھی۔
اس سلسلے کی ابتدا 22نومبر 1954کو ہوئی تھی جب وزیراعظم پاکستان محمد علی بوگرا نے گورنر جنرل غلام محمد کے ایماء پر قانون کے مسودہ کی تیاری کا اعلان کیا جسے ’’محمد علی بوگرا فارمولا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جس کی سیاسی حلقوں نے بھی حمایت کی۔
اس دن دستورساز اسمبلی میں ایک یادگار کارروائی شروع کی گئی جس میں قائد ایوان کو اسپیکر کی جانب سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ اس کے بعد ایوان میں بنگالی لب و لہجے میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے اپنے پرجوش خطاب میں کہا،’’اب وطن میں کوئی بنگالی رہے گا نہ پنجابی، سندھی رہے گا نہ پٹھان، بلوچی نہ بہاولپوری اور نہ ہی خیرپوری۔ آج سے ہماری صرف ایک ہی قومیت اور شناخت ہے اور وہ ہے پاکستان۔‘‘
21 جون 1955 کو صوبائی اسمبلیوں نے نئی دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کیا جس میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی یکساں طور پر 40-40 نشستیں تھیں۔ اسی اسمبلی نے 30 ستمبر 1955 کو یہ تجویز منظور کرالی، جو 14اکتوبر 1955کو نافذالعمل ہوگئی، جسے تاریخ میں ون یونٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فروری 1959کے مجوزہ عام انتخابات میں متوقع نتائج کے خوف سے 7 اکتوبر 1958کو پاکستان میں جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ یہ ایک ایسے دور کی ابتداء ثابت ہوئی جسے آگے چل کر ایک طوفان کی شکل اختیار کرنا تھا۔ اسی قانون کی منظوری کے تحت علاقائی اور لسانی شناخت کو ختم کر کے پاکستانی قومیت کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس بل کی منظوری کے بعد وزیرداخلہ میجر جنرل اسکندر مرزا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یہ خبر خوش خبری کے طور پر سنائی کہ یہ قانون صوبائی تعصبات کی لعنت کو ختم کردے گا۔ اس کے ذریعے پس ماندہ علاقوں میں ترقی کا دروازہ کھلے گا اور انتظامی اخراجات میں کمی آئے گی۔ آئین سازی میں آسانی پیدا ہوگی اور سب سے بڑھ کر مشرقی اور مغربی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری فراہم ہوگی۔
کیا واقعی صوبائی منافرت کا خاتمہ، پس ماندہ علاقوں کی ترقی، آئین سازی میں سہولت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری کی فراہمی ہی اس فیصلے کی بنیاد تھی؟ درحقیقت مرکزی حکومت نے ریاست پر اپنے مکمل اختیار کے ساتھ نظام حکومت چلانے کے لیے ملک کو دو صوبوں میں تقسیم کردیا تھا۔ فوجی قیادت اور نوکرشاہی پہلے ہی یہ منصوبہ بناچکی تھی کہ طاقت ور طبقے کے اتحاد اور جاگیرداروں کی سیاسی حمایت کے بدلے انہیں اعلیٰ عہدوں کی پیشکش کر کے ملک کو چلایا جائے۔
فوج بھی جلدازجلد ون یونٹ کی تجویز پر عمل درآمد کے حق میں تھی۔ اسی قانون کے تحت مملکت پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں کو یکجا کر کے ایک اکائی کی صورت دے دی گئی جب کہ اس کا دوسرا حصہ مشرقی پاکستان کی صورت میں موجود رہا۔ یوں پاکستان محض دو صوبوں پر مشتمل ایک ریاست بن گیا۔ ان دو صوبوں میں ریاستیں اور قبائلی علاقہ جات بھی شامل تھے۔
مغربی پاکستان 12ڈویژنز پر مشتمل تھا اور اس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ دوسری جانب بنگال کو مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا جس کا دارالحکومت ڈھاکا قرار دیا گیا۔1959 میں وفاقی دارلحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کر دیا گیا جہاں فوج کے صدر دفاتر تھے اور یہ نئے دارالحکومت اسلام آباد کی تکمیل تک یہاں قائم رہا۔ وفاقی مجلس قانون ساز کو ڈھاکا منتقل کردیا گیا۔ باچا خان کے بڑے بھائی خان عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے پہلے وزیراعلیٰ تھے جو 14اکتوبر 1955سے 16جولائی 1957تک اس عہدے پر فائز رہے۔
پاکستان میں شامل ہونے والی کئی ریاستوں نے اس یقین دہانی پر تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی کہ ان کی خودمختاری قائم رکھی جائے گی۔ ون یونٹ کے نفاذ سے تمام مقامی ریاستوں کا خاتمہ ہو گیا جن میں بہاولپور، خیرپور اور قلات کی ریاستیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔1958میں جب فوجی بغاوت کے بعد وزیراعلیٰ کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا اور صدر نے مغربی پاکستان کے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ لیے تو معاملات مزید ابتری کی جانب بڑھنے لگے۔
پاکستان کے دو صوبے بنانے والوں نے اس کے دو بنیادی مقاصد بیان کیے جن میں صوبائی عصبیت کا خاتمہ اور انتظامی اخراجات میں کمی تھی، لیکن سیاسی ماہرین کے تجزیے کے مطابق اس کا اصل مقصد بنگالیوں کی عددی برتری کا توڑ نکالنا تھا جو پاکستان کی کل آبادی کا 54 فی صد تھے۔ اسی تجویز نے آگے چل کر پاکستان کو دولخت کرنے میں بنیاد ی کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے وقت دستورساز اسمبلی کے کل 69 اراکین میں سے 60 فی صد سے زاید کا تعلق بنگال سے تھا۔ ایسے میں کوئی بھی قانون یا دستور سازی بنگالی اراکین کی رضامندی کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔ اس نظام کا مقصد نظریہ پاکستان، مذہب اور حب الوطنی کے بہانے تراش کر بنگالیوں کے حقوق سے توجہ ہٹانا تھا۔
ون یونٹ کے پس پردہ بنگالیوں کو ان کے جائز اور جمہوری حقوق دبانے کی بدنیتی پر مبنی کوشش کار فرما تھی۔ اس کے نفاذ سے بنگال ہی نہیں دوسرے صوبوں کی طرح صوبہ سندھ پر ہی اس کے اثرات اور نتائج کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سندھ اس سے کس قدر متاثر ہوا۔ جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور لسانی جداگانہ حیثیت ختم کرکے اسے اضلاع اور ڈویژن میں تقسیم کردیا گیا۔ ون یونٹ کے بعد مغربی پاکستان کی حکومت نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں یونیسکو کے ان اصولوں کے خلاف سندھی زبان کے بجائے اردو زبان رائج کردی جن میں میٹرک تک مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دی گئی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف پورے سندھ میں زبردست احتجاج شروع ہوگیا۔
کراچی کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کے دروازے پورے مغربی پاکستان کے لیے کھل گئے اور سندھ سے آنے والے طلباء کے لیے محض 20 فی صد نشستیں رہ گئیں اور مزید اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم ہونا بند ہوگئیں۔
سندھ کو مغربی پاکستان کے لیے مختص بجٹ میں سے اس کا پورا حصہ نہیں مل رہا تھا۔ 1951 میں شروع کیا گیا گدو بیراج کا منصوبہ 1971تک بھی مکمل نہ ہوپایا اور نہ ہی آب پاشی کے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ پائے۔ اس دوران حکومت کا زیادہ تر نظام نوکر شاہی کے تحت چلایا گیا جس کے پندرہ سالوں میں صرف دو سندھی سیکرٹریز کی تعیناتی ہوئی۔ ڈویژنل سطح پر سندھ میں 1950سے 1970تک کوئی سندھی ڈی سی مقرر نہیں کیا گیا۔
پولیس میں بھی 80فی صد ایس پی سطح کے افسران غیرسندھی رہے۔ ان حالات میں تمام صوبوں کے لیے عدل و انصاف صرف خواب و خیال ہی ہوسکتا تھا۔ ملک کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوجانے کے بعد تو سندھ کا مزید استحصال ہونے لگا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایوب کھوڑو ون یونٹ کی حمایت کرنے اور مغربی پاکستان کا ساتھ دینے پر سندھ کے ناپسندیدہ شخص کی حیثیت سے جانے گئے۔
پاکستان کے تمام علاقوں کے ساتھ غیرمنصفانہ رویہ اختیار کیا گیا اور پنجاب کی بالادستی کو فروغ ملا، اس سے قومی یک جہتی کے بجائے صوبائیت کے پودے نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں ۔
اس نئے نظام کے تحت بنگال کی اکثریت کو کمی یا برابری میں تبدیل کردیا گیا تھا جس سے بنگالیوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔ بنگالی عوام کو یہ بھی شدت سے احساس ہونے لگا کہ ان کے راہ نماؤں نے ان کے ساتھ وفاداری نہیں کی جس کے نتیجے میں ان میں علیحدگی کے خیالات پنپنے لگے۔ یہ حقیقت اگرتلہ سازش کیس اور مجیب الرحمٰن کے چھے نکات سے بخوبی ثابت ہو جاتی ہے جس میں اس نے فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کا مطالبہ کیا تھا جو آگے چل کر بنگلادیش کی تخلیق کی بنیاد بنا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ سے تعلق رکھنے والی بیشتر کتابوں میں شامل تفصیلات اور سیاسی امور کے ماہرین اس بات پر مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ ون یونٹ کا مقصد سیاسی استحکام اور صوبائیت کا خاتمہ نہیں تھا۔ جاگیردار طبقے اور سیاسی طاقتیں یہ نہیں چاہتیں تھیں کہ اقتدار نچلے طبقے تک پہنچے اور روایتی سیاست دانوں کی عوام پر گرفت کم زور پڑجائے۔ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ جتنا پرانا ہے مرکز کی جانب سے اس کو ردّ کرنے کے بہانے بھی اتنے ہی پرانے ہیں۔
2002 کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ ق کی وفاقی حکومت کے وزیراطلاعات محمد علی درّانی کہتے ہیں کہ ان کے پاس 1954میں تیار کیے جانے والے پاکستان کے پہلے آئین کا وہ مسودہ آج بھی موجود ہے جس میں ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کے درمیان آبادی کے توازن کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا تھا جس میںملک کے دانوں حصوں کی آبادی کے تناسب کے عین مطابق قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 55 فی صد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب 45 فی صد طے پاجانے کی وجہ سے ملک کے دونوں حصوں میں اطمینان محسوس کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کہ آخری خواندگی مکمل ہونے کے بعد یہ آئین نافذ ہوکر پاکستان کو سیاسی استحکام کے راستے پر گام زن کر دیتا، گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کرکے سیاسی بحران پیدا کردیا۔ اس کے بعد بننے والی اسمبلی نے انہی کی ایماء پر انتہائی جلدبازی میں ون یونٹ کے قیام کا اعلان کردیا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی نمائندگی مساوی قرار پائی۔
آخر گورنر جنرل غلام محمد ون یونٹ کے حامی کیوں تھے؟ اس کا جواب قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے ابتدائی چند برسوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں، تجزیوں اور مضامین کے مطالعے سے ملتا ہے جن میں مشرقی پاکستان کی کثرت آبادی کی حقیقت کی نفی کی جاتی رہی۔
اس سلسلے میں اس زمانے کے مشہور ’روزنامہ زمیندار‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کی بیشتر آبادی نابالغوں پر مشتمل ہے جسے ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ نہیں ہے۔
گویا ایک مسلمہ حقیقت کو سراسر جھٹلایا جا رہا تھا جس کے حق میں کئی برس تک ملک میں جارحانہ تشہیر کی جاتی رہی۔ اسی نوعیت کی کئی دیگر تاویلات بھی پیش کی گئیں۔ روزنامہ ’زمیندار‘ نے ہی ’مشرقی اور مغربی پاکستان کی مساوات‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں لکھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اگر مساوات قائم کی جا رہی ہے تو کیا اس کے صاف معانی یہ نہیں ہیں کہ ایک یونٹ کو دوسرے تمام یونٹوں پر آمدنی، محاصل، رقبے اور فوجی خدمات سے قطع نظر حاوی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
صاف ظاہر تھا کہ مغربی پاکستان کو پارلیمان میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی برابری کی تجویز بھی قابل قبول نہیں تھی اور اسے دوسرے صوبوں پر ایک صوبے کی برتری سمجھا جا رہا تھا۔ اس تنقید سے مجبور ہوکر وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے 15جنوری 1953کو پنجاب مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ’’مساویانہ نمائندگی کا فارمولا شہید ملت یعنی ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے وضع کیا تھا۔‘‘
ممتاز قانون داں حامد خان کے مطابق اس ساری تگ دو کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو مرکز میں اقتدار کے حصول سے روکا جا سکے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس کے تحت ملک کے دونوں حصوں کی آبادی کو نظرانداز کرکے قومی اسمبلی نے انہیں برابر نمائندگی دے دی، جسے تاریخ میں پیریٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ملک کی پہلی قانون ساز اسمبلی کو اس لیے بھی تحلیل کیا تھا کہ اسمبلی کی طرف سے پیش کیے جانے والے 1954کے آئینی مسودے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ اگر یہ منصوبہ بروئے کار آجاتا تو اس کے ذریعے اقتدار مشرقی پاکستان کو بھی منتقل ہوجاتا۔ یہ ملک کے طاقت ور طبقات کے لیے قابل قبول نہ تھا۔
ڈاکٹر ناظر محمود اپنی کتاب ’’آلڑنیٹو ہسٹری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس کا فوری سبب مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کی بھاری اکثریت سے کام یابی تھی، جس سے خطرہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست داں مرکز میں بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس فارمولے پر پہلے وزیراعظم فیروزخان نون کے زمانے میں غور کیا گیا تھا جس میں ان کے ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والی خاتون راہ نما جہاں آرا سرفراز بھی شامل تھیں۔ ناظرمحمود کے مطابق بانی پاکستان محمد علی جناح اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے زمانے میں بھی اس منصوبے کی گونج سنائی دی تھی لیکن شاید یہ منصوبہ اس لیے پروان نہ چڑھ سکا کہ وہ دونوں پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
ڈاکٹر راج کمار سندھ نے ساؤتھ ایشیا جرنل میں شائع ہونے والے اپنے مقالے ’’ون یونٹ اسکیم آف پاکستان 1970-1955ری وزیٹڈ‘‘ میں اس فارمولے کا اصل خالق گورنر جنرل غلام محمد کو قرار دیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اپنے دورِاقتدار میں جو دوسری آئینی سفارشات پیش کی تھیں ان میں پیریٹی کے اصول کا ذکر کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا، جس پر پنجاب کے سیاست داں اور اخبارات نے بھرپور تنقید کی۔
اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور عوامی مسلم لیگ کے راہ نما نواب افتخار حسین ممدوٹ کی ایک تقریر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔11جنوری 1953کو انہوں نے موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسے سے خطاب میں ان آئینی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا،’’پنجاب ڈٹ جائے تو اس کی مرضی کے خلاف کوئی آئین مسلط نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہم کوئی ایسا آئین مسلط ہونے دیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کا استحکام خطرے میں پڑ جائے۔‘‘
ان سب مثالوں اور واقعات سے ماہرین آئین اور مورخین کی اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ پیریٹی کا یہ فارمولا مشرقی پاکستان کی اکثریت سے پیچھا چھڑانے کی ایک کوشش تھی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ 1954میں جب یہ کلیہ متعارف کرایا گیا اور 1955میں جب اس کا نفاذ کیا گیا تو اس موقع پر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست داں ہی پیش پیش تھے۔
ماہرین آئین حامد خان کے مطابق بنگال سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کے بقول ’’قیام پاکستان کے بعد سے آج تک (ون یونٹ کے نفاذ تک) ہمیں اقتدار میں جائز حصہ نہیں دیا گیا۔ اب نصف حصہ مل رہا ہے تو کیوں نہ اسے قبول کریں۔‘‘
ون یونٹ کے منصوبے کا اعلان کیا گیا تو اس کے خلاف تحریک چلانے والے سیاست دانوں میں سرحد سے باچا خان نمایاں ترین تھے۔ اس منصوبے کی حمایت سے دور رکھنے کے لیے انہوں نے حسین شہید سہروردی سے بھی ملاقات کی لیکن وہ انہیں قائل نہ کر سکے۔
اس منصوبے کے بارے میں پنجاب کا عمومی اور بنگال کے سرکردہ سیاست دانوں کا ردعمل تو واضح تھا لیکن ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس کے خلاف ردعمل ہوا۔ اس فارمولے کی مخالفت سب سے پہلے مرکز کے قریب ترین صوبے یعنی سندھ سے ہوئی۔ ڈاکٹر ناظر لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں نمایاں ترین مسلم لیگی راہ نما اور وزیراعلیٰ سندھ عبدالستار پیرزادہ اور محمد ہاشم گزدر تھے۔
ان کے علاوہ عبدالمجید سندھی، جی ایم سیّد، جی ایم بھرگڑی اور غلام علی تالپور سمیت سندھ اسمبلی کے 74 اراکین مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اس مخالفت کا یقینی نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کی وزارت ہی توڑ دی گئی۔ یہ گویا ملک کے دیگر صوبوں کے لیے ایک کھلا پیغام تھا۔ اس کارروائی کے بعد سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) نے اسمبلی کے اجلاس میں ون یونٹ کی منظوری دے دی۔ کچھ دنوں کے بعد ہی بلوچستان کے شاہی جرگے، خیرپور اسمبلی اور چترال نے بھی حمایت کردی۔
سندھ اسمبلی میں، جہاں سب سے پہلے اس کی مخالفت ہوئی تھی، 104کے ایوان میں سے 100ارکان نے ون یونٹ کے حق میں ووٹ دے دیا۔ اس موقع پر جی ایم سیّد اور دیگر کئی راہ نماؤں کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ وہ کابینہ کے ارکان کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ناظر کے مطابق صوبہ پنجاب میں تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے تھے۔ البتہ ’’جرنل آف ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان‘‘ میں شائع ہونے والے سید منہاج الحسن اور اسماء گل کے مشترکہ مقالے کے مطابق پنجاب سے آزاد پاکستان پارٹی کے میاں افتخارالدین اور فیروز خان نون نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔ اس مقالے کے مطابق ون یونٹ کی منظوری کے بعد خان عبدالغفار خان عرف باچا خان سب سے پہلے اس کے خلاف متحرک ہوئے اور صوبائی سطح پر اینٹی ون یونٹ فرنٹ قائم کیا۔
اس کے بعد اس فرنٹ کی سرگرمیاں پورے مغربی پاکستان میں پھیل گئیں اور چھے جماعتوں کے اشتراک سے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت وجود میں آئی جس کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ جلد ہی اس جماعت نے ملک کے ایک بڑے ڈیموکریٹک فورم کی شکل اختیار کرلی جس سے اینٹی ون یونٹ تحریک کو غیرمعمولی تقویت ملی۔
نیپ کا امتیاز یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان یعنی ملک کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے والے سیاست داں شامل تھے جو ملک کے اتحاد کو یقینی بناتے تھے۔ اس اتحاد میں آزاد پاکستان پارٹی، سندھ عوامی محاذ، سندھ ہاری کمیٹی، ور ور پختون اور خدائی خدمت گار شامل تھے۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے راہ نماؤں میں نمایاں ترین مولانا عبدالحمید خان بھاشانی تھے۔
اس جماعت نے مغربی پاکستان کے طول و عرض میں جلسے کر کے ون یونٹ کے خاتمے اور مغربی پاکستان کے سابق صوبوں اور ان کی معاشی، لسانی اور ثقافتی شناخت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ نیپ اور حکم راں جماعت ریپبلکن پارٹی نے ایک معاہدے کے تحت اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کرالی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مغربی پاکستان کو ایک سب فیڈریشن بناکر صوبوں کو بحال کردیا جائے۔ اس مطالبے کی مقبولیت سے مارچ1957ء میں مغربی پاکستان کے بجٹ سیشن میں حکم راں جماعت کو شکست کا امکان پیدا ہونے سے پیشتر اور اس مطالبے کا جواب اسکندر مرزا اور ایوب خان نے مغربی پاکستان میں آئین معطل کرکے اور مارشل لا لگا کر دیا اور گورنر راج نافذ کردیا۔
ون یونٹ کے خلاف 1954سے ہی تحریکیں چلنا شروع ہوگئیں ۔ سندھ سے طلبائ، ادیب اور سول سوسائٹی کے اراکین موجودہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان نے پندرہ سال تک اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ جی ایم سیّد کو قیدوبند کے علاوہ تیس سال سے زاید عرصے انہیں اپنے ہی گھر میں نظر بند کیا گیا۔
دوسرے راہ نماؤں کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا جن میں شیخ عبدالمجید سندھی، قاضی فیض محمد، غلام محمد لغاری، یوسف لغاری، مسعود نورانی، یوسف تالپور، سلمان شیخ، امان اللہ شیح، رسول بخش پلیجو، جام ساقی، اقبال ترین، شاہ محمد شاہ، مدد علی سندھی، نوجوان عبدالخالق جونیجو، ڈاکٹرمحبوب شیخ، اشفاق میمن وغیرہ شامل تھے جب کہ سندھ کے ممتاز سیاست داں عظیم ہاری راہ نما حیدر بخش جتوئی کو پاکستان کے مختلف جیلوں میں خاص طور پر مچھ جیل ’سبی‘ بلوچستان میں قید رکھا گیا۔
صوبہ سرحد سے خان عبدالغفار خان، خان عبدالولی خان اور اجمل خٹک بلوچستان سے غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، اکبر بگٹی، عبدالصمد خان اچکزئی وغیرہ ون یونٹ کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے پُرجوش کارکن تھے۔
البتہ پنجاب سے بہت کم لوگ اس بل کے مخالف تھے۔ تنہا مگر مضبوط آواز میاں محمد افتخار الدین کی تھی جو کہ بنیادی طور پر یونینسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ ترقی پسند عناصر بھی ون یونٹ کے توڑنے کے حق میں تھے۔
بنگالی راہ نما جو اس وقت اقتدار میں تھے، مغربی پاکستان کے حق میں تھے۔ بعد میں شیخ مجیب چھوٹے صوبوں کی خودمختاری کے حق میں ہوگئے۔ درحقیقت سندھ پورے پاکستان میں ون یونٹ کے خلاف پیش پیش رہا۔ سن 60 کی دہائی کے آخر میں جی ایم سیّد نے ون یونٹ ختم کرانے کے لیے سندھ متحدہ محاذ قائم کی۔
انہوں نے پورے پاکستان سے سیاسی راہ نماؤں کو اس محاذ میں شرکت کی دعوت دی کہ مل جل کر اس مقصد کے لیے کام کیا جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک مضبوط ہوتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کرکے حقیقی متحدہ پاکستان کو بحال کردیا جیسا کہ 1940کی قرارداد کے مطابق 14اگست 1947 کو وجود میں آیا تھا۔
ایوب خان مارشل لا کے نفاذ کے بعد دس برس تک اقتدار میں رہے لیکن ان کے خلاف پکنے والا لاوا ایک بھر پور تحریک کی صورت میں ابھرنے لگا۔ یحییٰ خان کے لگائے گئے مارچ 1969 کے مارشل لا کے وقت اس تحریک کا اختتام ہوگیا۔ لہٰذا حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے ہی اعلان میں ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کردیا اور اس کا ملک بھر میں خیرمقدم کیا گیا۔
اس سلسلے میں بلوچستان کی سابق ریاستوں کا ردعمل سب سے دل چسپ تھا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے بعد ان ریاستوں کے وفاق کا ایک اجلاس خان آف قلات کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یحیٰ خان کو ایک خط میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔
خان آف قلات نے اس خط کا متن اپنی کتاب ’’ان سائیڈ بلوچستان‘‘ میں شامل کیا ہے۔ خط میں لکھا تھا،’’عزت مآب! ہمیں ہمارے گھروں اور چولہے چوکے سے بیک جبنش قلم محروم کردیا گیا تھا۔ ون یونٹ کا خاتمہ کرکے آپ نے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔‘‘ بلوچ ریاستوں کے وفاق نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ اس تاریخی موقع پر بلوچستان کی سابق ریاستوں کو ان کی سابق حیثیت میں بحال کردیا جائے۔
ون یونٹ کی بحالی کے وقت سابق ریاست بہالپور کو پنجاب میں شامل کردیا گیا، حالاںکہ سابق ریاست بہاولپور کی حیثیت ایک مکمل صوبے کی تھی جس کے وزیراعلیٰ مخدوم حسن محمود تھے۔ اس موقع پر بہاولپور کی علیحدہ صوبے کی حیثیت سے بحالی کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
یہ سوال بہت اہم ہے کہ ون یونٹ کے قیام کے پاکستان کی سیاسی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ حامد خان کے مطابق اس کا سب سے بڑا ردعمل تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں آیا۔ جولین لی ویسکو اپنے مقالے ’’فرام اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ٹو ایتھنک پارٹیز: سندھی نیشنل ازم ڈیورنگ ون یونٹ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ کام علاقائیت کے خاتمے کے نام پر کیا گیا لیکن اس کے نتیجے میں علاقائیت پرستی کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘ جو آج تک تھم نہیں سکا۔
ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور چھوٹے صوبوں کے حقوق اور خودمختاری کے ساتھ ہی ہم معاشی اور سیاسی استحکام کے ساتھ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ماضی کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھانے والے بار بار غلطیاں دہراتے ہیں اور قدرت ہر بار غلطی معاف نہیں کرتی۔
The post ون یونٹ اور اس کے اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.