’’آپ کا پیپر تو ’نائب قاصد‘ بھی چیک کردے گا۔۔۔!‘‘
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
’’ٹھیک کہا ہے کسی نے۔۔۔
جس کا کام، اُسی کو ساجھے!‘‘
ثمر بھائی نے کمرے میں وارد ہوتے ہی نہایت تلخی سے کہا۔
ہم نے ماجرا پوچھا، تو کہنے لگے کہ ’’اگر انسان وہ کام کرے، جو اس کے خمیر اور اٹھان میں شامل ہی نہ ہو تو وہ کہیں نہ کہیں اپنی اصلیت کا مظاہرہ کر ہی دیتا ہے۔۔۔ جیسے کوئی ’’تھانے دار‘‘ اگر درس وتدریس کے ادارے کھول لے، تو وہ چاہے کچھ بھی کرلے، کہیں نہ کہیں اپنی روایتی ’’تھانے داری‘‘ دکھا ہی دے گا۔۔۔!‘‘
دراصل ثمر بھائی اس لیے اتنے برہم تھے کہ وہ ایک ادارے میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، گذشتہ دنوں انھیں اپنی نجی مصروفیات کے سبب اپنے طلبہ کی امتحانی کاپیاں جانچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، تو وہاں کی انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ دھونس جماتے ہوئے انھیں یہ طعنہ دیا گیا کہ ’’ارے صاحب، آپ پڑھاتے ہی کیا ہیں، اور آپ کے پیپر کا بھلا کیا چیک کرنا، یہ تو ہمارا کوئی ’نائب قاصد‘ بھی چیک کر دے گا۔۔۔!‘‘
یہ الفاظ اور سارا رویہ نہ صرف ہمارے سماجی زوال کی اصل وجہ کی نشان دہی کر رہا ہے، بلکہ اس اَمر کا غماز بھی ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا، تاجر، صنعت کار، کرخندار اور ’چوکی دار‘ وغیرہ کو تعلیم جیسے مقدس فریضے میں اپنا حصہ ڈالنے سے پہلے اپنے اندر اتنی عاجزی، انکساری اور اہلیت پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اس بلند ترین شعبے کے مرتبے کو سمجھ سکیں۔ اس کے بعد ہی اتنی جرأت کیا کریں کہ تعلیمی ادارے، اسکول، کالج اور جامعات وغیرہ قائم کریں، بہ صورت دیگر اس سماج، تعلیم اور اس ملک پر بڑا احسان ہوگا کہ وہ اس روبہ زوال شعبے پر مزید دُرے نہ برسائیں۔۔۔!
زبردستی کے تعلیمی میدان میں ’طبع آزمائی‘ کے بعد جب آپ کے ’سابقہ رویے‘ چیخ چیخ کے یہ خبر دے رہے ہیں کہ آپ کی نظروں میں ایک استاد کی ’اوقات‘ فقط ’نائب قاصد‘ سے کچھ بھی زیادہ نہیں ہے، تو یہ طور طریقے تعلیم کی خدمت نہیں، سراسر تخریب ہے اور اس پورے سماج پر ایک کلنک کا داغ ہے۔۔۔! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسی گھٹیا اور پست ذہنیت کے لوگ درس وتدریس سے وابستہ لوگوں کے ’سرپرست‘ بن کر ان کی عزتوں اور ان کے وقار اور مرتبے سے سرِعام کھلواڑ کر رہے ہیں اور بے چارہ استاد اپنی شرافت میں مارا جا رہا ہے۔
اپنے ’اوپر والوں‘ کی اس بدتمیزی اور بدتہذیبی پر کڑوا گھونٹ پی کر چُپکا بیٹھ رہا ہے، کچھ تو اس کی معاشی مجبوری ہے، تو کچھ یہ اس کی بھی اس ’پیشۂ خدمت‘ سے لگاوٹ کی ایک قیمت ہے۔ ورنہ اس کا بہت آسان اور مناسب ترین جواب تو یہ تھا کہ ’جائیے پھر امتحانی کاپیاں چیک کروا لیجیے اپنے نائب قاصد ہی سے۔۔۔ بلکہ آئندہ یونیورسٹی میں کلاسیں لینے کے واسطے بھی ’نائب قاصد‘ ہی کو بھرتی کر لیجیے گا، کیوں کہ آپ کے ’تھانے دارانہ ذہن‘ میں صرف اشارۂ ابرو پر حکم بجا لانے والے ’تابع دار‘ اور تنخواہ دار سے زیادہ کا تصور کبھی پروان چڑھ ہی نہیں سکا ہے، الّا یہ کہ آپ کو پتا چلے کہ کسی بھی مہذب معاشرے میں استاد دراصل ہوتا کیا ہے اور اس سے بات کرنے اور اسے مخاطب کرنے کا ڈھنگ کیا ہوتا ہے۔
وہ آپ کے فقط چار پیسے تنخواہ لینے والا چپراسی، مالی یا اور کسی ماتحت کے مساوی ہرگز ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ اپنی فرعونیت، جاہ وجلال اور کسی بھی عہدے کی طُرم خانی اور زعم میں اسے اپنے ’جوتے‘ کی نوک پر رکھیں اور اپنے روایتی حکمیہ رویے اور جبر ڈھانے کے پختہ ہنر کو ایک استاد پر بھی آزمانے سے باز نہ رہ سکیں، پھر اس سے ایسے دھمکی آمیز گفتگو اور گھٹیا ترین انداز اپنانے کی جرأت کریں۔
یقیناً ہمارے سماج میں تعلیم اور استاد کے حوالے سے ایسے بیمار رویوں کی مکمل اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔
twitter:@RizwanTahirMbin
۔۔۔
اردو بے ادبی کی ’رومنی‘ تحریک
امجد چشتی
یارانِ سخن کی رومانوی تحریک سے شناسائی تو مسلّم ہے، البتہ آج اردو کی رومنی تحریک کا ذکر بطور ادبی بدعت ہو رہا ہے۔ زبان کی دیگر تحریکوں کی طرح اردو کو ’رومن رسم الخط‘ میں لکھنے، احباب میں اس اسلوب کی ترغیب دینے اور اردو کو رومن میں ڈھالنے کا رومنی رجحان تمام تحریکوں پر بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ عہدِرواں میں بطفیلِ سوشل میڈیا، رومن لکھاوٹ سب سے بڑا رسم الخط بن چکا ہے۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ زبانوں کی ترویجی سر گرمیوں میں کسی کو ’’تحریک‘‘ کہا گیا، تو کوئی دبستان میں شمار کی گئیں اور کچھ محض رجحان کا مقام پا نے میں سفل ہوئیں۔ رومن حروف کا استعمال مذکورہ تینوں اصطلاحوں پر سر چڑھ کر پورا اترتا ہے۔ پہلے فقط رواجاً و عادتاً لکھت پڑھت کا عمل رہا۔ پھرحالات کے تقاضوں کی رواداریاں نبھاتے نبھاتے دبستان کا درجہ حاصل کیا اور اب اک منظم جدوجہد کے روپ میں تحریک کا پیش خیمہ ہے۔
اس جہانِ رنگ و بو کے دیگر امور کی مانند ’’رومنی تحریک‘‘ پر بھی احباب ہر دو رائے سے دو چار ہیں ۔ سوشلستانیوں کی اکثریت اس کی حمائتی تو بہتیرے مخالف و معترض بھی ہیں ۔ پہلے مخالفین کی آرا کو زیبِ داستاں بناتے ہیں ۔
بہت سے محبانِ اردو رومن اسلوب کو اردو کے لیے سَمِ قاتل گردانتے ہیں اور اسے اردو کا خون ہونے کے مترادف خیال کرتے ہیں ۔ داعیانِ تقدیسِ اردو کسی قیمت پر اس گھُس بیٹھیے رسم الخط کو قبولنے پر راضی نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب اردو کی باتیں انگریزی حروف میں لکھنا عیب نہ رہے تو پھر کوئی شرم ہوتی ہے،کوئی حیا ہوتی ہے۔ اردو کا اپنا معقول رسم الخط ہونے کے باوجود رومن کا استعمال فکری بد دیانتی سمجھی جائے گی۔
رومن میں اردو لکھنے کے فتنے کا آغاز ایوب خان کے دور سے ہوا۔ سنا ہے کہ اسلامی و اردو جمہوریہ پاکستان کے سربراہ کو قوم سے خطاب کرنے میں اردو رسم الخط سے الجھن ہوتی تھی، لہٰذا وہ اپنی تقریر رومن میں لکھوا کر پڑھا کرتے تھے۔
کچھ ایسے ہی معاملات موجودہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ بھی ہیں۔ برِصغیر میں اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ فورٹ ولیم کالج میں گلکرسٹ نے انگریزی ہندوستانی لغت مرتب کی اور مرزا رفیع سودا کی شاعری کو بھی رومن میں چھپوایا۔
کچھ کے خیال میں اردو کی اس بے ادبی میں سب سے بڑا ہاتھ سلطنتِ روم اور اس کے ماہرینِ لسانیات کا ہے۔ نہ وہ رومن حروف ایجاد کرتے اور نہ ہماری اردو خراب ہوتی۔ بعض کے نزدیک اس بد زبانی و بد خطی کے پیچھے انٹر نیٹ پیکجز کے لمبے لمبے ہاتھ ہیں۔ اور چند احباب اسے ’مخنث رسم الخط‘ شمار کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ’’ہی یوں‘‘ میں ہے نہ ’’شی یوں‘‘ میں۔ ویسے ہم پر رومن لکھنے کے لیے کسی صیہونی طاقت کا دباؤ نہیں ہے۔
رومن کے اس عذاب پر لطیفہ ہے کہ ایک نوبیاہتا جوڑے کے مابین فون پر رومن خط میں پیغام رسانی کا رومانوی عمل جاری تھا۔ رازونیاز کا تحریری تبادلہ رنگ پر تھا کہ اچانک شوہر نے ازراہِ تفنن ’’کُٹی‘‘ لکھ کر محبت بھری خفگی کاا ظہار کر دیا۔ جب بیوی نے kutty لکھا دیکھا تو ’’کُتی‘‘ سمجھ کر بگڑ گئی اور بات دور تک جا پہنچی، حتیٰ کہ دونوں خاندانوں میں بھی دراڑ یں پڑ گئیں۔کچھ زبان پسند، رومن کو اردو کی سوکن قرار دیتے ہیں۔
جب سے سوشل میڈیا نے ایک زمانے کو اپنے طلسم میںجکڑا ہے، تب سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہزاروں ماہرین کے ظہور میں بھی تیزی آرہی ہے۔ ایسے ہی علم و ادب کے دانش وَر، محقق اور نقاد ہمہ وقت مصروفِ نقل و عمل ہیں۔ ان کا نَچلا بیٹھتا ہے نہ زبان تالو سے لگتی ہے۔
رومن کو ناجائز وحرام سمجھنے والے مفتیاں اپنے اپنے دلائل رکھتے ہیں، تو ادھر رومن پسندوں کی واضح اکثریت رومن کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زبان وہی ہوتی ہے، جسے عوام بولیں اور لکھیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی مرضی سے لکھ اور بول رہے ہیں اور یہی علم وادب کی زبان ہے۔ یہی اردو کا نیا پہناوا ہے اور یہی سائبر اردو ہے۔
ملائشیا، ترکی اور بہت سے ممالک میں لوگ رومن سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہاں کے بچے شروع سے ہی عالمی حروف سیکھ لیتے ہیں۔ رومن پسندوں کا کہنا ہے کہ زبان کوئی خدائی چیز نہیں ہے۔ اللہ نے علم الاسما کا ذکر کیا ہے، نہ کہ علم اللسان کا۔ زبانوں میں تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں جنھیں دوسری زبانوں کی خوبیوں سے متوازن کیا جا سکتا ہے۔
(کتاب ’اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ ‘ سے اقتباس)
۔۔۔
۔۔۔
تباہ کن فتنہ
جون ایلیا
آج کل ایک خاص بات جو بری طرح کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ بدی پہلے سے زیادہ منہ پھٹ ہوگئی ہے اور نیکی نے ہکلانا شروع کردیا ہے۔ اگر جبر کی حالت میں نہ بولنے والے کو بھی اپنے اس گمان کا ثواب پہنچتا ہے کہ جبر نہ ہوتا تو میں ضرور بولتا، تو پھر جو لوگ اختیار پاکر بولنے کے بہ جائے گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں ان کی کچھ سزا بھی ہونی چاہیے۔
گزشتہ دنوں بہت اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔ پر انہیں بڑے معاندانہ جذبے کے ساتھ سنا گیا ہے۔ بہت سے نیک جذبے بھی معرض اظہار میں آئے ہیں۔ پر ان کے باب میں بڑی بدنیتی اور بدطینتی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ قوم میں کچھ اور بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اپنے حق کا شعور بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے پر ایسے لوگوں کی اب بھی کوئی کمی نہیں جو اپنے درد مندوں کی بات سن کر بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے حق میں بولنے والوں کو اپنی برہمی کا ہدف بناتے ہیں۔
سیاست کی دنیا میں فتویٰ فروشی کا بازار گرم ہے اب ہر وہ شخص جہنمی ہے جو عوام کے حق کی بات کرتا ہو۔ جماعتیں اور جمعیتیں قوم کو جمع کرنے کے بجائے اس میں تفرقہ ڈال رہی ہیں۔ دلوں میں نفرتیں بٹھائی جارہی ہیں اور محبت کو درمیان سے اٹھا دیا گیا ہے۔
اس طرح ایک عجیب بددلی اور دل برداشتگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ اتنی لغو اور بے معنی بولیاں بولی گئی ہیں کہ سننے والوں نے تنگ آکر سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ہے اس سیاست کی دین جو زمین و آسمان کے سارے دکھوں کو دور کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حق یہ ہے کہ قوم اپنے حق ناشناس راہ نمائوں سے عاجز آچکی ہے۔
مقامات ہدایات وارشاد میں یہ فرمایا جاتا ہے کہ لوگوں کو اپنے دور میں نہیں بلکہ اپنے دور سے پہلے کے دور میں رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو اپنے زمانے کی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں وہ نابکار اور گناہ گار ہیں۔ حال کو ماضی کی صلیب پر چڑھانے کا یہ شوق بڑے گہرے معنی رکھتا ہے۔
ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے زمانے میں ہی سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے، جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہے۔ وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظام قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملتوں کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخرگی ہے، جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔
اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہوکہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھاکر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ اس نسل کے بعض آسمان نژاد راہ نما اس کی موجودگی ہی کے قائل نہیں ہیں۔ وہ محلّ خطاب میں اس ہجوم کی طرف سے منہ موڑے کھڑے ہیں، جو ان کے سامنے موجود ہیں اور اس کارواں کی گرد سے مخاطب ہیں، جو کبھی کا گزر چکا ہے۔
پورا سچ تو خیر بولا ہی کہاں گیا ہے۔ یہ لوگ تو آدھے سچ کی بھی تاب نہیں رکھتے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں وہ بات بھی سخت گراں گزرتی ہے جو سچ سے کچھ مشابہت رکھتی ہو۔ لوگوں کو ان کے حقوق اور ان کے حقیقی مسئلوں سے بے خبر رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور نہ جانے کیا چاہا جا رہا ہے۔
اس قوم کو ایک ایسی فضا درکار ہے جس میں حقیقتوں کے طور پر برتا جائے۔ یہ فضا اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے، جب حق طلبی کے ساتھ سوچا جائے، چلایا نہ جائے اور لوگوں کی نیتوں پر حملے نہ کیے جائیں۔ یہ بڑی الم ناک بات ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ’سند‘ قرار دے کر دوسروں کی ہر بات کو مسترد کر دیتے ہیں۔ پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کلیسائی انداز قوم کے حق میں تباہ کن فتنوں کا سبب بن سکتا ہے۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.