جب معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے ان کی ذہانت و فطانت کی اصلیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ میں کشف اور الہام پر یقین رکھتا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں حالانکہ میں نہیں جانتا کہ میں اس وقت تک ٹھیک ہوں بھی کہ نہیں۔‘
انھوں نے سنہ 1929 میں سیٹرڈے ایوننگ پوسٹ کو بتایا کہ ان جبلتوں کو یکسر مسترد کرنے دینے سے زیادہ ان پر بھروسہ کرنا بہتر ہے کہ بعد میں اس کی جانچ ہو سکتی ہے۔ یہ ماہر طبیعیات اس فلسفے پر بھروسہ کرنے والے واحد شخص نہیں ہیں۔ یہ بظاہر کوکو شنیل کی حکمت عملی کا ایک بڑا حصہ بھی تھا۔ کوکو نے کہا کہ ’ فیشن ہوا میں ہے، یہ ہوا سے جنم لیتا ہے۔ اور کسی کو بھی اس کا احساس ہو جاتا ہے۔‘
آپ خود اس احساس کو پہچان سکتے ہیں۔ چاہے آپ ایک نئے اپارٹمنٹ کی تلاش کر رہے ہوں، کسی ممکنہ نئی نوکری پر غور کر رہے ہوں، یا کسی کی ایمانداری کا اندازہ لگا رہے ہوں، تو آپ کو اندر سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز آپ کے لیے ٹھیک ہے یا غلط ہے حالانکہ آپ کے لیے اس کی وجوہات ناقابل فہم ہوسکتی ہے۔ ایسے میں ہماری اندر کے احساس کو کسی قسم کی پراسرار ’ چھٹی حس ‘ کے طور پر سوچنا پرکشش ہوسکتا ہے، لیکن کشف یا الہام کی وضاحت کے لیے کسی ماورائے معمول سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ماہرینِ نفسیات اور نیورو سائنسدانوں نے اس کے ذرائع اور ہماری زندگی میں اس کے ضروری کردار کی نشان دہی کرنے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ اس کے متعلق ان کی تحقیق نے ان مخصوص حالات کی نشاندہی کی ہے جن میں ہمارے الہام یا کشف یا وجدان کا ہمیں صحیح راستے پر لے جانے کا امکان ہے اور وہ صورت حال بھی جب یہ ہمیں گمراہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں معلومات یا علم وہ چیز ہے جو ہم سب کو بہتر فیصلے کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
جسم میں دماغ
کشف یا وجدان کی سائنسی تفہیم ایک لیبارٹری گیم سے شروع ہوتی ہے جسے ’آئیوا گیمبلنگ ٹاسک‘ کہا جاتا ہے۔ شرکاء کو کمپیوٹر سکرین پر کارڈز کے چار ڈھیر پیش کیے جاتے ہیں۔ ہر بار جب وہ کارڈ کو پلٹتے ہیں، تو انھیں رقم کے لحاظ سے انعام ملتا ہے یا جرمانہ دینا ہوتا ہے۔
ان میں سے دو ڈیکس یا کارڈ کے ڈھیر نسبتاً زیادہ انعامات کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن اس میں بڑے جرمانے بھی شامل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت وہ زیادہ نقصان کا باعث بنیں گے۔ دیگر دو ڈیک نسبتاً چھوٹے انعامات پیش کرتے ہیں لیکن ان میں جرمانے بھی چھوٹے ہیں، یعنی وہ محفوظ انتخاب ہیں۔ شرکاء کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کون سا ڈیک منافع بخش ہو گا، لیکن تقریباً 40 کوششوں کے بعد، بہت سے لوگ میں خیال پیدا ہونے لگتا ہے کون سا ڈیک ان کے لیے زیادہ منافع بخش ہوگا۔
ایسا لگتا ہے کہ شرکاء کے لاشعوری ذہنوں نے نفع و نقصان کے نمونوں کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ وضاحت نہیں کر سکتے کہ وہ یہ فیصلے کیوں کر رہے ہیں، سوائے یہ کہ یہ ان کے ’ اندر کا احساس‘ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کارکردگی میں بہتری اکثر منظم جسمانی تبدیلیوں کی پیروی کرتی ہے جس کی بنا پر شرکاء اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ زیادہ خطرناک ڈیک پر کھیلنا شروع کر دتے ہیں تو وہ زیادہ تر تناؤ کا ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے دل کی دھڑکن میں معمولی تبدیلی اور پسینے آنا وغیرہ۔
ان تبدیلیوں کو ’ سومیٹک مارکرز‘ کہا جاتا ہے اور یہ ایک انتباہ کے طور پر کام کرتی نظر آتی ہیں جو کھیل میں شریک فرد کو غلط فیصلہ کرنے سے روکتی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ انھیں شکار ہونے کا احساس ٹہوکے لگا رہا ہو۔ اس قسم کی وجدان کے بغیر لوگ حقیقی زندگی میں سنگین مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ اعصابی مریض سومیٹک مارکر بنانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
بغیر وجدانی رہنمائی کے جب ان سے انتخاب کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ اکثر ’ تجزیے کے فالج ‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور جب وہ کوئی فیصلہ کرتے ہیں، تو وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں مضمر خطرات انھیں نظر نہیں آتے۔ مثال کے طور پر وہ اپنا سارا پیسہ کسی خراب کاروباری تجویز پر خرچ کر سکتے ہیں بطور خاص ایسے حالات میں جہاں دوسروں کو کمپنی پر اعتماد نہ کرنے کی سخت جبلت ہوتی۔ اس طرح کے مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے وجدان ہماری فیصلہ سازی کے ٹول کٹ کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ماہر آنکھ
وجدان کی اہمیت کے شواہد کے طور پر جھوٹ کا پتہ لگانے کے مطالعے میں اسے سب سے زیادہ مؤثر پایا گیا ہے۔ لوگ کسی کی ایمانداری کا فیصلہ کرنے میں زیادہ درست ہوتے ہیں اگر ان سے ان کی جبلت پر ایسا کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن اگر اس کے مقابلے میں جب ان سے سوچنے اور ان کی وجوہات کو زبانی بیان کرنے کو کہا جائے تو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ دوسرے حالات میں ہمارے وجدان کی طاقت کا انحصار ہمارے تجربات کی حد پر ہوگا۔
لاشعوری دماغ اپنی ذخیرہ شدہ معلومات میں سے ہمارے مسائل کا بہترین جواب تلاش کرتا ہے جبکہ ہم شعوری طور پر ان یادوں کو یاد کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو ان احساسات کو ہوا دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ٹیکساس کی رائس یونیورسٹی کے پروفیسر ایرک ڈین کا تجربہ دیکھے۔ سنہ 2012 میں اْن کی تحقیقی ٹیم نے طلبہ سے کہا کہ وہ متعدد ڈیزائنر ہینڈ بیگز دیکھیں جن میں سے کچھ اصلی تھے اور کچھ اصلی نظر آنے والے جعلی۔ آدھے شرکا سے کہا گیا کہ وہ اپنے اندر کی آواز کو نظرانداز کریں اور وہ باتیں بتائیں جس کی بنا پر وہ ہینڈ بیگ کے اصلی یا نقلی ہونے کا فیصلہ کریں گے۔ باقیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے اندر کی آواز پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
محققین نے شرکا سے ان کی خریداری کی عادات کے بارے میں بھی پوچھا اور یہ کہ کیا اْن کے پاس پہلے سے ڈیزائنر اشیا موجود ہیں۔ وہ شرکا جنھوں نے تجزیاتی حکمتِ عملی اپنائی تھی، اْن کے پچھلے تجربات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا، ان سب نے تقریباً ایک ہی جیسی کارکردگی دکھائی۔ تاہم وہ شرکا جنھیں اپنے اندر کی آواز سننے کے لیے کہا گیا تھا، اْن کے تجربات نے کافی اہم کردار ادا کیا، جس سے ان کے فیصلے بہتر ثابت ہوئے۔ واقعتاً یہ پایا گیا کہ اندر کی آواز پر بھروسہ کرنے والے ماہر افراد نے صرف تجزیے پر بھروسہ کرنے والوں کی بہ نسبت 20 فیصد بہتر کارکردگی دکھائی۔
امریکہ میں جارجیا کی کلیٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ونود ونسنٹ نے سنہ 2021 میں ایک مطالعے کی قیادت کی جس میں شرکاء کو ملازمت کے متعدد درخواست دہندگان کے نمونے کے جوابات پیش کیے گئے اور بہترین آپشن کا انتخاب کرنے کو کہا گیا۔ کچھ کو کہا گیا کہ وہ اپنی جبلت کی پیروی کریں۔ (انھیں بتایا گیا کہ ’ ان کا فیصلہ امیدواروں کے بارے میں ان کے پہلے تاثر پر مبنی ہونا چاہیے‘ ) جبکہ دوسروں سے انھوں نے کہا کہ اس کے لیے وہ غور و فکر، منطق اور تجزیہ استعمال کریں۔ (انھیں بتایا گیا کہ ’ فیصلہ کرنے سے پہلے تمام دستیاب معلومات پر غور سے غور کریں، کسی بھی پہلے تاثرات یا جبلت پر مبنی انتخاب کو نظر انداز کردیں۔‘)
نوکری پر رکھنے کا کوئی تجربہ نہ رکھنے والے انڈر گریجویٹ اپنے وجدان کی بنیاد پر اس بات کا تعین کرنے کے قابل تھے کہ کون سے امیدوار نمایاں ہیں، لیکن دانستہ طور پر جانچ پڑتال کا اطلاق کرنے کے بعد، ہر ایک کے فائدے اور نقصانات کو تول کر جب انھوں نے اپنی وجدان کا استعمال کرنے کی کوشش کی تو وہ عام طور پر کم درست نکلے۔ لیکن ان ماہرین کے معاملے میں یہ درست نہیں تھا جو بھرتی کرنے والوں کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ ان کے پاس بالکل درست جبلتیں تھیں کہ کون سا امیدوار سب سے زیادہ موزوں ہوگا، تمام مختلف معیارات کو مرحلہ وار سوچنے کی ضرورت کے بغیر، ان کے پاس جتنا زیادہ تجربہ تھا، وہ اتنے ہی بہتر تھے۔
ونسنٹ کا کہنا ہے کہ ’ اگر آپ ماہر ہیں، تو آپ کو وہ تمام محاورات معلوم ہوں گے جو امیدوار کو کام میں اچھا بنا سکتے ہیں، چاہے اس کو بیان کرنا مشکل ہو۔‘ ونسنٹ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ لوگوں کی اندر کی آواز کو تجزیاتی سوچ کی جگہ نہیں لینا چاہیے، اور ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ بعض اوقات لاشعوری تعصبات، جیسے کہ نسل پرستی، عمر پرستی، یا جنس پرستی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر، ان کی تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایک ماہر کے بدیہی احساسات معلومات کے اہم ذرائع ہو سکتے ہیں اور فیصلہ سازی کے عمل میں اجھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں
بدیہی فیصلہ سازی کی طاقت خاص طور پر اس وقت اہم ہو سکتی ہے جب پیچیدہ معلومات کی ایک بڑی اور وسیع مقدار پر کارروائی کی جائے جسے درست طریقے سے یاد رکھنا بہت مشکل ہے۔ ان صورتوں میں، ہم اپنے ذہنوں کو کسی اور غیر متعلقہ سرگرمی کی طرف بھٹکنے دینے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جبکہ لاشعوری دماغ ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے اور ہمارے لیے فیصلہ کرتا ہے۔ تجربات کی ایک سیریز میں محققین نے شرکاء کو اپارٹمنٹس کی ایک سیریز کے بارے میں وسیع تفصیلات پیش کیں۔ ان کے اپنے پہلے تاثرات کے بعد، کچھ شرکاء سے کہا گیا کہ وہ اپنا انتخاب کرنے سے پہلے شعوری طور پر مختلف آپشنز پر غور و فکر کریں اور موازنہ کریں۔
باقیوں سے کہا گیا کہ وہ ایناگرامز کی ایک سیریز کو آزمائیں، توجہ بھٹکانے کی ایک کوشش جو شرکاء کو اپارٹمنٹس کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ان کی تجزیاتی پروسیسنگ کو استعمال کرنے سے روکنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ حیران کْن طور پر محققین نے پایا کہ وہ شرکا جنھوں نے اپنے انتخاب کے بارے میں احتیاط سے سوچا تھا اْن کے بارے میں نہایت کم امکان تھا کہ وہ زیادہ پرکشش خصوصیات والا اپارٹمنٹ منتخب کریں گے۔
مختلف آپشنز کا تجزیہ کرنے کی کوششیں اْن کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوئیں جس کے باعث وہ کم پسندیدہ آپشن منتخب کر بیٹھے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جن کی توجہ ایناگرامز نے بھٹکائے رکھی، انھیں اپنی اندر کی آواز پر بھروسہ کرنا پڑا جو کہ زیادہ درست ثابت ہوا۔
جہاں کچھ مطالعوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کبھی کبھی اپنے پہلے تاثر پر فوراً بھروسہ کر سکتے ہیں، وہاں کبھی کبھی کسی دوسری سرگرمی پر توجہ دینے کے باعث اپنے فیصلے میں تاخیر میں بھی فائدہ معلوم ہوتا ہے۔ ماہرِ نفسیات مارلین ابادی کہتی ہیں کہ اس وقفے سے لاشعور کو اپنے سامنے موجود پیچیدہ معلومات کا ایک درست خلاصہ تیار کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کے نتیجے میں اندر کی آواز پر لیے گئے فیصلے مزید درست ثابت ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ رہنمائی اسی طرح کی صورتحال میں بہتر ہو سکتی ہے جب ہم بے پناہ معلومات تلے دب جانے کے بعد اپنے تاثرات بنا رہے ہوں۔ ’ یہ اس وقت کارآمد ہو سکتا ہے جب آپ کو ملتی جلتی خصوصیات والی ایک جیسی پراڈکٹس مثلاً کوئی فون، کمپیوٹر، ٹی وی، صوفہ، فریج، یا اوون خریدنی ہوں۔‘ ایسی چیزیں خریدتے وقت حتمی فیصلہ لینے سے پہلے کافی پینا یا میگزین کے اوراق الٹنا بہتر ہو سکتا ہے۔
ایموشنل انٹیلیجنس
تازہ ترین تحقیقات کے مطابق کسی شخص کی اندرونی آواز کتنی درست ہے، اس کا انحصار اْن کی مجموعی ایموشنل انٹیلی جنس یعنی جذباتی ذہانت پر ہو سکتا ہے۔ اور اپنی ایموشنل انٹیلی جنس (ای آئی) کو بڑھانا سیکھ کر ہم ادراک کی بنا پر فیصلہ لینے کی قوت بڑھا سکتے ہیں۔
ماہرین ای آئی کو سلسلہ وار سوالات کے ذریعے ماپتے ہیں جن میں مثلاً دیگر لوگوں کے چہروں پر موجود تاثرات کو سمجھنے اور حالات کی بنا پر لوگوں کے موڈ میں تبدیلی کی پیشگوئی کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔ واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جیریمی یِپ نے حال ہی میں ایک جوئے کے مقابلے میں لوگوں کی کارکردگی کا اْن کی ایموشنل انٹیلی جنس سے موازنہ کیا ہے۔ جہاں زیادہ تر شرکا میں ’ برے ‘ پتے چننے پر تناؤ کی علامات ظاہر ہوتی ہیں وہیں کم ایموشنل انٹیلی جنس والے افراد اپنے جسم کی علامات کو خود ہی غلط انداز میں لیتے ہیں۔
کم ایموشنل انٹیلی جنس والے کھلاڑیوں کے اندر بظاہر تناؤ والا ردِ عمل انھیں مزید خطرہ مول لینے پر ابھارتا ہے جو بالآخر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ وہ بس اس احساس کو وارننگ تصور کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یِپ کہتے ہیں کہ ’ وہ شاید اپنے جسمانی ردِعمل کو جوش سمجھتے ہیں اسی لیے زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں۔‘
خوش قسمتی سے ایموشنل انٹیلی جنس کی ٹریننگ کرنا ممکن ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ایریزونا میں پروفیسر اینا الکوزی نے حال ہی میں ایک ایسا آن لاین کورس بنایا ہے جو لوگوں کو اس بارے میں محتاط انداز میں سوچنے کی تربیت دیتا ہے کہ مختلف جذبات کو کیسے لیا جا سکتا ہے اور جسمانی تحرک جیسے احساس کیسے فیصلہ سازی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
تین ہفتوں تک ہر ہفتے دو سیشنز کے بعد الکوزی کے شرکا نے ایموشنل انٹیلی جنس کے ٹیسٹ میں کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے نتیجے میں وہ جوئے کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا سکے۔ اس کے بجائے وہ شرکا جنھوں نے ماحولیات پر ایک آن لائن کورس لیا تھا، وہ ایسی بہتری نہیں دکھا سکے۔
اگر آپ اپنے اندر کی آواز کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو پہلے اپنے عمومی جذبات کو سمجھنا چاہیے، کہ آپ کیا محسوس کر رہے ہیں اور ان احساسات کا ذریعہ کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ زیادہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ کیا آپ کو حقیقی سگنل مل رہا ہے یا نہیں۔
آپ کے اندر کا احساس کبھی بھی فول پروف نہیں ہو گا لیکن مشق اسے ایک اہم رہنما بنا سکتی ہے۔ ( بشکریہ بی بی سی )
The post زیادہ سوچنے کے بجائے کبھی دل کی سننا بھی مفید ہو سکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.