تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اورآج وہی قوم ترقی کرتی ہے جس کے افراد زیور علم سے آراستہ ہوتے ہیں ۔
ترقی یافتہ ملکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے جس بھی ملک میں تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے اس قدر ہی وہ ملک ترقی یافتہ ہوتا ہے اور جو ممالک پسماندہ ہیں وہاں تعلیم کا فقدان ہے اور وہاں کے رہنے والے لوگ غیر مہذب ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ بغیر علم کے انسان خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا اور نہ ہی دنیا کا کوئی بھی کام صحیح طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔
دوسروں کی ہمدردی، غمگساری اور نفع و نقصان کے احساس کا جذبہ قوموں کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جو قومیں اس جذبہ سے عاری ہوتی ہیں ، صعوبتیں ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہتی ہیں ۔
ان مشکلات میں سرفہرست بچوں کی ناقص تعلیم ہے جس کی بہتری کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ سابقہ ادوار حکومت میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے یونیورسٹیاں قائم کرنے کی طرف بھرپور توجہ دی گئی جو کہ بہت اچھا اقدام تھا ، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ بھی کیا گیا کہ وہ کالجز جو پہلے ہی اعلیٰ تعلیم کے شعبے قائم کر چکے تھے انھیں بھی یونیورسٹی کا درجہ دیدیا گیا جس سے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات میں اضافہ ہوا مگر اس کے ساتھ ساتھ بعض تعلیمی ادارے جنھیں کچھ شعبوں میں تخصص حاصل تھا ان کا معیار بلند ہونے کی بجائے متاثر ہوا کیونکہ وہاں بھی دوسری یونیورسٹیوں کی طرح جنرل ایجوکیشن کے شعبے کھول دیئے گئے ، یوں وہاں نئے شعبے تو قائم ہو گئے مگر بعض شعبوں کی اعلٰی تعلیم میں انھیں جو تخصص حاصل تھا اس کا معیار پہلے جیسا نہ رہا ۔ ایسے تعلیمی اداروں کو ان کے خاص شعبوں میں ہی اعلیٰ تعلیم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
وطن عزیز لاہور میں ایک عظیم ادارہ ہوم اکنامکس کالج ہے جس کی بنیاد 1955 میں رکھی گئی تھی اس عظیم ادارے کی ترقی کے لیے فاطمہ جناح ، بیگم رانا لیاقت علی خان اور امریکہ کی خاتون اول نے دن رات کام کیا ۔
ہوم اکنامکس کالج نے اپنے قیام کے کم ہی عرصے کے بعد اپنا وہ مقام پیدا کر لیا تھا جو کہ کم ہی کالج پیدا کر سکتے ہیں ۔ ہوم اکنامکس کالج لاہور نے 1955 سے 2017 تک اس ملک میں بہترین ماہر خواتین کو پیدا کیا ہے ۔ سابق دور حکومت میں کچھ کالجوں کو یونیورسٹیاں بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو 2017 میں ہوم اکنامکس کالج کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے کالج اپنی مدتوں کی شہرت کھو بیٹھا کیونکہ ہوم اکنامکس کالج اپنے مضامین اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک منفرد اور علیحدہ شناخت رکھنے والا انتہائی معیاری اور اعلی درجے کا تعلیمی ادارہ تھا۔
اس کالج کو یونیورسٹی بنانے کی قطعی ضرورت نہیں تھی لیکن اگر کالج کو یونیورسٹی بنانا ہی تھا تو پھر ہوم اکنامکس کے نئے مضامین، ڈگری پروگرام اور کورسز شروع کر سکتے تھے جن سے ہماری خواتین خوب فائدہ اٹھا سکتی تھیں ۔
ہوم اکنامکس کالج جیسے ادارے مدتوں بعد وجود میں آتے ہیں۔ کالج آف ہوم اکنامکس لاہور کو یونیورسٹی میں اپ گریڈیشن کا معاملہ شاید اس بات کی تائید کرتا ہے کہ ہوم اکنامکس کے شعبہ کو بکھیر کر جنرل یونیورسٹی کا روپ دینا ہی اصل ترقی ہے ۔ مگر ترقی کا یہ شارٹ دنیا کے دیگر ممالک کیوں نہیں اپنایا گیا؟ ہارورڈ بزنس سکول ، ڈونٹی سکول ، لاء سکول ابھی تک ہارورڈ یونیورسٹی کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں ۔ وہ بھی الگ الگ یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو کر progressive کیوں نہیں کہلاتے ۔ آخر ان کو یہ حق نہیں؟
لاہور کے علاوہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک (جاپان ، امریکہ، آسٹریلیا ) نے ہوم اکنامکس کے شعبہ کو پروان چڑھانے کے لئے اس کو الگ یونیورسٹی بنانے کے بجائے اصل معیاری تعلیم پر توجہ دی ہے۔ اس شعبے کو مدنظر رکھتے ہوئے سلیبس اپ گریڈ کیے ہیں ۔ شاید وہاں ’اعلیٰ تعلیم کے مواقع‘ کے بجائے ’ تعلیم کے اعلیٰ مواقع‘ پر توجہ دینے کا رواج ہو ۔ ان کا جو بھی طریقہ کار ہے بحرحال اس سے ہوم اکنامکس شعبے میں بہتری آئے گی۔
’’ترقی کے نام پر پہلے سے موجود تعلیمی ورثے کو ختم نہیں کرنا چاہیے‘‘
پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی
وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور
’’سال 2002 میں جب گورنمٹ کالج کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ، اس سے قبل ہی یہاں یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا ، ہمارے لیے چنداں مختلف بات نہ تھی کہ یونیورسٹی بن کر کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔
اس کے برعکس ہمارے لیے باعث فخر تھا کہ اب جب کہ دیگر سرکاری کالجز ، یونیورسٹی کا درجہ پا کر ایک سنگ میل عبور کر رہے ہیں ، ہمارا ادارہ یہ خدمات پہلے سے سرانجام دے رہا تھا ۔
ادارہ ہٰذا کا یہ منفرد ورثہ رہا ہے کہ شائد ہی کوئی یونیورسٹی ہو جو کالج (انٹر) سطح کی تعلیم بھی دیتی ہو ۔
یونیورسٹی کا کام محض ڈگری نہیں بلکہ “ریسرچ ” کے میدان میں بھی طلباء کو بہترین ماحول فراہم کرنا ہے۔ جامعہ کا درجہ حاصل کرتے ہی یہ اہم ذمّہ داری ہم پر بھی آن پڑی جس کو ہم نے بخوبی قبول کیا ۔ اس سلسلے میں “آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن ” وجود میں آیا جس نے ہمارے لیے اس کام کو آسان کر دیا ۔
سال رواں ، ہمارے ادارے کو کالج سے یونیورسٹی بنے ہوئے تیس سال مکمّل ہوئے، لہٰذا ہم نے خود احتسابی، ذمّہ داریوں اور ان کی تکمیل کی چھان بین کا فیصلہ کیا ‘‘۔
ادارے میں موجود “ہوم اکنامکس کالج ” جو خواتین کیلئے گھریلو معاشیات اور دیگر اہم ہنر سیکھنے کی اہم جگہ ہے ، اس کو ایک علیحدہ یونیورسٹی بنانے سے متعلق وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ ہوم اکنامکس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا اچھی بات ہے کسی ایک شعبہ کی بہتری کے لئے اس کو ترقی دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے اندر موجود تعلیمی ورثے کا مکمّل طور پر صفایا کر دیا جائے، گھریلو معاشیات کا شعبہ ایک طویل عرصے سے خدمات انجام دے رہا تھا ، اس کی بہتری کیلئے، بغیر ورثے کو ختم کئے، شعبے کو آزاد جامعہ کا درجہ دے دیا گیا، جو کہ ایک قابل تعریف قدم ہے۔‘‘
’’بغیر وسائل فراہم کئے کسی بھی ادارے کو اپ گریڈ کیا جائےتو بجائے ترقی کے اپنی سابقہ حیثیت بھی کھو بیٹھتا ہے‘‘
پروفیسر ڈاکٹر شاہد سرویا ، سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب ہائرایجوکیشن کمیشن, وائس چانسلر لیڈز یونیورسٹی
“عام طور پر پنجاب حکومت جس بھی ادارے کو اپ گریڈ کرتی ہے اس کے پس منظر میں مقاصد و محرکات زیادہ تر سیاسی ہوتے ہیں، کیوں کہ ایک رکن اسمبلی اس لیے بھی ادارے کو اپ گریڈ کرنے کیلئے کوششیں کرتا ہے تا کہ اس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں، سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے اس عمل کے اصول و ضوابط کو نظر انداز کر کے فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ اساتذہ ، عملے اور سہولتیں کتنی درکار ہیں اس کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بغیر وسائل فراہم کئے جب کسی ادارے کو اپ گریڈ کیا جاتا ہے تو وہ بجائے ترقی کرنے کے، اپنی سابقہ حیثیت بھی کھو بیٹھتا ہے ۔ نا صرف ادارہ بلکہ طلباء کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر لاہور میں کچھ ایسے کالجز ہیں جن کو اپ گریڈ کر کے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تو وہ اس پائے کی یونیورسٹی نہیں بن پائے ، لہٰذا ابھی بھی اساتذہ اور سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ کسی بھی ادارے کی اپ گریڈیشن کرنے کا فیصلہ سیاسی نہیں بلکہ انتظامی ہونا چاہئے جس میں تمام فکر انگیز طبقات کی آراء شامل ہوں۔ اور اگر ہم مغرب کی بات کریں تو امریکا میں کالجز کو عام طور پر اپ گریڈ کرنے کے بجائے کالج ہی رہنے دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کالج کا درجہ ڈگری فراہم کرنے تک اعلیٰ ہے، لہٰذا چودہ سال کی تعلیم مکمّل کرنے کے بعد جو طالب علم جاب کرنا چاہے وہ آزاد ہے جب کہ جو مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے وہ ایک بہترین میعار کے مطابق یونیورسٹی میں منتقل ہو جاتا ہے۔کالجز اور یونیورسٹیاں وہاں پر اپنا اپنا کام سرانجام دے رہی ہیں، عام طور پر کالج ہی اس میعار کی تعلیم فراہم کر دیتا ہے کہ مارکیٹ میں داخل ہونے کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔‘‘
بطور ڈی جی HEC پنجاب اپنے تجربے کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا:
“جب ایک وزیر کسی ادارے کو اپ گریڈ کروا لیتا ہے، دور حکومت تبدیل ہوتے ہی اس عمل کو نظر انداز کردیا جاتا ، اور دوسرا پروجیکٹ شروع کردیا جاتا ہے ۔ اس حرکت سے صریح نقصان صرف اس تعلیمی ادارے کا ہوتا ہے جس کو اپ گریڈ کیا گیا تھا۔سیاسی طور پر لیے گئے ایسے بہت سے فیصلوں میں وسائل اور پیسے کا ضیاع کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان فیصلوں کو مکمّل تعلیمی و انتظامی طور پر ہونا چاہئے تا کہ جن علاقوں میں یونیورسٹی کی ضرورت ہے وہاں قائم ہوں، اور ایک پروجیکٹ کی منظوری کے ساتھ اس کو درکار وسائل بھی منظور کروائے جائیں، وگرنہ ان اداروں میں تعلیمی میعار گرتا ہی رہے گا جیسے جنوبی پنجاب کی بیشتر یونیورسٹیوں میں ہم دیکھتے ہیں۔”
’’ نامناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس مزید ترقی کرنے کے بجائے ایک عام سی (جنرل یونیورسٹی ) بننے کی جانب گامزن ہے
ڈاکٹر ناہید انور ، نائب صدر ایلومینائی کالج آف ہوم اکنامکس لاہور
’’ ہوم اکنامکس ایک جدید سائنسی مضمون ہے جس کی اپنی الگ پہچان اور اہمیت ہے۔ یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس کے وجود میں آنے سے قبل کالج آف ہوم اکنامکس سے کئی نامور خواتین نے اپنی تعلیم مختلف شعبوں میں مکمل کی اور آج کل ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی خدمات بخوبی اور خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہیں ۔
ہوم اکنامکس کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے 2017 میں اس معروف کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا ۔ بدقسمتی سے نامناسب منصوبہ بندی کی وجہ سے یونیورسٹی مزید ترقی کے بجائے ایک عام سی (جنرل) یونیورسٹی بننے کی جانب گامزن ہے ۔ اس وقت وہاں پچیس ڈیپارٹمنٹس اور متعدد ڈگری پروگرام موجود ہیں ، جیسا کہ نوٹیفکیشن نمبر 2112 کے تحت سنڈیکیٹ نے اس کے پانچویں اجلاس میں منظوری دی ہے ۔
ایک نوٹیفکیشن نمبر 2104 کے مطابق سنڈیکیٹ نے یونیورسٹی کو ہوم اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کالج قائم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ۔ مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین اور طلبا کی یہ رائے اور موقف ہے کہ نیا کالج قائم کرنے کے بجائے ، اس ادارے کو اس کی سابقہ حیثیت گورنمنٹ کالج آف ہوم اکنامکس پر واپس آنا چاہئے۔ اس سے قیمتی وسائل کی بچت ہوگی اور ہوم اکنامکس کالج خاص طور پر ہوم اکنامکس کی تعلیم کی توجہ کا مرکز بننے کے لیے موثر ثابت ہوگا جس کو آج کل کے دور میں پوری دنیا میں بھرپور اہمیت دی جا رہی ہے ۔
’’تعلیمی اداروں کی اپ گریڈیشن کرتے ہوئے مروجہ اصولوں اور ناگزیر عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے ‘‘
سلمان عابد ، معروف تجزیہ نگار اور ماہر تعلیم
” اگر ہم دیکھیں تو بنیادی طور پر کالجز کو یونیورسٹی میں اپ گریڈ کر کے ان کے درجہ میں بہتری کرنا ، خوش آئند بات ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایسی بہت سے پالیسیاں متعارف کروائی گئیں جن کے تحت بہت سی یونیورسٹیاں وجود میں آئیں ۔ تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کرنے کیلئے دو اصولوں پر عمل لازم ہے،
اول یہ کہ ایک ادارے کی افرادی قوت ، تعلیمی معیار ، قابل و ہونہار اساتذہ ، ریسرچ کی قابلیت رکھنے والے لوگ اور سہولیات کس قدر مؤثر ہیں؟
دوم کیا یہ محض ڈگری کی تقسیم کا کاروبار تو نہیں ؟
کسی بھی ادارے کو اپ گریڈ کرنے سے قبل ان عوامل کا تعین لازم ہے کہ افرادی قوت ، معیار اور نتیجہ خیز سوچ بھی گویا اس ادارے کے اندر پائی جاتی ہے یا نہیں ۔ ماضی میں بہت سے اداروں کی اپ گریڈیشن کی گئی جس کے نتیجے میں کچھ ادارے بالکل ہی ڈگری بانٹنے کی جگہ بن کر رہ گئے کیوں کہ ان کے درجہ کو آگے بڑھانے سے قبل اصولوں اور ناگزیر عوامل کو نظر انداز کیا گیا ، جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کا ترقی کرنا ابھی بھی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے۔
The post اپ گریڈیشن درست، مگر تخصص کے حامل ادارے بھی ضروری ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.