Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
جن کو معلوم نہیں پاس ِ ادب کیا شے ہے
سب کو سمجھانے چلے نام و نسب کیا شے ہے
ہنس بھی لیتا ہے وہ جب دیکھے ہمیں سر بسجود
رب سے ہم پوچھ بھی لیتے ہیں کہ رب کیا شے ہے
کتنی ترتیب سے الٹا ہے نظام ِ ہستی
بے سبب کچھ بھی نہیں ہے تو سبب کیا شے ہے
کان دھرتے ہی نہیں اجنبی آوازوں پر
ہم بتائیں بھی تو کیا سازِ طرب کیا شے ہے
خواب،امید، ترا قرب، تمنائے سفر
یہ ہے آغاز تو منزل کی طلب کیا شے ہے
حسنِ ہر ذرہ میں ہم دیکھیں جہانِ حیرت
ہائے وہ لوگ جو کہتے ہیں عجب کیا شے ہے
وار آیا ہے جو پیاس اپنی انا پر جاذبؔ
وہی جانے کہ یہ اک جرعۂ لب کیا شے ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
نمود ِ صبحِ منور میں جان پڑ گئی ہے
کھلی وہ آنکھ تو منظر میں جان پڑ گئی ہے
ہمارا دل بھی دھڑکنے پہ ہو گیا مائل
تمہارے چھونے سے پتھر میں جان پڑ گئی ہے
وہ در کھلا تو گلی میں ہجوم بڑھنے لگا
کمک پہنچتے ہی لشکر میں جان پڑ گئی ہے
بحسبِ چشم سبھی نے وہ حسن جذب کیا
فنا ہوئے کئی،اکثر میں جان پڑ گئی ہے
خدا کے ہونے کی اتنی دلیل بھی ہے بہت
کہ ایک خاک کے پیکر میں جان پڑ گئی ہے
(نثار محمود تاثیر۔میانوالی)

۔۔۔
غزل
اپنے ہاتھوں سے ہی سنوار مجھے
کوزہ گر چاک سے اتار مجھے
اے مصور بنا شبیہ اُس کی
اور پھر اُس پہ کر نثار مجھے
تُو نے یہ کیا کِیا ہے بخیہ گر
کر دیا اور تار تار مجھے
میں کہیں ہوں بھی یا نہیں شاید
بزمِ امکاں سے آپکار مجھے
عجز کے خانداں سے ہوں اظہر
لوگ کہتے ہیں خاکسار مجھے
(محمد اظہر۔ گنڈہ پور ،ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
اتنی آسانی سے تدبیر نہیں ہو سکتی
وحشتِ دل کبھی زنجیر نہیں ہو سکتی
آپ محکوم ہیں حاجات کے اپنی جب تک
آپ کے ہاتھ میں شمشیر نہیں ہو سکتی
سوچیے دل پہ وہ کس طور سے گزری ہو گی
داستاں جو کبھی تحریر نہیں ہو سکتی
جتنے رانجھوں کو میسر ہیں مواقع اتنی
کوئی آزاد کبھی ہیر نہیں ہو سکتی
دولت و دانش و حکمت بھی رہیں گے محکوم
جب محبت ہی جہانگیر نہیں ہو سکتی
عنبرین ؔآ گے ہم وقت سے پہلے شاید
اس قدر ان کو تو تاخیر نہیں ہو سکتی
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
پوچھو ہو میرا حال کیاغم کہ سوا ہے اور کچھ
بزم جنوں اُلٹ گئی اب تو بپا ہے اور کچھ
مجھ پہ کھلا ہے ساراشہر،ایک وہ در نہیں کھلا
جس پہ وہ در نہیں کھلا، اس پہ کھلا ہے اور کچھ
موجِ ہوا کو دیکھ کر دل تو مچل مچل گیا
مجھ کو ملالِ بے پری ہونے لگا ہے اور کچھ
گاہ میں آئینہ ہی تھا اب توغبارِ عکس ہوں
میں تو غبارِ عکس ہوں،چہرہ نما ہے اور کچھ
میں نے کواڑ کھول کر دھوپ کو راستہ دیا
دھوپ کو راستہ ملا، مجھ کوملا ہے اور کچھ
کارِ وفا و مہر میں نفع بھی اب خسارا ہے
شہرِ تعلقات کی آب و ہواہے اور کچھ
راتوں کوجاگ جاگ کردیکھا تھا میں نے خواب اور
دیکھا تھا میں نے خواب اورآنکھوں پہ وا ہے اور کچھ
(خورشیدربانی۔ڈی آئی خان)

۔۔۔
 ’’کچلی ہوئی خوشی‘‘
تو مفت بھی مل جائے اگر، اس سے مجھے کیا
میں نے تو بچھڑ جانے کا دکھ جانِ تمنا
کیا تجھ کو خبر کتنی اذیت سے سہا ہے
آراستہ کپڑے، میری مہندی،مرا کاجل
تکتے ہوئے راہیں تری بوسیدہ ہوئی ہیں
تو نے تو نظر بھر کے بھی دیکھا نہیں لیکن
برسوں ترے جانے کا مجھے رنج رہا ہے
اس سے جو مری روح کا نقصان ہوا ہے
اب اس کی تلافی کبھی ہو ہی نہیں سکتی
کچلی ہوئی خوشیوں کے جنازے بھلے پڑھ لے
برسوں بھلے اس کرب کے تاوان کو ڈھوئے
دل کھول کے روئے
(حنا عنبرین۔لیہ)

۔۔۔
غزل
کیا بتاؤں میں کہاں شام و سحر کرتا رہا
جیسے ممکن تھا ترے بعد سفر کرتا رہا
اس حویلی کی خموشی سے یہی لگتا ہے
کوئی گھٹ گھٹ کے یہاں عمر بسر کرتا رہا
کمسنی میری کہاں اور کہاں شعر و سخن
کام مشکل تھا مرے یار مگر کرتا رہا
اس کی فطرت ہے تمنا ہے کہ مجبوری ہے
پھول ہو کر بھی جو کانٹوں میں بسر کرتا رہا
خوب کی اس نے ہواؤں کی حمایت لیکن
میں بھی ظلمت میں چراغوں کو امر کرتا رہا
عین ممکن ہے کہ پھٹ جائیں بدن کی پرتیں
ہجر سینے میں یونہی شور اگر کرتا رہا
آ گیا اس کو تکلم کا سلیقہ ساحلؔ
رات بھر بات مرے ساتھ شجر کرتا رہا
(ارسلان ساحل، ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
ہم ایسے لوگ ہمیشہ امید رکھتے ہیں
کچھ اس لیے بھی غموں کو خرید رکھتے ہیں
تمہارے شہر میں آنے سے ہم پہ راز کھلا
پرانے لوگ بھی لہجہ جدید رکھتے ہیں
ہم ایسے عشق کو مرشد بنائے پھرتے ہیں
ذہین لوگ تو اِس کو مرید رکھتے ہیں
زمانے کو ہے زمانے کی سب خبر جاناں!
زمانے والے زمانے پہ دید رکھتے ہیں
نئے بھی زخم ہیں لیکن یہ درد ناک نہیں
پرانے زخم علالت شدید رکھتے ہیں
وہ کیسے مان لیا جائے جو زمانہ کہے
ہم ایسے لوگ خدا بھی بعید رکھتے ہیں
بلا کے ہیں وہ منافق، حسینی ہو کر جو
غزلؔ جو اپنی صفوں میں یزید رکھتے ہیں
(مزمل حسین انقلابی، بوسال منڈی۔ بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
آیاتِ محبت کی تلاوت نہیں کرتے
لگتا ہے یہاں لوگ عبادت نہیں کرتے
یہ قید سکھا دیتی ہے آدابِ محبت
پنجرے میں پرندے بھی شرارت نہیں کرتے
انجامِ وفا سوچ کیاقرار کرو تم
آغاز میں سب لوگ سیاست نہیں کرتے
اب وہ بھی کسی بات پہ نالاں نہیں ہوتے
اب ہم بھی کسی بات پہ حیرت نہیں کرتے
بازار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرح ہم
اتنا ہے کہ جذبوں کی تجارت نہیں کرتے
یہ سوچ کے اس در پہ پڑا رہتا ہوں عادس
دیوانے کبھی دشت سے ہجرت نہیں کرتے
(امجد عادس۔آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل
مرے اندر یہ پھوٹی روشنی کیا
دکھائی دے رہا ہے اور ہی کیا
میں سمجھی تھی مجھے تم بھول بیٹھے
تمہیں میں یاد ہوں نا واقعی کیا
زمانہ میری جانب دیکھتا تھا
زمانے کی طرف میں دیکھتی کیا
جو اب خاموش ہو کس خوف سے ہو
یہ تم نے بے زبانی اوڑھ لی کیا
کسی نے ہاتھ آگے کردیا تھا
میں اس پل دیکھتی کیا سوچتی کیا
نہیں بھرتا نہ بھرنے کا ہو شاید
بہت گہرا ہے زخم ِآگہی کیا
بدلتے جا رہے ہیں سارے رشتے
تعلق تھا سبھی کا واجبی کیا
بکھرتے ٹوٹتے جاتے ہیں کوزے
ہے مٹی چاک پر اب بھربھری کیا
کہاں تک رائیگانی کا یہ رونا
یہاں پر ہے کوئی شے دائمی کیا
( جاناں ملک۔راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
ہماری آنکھ میں پانی نہیں ہے
یہ صحرائی ہے بارانی نہیں ہے
یہاں جینا ذرا دشوار ہو گا
یہاں مرنے کی آسانی نہیں ہے
اگر اس کا کوئی ثانی نہیں ہے
تو پھر یہ کم پریشانی نہیں ہے
ہمیں آرام آتا بھی تو کیسے
ہماری چوٹ جسمانی نہیں ہے
نہیں ممکن مرا آباد ہونا
کہ ویرانی سی ویرانی نہیں ہے
تجھے سن کر پریشانی تو ہو گی
مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے
ہماری خاک کو وہ خاک سمجھے
عزیز اس نے اگر چھانی نہیں ہے
(ارشد عزیز۔ فیصل آباد)

۔۔۔
’’سوچ‘‘
دل میں اک در کھلا ہے سوچوں کا
اور اک سلسلہ ہے سوچوں کا
چل رہا ہے سفر یہ سوچوں کا
کس طرح لوگ رخ بدلتے ہیں
اور پھر مصلحت سے چلتے ہیں
سوچ کر دل ہے میرا حیراں سا
سب یہ منظر بدل گیا اب تو
جو تھے سب ہم قدم نہیں ہیں اب
اور یہ مرحلہ ہے سوچوں کا
سب سے امید نہ رکھے کوئی
کچھ ہی ہیں جو ہمیں سمجھتے ہیں
کس کو کتنی ہے آپ کی چاہت
ہے اہم مرحلہ یہ سوچوں کا
جب بھی ملتے ہیں پھول جیسے ہیں
اور پرکھوں تو خار جیسے ہیں
مجھ کو تو صرف یہ سمجھنا تھا
پہلے کھل جاتا در یہ سوچوں کا
جب بھی دنیا کو جاننا چاہا
لوگوں کو اپنا ماننا چاہا
پھر ہوا یوں کے سارے راز کھلے
لوگ تو ہیں سبھی بہت مصروف
بس مری ذات ہے میری اپنی
سب ہے بے کار جو بھی سوچوں میں
کوئی بھی ساتھ شامل غم ہو
بس یہی مرحلہ ہے خاص بہت
اور یہی مرحلہ ہے سوچوں کا
اک یہی سلسلہ ہے دردوں کا
دل میں اک در کھلا ہے سوچوں کا
اور بس دور تک ہے پھیلا ہوا
سلسلہ درد کا میرے اندر
اور یہ در کھلا ہے سوچوں کا
(تسنیم مرزا۔ کراچی)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>