صلح حدیبیہ کو ابھی مشکل سے ایک سال، دس ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ مکے کے سیاسی افق پر فتنہ و فساد کی گھٹا چھانے لگی۔ یہودیوں کی لگاتار عبرت ناک شکست نے قریش کی ہمت پست کر دی اور انھیں اپنی بالادستی خطرے میں نظر آنے لگی۔
معاہدۂ حدیبیہ کے باعث وہ کھل کر عہد شکنی کرنے سے خوف زدہ تھے، لیکن حسد کے باعث درپردہ سازشوں سے باز نہ آتے تھے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے در پے رہتے تھے۔
معاہدۂ حدیبیہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو قبیلہ آنحضرتؐ کے عہد و پیماں میں داخل ہونا چاہے، ہو سکتا ہے اور جو قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ اس طرح جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا اس فریق کا حصہ سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسا کوئی قبیلہ اگر کسی حملے یا زیادتی کا شکار ہوگا تو یہ خود اس فریق پر حملہ اور زیادتی تصور کی جائے گی۔ اس شرط کے مطابق بنو خزاعہ رسول اکرمؐ کے ساتھ عہد و پیماں میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کے ساتھ معاہد ہوئے۔
بنو خزاعہ مکے کے قرب و جوار میں آباد تھے اور عہد قدیم میں بیت اللہ کے متولی بھی رہ چکے تھے اس منصب کے باعث ان کی قریش سے لڑائی بھی ہو چکی تھی۔ ایک دن بنوبکر کے ایک شخص نے رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخی کی، جو وہاں پر موجود بنو خزاعہ کے ایک فرد سے برداشت نہ ہوئی۔
اس نے اس شخص کا سر پھاڑ دیا جس پر بنو بکر کا شخص فریاد کرتا ہوا اپنی ہی ایک شاخ بنو نغاثہ کے پاس پہنچا۔ بنو نغاثہ کے لوگوں نے بنو خزاعہ کے لوگوں کو جب وہ وتیرہ نامی چشمے پر جمع تھے قتل کرنا شروع کر دیا۔ بیس افراد قتل ہوئے بنو خزاعہ کے لوگوں نے مار دھاڑ سے تنگ آ کر حرم کعبہ میں پناہ لی مگر انھیں وہاں بھی نہ چھوڑا گیا۔ حتیٰ کہ قریش کے وہ لوگ جن کے معاہدۂ حدیبیہ پر دستخط تھے اس قتل و غارت گری میں شامل ہوگئے۔
قتل و غارت گری کی فریاد لے کر بنو خزاعہ کے لوگ رسول اکرمؐ کے پاس پہنچے اور ایک درد ناک قصیدے کے ذریعے اپنی مظلومیت کی داستان بیان کی۔ رسول اکرمؐ نے قریش اور بنوبکر کی بدعہدی اور معاہدے کی خلاف ورزی پر افسوس کا اظہار کیا اور بنو خزاعہ کو داد رسی کی یقین دہانی کراتے ہوئے قریش کے پاس قاصد بھیجا کہ وہ خون بہا ادا کریں یا بنی بکر کی حمایت چھوڑ دیں یا اعلان کر دیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
یہ شرطیں سن کر قریش کی جانب سے قرظہ بن عمر نے کہا ’’ہم کو تیسری شرط منظور ہے۔‘‘ لیکن رسول اکرمؐ کے قاصد کے واپس ہونے کے بعد قریش کو ندامت ہوئی۔ انھوں نے فوراً ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ دوڑایا۔ لیکن رسول اکرمؐ کا پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا تھا۔ آپؐ معاہدے کی تجدید نہ فرمائی۔ ابو سفیان کے واپس جانے کے بعد آپؐ نے تطہیر حرم کی تیاریاں شروع کردیں اور 10 رمضان 8ہجری کو دس ہزار فوج کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے۔
رازداری کی غرض سے رسول اکرمؐ نے شروع ماہ رمضان میں حضرت ابو فتادہؓ کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک لشکر نجد بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا۔ مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والا سمجھے کہ آپ اسی علاقے کا رخ کریں گے اور یہی خبریں اِدھر اُدھر پھیلیں۔ لیکن یہ لشکر جب اپنے مقام پر پہنچا تو اسے خبر ملی کہ رسول اکرمؐ مکہ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔
چناں چہ یہ لشکر بھی آپؐ سے جا ملا۔ حجفہ کے قریب آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ مسلمان ہو کر اپنے بال بچوں کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے تشریف لا رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر رسول اکرمؐ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا میں آخر الانبیا ہوں اور آپ آخر المہاجرین۔ حضرت عباسؓ لشکر اسلام میں شامل ہوگئے اور کنبے کو مدینہ روانہ فرما دیا۔ رسول اکرمؐ نے اپنا سفر جاری رکھااور کدید سے ہوتے ہوئے شام نامی چشمے پر پہنچے۔
یہاں آپؐ نے اور صحابہؓ نے روزہ توڑ دیا اور پانی سے روزہ افطار کیا۔ اس کے بعد بھی آپؐ نے سفر جاری رکھا اور رات کے ابتدائی اوقات میں مکہ سے دس میل کے فاصلے پر مرالظہران (موجودہ وادی فاطمہ) پر نزول فرمایا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مسافران حرم آخری پڑاؤ ڈالتے تھے۔ یہاں نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہر مجاہد اپنا الاؤ الگ روشن کرے تاکہ اپنی اصل تعداد سے کئی گنا زیادہ نظر آئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ویرانے میں ایک شہر بس گیا۔
اچانک اور بے خبری میں مکہ والوں کے سر پر پہنچ جانے سے رسول اکرمؐ بے حد خوش تھے۔ صحابہؓ کے استفسار پر آپؐ نے فرمایا آج میرے لیے سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ وہ زمین جو ابھی تک ناپاک عزائم کی آماج گاہ ہے اب کفر و ظلمت کی ناپاکی سے نکل کر پاک ترین ہونے والی ہے۔
چرواہوں اور گوالوں کے ذریعے اہل مکہ کو اس عظیم لشکر کی آمد کی اطلاع ملی۔ انھوں نے تحقیقات کے لیے ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا کو بھیجا۔ ابو سفیان پر حضرت عباسؓ کی نظر پڑ گئی وہ اس کے پرانے رفیق تھے۔ اس کی جان بچانے کے لیے اس کو رسول اکرمؐ کی خدمت میں لے آئے اس کی جان بخشی کرائی۔ حضرت عباسؓ کے سمجھانے پر ابو سفیان نے کلمۂ توحید پڑھا اور وہ سر جو غرور سے خدا کے سامنے بھی نہ جھکتا تھا، آستانۂ نبوی پر خم ہو گیا۔
اسی صبح منگل 17 رمضان 8 ہجری کو اسلامی لشکر مرالظہران سے مکہ کی طرف بڑھا۔ ہر قبیلے کا دستہ الگ الگ تھا۔ آنحضرتؐ نے ابو سفیان کو افواج الٰہی کا نظارہ کرانے کے لیے ایک بلند مقام پر بھیج دیا تاکہ وہ اسلامی لشکر کے جاہ و جلال کا نظارہ کرسکیں اور ان کے دل میں مسلمانوں کی ہیبت بیٹھ جائے اور وہ اہل مکہ کو سمجھائے کہ وہ خون خرابے کے بغیر ہتھیار ڈال دیں۔
لشکر نبوی کی منظر کشی یوں ہوسکتی ہے نہ تو نوشیرواں کا تخت رواں تھا نہ قیصر کا تاج و سریر، نہ چنور نہ مورچھل، نہ عصا بردار، نہ صدائے نقیب گوش بر آواز۔ لیکن عظمت و شوکت و جلال کا یہ حال تھا کہ تخت سلیمانی بھی دیکھ لے تو پاؤں چومے۔ تاج دارائی آگے ہو تو سر پر قربان ہو جائے۔ بوٹا بوٹا پتا پتا سر بہ گریباں تھا۔ ہوائیں ادبا رک رک کر چلتی تھیں۔ پہاڑ جھک کر کھڑے تھے۔ ابو سفیان کی نگاہیں آپ ہی آپ قدم بوس ہوگئیں جب کوکبۂ نبوی، ابو سفیان کے قریب آیا تو عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کا حکم دے دیا ہے، فرمایا ’’نہیں، آج کا دن لطف و کرم، عطا و بخشش کا دن ہے۔
کعبۃ اللہ کی رفعت و عظمت کا دن ہے۔ عفو و درگزر کا دن ہے۔ قریش کے اعزاز و منزلت کا دن ہے۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘ ابو سفیان نے عرض کیا، آپ نیکو کاروں کے سردار، رحم کرنے والوں کے سرتاج ہیں۔ میں قرابت داری کے وسیلے سے لطف و عافیت کا امیدوار ہوں۔
جب رسول اکرمؐ کا لشکر آگے بڑھ گیا تو ابو سفیان تیزی سے مکہ پہنچے اور نہایت بلند آواز سے پکارا۔ ’’قریش کے لوگو! یہ محمدؐ ہیں۔ تمہارے پاس اتنا بڑا لشکر جرار لے کر آئے ہیں جس کے مقابلے کی تم میں تاب نہیں۔ لہٰذا آج جو میرے گھر میں داخل ہو جائے اسے امان ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا تمہارے گھر میں کتنے لوگ سما سکیں گے۔ اعلان کیا جو حرمِ کعبہ میں پناہ لے لے، اسے امان ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اسے بھی امان ہے اور جو ہتھیار پھینک دے وہ بھی قتل ہونے سے بچ جائے گا۔‘‘
مکے کے چند اشرار جن میں عکرمہ بن ابو جہل، مقیس جماش بن قیس، سہیل بن عمر اور صفوان بن امیہ شامل تھے، لڑے بغیر مسلمانوں کے مکے میں داخل ہونے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ انھوں نے ابو سفیان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور مقابلے کے لیے مورچے سنبھالنے لگے۔
مکہ کا نشیبی علاقہ مسلم دشمن عناصر سے بھرا پڑا تھا۔ اسے اسلام دشمن سرپھروں نے اپنا مرکز بنالیا۔ حضرت عباسؓ نے جب ان کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھے تو رسول اکرمؐ سے عرض کیا کہ مکہ میں داخلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے، تاکہ رہی سہی مخالفت دم توڑ جائے۔ حکم ہوا لشکر رک جائے اس کی نئے سرے سے ترتیب ہوگی۔
ذی طویٰ میں آپؐ نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی۔ خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا اور حکم دیا کہ وہ مکے کے زیریں حصے سے داخل ہوں۔ اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے، تو اسے کاٹ کر رکھ دیں۔ یہاں تک کہ صفا پر آپؐ سے آ ملیں۔ حضرت زبیر بن عوامؓ بائیں پہلو پر تھے۔
ان کے ساتھ رسول اکرمؐ کا علم تھا۔ آپؐ نے انھیں حکم دیا کہ مکے میں بالائی حصے یعنی کداء سے داخل ہوں اور جحون میں آپ کا جھنڈا نصب کرکے آپؐ کی آمد تک وہیں ٹھہریں۔ یہاں تک کہ مکے میں رسول اکرمؐ کے آگے اتریں۔ ان ہدایات کے بعد تمام دستے اپنے اپنے مقررہ راستوں پر چل پڑے۔ حضرت خالدؓ اور ان کے رفقا کی راہ میں جو مشرک بھی آیا اسے مٹا دیا گیا۔ البتہ ان کے رفقا میں سے کر زبن جابر فہریؓ اور خفیس بن خالد بن ربیعہؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ خندمہ پہنچ کر حضرت خالدؓ اور ان کے رفقا کی مڈبھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی۔ معمولی سی جھڑپ میں بارہ مشرک مارے گئے۔
اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ مکے کے گلی کوچوں سے فاتحانہ انداز میں گزرتے ہوئے کوہ صفا پر رسول اکرمؐ سے جا ملے۔ ادھر حضرت زبیر بن عوامؓ نے آگے بڑھ کر مسجد فتح کے پاس رسول اکرمؐ کا جھنڈا گاڑا اور قبہ نصب کیا۔ پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اکرمؐ تشریف لے آئے۔ آج جمعہ 20 رمضان 8 ہجری /11 جنوری 630 ء کا مبارک دن تھا۔
اس کے بعد رسول اکرمؐ اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر بیت اللہ میں انصار و مہاجرین کے جلو میں تشریف لائے اور آگے بڑھ کر حجر اسود کو چوما، پھر بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ سارا مکہ نعرۂ تکبیر سے گونج رہا تھا۔
اس وقت آپؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی، آپؐ بیت اللہ کے اطراف نصب شدہ بتوں کی جانب اس کمان سے اشارہ کرتے اور فرماتے جاتے ’’جاء الحق و زحق الباطل، ان الباطل کان زھوقا‘‘ (حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے کے لیے ہے) تکمیل طواف کے بعد آپؐ نے حضرت عثمان بن طلحہ کو بلا کر ان سے کعبہ کی کنجی لی۔ پھر آپؐ کے حکم سے خانہ کعبہ کھولا گیا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ چابی لے کر اپنے دست مبارک سے کعبے کا تالا کھولا۔ اندر داخل ہوئے تو تصویریں نظر آئیں، جو آپؐ کے حکم سے ہٹا دی گئیں۔
اس کے بعد آپؐ نے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ حضرت اسامہؓ اور حضرت بلالؓ بھی اندر ہی تھے۔ پھر دروازے کے مقابل کی دیوار کا رخ کیا۔ جب دیوار سے صرف تین ہاتھ کے فاصلے پر رہ گئے تو وہیں نماز پڑھی۔ اس کے بعد بیت اللہ کے اندرونی حصے کا چکر لگایا تمام گوشوں میں تکبیر اور توحید کے کلمات کہے۔ پھر دروازہ کھول دیا۔ سامنے قریش مسجد حرام میں صیغیں لگائے کھچا کھچ بھرے تھے۔
آپؐ نے انھیں یوں مخاطب فرمایا۔ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کا اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔ سنو! بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارے اعزاز یا کمال یا خون میرے قدموں کے نیچے ہیں۔ اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیا۔ سارے لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔‘‘
اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا، ’’قریش کے لوگو! تمھارا کیا خیال ہے، میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ انھوں نے کہا آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے فرزند ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا، تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں، جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔
آج تم پر کوئی سرزند نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ صرف چند اشتہاری مجرموں کے علاوہ سب کو امان دی، ان ظالموں اور جابروں نے جب جان کی امان کا مژدہ سنا، تو آپ ہی آپ ان کے دل مسخر ہونے لگے اور وہ جوق در جوق بیعت کے لیے آگے بڑھے۔ نماز کا وقت آیا، تو حضرت بلالؓ نے بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دی۔ فتح کے روز تمام مسلمان رسول اکرمؐ کے ساتھ عشا سے فجر تک خانہ کعبہ میں تکبیر و تسبیح، تمحید و تہلیل اور طواف کعبہ میں مصروف رہے۔ دوسرے دن آپؐ نے پھر اہل مکہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا، جن میں نو مسلموں کی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔
فتح مکہ کی تکمیل کے بعد آپؐ نے صفا پر بیٹھ کر لوگوں سے بیعت لینی شروع کی۔ حضرت عمر فاروقؓ آپؐ سے نیچے تھے اور لوگوں سے عہد و پیماں لے رہے تھے۔ مردوں کے بعد آپؐ نے صفا پر ہی عورتوں سے بیعت لی۔ اس کے بعد مکہ میں اعلان کیا گیا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص اپنے گھر میں کوئی بت نہ رکھے۔ مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعد گرد و نواح کے اصنام، عزیٰ اور منات بھی منہدم کر دیے گئے۔ مکہ میں رسول اکرمؐ نے انیس روس قیام کیا اور پھر مدینہ لوٹ گئے۔
یہ ہے وہ غزہ فتح مکہ، وہ فیصلہ کن معرکہ اور فتح عظیم جس نے بت پرستی کی قوت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔ اس فتح کے بعد پورے جزیرہ عرب کے سیاسی اور دینی افق پر مسلمانوں کا سورج چمکنے لگا۔ اب دینی سربراہی اور دنیوی قیادت کی دوڑ ان کے ہاتھ آگئی۔
مکہ عرب کا تجارتی، سیاسی اور مذہبی مرکز تھا۔ اس پر مسلمانوں کا قبضہ، اسلام کی بہت بڑی کام یابی تھی۔ اب عرب قبائل قریش کے بہ جائے مسلمانوں کو عرب کی سب سے بڑی سیاسی و مذہبی جماعت سمجھنے لگے۔ کفار مکہ کے دلوں پر مسلمانوں کے عفو عام اور فیاضی و کردار کا بہت گہرا اثر پڑا۔ وہ اپنے کیے پر نادم تھے اور اب جوق در جوق آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے۔
فتح مکہ کے بعد رسول اکرمؐ کو تسلی کے ساتھ دین اسلام کی اشاعت کا موقعہ ملا چنانچہ آپؐ نے مختلف ممالک میں خطوط روانہ کیے اور آپؐ کی دعوت چار دانگِ عالم میں پھیلنے لگی۔
The post فتح مکہ؛ اسلام کے عالمی نظام کی نوید appeared first on ایکسپریس اردو.