غزل
ہجر سے دشت کو آباد نہیں رکھوں گا
عشق میں قیس کو استاد نہیں رکھوں گا
دوسری بار اگر بھیجا گیا دنیا میں
آنکھ اور سوچ کو آزاد نہیں رکھوں گا
خود سے رشتہ ہے مرا صرف ترے ہونے تک
یہ تعلق بھی ترے بعد نہیں رکھوں گا
تیری دہلیز بھی چوموں گا تو خود داری سے
ہونٹ رکھتے ہوئے فریاد نہیں رکھوں گا
تجھ کو چاہوں گا ترے سارے پرستاروں سمیت
وہم پر عشق کی بنیاد نہیں رکھوں گا
(علی شیران۔ شور کوٹ، جھنگ)
۔۔۔
غزل
یہاں خوشبو جو پہنچائی گئی ہے
ہوا پر لاد کر لائی گئی ہے
تخیل بھی کہاں پہنچا کسی کا
جہاں تک میری بینائی گئی ہے
یہ حق پر سر کٹانے کی خرابی
مرے پرکھوں میں بھی پائی گئی ہے
فقط پازیب کا تحفہ نہ سمجھو
اُسے زنجیر پہنائی گئی ہے
تعلق اور بھی کتنے ہیں اُس سے
سو کیا ہے جو شناسائی گئی ہے
ہمارے کان کی گٹھڑی میں اک بات
امانت کرکے رکھوائی گئی ہے
رہی ہے راہ میں زور آوری دیکھ
ہمیشہ پار دانائی گئی ہے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
آیاتِ محبت کی تلاوت نہیں کرتے
لگتا ہے یہاں لوگ عبادت نہیں کرتے
یہ قید سکھا دیتی ہے آدابِ محبت
پنجرے میں پرندے بھی شرارت نہیں کرتے
اب وہ بھی کسی بات پہ نالاں نہیں ہوتے
اب ہم بھی کسی بات پہ حیرت نہیں کرتے
بازار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرح ہم
اتنا ہے کہ جذبوں کی تجارت نہیں کرتے
یہ سوچ کے اس در پہ پڑا رہتا ہوں عادسؔ
دیوانے کبھی دشت سے ہجرت نہیں کرتے
(امجد عادس۔ راولا کوٹ، آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
زندان کے حصار سے دھوکا نہیں کیا
زنجیر کی کڑی کو دریچہ نہیں کیا
پلکوں کے درمیان سے جاری ہے آبشار
آنکھوں کی سلسبیل کو صحرا نہیں کیا
سانسوں کے مول ہم نے خریدی تھیں چوڑیاں
تم نے انھیں اتار کے اچھا نہیں کیا
اس دل فگار جنس کی قیمت بہشت ہے
دنیا میں اپنی ذات کا سودا نہیں کیا
اُڑ جائے جو وجود کے خستہ مکان سے
ایسا کوئی خیال پرندہ نہیں کیا
ا ک گل بدن کے ریشمی پیکر کو چھوڑ کر
غیروں کے مال پر کبھی قبضہ نہیں کیا
ہم نے ترے مکان پہ تالے لگا دیے
دل کو تمام شہر کا رستہ نہیں کیا
(عمران راہب۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
اچھا خواب دکھایا تم نے خواب دکھانے والوں میں
ایسی بات کہاں ہوتی تھی اس سے پہلے والوں میں
دروازے پر تالا ہو تو پھر بھی دستک دے دینا
نام تو شامل ہوجائے گا دستک دینے والوں میں
جو بھی شخص برا لگتا ہے صاف برا کہہ دیتے ہیں
یہ بھی اچھی بات ہے تجھ کو اچھا کہنے والوں میں
سرگوشی بھی کرنی ہو تو زور سے کرنا پڑتی ہے
کس نے آن بٹھایا مجھ کو اونچا سننے والوں میں
جتنے آنسو بہہ جاتے ہیں روزانہ اس دھرتی پر
دریا دوسرے نمبر پر آئے گا بہنے والوں میں
آدھے لوگ یہیں سے اپنے گھر کو واپس لوٹیں گے
آگے کی باتیں پہنچی ہیں پیچھے آنے والوں میں
(امن شہزادی ۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
تُو نہیں ہے تو کوئی بات نہیں
آج کل میں بھی اپنے ساتھ نہیں
کھارا پانی ہے میٹھی آنکھوں میں
واقعہ ہے یہ واردات نہیں
جب وہ روٹھا تھا میں نے جاتے وقت
پاؤں پکڑے تھے اس کے ہاتھ نہیں
مجھ کو پاگل نہ جان حکمت جان
دل سمجھ دل، تُو نفسیات نہیں
اس کی آنکھوں میں بس رہا ہوں ابھی
مجھ پہ تھوڑی یہ کائنات نہیں
چاہتا کون ہے وہ بات کرے
دیکھ لیتا ہے تھوڑی بات نہیں
میں مزاجاً بگڑ گیا کاتبؔ
اب طبعیت میں کچھ ثبات نہیں
(سجاد کاتب۔ دریا خان)
۔۔۔
غزل
ہماری دوستی کو رائیگانی کی ضرورت ہے
بچھڑ جانا ہی اب شاید کہانی کی ضرورت ہے
تمہاری آنکھ جو سیراب کر سکتی ہے راتوں کو
عجب دریا ہے جس کو خود بھی پانی کی ضرورت ہے
اگر یہ مستقل رک جائے گی تو کیا کرو گے تم
میاں یہ سانس ہے اس کو روانی کی ضرورت ہے
چلو تسلیم کرتے ہیں محبت لفظ ہے لیکن
تمھارے لفظ کو تازہ معانی کی ضرورت ہے
کہیں تو نوجواں سوچوں پہ بھی طاری ہے رعشہ سا
کہیں بوڑھے تخیل کو جوانی کی ضرورت ہے
(جی اے نجم۔لاہور)
۔۔۔
غزل
پل میں ہی ذات پر اتر آئے
لوگ اوقات پر اتر آئے
اس نے غلطی سے چھو لیا شاید
ہم ہی خدشات پر اتر آئے
بات کیا کر لی ہنس کے پھر ان سے
وہ سوالات پر اتر آئے
کوئی جب بولتا ہے نیزے پر
عشق آیات پر اتر آئے
وہ اگر خواب میں بھی آ جائے
دل ملاقات پر اتر آئے
پاؤں غربت نے کیا رکھا گھر میں
وہ مسافات پر اتر آئے
یاد آتے ہو جب کبھی امجدؔ
آنکھ برسات پر اتر آئے
(امجد خان تجوانہ ۔بورے والا )
۔۔۔
غزل
یہ اشک آنکھ میں اس بات کی علامت ہے
کہ عشق دل کے کسی کونے میں سلامت ہے
سیاہ بادلوں میں یہ گھرا ہوا امبر
کسی بہت بڑے طوفان کی علامت ہے
چلا گیا تھا مجھے چھوڑ کر جو ٹھکرا کر
وہ اپنی غلطی پہ اب کر رہا ملامت ہے
عدو نے زور لگایا تھا ایڑی چوٹی کا
بچا لیا تجھے مالک نے تو سلامت ہے
میں تیرے دام میں ہرجائی پھنس گیا کیسے
کہ آج تک مجھے اس بات کی ملامت ہے
کسی بھی بات پہ پورا نہیں یہ اتریں گے
منافقین کی راحل یہی علامت ہے
(علی راحل۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
وضاحت کوئی بھی تاخیر کی ہوتی نہیں تھی
کڑی سے جو ملاتے وہ کڑی ہوتی نہیں تھی
مجھے ہر حق سے یوں محروم رکھا جا رہا تھا
کہ میرے خواب کی تعبیر بھی ہوتی نہیں تھی
وہ ہر اک روپ میں مجھ کو میسر آ رہا تھا
مگر جو میری حسرت میں کمی ہوتی نہیں تھی
ضرورت سے زیادہ رابطہ رہنے لگا تھا
تبھی تو بات میں بھی چاشنی ہوتی نہیں تھی
بھلانے کی اسے شیراز ، دل سے کوئی صورت
نہیں ہوتی تھی ہرگز کوئی بھی ہوتی نہیں تھی
(محمد شیراز غفور ۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
سدا ساتھی وہ جیون کے جو میرے ہمسفر نکلے
بکھرتا دیکھ کر مجھ کو ادھر نکلے ادھر نکلے
اسے دل میں بسایا زندگی بھر کے لیے میں نے
مگر میری تو ہستی کے یہ لمحے مختصر نکلے
مجھے تیری جدائی کے مرض نے اس طرح گھیرا
جہاں بھر کی دواؤں کے اثر بھی بے اثر نکلے
ہمیں یہ بے گھری گھر کی طرح معلوم ہوتی ہے
تری زلفوں میں ہم جو ڈھونڈنے اپنا نگر نکلے
جلا کر خط محبت کے جہاں تک بس چلا ان کا
زمانے کے مظالم سب وہ مجھ پر کر گزر نکلے
اسے شاید غریبوں پر ذرا سا ترس آ جائے
گدائی کا لبادہ اوڑھ ہم شام و سحر نکلے
نہ کر برباد مستقبل تمہیں وہ چھوڑ جائے گی
نجومی کے بتائے سب حوالے معتبر نکلے
میں قسمت کے ستاروں کا گلہ کیسے کروں حامیؔ
مری ناؤ کا ہر سو سامنا کرنے بھنور نکلے
( نعمان حیدر حامی۔ ضلع بھکر)
۔۔۔
غزل
حق پسندی سے مرے دوست کا سر جاتا ہے
جھوٹ بولوں تو تکلم سے اثر جاتا ہے
کیسے دوراہے پہ لے آئے ہیں حالات مجھے
جنگ سے باز بھی رہتا ہوں تو سر جاتا ہے
یوں تری یاد نے دم توڑ دیا ہے مجھ میں
جس طرح بھوک سے لڑتے کوئی مر جاتا ہے
اب مجھے روز بھکاری نہیں بننا پڑتا
کوئی چندہ مری دہلیز پہ دھر جاتا ہے
حسن کا زور کہاں چلتا ہے زر کے آگے
صاحبِ حسن لیے، صاحبِ زر جاتا ہے
اس لیے چھوڑ دی ہے کوزہ گری یاروں نے
ٹھیک بن جانے پہ بھی دستِ ہنر جاتا ہے
بس یہی میں ہوں، یہی کچھ ہے کہانی میری
اک مسافر ہے جو رستے پہ اتر جاتا ہے
ہم نے بھی چھوڑ دی آوارگی حماد میاں
وہ بھی اب وقت پہ اسکول سے گھر جاتا ہے
(حماد زیف۔ چکوال)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.