رزق حلا ل سے سحری و افطاری اور افطار پاٹیاں
رمضان المبارک کی برکات سے زندگیاں کیسے بدل جاتی ہیں ان سچے واقعات سے پتہ چلتا ہے ۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے بیورو کریٹ ایک ایسی سیٹ پر فائز تھے کہ جہاں مال و دولت اور تحائف کی بھرمار تھی ۔ اگر چہ وہ جی آر او میں ایک عالیشان سرکاری رہا ئش گاہ میں رہتے تھے مگر انھوں نے لا ہور کے ایک پوش علاقے میں بھی دوکوٹھیاں تعمیر کروا کے کرائے پر دی ہوئی تھیں، ویسے پانچ وقت کے نمازی تھے، روزے اہتمام سے رکھتے تھے، ایک مرتبہ شعبان میں ان کے پاس ایک صاحب کسی جائز کام کے سلسلے میں حاضر ہوئے جو کہ ان کے اپنے محکمے کے کسی رشوت خور افسر کی وجہ سے انکار ہوا تھا ، انھوں نے فوراً انکا کام کروا دیا ۔
اُن صاحب نے بیوروکریٹ کا شکریہ ادا کیا اور جاتے ہوئے صرف اتنا کیا کہ ’’ روزہ رکھنے کیلئے سحری اور افطاری کیلئے رزقِ حلال اوّلین شرط ہے اور کسی کو سحری اور افطاری بھی ناجائزکمائی میں سے نہیں کروانی چاہیے، اس کا وبال ناجائز کمائی سے سحری وافطاری کرانے والے کے سر پر ہو گا‘‘ یہ کہہ کر وہ صاحب رخصت ہو گئے ۔ مگر ان کی بات نے بیوروکریٹ کے دماغ میں ایک بھونچال پیدا کر دیا ۔ انھوں نے اپنے گھر میں سختی کے ساتھ کہہ دیا کہ گھر کا سارا سودا سلف اور ضروریات زندگی ان کی تنحواہ میں سے لائی جائیں ۔
اس دفعہ انھیں روزے رکھنے کا خاص سرور حاصل ہوا، حسب معمول افطاریاں بھی کرائی گئیں مگر تنخواہ کے پیسوں میں سے ، انھوں نے مسئلہ پڑھا کہ رمضان میں اگر نیکی کا اجّر ستر گناہ زیادہ ملے گا تو گناہ کی سزاء بھی کئی گنا ملے گی ، انھوں نے رشوت لینے سے توبہ کی اور لوگوں کے جائز کام بغیر لالچ کے کرنے شروع کر دئیے، عید الفطر کے بعد بھی ان کا یہی طریقہ رہا۔
انھوں نے حساب لگایا کہ پوری ملازمت میں انھوں نے کتنی رشوت لی ہو گی ، پھر اپنی کوٹھیاں اور دوسری املاک فروخت کر کے ساری رقم ایک فلاحی ادارے کو دیدی ۔ آ گے چل کر ز ندگی ان کے لئے بہت مشکل ہوئی مگر انھیں کسی چیز کا قلق نہ تھا بلکہ ایک خاص اطمینان ان کے چہرے پر نظر آ تا تھا ۔
کہتے تھے کہ ’’ اگر اللہ کے احکامات پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو دائمی خوشی، سکون اور اطمینان کے دروازے کھل جاتے ہیں‘‘ ۔ رمضان کے مبارک ماہ نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا ’’دنیا وی لذت کا اثر لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے مگر روحانی لذت کا احساس ہر لمحہ ہوتا ہے، جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے چہرے پر ایک خاص قسم کا نور تھا اور فضا میں بھی ایک خاص قسم کا تقدس قائم تھا۔
رمضان سے پہلے روٹھے ہوؤں کا منانا
لاہور ہی کے ایک متمول تاجر بوجہ اپنے کئی رشتہ داروں سے ناراض تھے، کئی سال پہلے ماہ رمضان میں انھوں نے ایک ٹی وی چینل میں ایک عالم ِ دین کا یہ بیاں سُنا کہ ’’رمضان کی تیاریاں بہت اہتمام سے کرنی چاہئیں، رمضان سے پہلے ہی تمام گناہوں کی معافی مانگ لی جائے، تہیہ کر لیا جائے کہ ماہ رمضان اور بعد میں بھی کسی قسم کا گناہ نہیں کریں گے ، جو رشتہ دار اور دوست احباب آ پ سے ناراض ہیں انھیں منا لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ قرابت داری جوڑنے کا حکم دیتا ہے۔
قرابت داری توڑنے والے کو پسند نہیں فر ماتا‘‘ یہ بیان سُن کر انھوں نے ماہ رمضان اور روزوں کی فرضیت کے متعلق کچھ دینی کُتب خرید کران کا مطالعہ کیا، تو انھیں علم ہوا کہ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں کہ جیسے پہلی اُمتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پر ہیز گار بن جاؤ‘‘ انھیں یہ بھی علم ہوا کہ رمضان سے پہلے ہی گناہوں سے تائب ہونا بھی ضروری ہے اور اُن سے بچنے کا عہد بھی ضروری ہے وگرنہ روزہ صرف فاقہ ہو گا ، رمضان کے بعد بھی پر ہیز گاری شرط ہے۔
روزے کے احکامات بھی تقریباً حج جیسے ہی ہیںکہ رمضان سے پہلے روٹھوں ہوؤں کو منانا ، پرہیز گار رہنا اور رمضان کے بعد بھی قائم رہنا ، اور رمضان سے پہلے گناہوں سے تو بہ کرنا ۔ اگر روزے کی روح کو سمجھ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ ماہ رمضان میں نہ صرف تما م گناہ معاف کر دیتا ہے بلکہ نیکیوں کا بھی بے پناہ اجرّ عطا فرماتا ہے ۔
وہ تاجر اپنے تمام ناراض رشتہ داروں کے پاس گیا اُن سے اپنی غلطی، زیادتی کی معافی مانگی اوراُ ن سب کو پہلے روزے پر ہی افطاری کی دعوت دی ، جب یکم رمضان کو افطاری کے موقع پر ان کے رشتہ دارموجود تھے تو انھیں دلی سکون و اطمینان محسوس ہو ا۔ پھر پرہیزگاری اور نماز کی پابندی انکی زندگی کا ایک حصہ بن گئی، ہوس زر ختم ہو گئی۔
رفاعی کاموں میں اپنی دولت استعمال کرنے لگے، جائیدادیں بنانے سے دل اُچاٹ ہو گیا، کہتے تھے کہ ’’ جنت میں عالیشان محل تعمیر کروا رہا ہوں کہ جہاں ہمیشہ رہنا ہے ‘‘جب انھوں نے روٹھوں ہوؤں کو منایا تو ان کے اہل خانہ کی زندگیوں میں ایک خاص قسم کا اطمینان پیدا ہو گیا ، ان کے بچوں کے بڑی اچھی جگہ پر رشتے ہوئے اور ان کے کئی رُکے ہوئے کام خودبخود حل ہو گئے ۔
اللہ کے مہمانوں کی افطاری
لاہور کے ایک شہری ایک نئی آ بادی میں رہا ئش پذیر ہیں ، ان کی رہائش گاہ میں پورے ماہ رمضان میں افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ، افطاری کے دوسرے لوازمات بھی شاندار ہو تے ہیں کھانے میں بریانی ، مٹن قورمہ روٹی اور نان وغیرہو تے ہیں ، انکی کوٹھی کے لان میں کیٹرنگ کا شاندار انتظام کیا جاتا ہے۔ مگر افطاری میں آنے والے سب مہمان غریب اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے روزہ دار ہوتے ہیں۔ وہ روزہ داروں کی پلیٹوں میں خود افطاری اور کھانے کا سامان ڈالتے جاتے ہیں۔
جب اُن سے پو چھا گیا کہ اس افطاری میں ان کے اپنے رشتہ دار اور دوست احباب نظر نہیں آتے، کہنے لگے ’’ اُن سب کو پورے مہینوں دعوت اور افطار دیتا ہوں مگر یہ سب متمول افراد ہیں وہ مفلوک الحال افراد کے ساتھ افطاری کرنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں کبھی کبھار کوئی آ بھی جاتا ہے۔
مگر اُن لوگوں کی اپنی مصروفیات ، اور اپنے ہی معاملات ہوتے ہیں ، اُن میں بہت ہی کم روزہ رکھتے ہیں انھیں افطاری کی دعوت دیں تو انکے نخرے آ سمان پر ہوتے ہیں ، میں قرابت داری قائم رکھنے کیلئے مدعو کرتا ہوں اگر وہ آتے بھی ہیںتو ایسا احسان کرتے ہیں کہ انسان شرمندہ ہی ہو جاتا ہے کہ اتنے مصروف بندوں کو بُلوا کر ان کا اِتنا نقصان کیوں کیا ۔
میرے گھر آ نے والے یہ روزہ دار میرے نہیں اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، یہاں وہ اپنے اُس رزق سے افطار ی کرتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ نے لِکھا ہی انکے لئے ہے ۔ ان لوگوں کی مہمانداری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی لازوال نعمتوں سے نواز ا ہوا ہے ۔ روزہ رکھنے کا جتنا ثواب انھیں مِلتا ہے افطاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اتنا ہی ثواب میرے نامہ اعمال میں لکھ دے گا ، انشااللہ ‘‘ اگر انکی زندگی کا بغور نظر جائزہ لیا جائے تو فوراً احساس ہو تا ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی دائمی رحمتیں ، برکات اور نعمتیں حاصل ہیں ، انکا کبھی نقصان نہیں ہوا، کہتے ہیں کہ ’’ ان افراد کے دل سے نِکلی ہوئی دعائیں ہی میرا اصل اثاثہ ہے ، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آ مین۔
قرآن مجید کا تر جمہ پڑھنا اور سمجھنا
لاہور کے ایک شہری کا بچپن سے ہی خاص قسم کا طریقہ کار ہے کہ وہ مسجد میں نماز عشاء اور تراویح پڑھ کر جیسے ہی گھر آتے ہیں تو جتنا قرآن پا ک تراویح میں پڑھا جا تا ہے وہ حصہ ترجمہ کے ساتھ گھر آ کر با آ واز ِ بلند پڑ ھتے ہیں ، سب گھر والے یہ ترجمہ اور تفسیر سُنتے ہیں اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب کو رب العزت کے احکامات کا بخوبی علم بھی ہو جاتا ہے اور انھیں اس بات کا بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن پرکیا فرائض ہے اور اس ماہ مبارکہ میں اس کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ وقت بھی مقبول عبادت میں شمار ہوتا ہے انکے تما م اہل خانہ صوم و صلواۃ اور شریعت کے پا بند ہیں۔
انکی زندگیاں قرآن و سنت کے تا بع ہیں اور وہ ہر لمحہ دونوں جہانوں میں کا میابیوں کیلئے دعاگو رہتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ قرآن فہمی اور دین فہم نہایت ضروری ہے اور دین کا علم و شعور حاصل کرنا بھی اشد ضروری ہے ۔ چونکہ قرآن ِحکیم ماہ رمضان میں اُ تارا گیا ہے لہذا اگر یہ ماہ قرآن وحدیث اور سنت کو سمجھنے کیلئے وقف کر دیا جائے تو شریعت کے مطابق زندگی گزار نا آسان ہو جائے گی ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم ہی بے بسوں ، محتاجوں اور ضرورتمندوں پر مال خرچ کرنے کا دیا ہے۔
مال جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مال جمع کرنے والے عموماً غُرور اور تکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے ، غرور اور تکبر بھی شرک کی ایک قسم ہے، آ پ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنی ذاتی صلاحیت اور ذہا نت کا کمال سمجھتے ہیں ، نماز اللہ تعالیٰ کے سامنے عجزو نیاز کا طریقہ اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہے۔ وراثت میں بیٹیوں کو حصہ دینا فرض ہے۔ سود سے بچنا ضروری ہے۔ حلال و حرام کی تمیز ضروری ہے ۔ جو کام رمضان میں منع ہے باقی مہینوں میں بھی منع ہیں۔
اللہ کا مہمان آ یا ہے
با با عبدالحمید لاہور کے ایک محلہ میں رہتا ہے ۔ محلہ میں بچوں کے کھلونوں کی چھوٹی سی دکان ہے، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ، دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے ، بیٹا اور چھوٹی بیٹی زیر تعلیم ہیں ، گھر کرائے کا ہے ، بابا عبدالحمید عہد جوانی سے ہی رمضان المبارک کی تیاریاں پوار سال کرتا ہے ، رمضان کی آ مد سے پہلے ہی گھر کو صاف ستھرا کیا جاتا ہے اگر جیب اجازت دے تو نیا رنگ و روغن کروایا جاتا ہے۔
نماز پڑ ھنے کیلئے ایک مقام مخصوص کیا جاتا ہے ، انکے گھر ایک خاص قسم کا تقدس ماحول نظر آ تا ہے ۔ انکا کہنا ہے ، ’’رمضان اللہ کا خاص مہینہ ہے اسکا نا م اللہ تعالیٰ نے خود رکھا ہے ، ر مضان کی معنیٰ ہیں ’’ جلا دینا ‘‘ اللہ تعالیٰ صدق دل سے اس ماہ کا احترام کرنے والے اور جذبہ ایمانی سے روزے رکھنے والوں کے تمام گناہ جلا دیتا ہے یعنی معاف فرما دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ روزہ میرے لئے ہے ، میں خود اسکا اجّر دوں گا ‘‘ اور ’’روزے دار کے منہُ کی بُو مجھے مُشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے ‘‘۔ جنت کا ایک دروازہ صرف روزے داروں کیلئے مخصوص ہے۔
روزے دار کو دوخوشیاں حاصل ہو نگی ایک اُس وقت جب افطاری کا وقت ہو تا ہے اوردوسری اس وقت جب اللہ تعالیٰ روزِ قیامت روزہ دار کو خصوصی انعام واکرام سے نوازے گا ، اس مبارک ماہ کی آخری پانچ طاق راتوں میں لیلۃ القدر آتی ہے جس میں عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، اس ماہ ہر نیکی کا اجّر ستر گُنا ہے اور فرض نما زوں کا اجّر ستر گنا سے زیادہ ہے ، اس ماہ اللہ کی رحمتیں ، نعمتیں اور نُور روز داروں پر برس رہا ہوتا ہے ، عید الفطر روزہ داروں کی ’’اجّرت ‘ ‘ یعنی انعام دینے کا دن ہے ‘‘ بابا جی کا کہنا ہے ’’ وہ انسان انتہائی بد قسمت ہو تا ہے کہ جسے یہ مبارک ماہ نصیب ہوا ور وہ غفلت میں پڑا رہے ، اپنی بخشش نہ کرا سکے ، اللہ کی رحمتوں کا حقدار نہ بن سکے‘‘ ۔
بابا عبدالحمید اس پورے ماہِ رمضان روزمرہ کے کاموں کے علاوہ عبادت وبندگی میں مصروف رہتے ہیں ، حتیٰ الامکان دوسروں کی مدد کرتے ہیں ، روزہ کھلنے کے وقت کھجوریں اور پا نی لیکر گھر کے باہر کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہ گیر روزہ داروں کا روزہ کھلواتے ہیں ۔ نما تراویح کے بعد صرف دوڈھائی گھنٹے سوتے ہیں اور عبادات میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔کہتے ہیں ’’ میرے گھر اللہ کا مہمان یعنی مبارک رمضان آ یا ہے مجھے اس مبا رک ماہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی ہے تا کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خوش ہو جائے ‘‘۔
ماہ رمضان میں ذخیر اندوزی اور چور بازاری کر نے والے کا انجام
لاہور کے ایک علاقے شاہ عالمی کا ایک تاجر کئی دکانوں کا مالک ہونے کے باوجود ہوسِ زر میں اس قدر مبتلا ہے کہ وہ پورا سال ماہ رمضان کیلئے ذخیرہ اندوزی کرتا رہتا ہے اور ماہ رمضان میں خوب منافع کماتا ہے وہ ایسی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ، جو رمضان المبارک میں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں ، وہ دولت تو کما لیتا ہے مگر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دوچار ہے۔
اسکی دوکانوں میں مختلف اوقات میں آ گ لگ چکی ہے ، بیوی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے ، ایک بیٹی بیوہ ہو چکی ہے ایک بیٹی کو طلاق ہو چکی ہے بیٹا نشے اور غیر عورتوں کی لّت میں مبتلا ہے ، خود تاجر ایک خطر ناک بیماری سے دوچار ہے ، یہ دنیا وی عذاب ہے ابھی آ خرت کا عذاب انتظار کر رہا ہے ۔
روزے کا مطلب اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پا نا ہے
روزوں کی فرضیت کی اصل روح اور فلسفہ ہی یہ ہے کہ انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پائے ، عیش وعشرت کی زندگی ترک کر دے ، اللہ تعالیٰ کے اُن تمام احکامات پر عمل کرے جو قرآن حکیم ، احادیث اور سنت سے واضح ہیں ، یہ تزکیہ ِ نفس کا مہینہ ہے تما م منفی خیالات ترک کر دینے کا مہینہ ہے اور اپنے ہر عمل میں تقویٰ وپرہیزگاری اور پاکیزگی پیدا کرنے کا مقدس ماہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ، اپنے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ تاکہ ربّ کائنات زیادہ سے زیادہ اجّروجزاء سے نوازے ۔ آ مین ثم آ مین!!!
The post رمضان المبارک کی برکات appeared first on ایکسپریس اردو.