ملک کی پارلیمانی تاریخ میں تیسری بار وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی پیش کی گئی ہے جس پر کل اتوار کے روز ووٹنگ ہونا ہے۔
اس سے قبل ملکی تاریخ میں دو وزرائے اعظم کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں مرتبہ یہ تحریک ناکام ہوئی۔ لیکن اس مرتبہ پیش ہونے والی تحریک عد م اعتماد کی ماضی میں پیش ہونے والی ایسی تحاریک سے کوئی موافقت نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کی عمران خان حکومت کے خلاف جان توڑ جد وجہد سے لے کر تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے اور اس کے بعد آج دن تک اس سارے معاملے میں مسلس ایسے ڈرامائی موڑ آتے رہے ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے اہم رہنما مالیاتی بے ضابطگیوں کے بھاری مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور کسی بھی صورت کوئی ایسا راستہ نہیں مل پایا جو جنرل پرویز مشرف کی طرز پر ان مقدمات کے خاتمے پر منتج ہو پاتا۔ ملک کے عوام میں بھی یہ تاثر ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ حکومت کی مخالفت عوام کے مسائل کے لئے نہیں بلکہ مقدمات سے ریلیف حاصل کرنے کے لئے ہے۔
ایسے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ ایسے میں اپوزیشن نے 8 مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ بعد ازاں اسلام آباد میں او آئی سی وزراء خارجہ اجلاس اور یوم پاکستان کی تقاریب کا چرچا رہا اور معاملہ کچھ وقت کے لئے دبا رہا۔ اس سارے معاملے میں ایک ڈرامائی موڑ اُس وقت آیا جب حکمران جماعت کے دس سے زیادہ ارکان قومی اسمبلی بغاوت کر کے اپوزیشن سے جا ملے۔
حکومت کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ ان ارکان کو بھاری رقوم کے عوض فلور کراسنگ پر آمادہ کیا گیا ہے اور ان کی رکنیت ختم کر کے انہیں تاحیات نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے جس کی سنوائی جاری ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرنے کے لئے جلسے کئے جن میں عوام نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔
اسلام آباد میں ہونے والے آخری جلسے میں صورتحال نے ایک اور ڈرامائی موڑ لیا اور وزیر اعظم نے لاکھوں کے اجتماع کے سامنے اپنی جیب سے ایک دستاویز نکال کر بتایا کہ ایک عالمی طاقت نے پاکستان کے سفارتی عملے کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو رہی ہے ۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کی گذشتہ تمام غلطیاں معاف کر دی جائیں گی بصورت دیگر بد ترین نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
پاکستانی سفارتی عملے کی جانب سے فراہم کی جانے والی اس تحریری دستاویز کے مطابق پاکستانی سفارتی عملے کو یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم کا دورہ روس اُن کا ذاتی فیصلہ تھا اور ریاست پاکستان بطور ریاست اس اقدام کی حامی نہ تھی۔
سب سے اہم بات یہ کہ مذکورہ دستاویز میں جس گفتگو کا ذکر ہے وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے ہوئی۔ اس پر اپوزیشن کا موقف یہ تھا کہ وزیر اعظم تحریک سے بچنے کے لئے ڈراما کر رہے ہیں جس پر یہ دستاویز اپوزیشن قیادت کو بھی دکھانے کی پیش کش کر دی گئی لیکن انہوں نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ یہ دستاویز کابینہ ارکان ، اور عسکری قیادت کو بھی دکھائی گئی، حتٰی کہ اہم صحافیوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور پھر اپوزیشن کا یہ موقف یوں غلط ثابت ہو گیا کہ امریکی نائب ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے پاکستان کے اندر وزیر اعظم کو ہٹانے کی سازش کرنے پر سخت احتجاج ریکارڈ کرا دیا گیا ہے۔
یوں اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی کوششوں میں بیرونی طاقت کی مدد اور معاونت بھی شامل ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن نے مرکز کے بعد صوبہ پنجاب میں بھی وزیر اعلٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا کر وزیر اعظم سے پنجاب کی اسمبلی توڑنے کا آپشن چھین لیا۔ ایم کیو ایم سمیت زیادہ تر اتحادیوں کے اپوزیشن کے ساتھ مل جانے کے بعد حکومت کے ارکان کی تعداد کم ہو کر صرف 164 رہ گئی ہے جبکہ اپوزیشن کے پاس 176 ووٹ ہیں ۔ اتحادیوں میں ق لیگ اور جی ڈی اے ہی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔
٭٭٭
عبیداللہ عابد
منحرف ارکان اور اتحادیوں کو منانے کی سنجیدہ کوشش نہ ہوسکی
تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟ اس سوال کا جواب کل تین اپریل بروز اتوار ہرکسی کو مل جائے گا ۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام ، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلم لیگ ق کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے نہ صرف تمام اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے متعدد ارکان اسمبلی عمران خان سے باغی ہوچکے ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق ان ارکان اسمبلی کی تعداد دو درجن سے زائد ہے۔
قریباً ڈیڑھ درجن ارکان اسمبلی کی بغاوت کی خود تحریک انصاف نے ایک اعتبار سے تصدیق کردی ہے۔ سترہ (17 ) منحرف اراکین کو پارلیمانی پارٹی کے واٹس ایپ گروپ سے نکال دیا گیا ہے جن میں ڈاکٹر عامر لیاقت ، جویرہ ظفر، فرخ الطاف ، سمیع گیلانی ، سید مبین عالم ، عاصم نذیر ، احمد حسن دیہڑ ، عبدالغفار وٹو، ریاض مزاری، امجد فاروق کھوسہ ، عامر گوپانگ ، نواب شیر وسیر، افضل ڈھانڈلہ ، نزہت پٹھان ، وجیہہ قمر، رمیش کمار، باسط بخاری، راجہ ریاض اور رانا قاسم نون شامل ہیں۔ ساتھ چھوڑنے والی اتحادی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے باغی ارکان منہا ہونے کے بعد عمران خان حکومت اکثریت کھو چکی ہے۔ اس تناظر میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ ایک رسمی کارروائی محسوس ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی خبریں گزشتہ کئی مہینوں سے چل رہی تھیں۔ تاہم اپوزیشن کیمپ میں اس خیال پر بھی غور کیا جارہا تھا کہ وزیراعظم سے پہلے سپیکر کو ہٹا دیا جائے کیونکہ وہ تحریک عدم اعتماد کی راہ میںکچھ ایسے مسائل پیدا کرسکتے ہیں جو اس معاملے کو قدرے التوا میں ڈال دیں گے ۔
بعدازاں اس خیال کو قانونی اور تکنیکی بنیاد پر مسترد کر دیاگیا۔ یوں ساری اپوزیشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تیاری میں سرگرم ہوگئی اور اس میںکامیابی کے لئے مطلوبہ ارکان اکٹھے کرنے لگی۔ جب اس نے یہ ہدف حاصل کرلیا تو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرادی گئی۔ اپوزیشن نے یہ انتظام دو صورتوں میں پورا کیا ۔ اولاً : حکمران تحریک انصاف کے تمام اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملایا گیا۔ ثانیاً : حکمران جماعت کے دو درجن ارکان کو بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں کھڑا کیا گیا۔
اگرچہ گزشتہ کئی ہفتوں سے اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات اور دعووں میں تیقن کا تاثر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی خبر دے رہا تھا ، تاہم دوسری طرف حکومتی رہنما تحریک کے ناکام ہونے پر اصرار کر رہے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑنے والی اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ان سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کیے ۔ جبکہ تحریک انصاف کے باغی ارکان کا کہنا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوچکا ہے۔
اگست دوہزارہ اٹھارہ سے فروری دوہزار بیس تک کے عرصہ میں جب ابھی کورونا وبا نہیں آئی تھی اُس وقت بھی عمران خان حکومت نے ایسے اقدامات کیے جن سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔ مخالفین کا موقف ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے قوم سے پہلے 100دنوں میں جن اقدامات کا وعدہ کیا تھا ، ان میں سے شاید ہی کوئی وعدہ پورا کیا ہو۔اس پر جب قوم کی طرف سے اضطراب ظاہر ہوا۔ عمران خان کے حامی تجزیہ نگار اور دانشور بھی تسلیم کرتے رہے کہ انھوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایسے وعدے کیے جنھیں پورا کرنا ممکن نہیں تھا ۔
مخالفین کا دعوٰی ہے کہ اگر صرف وعدے ہی پورے نہ کیے ہوتے ، تب بھی شاید ملک میں اضطراب کی لہر شدید نہ ہوتی، حکومت نے ایسی پالیسیاں اختیار کیں جن کی نتیجے میں ایک عام پاکستانی کی زندگی مشکل ہوگئی۔ دوسری جانب حکومت کو حق بجانب سمجھنے والے تجزیہ نگاروں کا مننا ہے کہ اگر عوام حکومت کی کارکردگی سے اتنے ہی نالاں تھے تو وزیر اعظم کے حالیہ جلسوں میں اتنی بڑی تعداد میں شریک نہ ہوتے۔
پھر امریکہ کی پاکستانی سفارت کاروں کو بد ترین نتائج کی دھمکی کے بعد تو معاملہ مزید شکوک و شبہات کا شکار ہو چکا ہے اور اُس کا عوامی رد عمل خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج میں صاف نظر آ رہا ہے کہ جن علاقوں کو ن لیگ گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں سے بھی ن لیگ کا صفایا ہو گیا ہے جبکہ پی پی پی کو صرف ایک نشست ملی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیراعظم عمران خان کو جب ، جو اور جیسی کوششیں کرنی چاہئیں تھیں ، انھوں نے نہیں کیں۔ پھر جب انھوں نے کوششیں شروع کیں تو وہ اتحادیوں سے یہ الفاظ بھی نہ کہہ سکے کہ انھیں تعاون کی ضرورت ہے۔ پھر وزیراعظم نے اتحادیوں کو منانے کی ایک سنجیدہ کوشش یوں کی کہ اپنے بعض ساتھیوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی۔ تاہم یہ سنجیدہ کوشش دو اعتبار سے درست نہ تھی۔
اولاً جب وزیراعظم نے اتحادیوں کو منانے کی کمیٹی تشکیل دی ، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، اتحادی اور اپوزیشن کے درمیان معاملات فائنل ہوچکے تھے۔ ثانیاً کمیٹی میں شامل بعض رہنما ایسے تھے جو خود وزیراعظم عمران خان سے ناراض تھے۔ چنانچہ یہ ناراض رہنما اتحادیوں کو منانے کے لئے کیوں کر سنجیدہ ہوتے! بہرحال اس کوشش کا جو نتیجہ نکلنا تھا ، وہ نکلا۔ سوائے مسلم لیگ ق کے کوئی بھی اتحادی راضی نہ ہوا ، انھوں نے اپوزیشن کے ساتھ معاہدوں پر باقاعدہ دستخط کردیے۔یہ صورت حال حکومت کے لئے سخت مایوس کن تھی ۔
31 مارچ اور یکم اپریل ( جمعرات اور جمعہ) کی درمیانی شب وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ اتوار کو تحریک عدم اعتمادکا جوبھی نتیجہ آئے اس کے بعد مزید تگڑا ہو کر سامنے آئوں گا ۔‘‘
’’ اتوار کو اس ملک کا فیصلہ ہونے لگا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا‘ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کون جا کر اپنے ضمیرکا فیصلہ کرتا ہے، اگر کسی کو ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا تو استعفیٰ دیتا۔‘‘
’’ عوام سے کہتا ہوں اتوارکو میرے خلاف ووٹ دینے والے ایک ایک غدار کا چہرہ دیکھ لینا ‘قوم سازش کرنے اور ان کا ساتھ دینے والوں کو نہ تو فراموش کرے گی اور نہ ہی انہیں معاف کرے گی، ضمیر فروش اور ملک کا سودا کرنے والے عصر حاضر کے میر جعفر اور میر صادق ہیں۔‘‘
وزیراعظم نے منحرف ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’ ہمیشہ کیلئے آپ پر مہر لگ جانی ہے، نہ لوگوں نے آپ کو معاف کرنا ہے اور نہ بھولنا ہے، نہ ان کو معاف کرنا ہے جو ہینڈل کررہے ہیں، برصغیر کی تاریخ کیا ہے؟ میر صادق اور میر جعفر کون تھے جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کو غلام بنایا ‘یہ موجودہ دور کے میر جعفر اور میر صادق ہیں، آنے والی نسلیں ان کو معاف نہیں کریں گی۔‘‘
اتحادیوں کے اپوزیشن کے ساتھ معاہدوں، ناراض ارکان کے راضی نہ ہونے کے بعد اب تمام تجزیہ کار ہی نہیں ، خود تحریک انصاف کے ذرائع بھی سخت مایوس نظر آرہے ہیں۔ جمعرات اور جمعہ کی شب وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا، انھوں نے جو باتیں بھی کیں ، وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کی باتیں تھیں۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اب تحریک عدم اعتماد کے بعد کے حالات پر غور وفکر ہو رہا ہے۔ خود شیخ رشید احمد جیسے حکومتی وزرا بھی جلد انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اللہ کرے تحریک عدم اعتماد کے بعد ، اگلے تمام مراحل بھی جمہوری اقدار کے عین مطابق طے ہوں۔n
ڈاکٹر آصف چنڑ
ماہر بین الاقوامی تعلقات
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت یعنی کل 342 میں سے 172 اراکین کی حمایت درکار ہے۔اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد سے زیادہ ارکان موجود ہیں۔ جبکہ حکومت اپنے دعوئے کر رہی ہے۔ سینئر قیادت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد ان کے لیے واحد آپشن عام انتخابات میں ہی جانا ہے۔مزید براں اس وقت اپوزیشن پنجاب اور بلوچستان کے کمزور ایم این ایز پر بھی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کا عمل
دستور کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں پہلا قدم آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت اسے طلب کرنا ہوتا ہے۔ اس ریکوزیشن کے بعد ’جس پر ایوان کے کل ارکان میں سے کم از کم ایک چوتھائی کے دستخط ہونے چاہئیں‘ اسپیکر کے پاس اجلاس طلب کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 14 دن ہوتے ہیں۔وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے کل ایم این ایز میں سے کم از کم 20 فیصد یعنی 68 اراکین کو اس پر ووٹنگ کے لیے ایک قرارداد پر دستخط کرنا ہوتے ہیں ۔
طریقہ کار کے قواعد کے مطابق، جس دن قرارداد پیش کی جاتی ہے اس کی تین دن کی میعاد ختم ہونے سے پہلے یا سات دن سے زیادہ بحث کو طول نہیں دیا جا سکتا ، سات دن بعد ووٹنگ لازم ہے۔ لہٰذا، اسپیکر کو 22 مارچ 2022تک ایوان زیریں کا اجلاس بلانا تھا، جبکہ او آئی سی اجلاس کی وجہ سے یہ اجلاس 24مارچ کو طلب کیا گیا جس میں روایات کے مطابق معزز اراکین اسمبلی کی وفات کیلئے فاتحہ خوانی کے بعد اجلاس 28 مارچ کو طلب کیا گیاجس میں تحریک عدم اعتماد پر بحث، ووٹنگ اور مزید کاروائی کے لیے اجلاس 30 مارچ کو طلب کیا گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ووٹنگ سے پہلے کسی بھی پارلیمنٹیرین کو ’جو اسمبلی ہال کے باہر ہواندر بلانے کے لئے‘ گھنٹی بجائی جاتی ہے جس کے بعد دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ جو معزز اراکین تحریک کے حق میں ہوتے ہیں وہ ایک دروازے سے نکلتے ہیں اور جو تحریک کے خلاف ہیں وہ دوسرے دروازے سے نکلتے ہیں۔ جیسے ہی وہ باہر نکلتے ہیں گنتی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک بار جب ہال خالی ہو جاتا ہے، گنتی مکمل ہو جاتی ہے اور ہر کوئی دوبارہ ہال میں داخل ہوتا ہے۔
اس کے بعد اسپیکر نتیجہ کا اعلان کرتا ہے۔ اگر عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جاتا ہے تو سپیکر نتیجہ تحریری طور پر صدر کو پیش کرتا ہے اور سیکرٹری گزٹڈ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کی اسمبلی کے اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا جاتا ہے۔اسمبلی کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر اسمبلی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے جب ان کی برطرفی پر غور کیا جا رہا ہو۔ قواعد کے تحت، سیشن عدم اعتماد کے اقدام کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں کر سکتا۔اگر سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کو ہٹا دیا جاتا ہے تو اس کا نوٹیفکیشن گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد منظور ہو جانے کے بعد کی کاروائی
آئین کے مطابق اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم اپنے عہدے سے فارغ ہو جاتا ہے۔وزیر اعظم کو ہٹانے کے بعدقومی اسمبلی کو فوری طور پر نئے قائد کے انتخاب کے لیے ووٹ دینا ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کے رول 32 میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے بعد یا جب بھی وزیر اعظم کا عہدہ کسی بھی وجہ سے خالی ہو جائے تو اسمبلی تمام دوسرے کام کو چھوڑ کرانتخاب کے لیے آگے بڑھے اور ایک مسلمان ممبر کو وزیر اعظم بنانے پر بحث کرے۔
یاد رہے کہ جب وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو ان کی کابینہ بھی تحلیل ہو جاتی ہے۔کابینہ وزیر اعظم کے اختیارات کی توسیع ہے۔
جب ایوان کا کوئی لیڈر برقرار نہیں رہتا تو ایوان کو نئے لیڈر کا انتخاب کرنا لازمی ہے۔علاوہ ازیں اگر ایوان کا کوئی لیڈرمنتخب نہ ہو سکے تو صدر اسمبلی کو تحلیل کر کے الیکشن کروا سکتا ہے ۔
بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد
1989 میں پہلی بار اپوزیشن کی جانب سے اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس میں بے نظیر بھٹو کامیاب ہوئیں اور اپوزیشن صرف 12 ووٹوں سے ناکام ہوگئی۔
237 رکنی ایوان میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے 119 ووٹ درکار تھے۔ تاہم تحریک کے حق میں 107 ووٹ ڈالے گئے اور بے نظیر بھٹو کو 125 ووٹ ملے جب کہ 5 ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے۔
بے نظیر کو ہٹانے کے لیے کل 119 ووٹ درکار تھے۔ قومی اسمبلی میں 92 نشستوں کے ساتھ، پیپلز پارٹی کو زندہ رہنے کے لیے کم از کم مزید 27 ووٹ درکار تھے۔ آئی جے آئی کے پاس 54 ووٹ تھے لیکن حکومت کو ہٹانے کے لیے اضافی 65 ووٹ مانگے گئے۔ دونوں پارٹیوں کو اضافی ووٹوں کی ضرورت کے ساتھ، پارلیمنٹیرینز کو اپنی اپنی طرف راغب کرنے کی جنگ پوری شدت سے شروع ہوئی۔
پارٹی وفاداریوں کو تقویت دینے کے لیے، پی پی پی کے منصوبہ سازوں نے 23 اکتوبر کو عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے سے بہت پہلے حرکت میں آ گئے اور اپنی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔دوسری طرف، IJI نے اپنی زیادہ تر کوششیں 37 آزاد امیدواروں کو اپنی طرف لانے پر مرکوز رکھی۔ مبینہ طور پر، دونوں پارٹیوں کی طرف سے ہارس ٹریڈنگ میں بہت زیادہ پیسہ چلایا گیا۔ صورتحال ایسی تھی کہ بہت سے مبصرین نے اس وقت کی سیاست کو منافع بخش کاروبار قرار دیا۔ حتمی گنتی میں، آئی جے آئی کی قیادت والی اپوزیشن صرف 107 ووٹ لے سکی، جوصرف 12 ووٹوں سے کم رہی۔
شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد
دوسری مرتبہ اگست 2006 میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی اور اس بار بھی وہ ناکام رہے۔اور یوں شوکت عزیز اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد سے بچ گئے۔
تحریک عدم اعتماد اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی)، چھ جماعتی اسلامی اپوزیشن اتحاد، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور دیگر قوم پرست جماعتوں پر مشتمل مشترکہ اپوزیشن نے 23 اگست 2006کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں 141 اپوزیشن ارکان کے دستخطوں کے ساتھ جمع کرائی تھی۔
لیکن بعد میں چھوٹے اپوزیشن گروپ بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اس تحریک میں حکومت کے خلاف 500 صفحات پر مشتمل چارج شیٹ بھی شامل تھی۔
342 رکنی قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے 172 ووٹ درکار تھے تاہم اپوزیشن صرف 136 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی جب کہ شوکت عزیز کے حق میں 201 ووٹ پڑے۔
اگرچہ قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی ایک واضح اکثریت سے اس تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا تاہم یہ صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مہم کا ایک حصہ تھا۔
یہ واقعی ہی ایک سرپرائز ہے کہ آیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بے دخل کرنے کے لیے مل کر کام کر پائیں گی یا ماضی کی اپوزیشن کی طرح وہ ناکام ہو جائیں گی۔
حکومت کے منحرف اراکین کی اکثریت ابھی تک اپنے فیصلے پر ڈٹی نظر آ رہی ہے جبکہ چند نے واپسی کا عندیہ دیا ہے ۔مزید براں کچھ ارکین حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے وفاقی حکومت نے اپنے منحرف ارکان پارلیمنٹ کو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے سے روکنے کے لیے آرٹیکل 63(A) کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا ہوا ہے۔ جس کی پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سپریم کورٹ سے پوچھے گئے بنیادی سوالات میں شامل ہیں:
اے):کیا ناراض ایم پی ایس کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟
بی): ان ایم پیز کے ووٹوں کی کیا اہمیت ہوگی
سی):کیا ان ایم پیز کے ووٹوں کو شمار کیا جائے گا یا نہیں؟
تا حال اس پر کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے امید ہے کہ اس پر 3 یا 4 اپریل تک وضاحت آ جائے گی۔
حکمران جماعت نے اپنے 13 ارکیں اسمبلی کو عدم اعتماد کے معاملے میں پارٹی پالیسی کے خلاف جانے پر نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
مزید کہ چوہدری پرویز الہی نے وزیراعظم عمران خان کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلی کے بدلے میں حکومت کی بھر پور حمایت کا اعادہ کیا ہے یاد رہے کے انھوں نے صرف 2 روز پہلے مسلم لیگ نون اور پیپلزپار ٹی کو وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے خلاف نا صرف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا یقین دلایا بلکہ اسیفوری لائے جانے پر اکسایا جبکہ اس کیجمع کرانے کے فورا بعد انھوں نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملکر اپنے معاملات طے کر لیے۔ اس دوہریمعیار پر مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ان پر نا صرف شدید تنقید کی ہے بلکہ افسوس کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب کا مستقبل مرکز میں عدم اعتماد کی کامیاب یا ناکامی سے جڑا ہے
انجم کاظمی
ملک کی سیاست میں سونامی برپا ہے، وفاق اور پنجاب اس وقت متحدہ اپوزیشن کے نشانے پر وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ، سیاسی صورتحال کے پیش نظر حکومتی نے اپوزیشن پر جوابی وار کرنے کیلئے پنجاب کوڈھال بنایا، یہ خبر چلی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ جو اب سابق ہوچکے ہیں عثمان بزدار نے پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری تیار کرکے وزیراعظم کو بجھوادی ہے جس پر پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو اس اقدام سے روکنے کیلئے تحریک عدم اعتماداسمبلی میں جمع کرادی۔
وزیراعظم عمران خان نے اس کے بعد دوسری چال چلی اور مسلم لیگ قائداعظم کے سپیکر پنجاب اسمبلی کو پنجاب کا نیا وزیراعلی نامزد کردیا، گزشتہ روز وزیراعظم کی رضامندی سے گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کا وزارت اعلی سے استعفی منظور کرلیا، اس کے ساتھ پنجاب کابینہ بھی تحلیل کردی گئی،عثمان بزدار کے مستعفی ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کا وجود ہی ختم ہوگیا، اب پنجاب میں اپوزیشن سپیکر کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کررہی ہے۔
وفاق میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کل بروز اتوار کو رہی ہے جبکہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے ایک طریقہ کار کا مکمل ہونا ابھی باقی ہے( حالانکہ بعض قومی نشریاتی ادارے یہ دعوٰی بھی کر رہے ہیں کہ نئے وزیر اعلیٰ پنجاب آج ہی منتخب کر لیا جائے گا) طریقہ کار یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پہلے مرحلے میں کاغذات نامزدگی لئے جائیں گے پھر فریقین اپنے اپنے امیدوار نامزد کریں گے، جس کے بعد کاغذات نامزدگی کا جانچ پڑتال ہوگی اور آخری مرحلے میں ووٹنگ ہوگی۔
وفاق میں تحریک انصاف کے وزیراعظم کے رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے، اگر وزیراعظم کی خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر پنجاب میں تحریک انصاف یا ان کے اتحادیوں کے امیدوار کا کامیاب ہونا مشکل ہوگا اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو پھر پنجاب میں صورتحال مختلف ہوجائے گی۔ پنجاب میں اس وقت حکومت کے ارکان پنجاب اسمبلی کے تین گروپ بن چکے ہیں۔
ان میں جہانگیر ترین ، علیم خان اور چھینہ گروپ حکومت سے ناراض ہیں، علیم خان گروپ نے تحریک انصاف کے امید وار چودھری پرویز الہی کی حمایت کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے وزیراعظم کا فیصلہ ہوجائے پھر پنجاب کا فیصلہ گروپ کریگا، حکومتی امیدوار اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سے بھی رابطے کررہے ہیں۔
وعدے اور دعوے بہت کئے جاتے ہیں مگر فیصلے کے روز صورتحال اچانک ہی بدل جاتی ، پنجاب کی قسمت کا فیصلہ وفاق میں وزیراعظم کے مستقبل سے جڑا ہے، سیاست دلچسپ کھیل ہے، دونوں جانب کے کھلاڑی اپنے اپنے پتے کھیل رہے ہیں مگر فریقین نے ترپ کے پتے ابھی تک ظاہر نہیں کئے۔پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا ہما کس کے سر بیٹھے گا اس کا فیصلہ وزیراعظم کے رہنے یا نہ رہنے پر ہی ہوگا۔
The post کپتان رہے گا یا جائے گا، فیصلہ کل ہوگا appeared first on ایکسپریس اردو.