تن درست اور صحت مند زندگی کا دارومدار روز مرہ کھائے جانی والی خوراک پر ہوتا ہے۔
ہماری خوراک جتنی خالص معیاری متوازن اور مقوی ہوگی اتنا ہی ہم تن درست زندگی کا لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔ اگرچہ صحت اور مرض کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ان کے درمیان میں آنکھ مچولی ابتدائے انسان سے ہی کھیلی جارہی ہے۔
تاہم اچھی صحت کا انحصار عمدہ غذا کے انتخاب ، قدرتی طرز پر استعمال اور رویوں میں اعتدال پر ہی ہوتا ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں سے روگردانی کر کے ہم بیماری کو خود ہی دعوت دیتے ہیں۔ بیماری کو دعوت دینے والی بات بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ بھلا ! ہم میں سے کون ہے جو صحت مند زندگی نہیں گزارنا چاہتا؟
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ زندگی کی تمام تر بہار یں موجیں سہولتیں اور آسائشیں تن درستی کے ساتھ ہی دل کو بھاتی ہیں۔ حالت مرض میں تو بعض اوقات انسان کو اپنے آپ سے بھی بے زاری سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ روزمرہ حالات میں ہلکی پھلکی بیماریاں آتی اور جاتی رہتی ہیں حتی کہ اب تو یار لوگوں نے دور جد ید کے مہلک امراض کے ساتھ بھی سمجھوتہ تک کر لیا ہے۔ ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب، امراض گردہ ،امراض جگر اور کولیسٹرول جیسے جان لیوا امراض کے ساتھ ساتھ بھر پور انداز میں جینے کا حوصلہ بھی پیدا کر لیا ہے۔
بعض امراض ایسے ہیں جن سے ہماری اس قدر جان پہچان ہوگئی ہے کہ وہ خطر نا ک ہونے کے باوجود ہمیں خطرناک محسوس نہیں ہوتے بلکہ ہم غذا ، پر ہیز کے انتخاب اور دوا کے با قاعدہ استعمال سے ان امراض کے اثرات بد سے خود کو بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بعض طبی ماہرین کے نزدیک جب تک انسان فطرت اور فطری اصولوں کا پیروکار رہا ، وہ کافی حد تک موذی اور مہلک امراض کے حملوں سے محفوظ رہا تاہم جب سے سائنسی ارتقا ء ر وپزیر ہونے لگا ہے نت نئے امراض کی پیدائش و افزائش ہو کر انسانیت کو مسائل و مشکلات میں مبتلا یہاں تک کہ موت سے دوچار کرنے لگی ہے۔
انفارمیشن ٹکینالوجی، جدید طبی ادویات اور گھریلو سہولیات سے اگر چہ زندگی پرآسائش اور آسان ہوگئی ہے لیکن جدید ایجادات کے نتیجے میں گزشتہ صدی سے (وائرسز کے زیر اثر) وائرل امراض کا پھیلاؤ بڑا تیزی سے سامنے آرہا ہے۔ وائرس طفیلیہ ہونے کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے ساتھ بیکٹیریاز میں بھی بہت سے امراض کا سبب بنتے ہیں۔ وائرس سے پیدا ہونے اور پھیلنے والی مشہور بیماریوں میں نزلہ ، زکام ، پو لیو ، فلو، ایڈز، برڈ فلو، سارس ، ز یکا سائن فلو اور کورونا وغیرہ شامل ہیں ۔
1980 کی دہائی میں بن مانسوں سے ایڈز کا موذی اور مہلک مرض سامنے آیا جسے طبی ماہرین نےHIV کا نام دیا ہے۔ سانس کی شدید تکلیف پیدا کرنے والا سارس وائرس 2003ء میں پھیلا ، اس نے انسانوں کو بری طرح متاثر کیا۔ 2004ء سے 2007 ء کے درمیانی عرصے میں ایو ئین فلو، برڈ فلو نودار ہوا اور اپنی ہلاکت خیزی سے کئی جانیں نگل گیا۔ برڈ فلو جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہورہا ہے یہ پرندوں کی وجہ سے پھیلا تھا۔ 2009ء میں سور کی وجہ سے پھیلنے والے سوائن فلو کی وبا نے کافی تباہی مچائی۔ 2014ء میں ایبولا ، 2016ء میں زیکا وائرس اور 2018ء میں نیفا وائرس کے پھیلاؤ نے دنیا اور اہل دنیا کے ناک میں دم کیے رکھا۔
ایک صدی قبل ہسپانوی فلو کی وبا کی وجہ سے تقریباً 50 کروڑ لوگ متاثر ہوئے۔ اب تک جتنے وائرس یا وبائی امراض کا پھیلاؤ سا منے آیا ہے ، ان میں ایک قدر مشترک رہی، وہ یہ کہ یہ سب جنگلی حیات کے باعث رونما ہوئے۔ ماحولیاتی ماہرین ان وباؤں کے پھوٹنے کا سبب تیزی سے پھیلتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور درختوں کی کمی بتا رہے ہیں۔
دنیا بھر کے حکمرانوں کو اس معاملے کے اس پہلو پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ جنگلات لگانے اور درختوں کی حفاظت کا ٹاسک تن دہی اورمکمل ذمے داری سے پورا کیا جانا چاہیے۔ اگر ماضی میں جھانکا جائے تو ڈیڑھ دو صدیاں قبل مندرجہ بالا بیماریوں اور وبائی امراض کا نام ونشان تک نہ تھا ۔ انسانیت سکون وچین سے زندگی بسر کرتی تھی۔ وبائی امراض کی افزائش اور پھیلاؤ کے بارے میں ماہرین کوغور وخوض کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
بنظر عمیق دیکھا جائے تو یہ مسلمہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب سے حضرت انسان نے ارتقائی مراحل کے سفر کا آغاز کیا ہے تب سے وہ نت نئی ایجادات کے ساتھ ساتھ آئے روز مختلف شکلوں میں مسائل اور مصائب میں گھرتا چلا جارہا ہے۔ جوں جوں مادی بلندیوں کو قابل تسخیر بنایا جانے لگا ہے، توں توں روحانی پریشانیوں کا گراف بھی بڑھتا جارہا ہے۔
مائیکروسکوپی اور مائیکروبائیولوجی کی حدود میں داخل ہونے کے بعد بیماریاں بھی اسی شدومد اور تند و تیز انداز میں حملہ آور ہو کر ہماری تمام تر سائنسی تسخیرات کا منہ چڑانے لگتی ہیں۔ طبی ماہرین ابھی کسی مہلک بیماری کے خلاف جنگ جیتنے کے قریب قریب ہی ہونے لگتے ہیں کہ کوئی دوسرا خطرناک ترین مرض نمودار ہو کر آناً فاناً ہماری کامیابیوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے؟
آئے روز کرہ ارض پر حملہ آور ہونے والے ان بے لگام و بے قابو امراض کی پیدائش اور افزائش کے بارے میں اگر بغیر کسی تعصب کے غور کیا جائے تو فوری ایک ہی حقیقت سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور وہ ہے فطرت کے اصولوں سے روگردانی ! فطرت جد ت کی قطعی طور پرنفی نہیں کرتی بلکہ وہ تو دور جدید کی تمام تر ایجادات پر ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے وجود کی مہر ثبت کرتی ہے۔
طبی ماہرین اور موجودہ وبائی مرض کو رونا کے تناظر میں یہ حقائق روز روشن کی طرح ابھر کے سامنے آئے ہیں کہ اس طرح کے تمام مائیکرو امراض کمزور قوت مدافعت والے افراد کو متاثر کرتے ہیں۔ مضبوط قوت مدافعت کے حاملین کو بعض اوقات پتہ بھی نہیں چلتا کہ کسی بیماری نے ان پر حملہ کیا ہے۔
بدن کا مضبوط خودکار دفاعی نظام حملہ کرنے والے کسی بھی جراثیم یاوائرس کو بدن پر مسلط ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔ بدن انسانی کا دفاعی نظام جسے قوت مدافعت کا نام دیا جاتا ہے کا تمام تر انحصار متوازن معیاری اور غذائیت سے بھر پور خوراک کے ساتھ ساتھ متحرک اور فعال میٹا بولزم پر ہوتا ہے۔ میٹابولزم کے متحرک رہنے کے لیے ہمارے معمولات زندگی کا فعال اور بھرپور ہونا لازم ہے۔ سہل پسندی تن آسانی ، بسیار خوری ،غیر معیاری، ملاوٹ شدہ اور مصنوعی غذائیں میٹابولزم کی کارکردگی کو خراب کرنے اور مختلف مہلک ، موذی اور وبائی امراض کے حملوں کی راہ ہموار کرنے کا سب سے بڑا سبب بنتی ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ ہم آج بھی معیاری متوازن، ملاوٹ سے پاک اور قدرتی غذاؤں کا استعمال کر کے ہرطرح کے موسمی و وبائی امراض سے خاطر خواہ حد محفوظ رہ سکتے ہیں۔ معیاری اور ملاوٹ سے پا ک غذاؤں کی دست یابی انتظامی سطح پر یقینی بنائے جانے کا ایک مستقل میکنزم بنایا جائے۔ معیاری اور ملاوٹ سے پا ک غذاؤں کی ابتداگلی محلوں میں کریا نہ سٹورز اور خوانچہ فروشوں سے کی جائے۔ منافع خوری اور ہوس پرستی کے رسیا افراد غیر معیاری خورونوش کی اشیاء زیا دہ منافع کے چکر میں بیچ کر بچوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ معدودے چند قابل بھروسہ اور معیاری مصنوعات کے علا وہ مارکیٹ میں بچوں کے استعال کی خورونوش کی غیر معیاری اشیاء کی بھر مار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ کلینکس اور ہسپتالوں میں مریضوں کا رش بڑھتا جارہا ہے۔ اکثر خاندانوں کی نصف کمائی تو بچوں کے علاج معالجے میں ہی صرف ہو جاتی ہے۔ امراض سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ سر کاری سطح پر میڈ یا پر حفظان صحت کے اصولوں کے بارے میں شعورصحت کی مہم شروع کی جائے۔
میڈیا ریگولیٹری اتھارٹیز اور مالکان کو چاہیے کہ تمام چینلوں پر روزانہ کی بنیا د پر صحت افزا غذا اور پرہیز کے بارے میں غذائی ماہرین کے مشورے اور آرا نشر کی جائیں۔ گھر یلو بنیاد پر روز مرہ استعمال کیے جانے والے غذائی اجزاء مثلاً ادرک، دار چینی ، سونف ، اجوائن ، کالی مرچ، زیرہ سیاہ ، جائفل،جلوتری ، تیز پات، الا ئچی ، بڑی الا ئچی لہسن، پیاز، پودینہ، دھنیا، ہلدی اور لونگ وغیرہ کے طبی خواص فوائد اور استعمال بارے عوام الناس کو آگاہ کیا جائے۔
اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کے خواص فوائد اور استعمال کے بارے میں بھی معلومات عام کی جانی چاہیے۔ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ کس مرض میں کون کون سی سبزیاں بہتر فوائد کا ذریعہ ہیں اورکون سی سبزیاں کن امراض میں خرابی کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس طرح پھلوں کی طبی خصوصیات کا مرض وصحت کے حوالے سے تذکرہ بھی روزانہ کی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں ملکی سطح پر قدرتی طور پر پیدا ہونے والی ان گنت نباتات کی شفائی خصوصیات سے استفادہ کرتے ہوئے اربوں روپوں کا زر مبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔ یقین مانیں بڑھتے ہوئے امراض کی یلغار سے بچاؤ اور صحت مند زندگی کا یہ آسان ترین راستہ بھی ہے اور حکومت کی ذمے داریوں میں کمی کا باعث بھی۔ جب تک عوام الناس میں شعور صحت اجاگر نہیں ہوگا ، ہمیں نت نئی بیماریاں اپنی لپیٹ میں لے کر پریشان کرتی رہیں گی اور حکومتی سطح پرصحت کے مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں نکالا جا سکے گا۔
The post صحت مند رہنے کے آسان اور فطری طریقے appeared first on ایکسپریس اردو.