زباں فہمی 137
آپ نے سُنا ہوگا ’’فُلاں چیز تو فُلاں جگہ کوڑیوں کے بھاؤ (یا کوڑیوں کے مول یا کوڑیوں کے دام) مل رہی تھی‘‘ (یعنی بہت سستی مل رہی تھی) یا کبھی سنا پڑھا ہوگا ، ’’دو کوڑی کی اوقات نہیں تمھاری‘‘ یا ’’دوکوڑی کے انسان!‘‘……وغیرہ۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ کوڑی کیا ہے؟ تقریباً صد فی صد قارئین کرام کا جواب ہوگا کہ کوڑی، سِیپی کو کہتے ہیں اور اُسے گنتی میں کمترین حیثیت حاصل ہے۔
یہ سیپی درحقیقت گھونگھے [Snail]کا خول ہوتا ہے جس کی سُست رَوی سے انگریزی فقرہ At snail’s pace مشہور ہے۔ کَوڑی: ہندی، اسم مؤنث، کَوڑا کی تصغیر، خرمُہرۂ خُرد، پُلچی، پشیز، ایک قسم کا چھوٹا سنکھ جو خریدوفروخت میں ادنیٰ سکّے کا کام دیتا اور مالدیپ کے جزیروں سے آتا ہے (فرہنگ آصفیہ)۔ تعجب کی بات ہے کہ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات کی رُو سے گنتی والا لفظ، کوڑی نہیں، بلکہ، پیش سے، کُوڑی ہے، ہند ی الاصل اسم مؤنث بمعنی بیس (20)اور اس کی مثال، ’’دوکُوڑی جوتے، چار کُوڑی کنکوّے‘‘ ہے۔
مختلف لغات دیکھتے ہوئے آن لائن دستیاب انگریزی لغات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ غالباً تلفظ کے فرق سے قطع نظر، کُوڑی ، کوڑی ہی ہے۔ ہماری پسندیدہ دونوں مذکورہ بالا لغات میں کوڑی سے منسوب بہت سے محاورے اور کہاوتیں نیز اشعار موجود ہیں۔
فرہنگ اردو محاورات مرتبہ پروفیسر محمد حسن میں ہمیں کوڑیوں کے دام اور کوڑیوں کے مول لینا کے سواء کچھ نہیں ملا، البتہ عددی محاورے اور ضرب الامثال مرتبہ عامر عالم رضوی (ارد ولغت بورڈ، دسمبر2018ء) میں یہ مندرجات موجود ہیں: دو کوڑیاں حضرت فرید شکر گنج کی نِیاز، دو کوڑیاں نہ مِلنا/نصیب ہونا، دو کوڑی کا/کی، دو کوڑی کا کرنا، دو کوڑی کا نہ رکھنا، دو کوڑی کی آبرو رہنا، دو کوڑی کی حیثیت نہ ہونا، دو کوڑی کی شان کردینا اور دو کوڑی کی عزت ہوجانا۔
یہکُوڑی قدیم زبان ’’مُنڈا‘‘ میں بیس کے معنوں میں رائج تھی، کیونکہ مُنڈا قوم کی گنتی دس کی بجائے بیس کے حساب سے لکھی جاتی تھی۔ شمالی ہندوستان میں بھی پچاس(50)کے لیے دو کوڑی اور دس(10)، جبکہ ساٹھ(60)کے لیے تین کوڑی کہا جاتا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہماری مرغوب علمی وادبی زبان، فارسی میں بھی اسے ’’بِیست‘‘ یعنی بیس کہتے ہیں، بہت سے پاکستانیوں کی ’فادری‘ زبان یعنی انگریزی میں یہ لفظ Cowrie[Cowrie or cowry] بنالیا گیا، جبکہ پنجابی، سرائیکی اور سندھی میں کوڈی ہے (نو زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل، مطبوعہ اردو سائنس بورڈ، طبع دُوَم: 2020ء)، مگر ہندکو میں آج بھی کوڑی ہے۔
ایک مختصر سندھی انگریزی لغت مطبوعہ اوریئنٹل بُک سوسائٹی، لاہور میں بھی یہی تلفظ لکھ کر بتایا گیا کہ یہ بطور سِکّہ مستعمل رہا، جبکہ قدیم شکل ’کوڑی‘ ہمیں آنجہانی پرسانند میوارام کی مرتبہ، بہت پرانی سندھی انگریزی لغت، مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی، جام شورو میں ان معانی میں درج دکھائی دیتی ہے: A score, twenty (20), The breast, bosom; breast bone۔ بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی۔
نامور انگریز لغت داں فیلن کی مرتبہ ہندوستانی انگلش لغت میں اسے اسم مؤنث قرار دیتے ہوئے مطلب Cowrie درج کیا گیا، جبکہ دیگر مفاہیم اس طرح واضح کیے گئے ہیں:
کوڑی کوڑی اَدا کرنا، چُکانا ۔یا۔دینا :To pay every penny.
کوڑی کوڑی بھر پانا: To receive in full.
کوڑی کوڑی لینا:To exact every farthing; to be paid in full.
[A Hindustani-English Law and Commercial Dictionary by S.W.Fallon, Ph. D. Halle]
{۔ مُنڈا زبان کے بولنے والے شمالی ہند میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے پسندیدہ دائرہ معارف( یعنی Encyclopaedia) بری ٹانیکا کے بیان کے مطابق یہ زبان اور اس کی شاخیں (Munda languages)، لسانی گروہ Austroasiatic/Austro-Asiatic languagesکی رکن ہیں۔
مُنڈا زبانوں میں مشہور ترین مُنڈاری اور سنتھالی ہیں}۔ جب اردو زبان کی پیدائش، تشکیل، فروغ اور پس منظر کی تحقیق کی جائے تو ایک باب یہ بھی کھلتا ہے کہ اس خطے کی قدیم ، خصوصا ً زندہ زبانوں میں کس کس کا اس اہم زبان کے ارتقاء میں حصہ ہے۔ مختصر یہ کہ ہندکو زبان کے اردو سے تعلق کی تفصیل بعد میں آئے گی، بنیاد ی طور پر اُس کا تعلق بھی مُنڈا سے ہے۔
یہ انکشاف کسی انسائیکلو پیڈیا میں شاید ہی ملے۔ ’’اب یہ اگر مُسَلّمہ حقیقت بن چکی ہے کہ سندھ کی تہذیب کی سب سے پرانی زبان، مُنڈا قبیلے کی مُنڈاری ہے، تو اَب یہ دیکھنا ہوگا کہ منڈاری کا ہندکو سے کہاں تک تعلق رہا ہے۔ ہمیں منڈاری زبان کے بعض الفاظ دستیاب ہوئے ہیں۔ ہم ان متعلقہ زبانوں میں انھی الفاظ کے ہم صورت، ہم آواز اور ہم معنی الفاظ درج کریں گے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ لغوی طور پر اِن کا منبع ایک ہے اور دریائے سندھ کے دونوں کناروں کی زبان میں ہم آہنگی، ہزاروں برس سے موجود رہی ہے۔
……….ہمارے نقطہ (نقطہ نظر) سے اس بیان میں کس قدر حقیقت پوشیدہ ہے کہ سندھکو زبان جو اِس خطے کی قدیم ترین زبان تھی، اس میں عربی، فارسی کے الفاظ شامل ہونے لگے، عربی اور فارسی کی وجہ سے ہندکو، سندھی اور پنجابی کی وہ صورت تشکیل پانے لگی جو آج رائج ہے۔ (اردوزبان کا ماخذ، ہندکو: پروفیسر خاطر غزنوی مرحوم ۔ص 95 اور 187بعد اَز نقل اقتباس ’’پنجابی زبان کی مختصر تاریخ از موہن سنگھ دیوانہ‘‘)۔
یہاں خاکسار اپنی ایک پرانی بات دُہرانا چاہتا ہے۔ اردو کا تعلق بہ یک وقت آریائی اور دراوَڑی زبانوں (بشمول تَمِل، ملیالم، تیلگو اور کنڑ ۔یا ۔کنڑی) سے ہے کیونکہ اس کے ذخیرہ الفاظ و تراکیب کی بنیاد میں یہ دونوں گروہ پوری طرح شامل ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جو اکثر قدیم وجدید ماہرین لسانیات فراموش کردیتے ہیں۔
ایک تحقیق کی رُو سے قدیم ، مردہ زبان سَنسکِرِت نے بے شمار الفاظ مُنڈا سے مستعار لیے جو ظاہر ہے کہ آریائی نہیں۔ مُنڈا لفظ ’’گھُٹ‘‘ آج اردو میں گھونٹ کہلاتا ہے، ہندکو میں گھُٹ بھی برقرارہے اور ڈیک بھی کہتے ہیں، درمیان میں سنسکرت کا گھُٹا اور سندھی کا گیست (نیز ڈک) بھی آتا ہے۔ اردو کا ڈنڈا، مُنڈا، سنسکرت اور ہندکو میں ڈنڈا ہی ہے، جبکہ سندھی میں ڈنڈو اور سونتو (یعنی اردو کا سونٹا)۔ اردو کا ڈھول کبھی مُنڈا اور سنسکرت کا ’’ڈنڈوبھی‘‘ تھا جو سندھی میں دُہل اور دیندرو بنا تو ہندکو میں ڈھول اور ڈھنڈورا…اب سمجھ میں آیا کہ یہ ڈھنڈورا پیٹنا کیا ہوتا ہے۔ کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والا بہت ہی کلیدی آلہ یا اوزار، ہَل، ان تمام زبانوں میں ہل ہی کہلاتا ہے۔ یہاں ممکن نہیں کہ تمام قابل ذکر مشترکات نقل کیے جائیں۔
یہاں یہ انکشاف بہت سے اہل علم کو ششدر کرنے کے لیے کافی ہے کہ قدیم اردو بولی دکنی /دکھنی پر ہندکو کی گہری چھاپ ہے۔ یہ درحقیقت قدیم اردو کی بنیاد ،ہندوی کی ایک شکل یا رُوپ ہے جسے سند ھ کی نسبت سے سندھکو بھی کہا گیا۔
(اسی ہندوی کا دوسرا اور بہت نمایاں رُوپ گوجری یا گُجری ہے جس کے اردو سے تعلق پر خاکسار نے زباں فہمی کی تین اقساط لکھیں اور وہ بھی روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں)۔ ہندکو کو بالتحقیق دریائے سندھ سے منسوب ومعنوَن کیا گیا جو زبان کے ارتقاء میں ایک دوسرے تلفظ کے ساتھ ہند ہوگیا اور پھر اِند یا Indہوا، انڈس اور انڈیابنا۔لسانی تحقیق پر مبنی کتھا کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مسلمان دِلّی سے دکن گئے تو اُن کے ہمراہ جانے والی زبان یہی تھی جو علاقے کے تھوڑے تھوڑے فرق سے اپنے قدیم علاقے میں تو دیگر علاقائی بولیوں کے اشتراک سے جدید اردو کی ماں بنی، جبکہ دکنی، گوجری اور ہندکو ساتھ ساتھ چلتے چلتے الگ ہوگئیں۔
ہندکو لفظ کارَن بمعنی سبب، ہندی، پنجابی اور قدیم دکنی میں مشترک ہے، دے دیسی یعنی دے دے گا، قدیم دکنی میں بھی بعینہ اسی طرح بولاجاتا تھا، کرسی یعنی کرے گا بھی قدیم دکنی میں موجود ہے۔ اسی طرح ہور (اور)، ہوراں (اوروں)، منے(میں نے)، نیں (نہیں) چالے (انداز)کہیا (کہا)، فوجاں (فوجیں) وغیرہ بھی ان دونوں میں مشترک ہیں۔ اردوئے قدیم کے معماروں میں شمالی ہند کا عیسیٰ خان مشوانی اور جنوب یعنی دکن کے بڑے (اور درحقیقت پشتون) شاعر محمود، سولھویں صدی میں بہت معروف تھے۔ ان کے کلام میں ہندکو کا اَثر بہت نمایاں ہے۔
محمود کی کہی ہوئی صنف ’جھولنے‘ کو پروفیسر خاطر غزنوی نے گوجری کی بجائے ہندکو قرار دیا ہے۔ (خاکسار ماقبل بھی اس لسانی قیاس کی تردید کرچکا ہے کہ دکن سے کوئی زبان یا بولی، دِلّی پہنچی تو ترقی کرکے اردو بنی)، اس سفر میں پنجابی کا ساتھ یقیناً رہا، مگر اُس کی جداگانہ شناخت برقرار رہی۔ اسی طرح گجراتی سے بھرپور اشتراک اور دیگر زبانوں سے کم کم اشتراک بھی صدیوں کے لسانی سفر کا حصہ ہے، جس کی بابت ہمارے اہل تحقیق کم متوجہ ہوئے ہیں۔
ابھی تو یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ جنوبی ہند کی زبانوں بشمول مراٹھی /مرہٹی سے اردو کا تعلق ماں بیٹی والا ہے یا بہن جیسا۔ یہاں دکن کے نامور ماہرلسانیات ڈاکٹر محی الدین زورؔ قادری کی تحقیق بھی پیش نظر رہے:’’اردو نہ تو پنجابی سے مشتق ہے اور نہ کھڑی بولی سے، بلکہ اُس زبان سے جو اِن دونوں کا مشترک سرچشمہ تھی‘‘ (ہندوستانی لسانیات)۔ ایک ضمنی، مگر، اہم بحث یہ بھی ہے کہ آیا اردو اور ہندی ایک ہی ہیں، جیسا کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے اور ڈاکٹر گیان چند جین نے ’’ایک بھاشا، دولکھاوَٹ‘‘ (2005)میں بطور نظریہ اس کی وِکالت کی۔یا۔ یہ دوبہنیں ہیں جو ہم رشتہ ہونے کے باوصف، الگ الگ دھارے کی صورت بہتی رہیں اور جداجدا ترقی کی۔ (بھجنوں کی زبان ہندی کی بات تو ٹھیک ہے، مگر ظاہر ہے کہ موجودہ ہندی ایک مصنوعی زبان ہے، اس کا یہاں ذکر نہیں)۔ اب ایک نیا نظریہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ڈاکٹر عبدالستاردَلوی کا کہنا ہے کہ اردو اور ہندی کی بنیاد ایک ہے، مگر انیسویں صدی کے اوائل میں دونوں کا ادب، متوازی، مختلف سمتوں میں پروان چڑھا، یہاں تک کہ دو جداجدا ادبی زبانیں معرضِ وجود میں آئیں۔ کھڑی بولی کا طرزِاردو، اس کے ہندی طرز کی نسبت قدیم ہے اور اردو، مشترک ہندوستانی تہذیب کی خالص نمایندہ ہے۔
}دوزبانیں، دو اَدب ، (2007) منقولہ درمضمون ’’ڈاکٹر عبدالستار دلوی بہ حیثیت ماہرِلسانیات۔ سماجی لسانیاتی تناظر میں‘‘ از ڈاکٹر نبیل احمد نبیل، مجلہ خیابان، جامعہ پشاور ، شمارہ نمبر 45:{http://ojs.uop.edu.pk/khayaban/article/view/560{سنسکرت یا دیگر قدیم ہندوستانی زبانوں میں حرف سین کا حر ف ہے سے بدلنا اَب لسانیات میں بہت مشہور ہے۔ بعض زبانوں میں ’سانپ‘ کو’ ہانپ‘ اور ’سابُن ‘ کو ’ہابُن ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ الگ بات کہ ہم نے اس آخری لفظ کو ’’عربا‘‘ لیا اور صابن لکھنے لگے جو اس قدر مشہور ہوا کہ جدید عربی میں بھی اسے صابون ہی کہتے ہیں، اس لیے اب اگر ہم سابن لکھنے پر اصرار کریں تو ہماری شامت آئے گی۔ س ا ص}۔
جہاں یہ بات مُسَلّم ہے کہ صوفیہ کرام نے اس پورے خطے میں اردو کی تشکیل، ترقی اور مقبولیت میں کلیدی کردار ادا کیا، وہیں یہ انکشاف بھی اہم ہے کہ بابا فریدالدین مسعود گنج شکر (رحمۃ اللہ علیہ) عربی وفارسی عالم ہی نہیں، بلکہ ، قدیم اردو، پنجابی، سرائیکی کے ساتھ ساتھ ہندکو کے بھی اولین شاعر تھے۔
بعض الفاظ ہندکو اور اردو میں مشترک نہیں، مگر اردو والوں کے لیے اب نامانوس بھی نہیں رہے۔ جیسے یہ مثال دیکھیے۔
پچھلے ایک کالم میں جنید جمشید کے گانے کا بول ؎ سانولی سلونی سی محبوبہ…برائے حوالہ اَدھورا درج کیا تھا۔ (زباں فہمی نمبر 134: لندن، لعبت، گڑیا، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 20فروری 2022ء)
{https://www.express.pk/story/2286519/1/}۔ تب مجھ سے یہ سہو ہوا کہ وہ لفظ لکھے بغیر اشارتاً پنجابی قرار دیا، محض قیاس میں۔ وہ لفظ تھا، شڑنگ جو بالتحقیق معیاری پنجابی میں شامل نہیں}بحوالہ نجی گفتگو بہ قاضی اعجاز محور، (مقیم گوجرانوالہ)، اردو اور پنجابی کے صاحب ِدیوان شاعرو نثرنگار، معلم اردو اور محترم شاہین فصیح ربانی، اردو، پنجابی و پوٹھوہاری شاعر وعروض داں (مقیم دینہ، جہلم)، البتہ پنجابی کی شاخ پوٹھوہاری، اس سے قربت کی حامل ہندکو اور پشتو میں موجود ہے۔ لسانی تحقیق کے شوقین حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ لفظ مُنڈا اور سنسکرت میں شڑنکھلا تھا۔
تعجب ہے کہ بے شمار دیگر الفاظ کی طرح یہ اردومیں براہ راست کیوں داخل نہ ہوا۔ (آگے چل کر گلوکار کہتا ہے، تیری چُوڑیاں شڑنگ کرکے/جانے کیسی آس دلائیں/ہائے ہائے کریں سب لڑکے)۔ اب یہاں یہ لفظ ’’شڑنگ‘‘ پر غور کیجئے۔
ہندکو میں شڑنگ کا مطلب ہے زنجیر اور زنجیر کی آواز، جبکہ پوٹھوہاری میں انھی معانی کے ساتھ ساتھ اسے شیشہ ٹوٹنے کی آواز کے لیے بھی برتا جاتا ہے۔}بحوالہ نجی گفتگو بہ عزیزم حسنین ساحرؔ، محقق اردو، پوٹھوہاری شاعر (مقیم بھارہ کہو، اسلام آباد) و محترم شریف شادؔ ، پوٹھوہاری کے جداگانہ لسانی تشخص کے عَلَم بردار اور پوٹھوہاری اردو لغت کے مؤلف{۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ مرحوم گلوکار نے اس نغمے کے بول لکھتے ہوئے (انٹرنیٹ پر یہی منقول ہے کہ ا س گانے کا شاعر جنید جمشید ہے) لفظ شڑنگ، شیشہ ٹوٹنے کی آواز کے معنوں میں استعمال کیا؟ نہیں جناب! کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے جنید جمشید کے نجی کوائف پر نظر ڈالیں۔
جنید کی مادری زبان اردو تھی (اُس کی والدہ نواب لوہارو کے گھرانے سے تھیں)، جبکہ پِدری زبان پشتو تھی۔ اُس کے والد، ائیر کموڈور جمشید اکبر خان مرحوم کا تعلق مانسہرہ کے قریب ایک جگہ ’’جہانگیرہ‘‘ سے تھا (ایک انگریزی روزنامے میں جنید کی وفات کی خبر دیتے ہوئے، نوشہرہ، غلط درج کیا گیا تھا)۔ یہ لفظ ناصرف مرحوم گلوکار کے لیے مانوس تھا، بلکہ اُس کے دیرینہ دوست، (میرے سابق افسر ِ اعلیٰ) ائیر کموڈور (سابق) عاصم انور صاحب کے انکشاف کے مطابق، وہ با ت بے بات، ’’شڑنگ‘‘ کا استعمال بکثرت کرتا تھا۔ اب آئیے جانتے ہیں کہ لفظ شڑنگ، پشتو میں کن معانی میں مستعمل ہے اور اُس مشہور گانے میں کیا معنی مراد لیے گئے۔
واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے معزز رکن، پشاور میں مقیم ممتاز شاعرومحقق ڈاکٹر اسحٰق وَردگ نے خاکسار کے استفسار پر بتایا کہ پشتو میں اس سے مراد ہے جھنکار اور مُوسیقی کی صدا جیسے چوڑیوں کی آواز (یعنی چھنک، چھن چھن کرنا، چھن چھناناTo tinkle:) اور رَباب بجنے کی صدا۔ بات صاف ہوگئی۔ جنید جمشید نے چوڑیوں کی چھنک کی بجائے شڑنگ کہا اور ہمارے یہاں لوگ شوق میں یہ گانا گاتے ہوئے کبھی غور نہیں کرتے۔ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ پشتو میں لفظ ’’شڑنگوَل‘‘ بھی ہے۔
(پشاور ہی میں مقیم ایک اور فاضل شخصیت ڈاکٹر تاج الدین تاجورؔ نے یہ لفظ ’’شڑنک‘‘ بتایا اور کہا کہ اس کا مطلب ہے: کانچ کی چوڑیوں کی آواز)۔ براہوئی ایک بالکل مختلف زبان ہے، مگر اس میں بھی یہ لفظ موجود ہے، متبدل شکل ’’شڑنگیفِنگ‘‘ میں، سرائیکی میں ’’چھنڑ کنڑ‘‘ ہے تو سندھی میں چھم چھم کرنڑ اور پنجابی میں تو بالکل واضح ہے: چھن چھن کرنا۔ یہی ترکیب جب فارسی میں داخل ہوتی ہے تو وہاں ’’جلنگ جلنگ کردن‘‘ ہوجاتی ہے۔ (نو زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل)۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میَں بعض اوقات الفاظ کی تحقیق میں بہت دور نکل جاتا ہوں۔
لہٰذا ہمارے اہل علم معاصرین اعتراض بھی کرتے ہیں، بہرحال یہ میری مجبوری ہے کہ منطقی انجام کے بغیر گفتگو ختم نہیں کرنا چاہتا۔ اختتام پر عرض کروں کہ اس موضوع پر خامہ فرسائی کا مقصد پروفیسر خاطر غزنوی مرحوم کی منفرد کتاب ’’اردوزبان کا ماخذ، ہندکو‘‘ کی طرف ماہرین لسانیات اور اہل ذوق کی توجہ مبذول کرانا ہے جس سے یہاں خوب اکتساب بھی کیا گیا۔
The post اردوزبان کا ماخذ، ہندکو؟ appeared first on ایکسپریس اردو.