گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’فیس بک‘ کے وسیلے ایک صاحب کی ویڈیو جنگل میں آگ کی سی طرح سارے میں ’سرائیت‘ کر گئی، جس میں وہ گاڑی چلاتے ہوئے نہایت بے ساختگی سے کچھ ایسے خانگی امور پر اظہار خیال فرما رہے تھے کہ جن کا تعلق براہ راست خواتین اور حضرات کے عام رویوں سے تھا۔۔۔اس میں بالخصوص مہنگائی اور شادی شدہ خواتین کے اس رویے کا تذکرہ بھی تھا کہ انھیں ہر چیز ’امی کے گھر کے پاس‘ ہی کی پسند ہوتی ہے۔ جیسے درزی کہاں کا اچھا ہے۔۔۔؟ ’’امی کے گھر کے پاس۔۔۔!‘‘
’’پاپے کہاں کے اچھے ہیں۔۔۔؟ ’’امی کے گھر کے پاس!‘‘ صاف گوشت کون دیتا ہے۔۔۔؟ ’’امی کے گھر کے پاس!‘‘ ڈاکٹر کو دکھانا ہے، تو وہیں کا اچھا ہے، یہاں تو بے کار ڈاکٹر ہے۔۔۔! پھر ایک دن وہ اسے ’امی کے گھر کے پاس‘ ہی کرائے کے گھر پر لے جاتی ہے!‘‘
اس ویڈیو سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ کہ ہمارے سماج کو پِدرسری سماج سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور یہاں خواتین پر جبر اور ان کے حقوق سے محرومی کی شکایات بہت زیادہ سامنے آتی رہتی ہیں، لیکن عام مشاہدے کی بات کیجیے، تو کم یا زیادہ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی دکھائی دیتا ہے۔ معروف ادیبہ رئیس فاطمہ نے 7 جنوری 2020 ء کو ’ایکسپریس‘ میں ہمیں دیے گئے انٹرویو میں بھی یہ کہا تھا کہ ہمارے ہاں دیہات میں بے شک خواتین پر مظالم ہوتے ہیں، لیکن ’’شہر میں 90 فی صد مرد خواتین کے استحصال کا شکار ہیں۔۔۔!‘‘ اور متذکرہ ویڈیو دیکھنے کے بعد ہمیں دفعتاً رئیس فاطمہ کی یہی بات یاد آگئی۔
اس لیے سوچا کہ جب ہم میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کہتے ہیں، اور ہمیشہ مردوں کو خواتین کا حق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، تو کیوں ناں آج خواتین کے اِس کردار پر بھی تھوڑی سی خامہ فرسائی کی جرأت کر لی جائے، کیوں کہ جب دونوں ہی ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں، تو اس میں دوسری جانب بھی توازن قائم ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پہلی جانب۔۔۔
ہوا یوں کہ اس ویڈیو کے مشہور ہونے کے بعد ایک نجی ٹی وی نے ان ویڈیو والے صاحب کو کھوجا، پتا چلا کہ یہ صاحب ’کنگ بکوز‘ کی عرفیت سے کراچی میں ناظم آباد نمبر ایک کے مشہور عدنان ماجد صاحب ہیں۔ نامہ نگار شایان سلیم کی جانب سے لیے گئے۔
اس انٹرویو میں اب یہ تو نہیں پتا چل سکا کہ ان کی مشہور ہونے والی وہ ویڈیو اچانک ہی کسی نے بنا لی تھی یا انھوں نے دانستہ اور کسی طے شدہ پروگرام کے طور پر ریکارڈ کرائی۔ تاہم عدنان ماجد کہتے ہیں کہ ’’میری یہ ساری باتیں سچ تھیں، تبھی تو سب کے دل کو لگیں اور اتنی زیادہ پھیلیں۔۔۔ اور لوگوں نے پھر ازراہِ مذاق یہ بھی کہا کہ اب یہ باتیں کرنے کے بعد یہ اپنے گھر بھی جا سکیں گے، یا پھر اپنی گاڑی ہی میں سو جائیں گے! تو ایسی کوئی بات نہیں ہے، میری اپنی شادی کو 15 سال ہو چکے ہیں اور میری اپنی شریک حیات سے بہت اچھی ہم آہنگی ہے۔ آپ پوچھ لیجیے کہ زندگی میں انھیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔‘‘
عدنان ماجد کے بقول ویڈیو میں کہی گئی ساری ہی باتیں ان کے اپنے مشاہدے کا نتیجہ ہیں، جو اُن کی جزوقتی ’اسٹیٹ ایجینسی‘ کے کام کے دوران سامنے آئیں۔ جہاں نوبیاہتا جوڑے جب گھر وغیرہ لینے کے لیے آتے ہیں، تو وہاں شوہر ہر چیز کے فیصلے کے لیے اپنی بیوی ہی کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کہے گی تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں۔
عدنان ماجد شوہر کی جانب سے بیوی پر اتنا زیادہ انحصار کرنے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر شادی کے بعد لڑکی کو ہر چیز اپنی امی کے گھر کے پاس ہی کی اچھی لگتی ہے اور شوہر ’اسٹیٹ ایجینسی‘ میں آکر خود کچھ بھی نہیں کہہ رہا، سب کچھ اس کی بیوی ہی بتا رہی ہوتی ہے۔ لڑکی اپنے شوہر کے ذہن میں ہر چیز کے لیے ’امی کے گھر کے پاس‘ کہہ کہہ کر اسے اپنے گھر سے بالکل ہی الگ کر دیتی ہے، جو کہ درست بات نہیں۔ اب ہر چیز تو بیوی سے نہیں پوچھی جاتی۔۔۔ اب ’مویشی منڈی‘ میں بیوی کا کیا کام۔۔۔؟ وہاں بیوپاری بھی یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گاہک کی بیوی نے کسی گائے کے لیے کہہ دیا ہے، تو پھر وہ بھی چھے لاکھ کی گائے آٹھ لاکھ روپے میں دیتا ہے، کیوں کہ شوہر کہتا ہے کہ ’بیگم، جو تم بولوگی، وہی گائے لاؤں گا۔۔۔!
نئے شادی شدہ جوڑوں کے حوالے سے عدنان ماجد کہتے ہیں کہ محدود آمدنی والے کنبے آئے روز باہر جا کر آٹھ، دس ہزار روپے کے کھانے کھا رہے ہیں، تو نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ وہ شادی کے 20، 20 سال بعد بھی اپنا گھر ہی نہیں بنا پا رہے اور بدستور کرائے ہی کے گھر میں رہے ہیں۔۔۔ بھئی، جب آپ لوگوں کے دیکھا دیکھی ہر ہفتے ’ہائی وے‘ پر جا کر کھانے کھائیں گے، تو پھر بچت کہاں سے ہوگی۔۔۔؟ یہ ہماری مائیں تھیں، جنھوں نے بچا بچا کر ہمارے سر کے اوپر چھت کر لی۔۔۔ کبھی پارلر نہیں گئیں، عقیقہ، سال گرہ، پارٹی اور آئے روز کی دعوتوں اور ’فارم ہاؤس‘ جانے کی فرمائشیں نہیں کیں۔ اب آج کل ساری تنخواہیں تو انھی چیزوں میں نکل جاتی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے اپنا گھر تو کرو۔۔۔! کب تک کرائے کے گھروں میں رہو گے۔۔۔؟
اپنی والدہ کے حوالے سے عدنان ماجد کہتے ہیںکہ اُن کی امی نے محنت کر کر کے پیسے بچائے، یہاں تک کہ عید کا روز بھی وہ اپنے بچوں اور شوہر کی خاطر باورچی خانے کی نذر کر دیتی تھیں، ہماری دادی کہتی رہ جاتی تھیں کہ بہو تیار تو ہو جاؤ، لیکن وہ کہتیں، نہیں پہلے یہ کام کرلوں، جب کہ آج اس کا رواج بہت کم ہو چکا ہے، اب پہلے سے تیار ہو جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ گرمی بہت ہے، پھر روٹی وغیرہ کا سارا اہتمام بازار سے کیا جاتا ہے۔ جس کے سبب منہ زور مہنگائی میں متوسط طبقے کے اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
عدنان ماجد کی ویڈیو میں دوسرا اہم تذکرہ شوہر کا ہر بات میں بیوی سے مشورے کرنے تھا کہ یہاں تک کہ گھر میں پلمبر آگیا پائپ کہاں سے نکالوں؟ قسائی آگیا، بَچھیا کہاں گرے گی۔۔۔؟ یہاں یا وہاں؟ بوٹیاں کیسی بناؤں۔۔۔؟ یہ والی وہ والی۔۔۔؟
وہ بتاتے ہیں کہ شوہر کا اپنی بیوی پر انحصار کرنے کا عالم یہ ہے کہ جب گھر میں ’اے سی‘ لگانے کے لیے مستری پوچھتا ہے کہ صاحب اس کے لیے پائپ کہاں سے نکالنا ہے، وہ کہیں گے، ایک منٹ! پھر دروازے کی اوٹ سے بیوی سے پوچھیں گے، وہ کہے گی تو کہیں گے، ہاں ٹھیک ہے یہاں سے۔۔۔! اسی طرح بقرعید پر قسائی پوچھتا ہے کہ صاحب بوٹیاں کون سی بنانی ہیں؟ وہ پھر اس کے لیے نمونے کی دونوں بوٹیاں لے کر بچے کو بھیجیں گے، یعنی ان کا اپنا دماغ تو چل ہی نہیں رہا ہوتا۔۔۔!
عدنان ماجد کی کہی گئی بہت سی کھری باتوں کے باوجود دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خواتین خانہ کی ایک بہت بڑی تعداد یہ بھی کہتی ہے کہ خود کمانے کے باوجود مردوں کو پیسے کی بالکل پروا نہیں ہوتی اور وہ بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں، گھر میں ضرورت بلاضرورت اور مہنگی مہنگی چیزیں خرید لاتے ہیں، جس کے نتیجے میں پھر پیسے بالکل بھی نہیں بچ پاتے۔۔۔! شاید بہت سے مردوں کے اسی رویے کی انتہا ہے کہ آخر شوہر پھر بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی اپنی شریک حیات ہی کے مشورے یا حکم پر سرتسلیم خم کر لیتے ہیں۔
The post ہر چیز ’امی کے گھر کے پاس کی اچھی۔۔۔!‘ appeared first on ایکسپریس اردو.