ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا بیش بہا اور گراں قدر سرمایہ موجود ہے مگر جس طرح کہا جاتا ہے کہ اصل ہنر یہ نہیں کہ آپ ڈھیر ساری دولت پیدا کریں بل کہ یہ ہے کہ اس دولت کی حفاظت ، اس میں اضافہ اور پھر اسے اصل مقاصد کے لیے استعمال کرنا سب سے بڑا ہنر ہے ، مگر بدقسمتی کہیے یا ہماری غفلت اور جہالت کہ ہم اپنے تہذیبی ورثے کو آنے والی نسلوں کو اس طرح منتقل نہیں کر پا رہے ہیں جیسا کہ دنیا کی دیگر اقوام کر رہی ہیں۔
ہم اتنے بدقسمت لوگ ہیں کہ اپنی تہذیب اور تاریخ کو اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کرنے پر تلے ہیں اور اس تباہی اور بربادی کو ’’ثواب دارین‘‘ حاصل کرنے کا نام دیتے ہیں کچھ ہمارا اپنا قصور اور کچھ ملک کی زمام حکومت عموماً ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی آرہی ہے جو نہ صرف اپنے ماضی اور تاریخ سے بے خبر ہیں بل کہ انہیں اپنی ہر روایت اور قدر سے فرسودگی اور ماضی پرستی کی بو آتی ہے جس کے باعث انہیں اپنی روایات اور اپنے تاریخی ورثے کی قدر و قیمت کا احساس ہے اور نہ ہی وہ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں کس گنج بے بہا کو برباد کر رہے ہیں۔
اگر ہمارا اپنے ماضی کا مطالعہ کرنے کا مقصد یہ ہو کہ ماضی کی کون سی قدر یا روایت آج بھی ہمارے کام آسکتی ہے تو ان کو نہ صرف برقرار رہنا چاہیے بلکہ انہیں آئندہ نسلوں تک بھی منتقل کرنا چاہیے کیوں کہ عظیم روایات کبھی نہیں مرتیں، آج پوری دنیا کے باشعور لوگوں کو اس بات کا غم کھائے جارہا ہے کہ دنیا کو دہشت گردی یا کسی بڑے پیمانے پر ایٹمی جنگ سے کیسے بچایا جا ئے؟ اس سلسلے میں پختونوں کی قدیم روایت ’’جرگہ‘‘ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں، جس نے تاریخ کے ہر دور میں چھوٹے بڑے تنازعات کو احسن طریق سے حل کیا ہے۔
اور آج بھی اس کی اہمیت اور طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی، جرگہ کی قدیم روایت اور تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً دو ہزار سال پہلے پختونوں میں بڑا جرگہ جسے پشتو میں ’’لویہ جرگہ‘‘ کہا جاتا ہے، کی بنیاد بدھ مت کے دور میں اس وقت پڑی جب ’’شاہ کشعا‘‘ نے اپنے مذہب بدھ مت میں کچھ اصطلاحات کرنے کے لیے اپنے پیشواؤں کا جرگہ منعقد کیا تھا جس میں پانچ سو مندوبین نے شرکت کی تھی۔
اس طرح جب قبیلہ یوسفزئی کے لوگوں کی ایک کم تعداد مرزا الغ بیگ کے ظلم و ستم سے بچ نکلنے میں کام یاب ہوئی اور اپنے نوجوان سردار ملک احمد خان کی قیادت میں کابل سے پشاور آئے اس وقت ان کی تعداد عورتوں اور بچوں سمیت اتنی قلیل تھی کہ سب ایک درخت کے سائے تلے جمع ہو گئے اور ایک جرگہ کیا تھا، خوشحال خان خٹک کے بڑے فرزند اور پشتو زبان کے کلاسک شاعر اشرف خان ہجری، کابل کے صوبیدار امیر خان کے کہنے پر 22 فروری 1681ء کو پشاور میں گرفتار ہوئے تو ان کی گرفتاری کے خلاف خوشحال خان خٹک نے بمقام ’’سرور میلہ‘‘ ایک بہت بڑا جرگہ منعقد کیا تھا۔
مغل حکم رانوں کے خلاف حملہ کرنے کے سلسلے میں خوشحال خان خٹک کو شاہ بیگ کوہاٹی کے پے در پے خطوط ملے چناںچہ خوشحال خان نے دریا خان آفریدی کو بھی مطلع کردیا اور راج گڑھ کے مقام پر ایک بڑا جرگہ منعقد کیا جس میں اتفاق رائے سے شاہ بیگ کوہاٹی کی خواہش پر کوہاٹ پر بڑا حملہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اکتوبر 1747ء میں افغانستان میں ’’شیر سرخ‘‘ کی درگاہ میں افغان قوم کے عمائدین (مشران) نے بھی اپنے لئے نیا بادشاہ احمدشاہ ابدالی کو منتخب کرنے کے لیے بڑا جرگہ بلایا تھا۔
احمد شاہ ابدالی کے بعد ان کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے بھی اپنے دور حکم رانی (1793) میں افغانستان کے دارالحکومت قندھار سے کابل منتقل کرنے کے لیے بڑے جرگے سے منظوری لی تھی، امیر حبیب اللہ خان کے دورحکومت میں اسے پہلی جنگ عظیم میں غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ بھی جرگے نے سنایا تھا، غازی امان اللہ خان کے دور (1922) میں افغانستان کے پہلے آئین کی منظوری بھی لویہ جرگہ سے لی گئی تھی، 1928ء میں کم عمر لڑکوں کی شادی پر پابندی اور خواتین کو مردوں سے پردہ نہ کرنے کا فیصلہ بھی لوگہ جریہ نے کیا تھا بعدازآں ان فیصلوں کو منسوخ کرنے کے لیے 1931ء میں نادر شاہ نے بڑا جرگہ بلایا تھا، افغانستان کے سابق صدور حامد کرزئی کا انتخاب بھی لویہ جرگہ نے کیا تھا اور آج بھی افغانستان کی پارلیمنٹ کو ’’لویہ جرگہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
ان چند تاریخی واقعات کو بیان کرنے کا اصل مقصد پختونوں کی معاشرتی زندگی میں جرگہ نظام کی اہمیت، طاقت اور قانون کو ظاہر کرنا ہے جو اس قوم کی تاریخ میں ایک طویل ماضی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس قوم کا بچہ بچہ جرگہ کے معنی مفہوم اور اس کی اہمیت سے آگاہ ہے، جرگہ میں عموماً وہ اشخاص شامل ہوتے ہیں جو جرگے کے جملہ آداب، قواعد و ضوابط اور اپنی روایات سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے ہوں اور موقع و محل کی مناسبت سے بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ جانتے ہوں۔ ویسے جرگے مشہور زیارت گاہوں اور بڑے بڑے حجروں میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن اس کے لیے اپنا جو تاریخی اور روایتی مقام ہے وہ گاؤں سے باہر ایک کھلا میدان ہوتا ہے۔
جہاں جرگہ کے تمام شرکاء ایک گول دائرے میں بیٹھتے ہیں، ہر ایک کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہوتی ہیں اور اپنے سامنے ان کنکریوں کا ایک مینار بناتے ہیں، جب کبھی جرگہ ناکام ہوتا ہے یا کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا تو ہر ایک اپنے سامنے بنائے ان کنکریوں کے مینار کو گرا دیتا ہے، یہ جرگے کی ناکامی کی خاص علامت ہوتی ہے، پختونوں کا جرگہ نظام جمہوریت، عدل و انصاف اور اظہار رائے کی آزادی کا ایک بہترین فورم ہے، جرگہ کا فیصلہ اٹل اور سب کیلئے قابل قبول ہوتا ہے۔
مجال ہے کسی کی جو جرگہ کے فیصلے کو ماننے یا اس سے روگردانی کی جسارت کرے ، اس طرح جرگہ کا فیصلہ مسترد کرنا، اس پر کسی قسم کا اعتراض کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی اس فیصلے کو کسی دوسری جگہ چیلنج کر سکتا ہے کیوںکہ ’’جرگہ‘‘ پختونوں کی ضابطہ حیات ’’پختونولی‘‘ میں ایک اٹل قانون کا درجہ رکھتا ہے، اگر کوئی جرگہ کی حکم عدولی کا مرتکب ہو جائے تو اسے سزا کے طور پر یا تو علاقہ بدر کیا جاتا ہے یا اس پر بھاری جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے، اس کے علاوہ پختون معاشرے میں اس شخص اور فریق کو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اس سے ہر قسم کا ناتا توڑلیتے ہیں، اسے طرح طرح کے طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ فلاں کہاں کا پختون ہے؟ یہ اس نے ’’پختو‘‘ کا کام کیا ہے؟ ایسے شخص یا فریق کو لوگ یہ نہیں کہتے کہ آپ نے اسلام کے منافی کام کیا ہے یا اسلامی نقطۂ نظر سے وعدہ خلافی کی ہے بلکہ اسے اپنے ضابطہ حیات ’’پختونولی‘‘ کے اقدار و روایات کے منافی عمل سمجھا جاتا ہے۔
لہٰذا آج اس امر کی ضرورت ہے کہ جس طرح ماضی میں اے این پی کی حکومت نے سوات اور مرکزی حکومت نے باڑہ کے مسئلے کو طاقت کی بجائے لشکراسلام اور طالبان کے ساتھ ’’جرگہ‘‘ کے ذریعے حل کیا تھا اور پھر وہاں حکومت مخالف شورش میں کافی حد تک کمی بھی آئی تھی تو امید رکھی جا سکتی ہے کہ اس طرح دیگر علاقوں میں بدامنی کی فضاء کو بھی جرگہ کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے کیوں کہ طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ہر مسئلہ اور تنازعہ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔
اگرچہ پختونوں میں ’’سورہ‘‘ جیسی رسم کی بنیاد بھی جرگہ نے رکھی ہے لیکن اس رسم کا مقصد آپس کی دشمنی کو دوستی اور رشتے داری میں بدلنا تھا تاکہ مقتول کے گھر میں قاتل کی بہن، بیٹی یا بھانجی دلہن بن کر جائے تو اس سے دونوں خاندانوں کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ بعض علاقوں میں معصوم بچیاں بھی ’’سورہ‘‘ کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں مگر بعض علاقوں میں بالغ لڑکیوں یا ان بچیوں کو جب وہ بلوغت تک پہنچ جائیں۔
مقتول کے گھر بجھوا دیا جاتا ہے۔ وہ بھی شادی کے طور طریقوں اور رسم و رواج کے مطابق ایسا نہیں کہ اس لڑکی کا ہاتھ مقتول کے کسی وارث کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے اور وہ اسے بھیڑ بکری کی طرح پکڑ کر لے جاتا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ’’سورہ‘‘ رسم کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جنہوں نے حکومت کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ حکومت نے سورہ، ونی اور قرآن سے شادی جیسی رسوم و روایات کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔
اگر جرگہ کام یاب ہوتا ہے یا کام یابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں تو پھر اس مینار کو اپنی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ جرگہ میں شامل تمام افراد کا زمین پر ایک دائرے کی شکل میں بیٹھنا اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ یہاں سب یکساں حیثیت، عزت و احترام کے لائق ہیں کسی کو دوسرے پر کوئی مالی، خاندانی یا قبائلی فوقیت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ ذات پات اور نسلی امتیاز برتا جاتا ہے ہر کسی کو اپنی باری پر بولنے، مشورہ اور تجویز دینے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے اور اپنی بات کو دلائل اور مثالوں سے منوانے اور ثابت کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ جرگہ کسی خاص شخصیت، خان، نواب، ملک وغیرہ کے زیراثر نہیں ہوتا کہ صرف اسے بولنے یا کوئی فیصلہ سنانے کا حق حاصل ہو یا اس کی بات سے کسی کو اختلاف کرنے کی آزادی نہ ہو۔
اس لیے کہا جاتا ہے کہ پختونوں کا جرگہ نظام جمہوریت، عدل و انصاف اور اظہاررائے کی آزادی کا ایک بہترین فورم ہے۔ جرگہ نظام کے ساتھ دو رسمیں اور بھی ہیں جن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے، ان میں ایک دستور کا نام ’’ننواتے‘‘ (کسی کے گھر میں داخل ہونا) ہے۔ اپنی کسی غلطی پر پشیمان ہونے، کسی کا عذر کے ساتھ کسی کے پاس جانے یا اپنے مخالف کے گھر معافی مانگنے کے لیے جانے کو پشتو میں ’’ننواتے‘‘ کہتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ اپنی غلطی کی معافی مانگنے کے لیے منہ میں گھاس پکڑ کر اپنے مخالف کے گھر ’’ننواتے‘‘ کے طور پر جایا کرتے تھے۔
اس لیے ننواتے کو تسلیم کرنا، آنے والے کو بخش دینا بھی ایک دستور ہے۔ اس دستور کے ذریعے بڑے بڑے جرائم اور قتل جیسے سنگین گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ ننواتے میں اکثر علاقوں میں اپنے ساتھ دنبہ یا بکرا بھی ساتھ لے جایا جاتا ہے اور جب ننواتے منظور ہوجاتی ہے تو اس جگہ دنبہ یا بکرا ذبح کر کے مشترکہ طور پر کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس طرح جب خواتین اپنے کسی مخالف کے گھر بطور ننواتے جاتی ہیں تو اپنے ساتھ قرآن پاک بھی سر پر رکھ کر جاتی ہیں جیسا کہ پشتو شاعری کی عوامی صنف ’’ٹپہ‘‘ میں ایک دوشیزہ ننواتے کا ذکر کچھ اس طرح کرتی ہے
سر مے سر تور قرآن پہ لاس کے
دمرور یار ننواتے لہ ورزمہ
(ننگا سر اور قرآن پاک ہاتھ میں لیے اپنے روٹھے ہوئے محبوب کو منانے کے لیے ’’ننواتے‘‘ پر جارہی ہوں)
دوسرے متعلقہ دستور کو ’’تیگہ‘‘ کہا جاتا ہے تیگہ پشتو میں پتھر کو کہا جاتا ہے۔ جب جرگہ دو فریقین کی آپس میں صلح کرانا چاہے تو بیچ میں ’’تیگہ‘‘ رکھ دیا جاتا ہے یہ ایک علامتی جنگ بندی ہوتی ہے کہ آپ دونوں اس وقت تک ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے جب تک جرگہ کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آجاتا۔ تیگہ کی خلاف ورزی کی جائے تو جرگہ خلاف ورزی کرنے والے فریق سے مقررہ جرمانہ بھی وصول کرتا ہے یہاں تک کہ اسے علاقہ بدر بھی کیا جاتا ہے اور اس سے قطع تعلق بھی کیا جاتا ہے جب کہ فیصلہ متاثرہ فریق کے حق میں دے دیا جاتا ہے۔
تیگہ کی روایت کو اب بعض علاقوں میں دورجدید کی اصطلاح میں عارضی جنگ بندی، فائر بندی (جسے پشتو میں ڈز بندی کہتے ہیں) جیسے نام دیے گئے ہیں۔ امیر حمزہ شینواری اپنے ایک شعر میں ’’تیگہ ‘‘ کے حوالے سے کہتے ہیں ؎
آخر بہ تیگہ کڑے زما او د رقیب ماتہ
تہ کلہ کلہ ورسرہ چہ جنگوے سترگے
(آخر تم میرے اور رقیب کے درمیان رکھے ہوئے تیگہ (قدغن) کو توڑ ڈالوگی کہ تم اس (رقیب) سے کبھی کبھار آنکھیں ملاتی اور لڑاتی ہو)
یہ بات کافی اہم ہے کہ جرگہ صرف پختونوں ہی کا طرہ امتیاز ہے۔ جرگے کے اصول، ممبرشپ کی شرائط، اور اس کی سزائیں گوکہ پنچایت سے ملتی جلتی ہیں مگر اس کے احترام پر پختونوں کے ہاں ایمان کی حد تک جو ایقان رکھا جاتا ہے وہ کسی دوسرے معاشرے میں عنقاء ہے۔
جرگہ، پختونوں کی سب سے زیادہ مضبوط عدلیہ ہے اور اس کی حیثیت پارلیمنٹ یا شوریٰ کی ہے۔ اس کے پاس مقامی روایات کے مطابق ’’قانون سازی‘‘ اور نظم و نسق کے انتظامی امور کے علاوہ بھی کافی سارے اختیارات ہوتے ہیں۔
جرگے کی کوئی واضح شکل نہیں ہوتی یا دوسرے الفاظ میں اس کی ساخت کے بارے میں کوئی واضح پالیسی موجود نہیں بلکہ جرگے کا دارومدار حالات، واقعات اور معاملات پر ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جرگہ کی ممبر شپ کے بارے میں بھی کوئی خاص قواعد و ضوابط موجود نہیں بلکہ دو افراد سے لے کر سیکڑوں ارکان تک جرگہ بنا سکتے ہیں اور اس میں موجود ارکان کے لیے جو چیز اہم ہے وہ ہے قبیلے میں مقام، رواج و روایت کے حوالے سے ان کا علم اور ان کی ذہنی استعداد۔ ان کا انتخاب مسئلے کی نوعیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی مسئلے سے براہ راست کوئی تعلق رکھتا ہو یا ان معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو وہ جرگے کا ممبر بن سکتا ہے۔ بعض دفعہ معاملات کچھ ایسا رخ بھی اختیار کر لیتے ہیں کہ کوئی بھی فریق اپنے ’’ننگ‘‘ کو میلا نہیں ہونے دیتا کیوںکہ مخالف فریق کو صلح کے لیے آمادہ کرنے میں اسے اپنی انا خراب ہوتی دکھائی دیتی ہے اور وہ اسے باعث شرم گردانتا ہے کہ اس سے اس کی کم زوری عیاں ہوتی ہے۔
ایسے میں وہ علاقے کے کسی بزرگ یا پھر کسی مذہبی پیشوا کا سہارا لیتے ہوئے مصالحت پر آؑمادگی ظاہر کرتا ہے۔ جرگے میں اہم بات جو اسے اس قسم کے دوسرے اداروں سے ممتاز بناتی ہے، یہ ہے کہ جرگے کا کوئی نام زد چیئرمین صدر یا راہ نما نہیں ہوتا کیوںکہ پختون فطرتاً کسی کی برتری کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جرگے میں کوئی تامل پیش آئے تو پھر لویہ جرگہ (بڑے جرگے) کو طلب کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں علاقے میں جرگے کے ماہرین یا ’’وکلاء‘‘ کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ جرگے کے حتمی فیصلے کو ’’تڑون‘‘ یا ’’پریکڑہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
The post جرگہ appeared first on ایکسپریس اردو.