Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

پاکستانی ڈاکٹروں کا تاریخی کارنامہ

$
0
0

یہ بیس سال پہلے کی بات ہے، امریکی شہر نیویارک میں واقع طبی ادارے، نیویارک میڈیکل کالج میں پائیرو انورسا (Piero Anversa)نامی ایک محقق کام کرتا تھا۔یہ امراض قلب کا ماہر خصوصی تھا۔اس کو بنیادی خلیوں(Stem Cells)پہ تحقیق کرنے کا بھی شوق تھا۔

اس نے 2002ء میں ایک تحقیقی مقالہ شائع کرایا۔مقالے میں ڈاکٹر انورسا نے دعوی کیا کہ اس نے ایک انقلابی تجربہ کر ڈالا ہے۔موصوف نے چوہوں کی ہڈیوں کے گودے سے بنیادی خلیے لیے۔پھر انھیں چوہوں کے ایسے دلوں میں داخل کر دیا جو ہارٹ اٹیک یا حملہ قلب کی وجہ سے خراب ہو چکے تھے۔ڈاکٹر انورسا نے دعوی کیا کہ بنیادی خلیوں نے خراب دل نئے نکور بنا دئیے اور وہ پہلے کی طرح صحت وتندرستی سے کام کرنے لگے۔اس مقالے نے طبی سائنس کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔

دل یا دماغ؟
سائنس داں دماغ اور دل کو انسانی جسم کے اہم ترین عضو قرار دیتے ہیں۔تاہم ماہرین کی اکثریت دماغ کو جسم کا بادشاہ سمجھتی ہے۔مگر اسلام سمیت سبھی مذاہب میں دل کو انسانی زندگی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔شاید وجہ یہ ہے کہ دل کی دھڑکن ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے۔اگر دماغ خراب ہو جائے، جیسے پاگلوں کا ہوتا ہے، تو انسان ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے،مگر زندہ تو رہتا ہے۔

دل خراب ہو کر بند ہو جائے تو قدرتاً انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔اسی اہمیت کے باعث قران وحدیث میں دل کو انسانی حیات کا مرکز مانا گیا ہے۔رسول اکرمﷺ کی ایک حدیث مبارک ہے:’’تمھارے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا(قلب)ہے۔یہ خراب ہو جائے تو انسان بھی بگڑ جاتا ہے۔یہ ٹھیک رہے تو انسان بھی نیکی کی طرف مائل رہتا ہے۔‘‘

انسانی زندگی کی کنجی
ہمارا دل سات ارب خلیوں کا مجموعہ ہے جن کی گیارہ بڑی اقسام ہیں۔یہ انسانی بدن میں خون کو رواں دواں رکھنے والا پمپ ہے۔ہماری مٹھی جتنا ہوتا ہے۔اس کے دو بنیادی حصے ہیں:دایاں حصّہ خون کو پھیپھڑوں کی سمت بھجواتا ہے۔وہاں وہاں خون میں آکسیجن شامل ہوتی ہے۔یہ خون پھر معدے میں پہنچ جاتا ہے۔وہاں غذائیات (Nutrition)اس میں جذب ہوتی ہے۔پھر یہ خون پورے بدن میں پھیل کر اربوں خلیوں تک آکسیجن اور غذائیات پہنچاتا ہے۔

یوں وہ زندہ رہتے اور اپنے اعمال انجام دیتے ہیں۔انہی اعمال کے ذریعے انسان بھی زندہ رہتا اور کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔بایاں حصّہ پورے جسم سے آنے والا خون وصول کرتا ہے۔

دل سے پھیپھڑوں، معدے اور خلیوں تک لے جانے والی رگیں ’’شریانیں‘‘ (arteries ) کہلاتی ہیں۔انسانی خلیے اپنے افعال انجام دیتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ٹھوس و مائع فضلہ پیدا کرتے ہیں۔دل کی دوسری قسم کی رگیں ’’وریدیں‘‘ (veins) یہ فضلہ انسانی جسم سے باہر نکالنے کی ذمے دار ہیں۔غرض دل انسانی زندگی کی حقیقتاً کنجی ہے۔اگر یہ کام کرنا چھوڑ دے تو انسان کی حیات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔

دل کی خرابی
بدقسمتی سے ہمارا غیر فطری طرز ِزندگی دل کو وقت سے پہلے خراب کرنے لگا ہے۔ مثلاً کئی مردوزن جی بھر کر ردی غذائیں کھاتے اور ورزش سے دور رہتے ہیں۔ایسی غذا دل کی رگوں میں چربی جما دیتی ہے۔اس وجہ سے خون کی روانی متاثر ہوتی ہے۔جب چربی کے لوتھڑے بن جائیں تو کبھی کبھار خون کی روانی رک جاتی ہے۔اسی خرابی سے ہارٹ اٹیک ہوتا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دل کو بیس منٹ تک آکسیجن نہ ملے اور وہ دھڑکنا چھوڑے رکھے تو مردہ ہو جاتا ہے۔گویا انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔تاہم یہ کیس موجود ہیں کہ کسی انسان کا دل بیس منٹ زیادہ عرصے بند رہا پھر بھی وہ زندہ بچ گیا۔ایسے لوگ عموماً سخت جان ہوتے ہیں۔

ہارٹ اٹیک اور دل کی سبھی بیماریاں اس کے خلیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہارٹ اٹیک سے خلیے آکسیجن نہ ملنے پہ مر جاتے ہیں۔جبکہ بیماریاں انھیں کمزور کر دیتی ہیں۔دماغ کی طرح دل بھی قدرتی طور پہ اپنے خلیے نہیں بنا سکتا ۔یہی وجہ ہے، دل کے جس حصے کے خلیے مردہ ہو جائیں، وہاں نشان(scar)پڑ جاتا ہے۔جن مردوزن میں ہارٹ اٹیک شدت کا ہواور وہ زندہ بچ جائیں تب بھی پہلے کی طرح نارمل زندگی نہیں گذار سکتے۔وجہ یہی کہ دل کے کئی خلیے مر جاتے ہیں۔اس باعث دل اپنا کام صحیح طرح نہیں کر پاتا۔خلیوں کی عدم موجودگی دل کے افعال پہ منفی اثرات ڈالتی ہے۔

نئی زندگی کی نوید
قبل ازیں بتایا گیا کہ ہمارا دل خلیوں کی گیارہ بڑی اقسام پہ مشتمل ہے۔ہر قسم اپنامخصوص کام انجام دیتی ہے۔مگر یہ تمام خلیے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے اور مل جل کر دل کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریاں بہ احسن خوبی انجام دے سکے۔ان خلیوں میں سے چند لاکھ خلیے بھی ناکارہ ہو جائیں تو دل کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہتی۔یہی وجہ ہے، ہارٹ اٹیک اور امراض قلب میں مبتلا مریض ایک بار دل خراب ہونے کے بعد دوسرے انسانوں کی نسبت جلد چل بستے ہیں۔ہارٹ اٹیک ہونے کے بعد بہت سے مریض اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کریں تو اگلے دس سال کے اندرچل بستے ہیں کیونکہ ان کا دل درست طرح کام نہیں کر پاتا۔

امریکی محقق ، پائیرو انورسا کی تحقیق اس لحاظ سے انقلابی تھی کہ اس نے امراض قلب میں مبتلا کروڑوں انسانوں کو نئی زندگی کی نوید سنا دی۔ یاد رہے، امراض قلب ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ تا دو کروڑ مردوزن مار ڈالتے ہیں۔یہ بنی نوع کی دشمن بیماریوں میں سرفہرست ہیں۔اور ان کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔موت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایک بار دل خراب ہونے کے بعد صحیح نہیں ہو پاتا۔پھر کسی دوسرے مردہ انسان کا ٹھیک دل لگوانا پڑتا ہے ۔یا پھر مشینی قلب سے زندگی کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے۔اور یہ دونوں طریق کافی مہنگے ہیں، ہر مریض انھیں اپنانے کی مالی سکت نہیں رکھتا۔

پائیرو انورسا نے مگر اپنی تحقیق سے انسانیت کو یہ انقلاب خیز خبر سنا دی کہ بنیادی خلیے دل کے مردہ خلیوں کی جگہ نئے پیدا کر سکتے ہیں۔گویا انسان نیا دل بنانے کے قابل ہو گیا…ایک ایسا نیا دل جو پہلے کی طرح درست طریقے سے خون پمپ کر سکتا ہے۔ یوں یہ امید پیدا ہو گئی کہ اب امراض قلب کے مریض طویل عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔اسی امر نے دنیائے طبی سائنس میں ہلچل مچا ڈالی۔

اولیّں خلیے
بنیادی خلیے وہ اولیّں خلیے ہیں جن سے انسان سمیت تمام کثیر خلوی جانداروںکے سبھی اعضا بنانے والے خلیے وجود میں آتے ہیں۔جب رحم میں مادہ اور نر کے تولیدی مادوں کا ملاپ ہو تو ایک نیا وجود ، ’’زائگوٹ‘‘(zygote)جنم لیتا ہے۔ اس وجود کا خلیہ تیزی سے نئے خلیے (اپنے بچے)پیدا کرنے لگتا ہے۔جب یہ وجود دو تین سو خلیوں کا مجموعہ بن جائے تو ’’بلاسٹوسائسٹس‘‘ (Blastocyst) کہلاتا ہے۔ یہی خلیے بنیادی خلیے کہلاتے ہیں۔تاہم عام طور پہ طبی تحقیق میں انسانی بلاسٹوسائسٹس کے بنیادی خلیے استعمال نہیں ہوتے۔وجہ یہ کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں ، انھیں حاصل کرنے کی خاطر جنین یعنی پرورش پاتے بچے کو قتل کرنا پڑتا ہے۔طبی تحقیق والے بلاسٹوسائسٹس لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے بنائے جاتے ہیں۔

خوش قسمتی سے بنیادی خلیے بالغ انسانوں کے بعض اعضا میں بھی ملتے ہیں۔ بالغ انسان میں دس اقسام کے بنیادی خلیے ملتے ہیں۔مثلاًہماری ہڈیوں کے گودے میں ’’ہیماٹوپوئیٹک‘‘(Hematopoietic)بنیادی خلیے ملتے ہیں۔یہ خون بناتے ہیں۔

ہماری آنتوں میں آنت کے بنیادی خلیے(Intestinal stem cells) پائے جاتے ہیں۔ان سے آنتوں کے استر بنانے والے خلیے بنتے ہیں۔ان اقسام میں ’’میسینشمیل بنیادی خلیے‘‘(Mesenchymal stem cells)سب سے اہم ہیں۔ وجہ یہ کہ ان کی مدد سے مخلتف اعضا تشکیل دینے والے خلیے بنانا ممکن ہے جن میں دل بھی شامل ہے۔یہ ہڈیوں کے گودے، آنول نال، ڈاڑھ اور امائنو مادے(Amniotic fluid)میں ملتے ہیں۔

عالمی شہرت مل گئی
پائیرو انورسا نے چوہوں کے خراب دل تندرست کرنے والے بنیادی خلیے میسینشمیل بنیادی خلیوں ہی سے بنائے تھے۔یوں بنیادی خلیہ طریق علاج کو عالمی شہرت مل گئی۔گو یہ طریق 1990 ء سے مروج ہے۔ابتداً اس میں ہیماٹوپوئٹیک بنیادی خلیوں کی مدد سے ان مریضوں کا علاج ہوا جو خون کی کمی کا شکار تھے۔ان بنیادی خلیوں نے مریضوں میں خون کے نئے خلیے پیدا کر کے انھیں صحت یاب کر دیا۔رفتہ رفتہ ماہرین دیگر بیماریاں اور طبی خلل دور کرنے کی خاطر بنیادی خلیہ علاج سے مدد لینے اور متعلقہ تحقیق وتجربات کرنے لگے۔

فراڈ سامنے آ گیا
2002ء میں جب پائیرو انورسا نے اعلان کیا کہ بنیادی خلیے دل تندرست کر سکتے ہیں تو اس طریق علاج کو مزید شہرت مل گئی۔اب کہا جانے لگا کہ امراض قلب ماضی کا حصّہ بن جائیں گے۔یوں امریکی محقق راتوں رات دنیائے طب میں ہیرو بن گیا۔مگر جلد ہی ایک انہونی سامنے آ گئی۔ہوا یہ کہ جب دیگر لیبارٹریوں میں سائنس دانوں نے چوہوں کے خراب دل میسینشمیل بنیادی خلیوں کے ذریعے درست کرنا چاہے تو وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے۔ناکامی پہ قدرتاً انھیں حیرانی ہوئی۔

جب ہر لیبارٹری میں مایوسانہ نتیجہ سامنے آیا، تو قدرتاً انورسا کی تحقیق پہ شک کیا جانے لگا۔ماہرین کو یقین ہو گیا کہ اس نے اپنے نتائج میں جعل سازی کی ہے تاکہ شہرت ، دولت و عزت پاسکے۔یہ عمل جھوٹ بولنے کے مترادف تھا۔اسی لیے پائیرو انورسا جھوٹا اور دھوکے باز قرار پایا۔اس کی ساری شہرت خاک میں مل گئی۔تعلیمی و تحقیقی اداروں نے اسے نکال باہر کیا۔

پائیرو انورسا سے وابستہ اسکینڈل کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے بنیادی خلیہ طریق علاج کی شہرت بھی ماند پڑ گئی۔مخالفین دعوی کرنے لگے کہ یہ طریق علاج کسی قسم کی بیماری دور نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے، یہ طریق علاج منظرعام سے تقریباً غائب ہو گیا حالانکہ اکیسویں صدی کے اوائل میں اسے انقلابی علاج کہا گیا تھا۔

پاکستانی ڈاکٹروں کا انقلابی مقالہ
اہل پاکستان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ کئی سال بعد تین پاکستانی ڈاکٹروں نے اپنے مقالے کے ذریعے دنیا والوں کو باور کرایا کہ بنیادی خلیہ طریق علاج ناکارہ نہیں بلکہ خصوصاً دل کی بیماریاں دور کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔انھوں نے بذریعہ مقالہ آشکارا کیا کہ اس طریق علاج سے منسلک ڈاکٹر و سائنس داں اہم تحقیق وتجربات کر رہے ہیں۔یہ تین پاکستانی ڈاکٹر جویریہ تہذیب، انعم منظور اور مونس منطور احمد تھے۔تینوں لاہور کی شہرہ آفاق طبی درسگاہ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔جویریہ اور مونس امریکا میں مریضوں کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔

ہوا یہ کہ پچھلے دس برس میں امراض قلب کے حوالے سے شعبہ بنیادی خلیہ طریق علاج میں جو بھی اہم تحقیق وتجربات ہوئے تھے، اسے تفصیل سے پاکستانی ڈاکٹروں نے اپنے مقالے ’’Is Stem Cell Therapy an Answer to Heart Failure: A Literature Search ‘‘میں بیان کر دیا۔یہ مقالہ امریکا کے مشہور آن لائن طبی جرنل، ’’کیوریوس‘‘(Cureus)میں 22 اکتوبر 2019ء کو شائع ہوا۔پاکستانی ماہرین نے نہ صرف تحقیق وتجربات کو بڑے منظم انداز میں بیان کیا بلکہ ایک اہم نتیجہ بھی نکالا…اور اسی نتیجے نے طبّی دنیا میں کافی ہلچل مچا دی۔

ایک نیا نتیجہ
پاکستانی ڈاکٹروں نے بنیادی خلیہ علاج کی دس سالہ تاریخ کا عمیق مطالعہ کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ جب ہارٹ اٹیک اور دیگر امراض سے دل کے عضلات خراب ہو جائیں اور ان میں بذریعہ انجکشن میسینشمیل بنیادی خلیے داخل کیے جائیں تو ان کی نشوونما سے دل کو فائدہ ہوتا ہے…مگر زیادہ فائدہ ان ’’گروتھ عناصر‘‘(Growth factors)سے دل کو ملتا ہے جو بنیادی خلیے خارج کرتے ہیں۔

طبی اصطلاح میں گروتھ یا نشوونما عناصر سے مراد وہ پروٹینی سالمات (proteins) اور سٹیرائیڈ ہارمون ہیں جو خلیے بناتے کرتے ہیں۔یہ گروتھ عناصر نئے خلیے بنانے، زخم ٹھیک کرنے اور بنیادی خلیوں سے مخصوص خلیے پیدا کرنے کے عمل میں کام آتے ہیں۔مذید براں خلیوں کے مابین پیغامات کی ترسیل بھی کرتے ہیں۔ غرض یہ گروتھ عناصر کئی لحاظ سے خلیوں کی مدد کرتے ہیں۔پاکستانی ڈاکٹروں نے تحقیق سے دریافت کیا:

’’جب دل کے خراب عضلات میں میسینشمیل بنیادی خلیے داخل کیے جائیں تو وہ نشوونما پا کر بڑھنے لگتے ہیں۔اس دوران وہ گروتھ عناصر بھی پیدا کرتے ہیں۔یہ عناصر دل کے عضلات میں جنم لیتی سوزش کم کرتے اور دیگر خلیوں کے تال میل سے دل کے نئے عضلات بنانے لگتے ہیں۔(جو ہارٹ اٹیک یا کسی اور طبی سبب مردہ ہو جاتے ہیں)۔‘‘

نتیجہ درست ثابت ہوا
واضح رہے، امراض قلب کی وجہ سے دل کے عضلات کمزور یا ناکارہ ہو جائیں تو طبی اصطلاح میں یہ حالت ’’مائیوکارڈئیل انفریکشن‘‘(myocardial infarction)کہلاتی ہے۔اس طبّی حالت میں دل خون کو درست طرح پمپ نہیں کر پاتالہذا خلیوں تک آکسیجن اور غذائیات کم پہنچتی ہے۔رفتہ رفتہ خلیے کمزور ہو جاتے ہیں۔تب انسان ہر وقت تھکن محسوس کرتا ہے۔تھوڑا سا کام کرنے پہ اس کا سانس پھول جاتا ہے۔غرض یہ عام علامتیں مائیوکارڈئیل انفریکشن سے بھی وابستہ ہیں۔

پاکستانی ڈاکٹروں نے اپنی فکر وتحیق سے جو منفرد نتیجہ نکالا، اسے مئی 2020 ء میں ختم ہونے والے ایک طویل تجربے نے درست ثابت کر دیا۔یوں عیاں ہوا کہ پاکستانی ڈاکٹر اپنی محنت اور ذہن ِرسا سے جو نتائج سامنے لائے، وہ صائب تھے۔ اس تحقیق کی وجہ سے امریکا ویورپ میں پاکستانی معالجین کی قدرو منزلت بڑھ گئی۔اس پر جویریہ تہذیب، انعم منظور اور مونس منظور احمد خراج وتحسین کے مستحق ہیں۔ اُمید ہے، وہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے انسانیت کی بھلائی کرنے والی مذید تحقیق سامنے لائیں گے۔

سات سالہ تجربہ
امریکی شہر ہوسٹن میں ٹیکساس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ واقع ہے۔یہ امراض قلب کا علاج کرنے والا امریکا کا چوتھا بہترین طبی مرکز ہے۔اس طبی مرکز میں سینٹر فار کلینکل ریسرچ واقع ہے۔اس ادارے سے وابستہ طبی سائنس داں امراض قلب کے نئے علاج دریافت کرنے کے سلسلے میں تجربات وتحقق کرتے ہیں۔اسی ادارے میں وہ تجربہ انجام پایا جس نے پاکستانی ڈاکٹروں کے اخذ کردہ نظریے کی توثیق کر دی… یہ کہ بنیادی خلیوں کے گروتھ عناصر دل کے مردہ ؑخلیلات دوبارہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ہوا یہ کہ فروری 2014 ء میں سینٹر فار کلینکل ریسرچ میں ایک تجربے کا آغاز ہوا۔ اس تجربے میں 537 رضاکار لیے گئے جن کی عمر پچاس ساٹھ برس تھی۔یہ سبھی ہارٹ اٹیک یا کسی اور طبی خرابی کے سبب خراب دل کے مالک تھے۔ماہرین نے رضاکاروں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ایک گروہ کے مردوزن میں بذریعہ انجکشن پندرہ کروڑ میسینشمیل بنیادی خلیے دل میں داخل کر دئیے گئے۔جبکہ دوسرے گروہ کے افراد کو ایسے ٹیکے لگائے گئے جن میں کچھ نہ تھا(گویا انھیں دکھاوے کے طور پہ انجکشن لگے)

اس کے بعد ماہرین رضاکاروں کی سرگرمیوں اور طرززندگی پہ نظر رکھنے لگے۔ مثلاً وہ کیا کھاتے پیتے اور کب اسپتال آتے ہیں۔کب ڈاکٹر کو فون کیا۔طبی معائنہ کب کرایا اور دل کی تکلیف کب ہوئی۔غرض رضاکاروں کے معمولات ِزندگی خاصی حد تک ماہرین کے علم میں رہے۔یہ تجربہ مئی ۲۰۲۰ء میں ختم ہوا۔یہ بنیادی خلیوں کے خراب دل پہ ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے والی اب تک سب سے طویل و مستند تحقیق ہے۔اس کو ’’ڈریم ۔ایچ ایف‘‘ (DREAM-HF trial) کا نام دیا گیا جو سات سال جاری رہی۔ اس تجربے سے درج ذیل نتائج ماہرین کے سامنے آئے:

٭…جن مردوزن نے میسینشمیل بنیادی خلیوں کے انجکشن لیے تھے، ان میں ہارٹ اٹیک کے عام دوروں کی شرح ’’65 فیصد‘‘ تک گھٹ گئی۔ جبکہ فالج گرنے کا امکان بھی کم رہ گیا۔

٭…ان میں سوزش بھی کم ہو گئی۔واضح رہے، انسانی جسم میں سوزش ہارٹ اٹیک سمیت کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔

٭…اس کے علاوہ وہ دوسرے رضاکاروں کی نسبت کم اسپتال آئے اور طبی معائنہ بھی کم کرایا۔

گویا اس سات سالہ تجربے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنیادی خلیہ طریق علاج سے استفادہ کرنے والے مردوزن کو فائدہ پہنچا اور ان کا دل پہلے سے زیادہ صحت مند ہو گیا۔ ماہرین اب مذید تجربات کر رہے ہیں تاکہ ،بنیادی خلیوں کے میکنزم کو سمجھا جا سکے جو دل کے مردہ عضلات دوبارہ پیدا کر دیتا ہے۔اور اس انقلابی تبدیلی میں گروتھ عناصر کا کردار بہت اہم پایا گیا۔

نظریے کی پرکھ
پاکستانی ڈاکٹروں کا تحقیقی نظریہ پرکھنے کی خاطر امریکی ریاست، مینی سوٹا میں میو کلینک سینٹر فار دی جینریٹیو میڈیسن(Mayo Clinic Center for Regenerative Medicine)میں بھی تجربہ کیا گیا۔اس کے ذریعے ماہرین دیکھنا چاہتے تھے کہ بنیادی خلیہ علاج سے کس قسم کے گروتھ عناصر جنم لیتے ہیں اور جن کی سمت پاکستانی ڈاکٹروں نے اشارہ کیا تھا۔یہ تجربہ کرنے والی ٹیم کے قائد ادارے کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر آندرے ٹرزیک تھے۔

ٹیم نے لیبارٹری میں آٹھ چوہے لیے اور ان میں مصنوعی طور پہ ہارٹ اٹیک پیدا کر دیا۔ حملہ قلب نے چوہوں کو بد حال کر ڈالا۔ان کی نقل وحرکت بہت کم رہ گئی۔ چار ہفتے بعد ڈاکٹروں نے بذریعہ انجکشن چوہوں کے دل میں میسینشمیل بنیادی خلے داخل کر دئیے۔پھر چار ہفتے بعد چوہوں کے دل نکال لیے گئے۔انھیں پھر مخلتف کیمیائی مادوں سے دھویا گیا۔مدعا یہ تھا کہ دلوں سے تمام پروٹینی مادے نکال لیے جائیں۔ڈاکٹر آندرے کہتے ہیں:’’ہم نے چوہوں کے دلوں میں پائے جانے والے ہر پروٹینی مادے کا جائزہ لیا۔‘‘

اس تجربے سے عیاں ہوا کہ چوہوں کے دل تقریباً چار ہزار مختلف پروٹینی مادے (یعنی گروتھ عناصر)رکھتے ہیں۔ہارٹ اٹیک نے ان سے 450 پروٹینی مادے تباہ کر دئیے۔مگر جب بنیادی خلیہ علاج کیا گیا تو تباہ شدہ مادوں میں سے 200زندہ ہو گئے اور اپنے کام انجام دینے لگے۔گویا بنیادی خلیوں کے گروتھ عناصر نے دل کے مردہ عضلات میں نئی زندگی دوڑا دی۔یہ ایک حیرت انگیز دریافت ہے۔یوں ثابت ہو گیا کہ بنیادی خلیہ علاج دل کے خراب عضلات مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

خلیوں کا باہمی رابطہ
ڈاکٹر چارلس مرے واشگٹن یونیورسٹی میں بنیادی خلیہ طریق علاج کے ماہر ہیں۔ کہتے ہیں:’’انسانی بدن میں تمام خلیے سالماتی پیغام بروں کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔اسی رابطے کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ انھیں کیا درکار ہے۔جب کوئی عضو مثلاً دل ہارٹ اٹیک یا کسی اور خرابی کا نشانہ بنے تو بہت سے خلیے مر جاتے ہیں۔یوں خلیوں کا باہمی رابطہ بھی متاثر ہوتا ہے۔مگر جب تباہ شدہ حصّے میں بنیادی خلیے متعارف کرائے جائیں تو وہ نئے خلیے اور گروتھ عناصر پیدا کرتے ہیں۔یوں خلیوں کا ٹوٹا رابطہ پھر بحال ہونے لگتا ہے۔بحالی کے اسی عمل سے نئے خلیے دل کے تباہ شدہ حصّوں کی مرمت کرنے لگتے ہیں۔وہ وہاں نئے عضلات اگا دیتے ہیں۔‘‘

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ بنیادی خلیہ علاج خصوصاً ان لاکھوں مردوزن کے لیے مفید ہے جن کے دل ہارٹ اٹیک کی وجہ سے متاثر ہو جائیں۔ایسے انسان دل خراب ہو جانے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔مگر اب وہ بنیادی خلیوں کی مدد سے اپنے خراب دل ٹھیک کر سکتے ہیں۔اس طریق علاج کو پاکستانی ڈاکٹروں کی تحقیق ہی نے نمایاں کیا ورنہ امریکی محقق، پائیرو انورسا نے اپنے فراڈ ودھوکے سے اسے گہن لگا دیا تھا۔پاکستانی ماہرین کا تحقیقی مقالہ اندھرے میں اُمید کی کرن ثابت ہوا۔اس نے ماہرین طب اور سائنس دانوں کو باور کرایا کہ بنیادی خلیہ طریق علاج خصوصاً دل کی بیماریوں پہ قابو پانے میں مددگار ہے۔

حصول مشکل نہیں
یہ طریق علاج اب وسعت پذیر ہے۔وجہ یہ ہے کہ سائنس داں اب میسینشمیل خلیوں کی بابت بہت کچھ جان چکے۔ان خلیوں کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج ممکن ہے۔پھر زخمی اور خراب اعضا بھی ٹھیک کیے جا سکتے ہیں۔ان خلیوں کا حصول بھی آسان ہے۔ہڈیوں کا گودا سب سے بڑا منبع ہے۔گودے سے ان خلیوں کا حاصل کرنا مشکل نہیں رہا۔

مثال کے طور پہ آپ کے کسی پیارے یا قریبی عزیز کو دل یا کوئی اور عضو ٹھیک کرنے کی خاطر میسینشمیل بنیادی خلیے درکار ہیں۔پہلے یہ طبّی امتحان ہو گا کہ کیا آپ کے میسینشمیل خلیے اس کے جسم میں استعمال ہو سکتے ہیں؟جواب اثبات میں آیا تو آپ کا آپریشن ہو گا۔عموماً کولھے کی ہڈی سے یہ خلیے لیے جاتے ہیں۔کولھا تین چار ہفتوں میں یہ خلیے دوبارہ پیدا کر لیتا ہے۔گویا یہ عمل ویسا ہی کہ کسی نے اپنے پیارے کو خون دے دیا ۔نیا خون بھی جلد بن جاتا ہے۔

جیسا کہ بتایا گیا، میسینشمیل بنیادی خلیے تقریباً ہر قسم کے خلیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ لہذا عین ممکن ہے، مستقبل میں سائنس داں ان خلیوں سے دل ہی نہیں گردے، جگر، پھیپھڑے اور دیگر اہم انسانی عضو تیار کر لیں۔یوں انسان کی ٹرانسپلانٹیشن کے پیچیدہ عمل سے جان چھوٹ جائے گی۔نیز بنیادی خلیہ علاج بیماریوں سے چھٹکارا پانے میں بھی انسانیت کی مدد کر سکتا ہے۔اس علاج کے سلسلے میں طبّی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔تام ماہرین انھیں دور کرنے کی سعی میں مصروف ہیں۔

The post پاکستانی ڈاکٹروں کا تاریخی کارنامہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>