(یمین السلام زبیری ریٹائرڈ صحافی ہیں، وہ ایک ناول کے مصنف ہیں۔ اردو میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں اور حلقہ ارباب ذوق ورجینیا، امریکا کی محفلوں میں پڑھتے ہیں۔)
شفیق، مہربان، ہم درد ایسے ہی الفاظ ذہن میں آتے ہیں جب مجھے نصراللہ خاں صاحب یاد آتے ہیں۔ انہیں ہم بھائی بہن نصراللہ چچا کہا کرتے تھے۔ نصراللہ چچا کا انتقال طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد 22 فروری 2002ء کو میری لینڈ امریکا میں ہوا اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوئی۔
میں یہاں ان کے طرزتحریر پر، ان کی صحافتی حیثیت اور ان کی زبان، محاورہ اور اس پر ان کی گرفت پر کچھ نہیں کہوں گا کیوںکہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوجائے گی۔ میری ایسی حیثیت نہیں۔ ان کا کالم لکھنا اور کتابیں لکھنا ہم بہن بھائیوں لیے ذاتی فخر کی بات رہی ہے، لیکن ہم انہیں جب دیکھتے تھے تو صرف نصراللہ چچا کی حیثیت میں دیکھتے تھے۔ یہاں میں ان پر اپنے تعلق کے حوالے سے لکھوں گا۔ وہ ہمارے ہاں بہت آتے تھے، اور ہمیشہ لمبی بیٹھک کر کے جاتے تھے۔
وہ ہمیں اپنے ریڈیو پاکستان اور اخبار و رسائل اور اپنے ماضی کے قصے سنایا کرتے تھے۔ باتیں بہت کرتے تھے، اسی طرح دوسرے کی بھی غور سے سنتے تھے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ ریڈیو پاکستان میں ایک بار ایک کلاسیکی گانے والا اپنے پروگرام میں کسی وجہ سے نہیں آسکا، سارے سازندے بالکل تیار بیٹھے تھے، پروڈیوسر پریشان تھا کہ کیا ہوگا، تو نصراللہ صاحب نے پروڈیوسر سے کہا کہ وہ یہ راگ گا دیں گے۔ اور انہوں نے وہ کر بھی دیا۔ وہ عام معلومات، خبروں کا تجزیہ، ڈراموں کی باتیں، ان کے اپنے آئندہ کے پروگرام، اپنے بچوں کی باتیں، اپنے بچوں کے بچوں کی باتیں سب ہم سے کیا کرتے تھے۔
نصر اللہ صاحب سے میرے والد امین السلام زبیری، چیف ایڈیٹر یو ایس آئی ایس، کی انیس سو پچاس کی دہائی کے شروع میں ملاقات ہوئی ہوگی۔ دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ اُن کی طبیعتیں بہت ملتی جلتی تھیں، اور دوسرے دونوں کے دوست احباب اور ملنے جلنے والے بھی ایک تھے جو اس وقت کے صحافی اور دانشور حضرات ہی تھے۔
نصر اللہ صاحب کے دو بیٹے اور پانج بیٹیاں تھیں۔ یہ اور نصراللہ صاحب کی بیگم صاحبہ سب ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے بچوں اور ہماری عمروں میں بہت فرق تھا تو ہماری ان سے دوستیاں نہیں ہو سکیں۔ ان کے بڑے بیٹے نجم الحسنین اپنے والد کی طرح ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر تھے۔ انجم سب سے چھوٹے بیٹے تھے انہوں نے سی اے کیا اور اکاؤنٹنگ میں ہی رہے۔ انجم امریکا آگئے تھے، دو ایک بار ملاقات ہوئی لیکن اب بہت عرصے سے نہیں ملے۔ بیٹیاں نصراللہ صاحب کی سب خوش حال ہیں۔
جب نصراللہ صاحب حریت سے منسلک ہوگئے تو ہمارے ہاں بھی حریت آنے لگا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسکول سے آکر کچھ کھا پی کر پھر ہم سارا اخبار پڑھا کرتے تھے۔ اس میں ادارتی صفحے پر اول کالم میں علمی معلومات کے متفرقات ہوا کرتے تھے اور آخری کالم پر نصراللہ صاحب کا کالم ’آداب عرض‘ ہوتا تھا۔ یہ ہمارا معمول تھا، اور میرا تو دسویں کے بعد تک رہا کہ اخبار میں اور کچھ پڑھوں یا نہ پڑھوں یہ دو کالم ضرور پڑھا کرتا تھا۔ میں ان دونوں کالموں کا کچھ اس قدر شیدا ہو گیا تھا کہ ان کو کاٹ کر رکھ لیتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے پلندے بن گئے تھے۔ لیکن اس معاملے میں میں قسمت کا ایسا اچھا نہ تھا اور وہ کالم گھر بدلنے کے دوران ضائع ہو گئے۔
جب نصراللہ صاحب سے ہمارے والد کی دوستی شروع ہوئی اس وقت ہم تین ہی بھائی تھے۔ وہ جب آئے تو انہوں نے پہلے بڑے انیس بھائی کو دیکھا؛ پھر کسی اور دن آئے تو راقم الحروف کو دیکھا، ہمارے تیسرے بھائی سیف ہماری نانی کے ساتھ رہتے تھے، جلد ہی وہ بھی واپس آگئے۔ انہیں دیکھ کر نصراللہ صاحب ہمارے والد سے بولے کہ، ’یہ بچے کہاں بوریوں میں بند کر رکھے تھے کہ ایک ایک کر کے نکال رہے ہو۔‘ یہ بات انہوں نے ہمیں خود بتائی تھی۔
نصراللہ صاحب پہلے پیر الٰہی بخش کالونی (پی آئی بی کالونی) میں رہا کرتے تھے۔ میں والدین کے ساتھ ان کے گھرگیا تھا۔ ان کے ایک بھائی جو کسی ذہنی عارضہ میں مبتلا تھے انہیں میں نے وہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ ان کی شکل نصراللہ صاحب سے بہت ملتی تھی۔ اس کے بعد وہ ناظم آباد چار نمبر میں رہائش پذیر ہوئے، ان کے اس گھر میں بھی میرا جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ بہت قلیل عرصے کے لیے وہ ناظم آباد نمبر دو میں بھی رہے تھے۔
اور پھر شمالی ناظم آباد بلاک ایچ میں آگئے تھے۔ ہم آئی میں رہتے تھے، وہ اپنے گھر سے جو کسی طرح بھی ایک میل سے کم دوری پر نہیں ہوگا۔ ہمارے ہاں پیدل آیا کرتے تھے، مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور، اس وقت ان کی عمر ساٹھ پینسٹھ سال رہی ہوگی، وہ پیدل بہت چلتے تھے۔ انہوں نے کار چلانا کبھی نہیں سیکھا۔ ایک وقت وہ بھی آگیا کہ جب وہ واکر کے سہارے چلا کرتے۔ وہ تب بھی گھر سے نکلتے، انہیں ان کا ڈرائیور یا پھر ہم میں سے کوئی لے آتا تھا۔ تب وہ ہمارے قالین پر ہی کچھ نہ کچھ چلا کرتے۔
ہم اگر بچپن میں ان سے نہ ملے ہوتے تو ہمیں کبھی پتا نہ چلتا کہ وہ بچوں کے ساتھ بالکل بچہ بن جاتے ہیں۔ اکثر وہ پیدل آرہے ہوتے تو ہم انہیں دیکھ کر ان کے ساتھ گھر تک چلنے لگتے۔ پھر اچانک ہمیں لگتا کہ کسی نے ہمارے پیچھے سے لات ماری ہے۔ دو ایک لاتوں پر ہم سمجھ جاتے کہ یہ نصر اللہ صاحب کی شرارتیں ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ اگر ہم ان کے دائیں ہاتھ پر چل رہے ہوتے تو وہ اپنی بائیں ٹانگ سے، ترکیب سے، ہمارے ایک لگاتے۔ ہم جب جان جاتے تو بہت ہنستے۔
میری انیس بھائی سے بات ہو رہی تھی اور ان کا حلیہ بیان ہورہا تھا۔ انیس بھائی نے درست کہا کہ انہوں نے کبھی نصراللہ صاحب کے بال بنے ہوئے نہیں دیکھے۔ بہت عرصے تک کرتے کے ساتھ چوڑے پائنچے کا پاجامہ پہنتے رہے لیکن پھر علی گڑھ کٹ پاجامہ پہننے لگے تھے۔ اوپر سے عام طور پر ایک واسکٹ ہوتی، اگر سردی ہو تو اس کی مناسبت سے کچھ اوپر سے۔ گلے میں ایک مفلر رہا کرتا تھا۔
’کیا قافلہ جاتا‘ ہے کے پچھلے صفحے پر جو ان کی تصویر ہے وہ ان کے حلیہ کا زیادہ پتا دیتی ہے بہ نسبت یونی کیریئنز کے رسالہ کے جو کراچی یونیورسٹی کے سابق طلبہ کی تنظیم نے نصراللہ صاحب کے پچھترویں جنم دن، اور ان کے قلم کی پچاسویں سال گرہ کی تقریب سپاس پر نکالا تھا جس میں ان کے بال بھی بنے ہوئے ہیں اور وہ ڈھنگ سے شیروانی پہنے ہوئے ہیں، شاید اسٹوڈیو میں کھنچوائی گئی ہے، کیوںکہ عام طور پر جب وہ شیروانی میں ہوتے تھے تو ان کی شیروانی کے بٹن کھلے رہتے تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کے دانت گر گئے تھے اور آخر میں بتیسی لگانے لگے تھے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے بال سفید جھک ہی دیکھے۔ ان کی شکل میں معمولی تبدیلی آئی۔ 1998 میں میں امریکا آگیا تو اس کے بعد ان سے کبھی نہیں ملا۔
میرے لیے نصراللہ صاحب کو بھولنا بہت مشکل ہے۔ میں بہت چھوٹا تھا، چار سال کا، غالباً انّیس سو چوّن کی بات ہے، میرے کتّے نے کاٹ لیا تھا۔ میرے والد امریکن ایمبیسی کی طرف سے تربیت کے لیے امریکا گئے ہوئے تھے۔ میرے ماموں جو ہمارے ساتھ رہتے تھے خود بہت صغیر سن تھے، دوسرے اعزاء قریب نہیں تھے۔ اس وقت نصراللہ صاحب ہی تھے جومجھے ٹیکے لگوانے کے لیے ناظم آباد سے جناح اسپتال لے جایا کرتے تھے۔ ہم دو بچّے تھے جنہیں کتّوں نے کاٹ لیا تھا، دوسرا بچّہ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ کوئی بارہ چودہ سال کا ہوگا۔
چودہ ٹیکے لگے، مجھے یاد نہیں ہر ٹیکا کتنے دن کے بعد لگتا تھا۔ لیکن مجھے (غالباً، سندھ) سنڈیکیٹ کی ہری اور پیلی بس یاد ہے جس میں ہم جناح اسپتال جایا کرتے تھے، اس پر ایک گول مہر بنی ہوا کرتی تھی۔ اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کبھی کبھی میں بہت زیادہ رونے لگتا تھا تو نصر اللہ صاحب وہیں کسی چائے والے سے زیرے والے نمکین بسکٹ خرید کر بہلایا کرتے تھے۔ مجھے اپنے رونے کی وجہ سے ان کی کچھ پریشان سی شکل ابھی تک یاد ہے۔ نصراللہ چچا کا میری زندگی میں دخل رہا، اور میری شادی بھی ان ہی کے مشورے سے ان کے دور پرے کے بھانجے عبدالمجید خان صاحب کی بیٹی غزالہ سے ہوئی، وہ بھی ہیپی ڈیل کی پڑھی ہوئی ہیں۔
میں جب اسکول جانے کے لائق ہوا تو میرا داخلہ ہیپی ڈیل اسکول میں کرادیا گیا۔ یہ اسکول نصر اللہ خاں صاحب اور ان کی منہ بولی ہمشیرہ مس آمنہ ممتاز نے قائم کیا تھا۔ میرے والد ہیپی ڈیل کے بورڈ ممبر بھی تھے اور اس کے اجلاسوں میں برابر جاتے تھے، حتٰی کہ اسکول قومیا لیا گیا۔
نصراللہ صاحب نے کب سے اور کتنا لکھا ہے یہ ان پر لکھنے والے سارے ہی لوگ لکھ چکے ہیں۔ یہاں میں یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنا سب سے مشہور اور اچھا ڈرامہ ’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘ ہمارے گھر ، مسکنِ طارق، ناظم آباد 2، ہی میں بیٹھ کر لکھا تھا، اس بات کا ذکر وہ ہم سے بارہا کیا کرتے تھے۔ اسی طرح کئی کالم ہمارے گھر بیٹھ کر لکھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارا گھر اس زمانے میں ہیپی ڈیل اسکول سے بہت قریب تھا، اور ان کا گھر پیر کالونی میں، تو آنے جانے کا وقت بچتا تھا۔ ایک بار مجھے یاد ہے کہ میں ان کے شمالی ناظم آباد والے گھر گیا تو ان کے کمرے تک چلا گیا، میں نے دیکھا کہ وہ بستر پر لیٹے ہوئے ایک کاغذ پڑھتے بھی جاتے ہیں اور کچھ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں ان تک پہنچتا مجھے روک دیا گیا، بتایا گیا کہ وہ اس وقت اپنے کالم پر آخری نظر ڈال رہے ہیں، باہر جنگ کا ڈرائیور کھڑا ہے جو یہ کالم لے جائے گا۔ اس زمانے میں ای میل اور واٹس ایپ نہیں تھا، گاڑیاں دوڑتی تھیں، اور کتابت ہوتی تھی کمپیوٹر نہیں تھا۔ اس وقت تک حریت بند ہو چکا تھا اور وہ جنگ کے لیے لکھ رہے تھے۔
ایک بار وہ ہمارے ہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ انیس بھائی نے پوچھا کہ انہیں کالم لکھنے کی تحریک کیسے اور کس وقت ہوتی ہے۔ وہ بتانے لگے کہ اس میں کوئی وقت خاص نہیں اور کبھی بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خیال آجائے؛ اسی طرح کوئی چھوٹی سی بات بھی کالم سمجھا سکتی ہے۔ اس کے بعد باتیں ہونے لگیں اور کوئی بات ان کو اچھی لگی تو بولے کہ، ’کل اسی پہ کالم ہو جائے گا۔‘
اس موقع پر مجھے ان کا ایک کالم یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر ایک کسی اسلامی جماعت کی حکومت آگئی تو کیا تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا کہ دانتوں کے برش کی بجائے مسواک ہوا کرے گی اور یہ کہ داڑھی مونڈھنے والے مردوں کو جب تک ڈاڑھی نکل نہیں آتی اس وقت تک نقلی داڑھی لگائے رکھنا ہوگا، ورنہ جرمانہ ہو سکتا ہے۔
نقلی داڑھی کی دکانیں جا بہ جا کھلی ہوئی ہوں گی۔ ان کے کالموں سے ایک جملہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ کراچی کی بسوں اور ان میں رش کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بس کے دروازے میں لٹک کر سفر کرتے لوگوں کے لیے لکھا تھا، ’راسیں لدی جارہی ہیں۔‘ یعنی بے جان گوشت کی طرح بے دردی سے۔ سب نے ہی دیکھا ہو گا کہ گوشت کے ٹرکوں میں گایوں کی راسیں کیسے لٹکا کر لے جائی جاتی تھیں۔
میں نے نصر اللہ صاحب کی زبان سے دو بار افسوس کا لفظ سنا، ایک بار جب وہ امریکا گئے اور آرٹ بکوالڈ کے دفتر کا چکر لگایا لیکن اس سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ دوسرے ایک بار انہیں فیض احمد فیض کا انٹرویو کرنا تھا لیکن ٹریفک میں پھنس کر وہ وقت پر نہ پہنچ سکے، اور فیض کو ہوائی جہاز پکڑنا تھا۔ انہیں ان باتوں کا افسوس تھا لیکن وہ افسردہ نہیں تھے۔ میں نے انہیں کبھی افسردہ نہیں دیکھا، ہمیشہ خوش اور مزاحیہ رہتے تھے۔ آرٹ بکوالڈ کے دفتر کے بارے میں وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کئی منزلہ عمارت میں تھا اور بہت لوگ اس کے لیے کام کرتے تھے۔ امریکا کی سیر کا انہوں نے بتایا کہ ان کے داماد، ان کی بیٹی شاہین کے شوہر، نے ایک کیمپر لے لیا تھا اور اس میں ان سب نے امریکہ کی سیر کی تھی۔
نصراللہ صاحب نے اگر یوں کہیں کہ اپنی عمر سے زیادہ زمانہ دیکھا تھا تو غلط نہ ہوگا، یعنی اوور ٹائم بھی بہت کیا تھا۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گھر بیٹھنے والے آدمی نہیں تھے، وہ مستقل گھر سے باہر کسی نہ کسی سے ملتے رہتے تھے۔ وہ خوامخوہ باہر نہیں گھوما کرتے تھے ان کے کالموں کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے ہر رخ کا مطالعہ غور سے کیا۔ پھر انہیں لوگ بھی ایسے ایسے دیکھنے کو ملے جو بہت ہی تجربہ کار تھے اور اعلیٰ ذہانت رکھتے تھے۔ نصر اللہ صاحب شروع ہی سے ادیبوں، شاعروں، دانش وروں اور صحافیوں کے درمیان رہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہیں موقع ملا ہوگا، لیکن میں کہوں گا کہ یہ، کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز والی بات تھی۔
نصراللہ صاحب کی زندگی کے بارے میں ان پر تقریباً سارے ہی لکھنے والوں نے بہت سی باتیں لکھی ہیں میں کچھ یہاں دہراتا ہوں کہ مضمون ادھورا نہ لگے۔ وہ ۱۱نومبر۱۹۲۰ء کو ریاست جاؤ رہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کانوں میں علمی گفتگو پیدا ہوتے ہی پڑنی شروع ہوگئی تھی اس لیے کہ ان کے والد محمد عمر خاں صاحب مسلم ہائی اسکول امرتسر کے ہیڈ ماسٹر اور ماہرتعلیم تھے اور معیاری کتابوں اور ترجموں کے مصنف بھی تھے؛ جن کے شاگردوں میں سے اے حمید اور منٹو نے دانش وری میں نام کمایا۔ بجا ہوگا اگر کہیں کہ لکھنا لکھانا نصراللہ خاں صاحب کی گھٹی میں پڑا تھا۔ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی بی اے اور بی ٹی کیا، ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ہیپی ڈیل جیسا مثالی اسکول قائم کیا۔
نصراللہ صاحب نے جب صحافت میں آنکھ کھولی تو اس وقت مولانا ظفر علی خاں زمانے پر چھائے ہوئے تھے۔ نصراللہ صاحب کیا قافلہ جاتا ہے میں مولانا کے ساتھ اپنا تعلق بیان کرتے لکھتے ہیں: میرا تعلق روزنامہ ’زمیندار‘ سے زیادہ مولانا ظفر علی خان سے تھا۔ حضرت مولانا مجھ پر بے پناہ شفقت فرماتے اور میں ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتا۔ وہ جب بھی امرتسر آتے میرے یہاں قیام فرماتے۔ میں زمیندار میں ملازم نہیں تھا زیر تربیت تھا۔ میرے مضامین زمیندار میں شائع ہوتے رہتے تھے۔
کہتے ہیں کہ بیج اگر مناسب آب و ہوا میں ہو تو اسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ نصراللہ صاحب نے بھی اسکول کے زمانے ہی سے اپنے ارد گرد فن تحریر کے اساتذہ کا اثر قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ جب نویں میں تھے تو ان کا پہلا مضمون رسالے ’آبشار‘ میں چھپا تھا۔ نصراللہ خاں صاحب کی طبیعت میں طنزو مزاح ویسے ہی خوب موجود تھا، مولانا ظفر علی خان کے زیرِسایہ یہ نشتر اور ہی تیز ہوگیا ہوگا۔
ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں، بقول نصراللہ خان وہ شخصیات جو میرے (نصراللہ صاحب کے) لیے اساتذہ کا درجہ رکھتی ہیں، ان میں مولانا ظفر علی خان، مولانا چراغ حسن حسرت، مرتضیٰ احمد میکش، حاجی لق لق اور مولانا عبدالمجید سالک کے علاوہ شورش کاشمیری، سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض بھی شامل ہیں۔ ان کی کتاب ’کیا قافلہ جاتا ہے‘ میں ایک طویل فہرست ایسے لوگوں کی ہے جن سے نصر اللہ صاحب کا تعلق رہا اور جن کی دانش وارانہ صلاحیتوں کے سب ہی قائل ہیں۔
نصراللہ صاحب کی بڑی بات ہے گو وہ کسی سے کم نہیں تھے لیکن انہوں نے دعویٰ ان سب حضرات سے سیکھنے ہی کا کیا ہے۔
انہوں نے مولانا ظفر علی خاں کے زیرسایہ امرتسر کے ’زمیندار‘ اور ’احسان‘ میں لکھنا شروع کیا۔ شمس زبیری کے ’نقش‘ کے لیے مزاحیہ ’شوخی تحریر‘ کا سلسلہ لکھا۔ مجید لاہوری کے ’نمکدان‘ کے لیے سلسلہ ’پیارے میاں‘ لکھا۔ ’ساقی‘ کے لیے ’کلن مر جائے گا؛‘ ’امروز‘ میں کالم؛ ’حریت‘ میں ’آداب عرض؛‘ پھر حریت کے بند ہونے کے بعد جمیل الدین عالی اور میر شکیل الرحمٰن کے اصرار پر جنگ میں آگئے اور اس میں بھی ’آداب عرض‘ کالم لکھنے شروع کیے۔ انہوں نے تکبیر کے لیے بھی ’نصراللہ کا کالم‘ لکھا جو کہ خاکے تھے۔ نوائے وقت میں ’پیر صاحب‘ کے عنوان سے لکھا۔
نصراللہ صاحب 1947 میں ریڈیو سے منسلک ہوئے، اور ریڈیو پاکستان کے لیے بہت سے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ ڈراموں میں ’لائٹ ہاؤس کے محافظ،‘’سومنات،‘ ’ایک حقیقت چار فسانے‘ اور ’نام کا چکر‘ مشہور ہیں، جب کہ فیچروں میں ’بات سے بات‘ اور ’دیکھتا چلا گیا‘ نے داد پائی ہے۔
انہوں نے تین کتابیں لکھیں، کالموں کا مجموعہ ’بات سے بات‘ اور خاکوں کا مجموعہ ’کیا قافلہ جاتا ہے،‘ جس کا عنوان میر تقی میر کے اس شعر سے لیا گیا ہے :
رنگِ گْل و بوئے گْل ہوتے ہیں ہوا دونوں
کیا قافلہ جاتا ہے تو بھی جو چلا چاہے
حریت کے کالموں کا انتخاب (دس جلدوں میں)، ایک ڈراموں کا مجموعہ اور کتابوں پر تبصرے بعنوان ’تبصرے اور تذکرے‘ شائع ہوچکی ہیں، ان کی آپ بیتی ’ایک شخص جو مجھی سا تھا‘ غیرمطبوعہ ہے۔
نصر اللہ خاں صاحب کی مقبولیت بتا تی رہی کہ ان کی نصف صدی کی صحافتی کاوشوں کو عوام نے بہت سراہا۔ سرکاری اور صحافتی حلقوں سے بھی ان کے قلم کی کاٹ کا اعتراف کیا گیا۔ انہیں ’صدرِ پاکستان کا تمغہ حسنِ کارکردگی‘ ملا، اور اے پی این ایس اپنے سب سے پہلے ’بہترین کالم نگار‘ کے اعزاز کے لیے کسی اور کو نہیں چن سکی۔
اگر ہمیں اردو سے محبت ہے تو ہمیں اردو کے مصنفین کو یاد رکھنا چاہیے۔ کوئی ایسا بھی رسالہ ہونا چاہیے یا ویب جس پر ان مصنفین کی تحاریر ڈالی جائیں جو گزر گئے ہیں۔ تعلیم کا حال ہمیں معلوم ہے۔ اردو میں روز تبدیلیاں آرہی ہیں اس کو ابھی بہت ترقی کرنی ہے۔ اگر ہم پرانوں سے دور رہیں گے تو تختِ اردو کے پائے خشکی پر نہیں دلدل میں رکھے ہوں گے اوریہ بہت جلد اپنا توازن کھو رہے گا۔
نصراللہ صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کر کے گھر سے صرف ایک قلم لیکر نکلتے ہیں۔ ان کے قلم کی روانی، کاٹ اور جادو سب کو فتح کرتے چلے جاتے ہیں۔ میں امیر الاسلام ہاشمی بدایونی کے دو بیتوں پر جو انہوں نے نصراللہ خاں صاحب کی مداح میں کہے تھے اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔
ہر اک فرعون سے کی ہے لڑائی خان صاحب نے
ہزاروں سانپ مارے ہیں مگر ٹوٹی نہیں لاٹھی
صحافت کے یہ رستم ہیں، قلم گرزِ فریدوں ہے
نظر کچھ اور آتی ہے مگر کچھ اور ہے کاٹھی
(امیر الاسلام ہاشمی بدایونی)
The post ہمارے شفیق ’’نصراللہ چچا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.