کہتے ہیں کہ ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ دنیا آگے بڑھ رہی ہے، نت نئی چیزوں اور حیرت انگیز سہولتوں کے ساتھ ساتھ جدید تر خیالات اور تصورات بھی سامنے آ رہے ہیں، جو برق رفتار ’ذرایع اِبلاغ‘ کے وسیلے بہت تیزی سے ہماری زندگیوں میں اگر شامل نہ بھی ہوں، تو اثر انداز ضرور ہو رہے ہیں۔
اب بہت سی نئی چیزوں میں جہاں ہمارے مسائل کا حل ہوتا ہے، بہت سی آسانیاں پیدا ہوتی ہیں، وہیں بے شمار نئے سوالات بھی کھڑے ہوئے جاتے ہیں۔ یقیناً ہر ’تبدیلی‘ اپنے میں ہر طرح کے اچھے اور برے اثرات رکھتی ہے۔
کسی بھلے مانس کا مقولہ ہے ناں کہ ’زیادتی ہر چیز کی بری ہوتی ہے‘ یعنی ہر چیز توازن کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے، بالکل فطرت نے بنی نوع انسان ہی کو کیا، حیوانات سے لے کر نباتات تک کو دو، دو اصناف میں پیدا کیا۔۔۔ بلکہ اگر اسے مزید آگے لے جائیے، تو شاید بہت سے سائنسی تصورات اور حقائق بھی انھی دو اصناف میں بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، گویا یہ ایک آفاقی سا اصول ہے، جو بہت سے مظاہر قدرت اور فطرت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔
مرد اور عورت، یا مذکر اور مونث۔ یقیناً ایک دوسرے کے بغیر ادھورے یا یوں کہیے کہ کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔ بس اس کائنات کا یہی توازن، یہی رنگ اور یہی تال میل ہی کارخانۂ قدرت کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔۔۔ جب ہم ’توازن‘ کہیں گے، تو ظاہر ہے پلڑا کسی بھی جانب جھکنا ’عدم توازن‘ کا کھلا اظہار ہوگا۔۔۔ اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ’صنفِ نازک‘ کو ’صنفِ قوی‘ کی جانب سے کافی جبر اور استحصال کا سامنا ہے، طرح طرح کے مظالم اور رکاوٹیں اس کے سامنے ہیں۔
’عورت کو پیر کی جوتی‘ کہنے جیسی قبیح ترین ترکیب بھی ہمارے ہی سماج میں کہی اور سنی جاتی ہے۔۔۔ ہم سب ہی بلا تفریق صنف، اس ظلم اور جبر کے خلاف برابر لکھتے اور کہتے رہے ہیں۔۔۔ ہر ’یومِ خواتین‘ پر اس کا بالخصوص اہتمام بھی کرتے ہیں، ہر چند کہ ہم جذبوں اور رشتوں وغیرہ کو کسی ایک دن تک محدود کر دینے کے حامی نہیں، لیکن پھر بھی بااہتمام کوئی ایک دن کسی کے نام کر دینے میں کوئی حرج بھی محسوس نہیں کرتے۔
دوسری طرف کچھ عرصے سے چہار سو ہم پر ’حملہ آور‘ سرمایہ دارانہ نظام ہر موقع، تیوہار اور ’یوم‘ میں کسی نہ کسی روپ میں ہمارے کِواڑ پر دستک دینے لگتا ہے۔ اُسے ویسے بھی رنگ برنگی منڈی اور دنیا کے میلے ٹھیلے بہت پسند ہیں، کیوں کہ اُسے یہاں اپنا ’سودا‘ بیچنے کے لیے ایک بھرپور موقع ہاتھ آجاتا ہے۔
ہر تہوار ’سرمایہ داری‘ کی زبان میں ایک ’دُکان‘ کے موافق ہوتا ہے، بعینہٖ مساوات و صنفی برابری سے لے کر بنیادی انسانی حقوق تک۔۔۔ ہر ایک موڑ پر اب مُحدّب عدسہ لگا کر یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ اس اچھے بھلے سماجی اور انسانی خیال اور تصور کو اب کہیں کوئی ’سرمایہ دار‘ گردن مروڑے تو نہیں بیٹھا ہوا۔۔۔
اس مقصد کے لیے پروپیگنڈہ ایک تیر بہ ہدف نسخہ ثابت ہوا ہے، جس کے ذریعے بہت شاطرانہ طریقے سے عوام کے ذہنوں پر وار کیا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے اثر کرنے والی کسی ’دوا‘ کی طرح چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق تبدیل کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان غیر محسوس طریقے سے اُسی طرح سوچنا اور محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے، کہ جیسے اسے بار بار پڑھایا، دکھایا، بتایا اور سنایا جاتا رہتا ہے، اور یہ سب ’آزادی‘ جیسے پرفریب اور پُرسرور چھتری تلے ہو رہا ہوتا ہے۔
پہلے شاید انسانوں کو زنجیریں ڈال کر غلام کیا جاتا تھا، لیکن شاید آج ہم بہ خوشی غیر محسوس طریقے سے کسی ریموٹ کنٹرول ’ربورٹ‘ کی طرح برتاؤ کرنے لگے ہیں، یعنی ہمیں پہلے سے بہت سے تصورات طے کر کے دے دیے جاتے ہیں کہ فلاں چیز ایسی ہوگی، اس کا مطلب فقط یہی ہوگا اور یہ صحیح اور غلط اور یہ اچھا اور یہ برا ہوگا۔۔۔! پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج کے بہت سے اچھے روایتی تصورات کو فرسودہ اور دقیانوسی کہہ کر ’عقل‘ کے استعمال کرنے کے مشورے دینے والے بہت سے ’بقراط‘ باہر کے ’طے شدہ‘ مفروضوں اور ان کے درپردہ اصل حقائق کے حوالے سے بہت بنیادی سوالات کھڑے کرنے سے بھی بوجوہ گریزاں رہتے ہیں۔
بس ایسی ہی کچھ صورت حال ’عالمی یوم خواتین‘ کے حوالے سے بھی ہونا شروع ہوئی، قارئین واقف ہوں گے کہ ہم لگ بھگ نو، 10 برسوں سے ’خواتین‘ کے صفحات سے لے کر ’یوم خواتین‘ کے موقعوں تک کھل کر خواتین کے حقوق کے لیے لکھتے رہے ہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھنے والی خواتین کے انٹرویو کرتے رہے ہیں، خواتین کے مختلف جرائم اور سماجی مسائل پر انھی صفحات کے لیے مختلف مضامین اور ’فیچر‘ وغیرہ بھی کیے ہیں، لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے صورت حال کچھ مختلف سی ہونے لگی ہے۔
پہلے ہم صرف ’مذہبی انتہا پسندی‘ کے تدارک کے لیے کوشاں تھے، مگر اب ’سوشل میڈیا‘ کے بڑھتے ہوئے دائروں نے ’لبرل انتہا پسندی‘ کی بھی نت نئی اقسام متعارف کرا دیں۔ اس حوالے سے ’یوم خواتین‘ اور مساوات اور حقوق کی جدوجہد کو ’مشتعل‘ کر کے ایک ’صنفی جنگ‘ بنا دیا گیا ہے۔۔۔
’’میری مرضی، میری مرضی!‘‘ کے نعرے تلے وہ ہاہاکار مچتی رہی کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی۔۔۔ جس کے ساتھ ہی اس کی موافقت اور مخالفت میں دو سخت گیر نقطۂ نظر وجود میں آگئے اور اکثر نتیجہ لایعنی بحث، گالم گلوچ اور وقت کے ضیاع کی صورت میں نکلا۔۔۔ ’’میری مرضی‘‘ کو ’روشن خیالی‘ اور ’ترقی پسندی‘ کے دعوے داروں نے ایسا اُچکا کہ اچھے بھلے متوازن لوگ بھی اس کی چھایا تلے آتے چلے گئے، اور مِنمِنا کر ’اگر، مگر‘ چوں کہ، چناں چہ‘ کرتے ہوئے اس کی ’اپنی‘ تشریح کر کے بہ ظاہر دوسروں کو اور درحقیقت خود کو ’تسلی‘ دینے لگے کہ کیا کریں دوسری طرف جائیں گے، تو کہیں ہم پر سخت گیر، دقیانوسی یا ’مذہبی انتہا پسند‘ کی چھاپ نہ لگ جائے۔۔۔!
ہمیں بھی آپ ان دونوں خیالات کے بَین بَین ہی سمجھ لیجیے کہ ہم آنکھ بند کر کے ہر چمکتی چیز، کسی ہجوم اور بہاؤ میں بہتے ہوئے خیال کو کبھی نہیں اپناتے۔ اور جب ہم بھی ’آزادیٔ اظہار‘ کے عَلم بردار ہیں اور سماج میں صحت مند ’مکالمے‘ کو فروغ دینا چاہتے ہیں، سو، اس ’یوم خواتین‘ پر ہم نے سوچا کہ کیوں ناں ذرا عام روایت سے ہٹ کر کچھ ذرا دوسرے اور ’غیر مقبول‘ خیالات کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔۔۔
اکثر سوال کیے جاتے ہیں کہ صنفِ نازک کو ’شوپیس‘ بنا کر بالخصوص دفاتر کے ’استقبالیہ‘ پر بٹھا دینا کیا خواتین کے حقوق ہیں؟ بہت سی کمپنیوں میں انھیں خاندانوں کی کفالت کے ذمہ دار مردوں کی جگہ ملازمت صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ کم تنخواہ لیں گی۔۔۔! پھر اگر مساوات ہی سکہ رائج الوقت ہے، تو دونوں کے لباس بھی ’یک ساں‘ ہونے چاہئیں، لیکن ہم تفریحات سے لے کر بین الاقوامی سطح پر تقریبات اور سربراہان مملکت تک کو دیکھتے ہیں کہ مرد کا لباس زیادہ اور خاتون کا کم ہوتا ہے۔
صحیح اور غلط سے قطع نظر کم از کم ہم اِسے برابری تو کسی صورت میں نہیں کہہ سکتے۔۔۔! کبھی اس پر بھی بات کرنی چاہیے کہ چیزیں بیچنے کے لیے صنف نازک کا بھرپور سہارا لینا کیسا عمل ہے؟ کیا توجہ کے حصول کے لیے اس کے جسمانی خدوخال کو نمایاں کر دینا استحصال کے زمرے میں نہیں آئے گا۔۔۔؟ ساتھ ہی یہ اعتراض بھی اب جواب چاہتا ہے کہ خواتین کی ’کیٹ واک‘ کرانا اور ’محفلِ رقص‘ کی زینت بنا دینا کیا خواتین کی عظمت، وقار اور مرتبے کے شایان شان عمل ہے۔۔۔؟
بعضے لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ امریکا میں تاحال کوئی خاتون صدر نہیں آسکی، ایک حد تک یہ سوال درست ہے، ممکن ہے کہ کچھ عرصے میں ایسا ممکن ہو جائے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ مغرب میں بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق ملنا فقط 100 برس پہلے ہی کا قصہ ہے۔۔۔ ہمیں یہاں قطعی کوئی بحث یا موازنہ نہیں کرنا، بلکہ ذرایع اِبلاغ اور پروپیگنڈے کے منہ زور بہاؤ کے تضادات کی طرف اشارہ ہے۔۔۔ جیسے بعضے ادویات موسمی فرق کے سبب مغربی ممالک میں اور طرح نتیجہ دیتی ہیں، جب کہ یہاں ان کی اثر پذیری مختلف ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی وہاں کے اَن گنت نظریات اور افکار مِن وعَن یہاں منطبق کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے اس طرح استفادہ ممکن ہے۔
یہاں کی خواتین کے بہت سے مسائل یہاں کے رکھ رکھاؤ، معاشرت اور طور طریقوں کے مطابق دیکھ کر ہی حل کیے جا سکتے ہیں اور حل کیے جانے بھی چاہئیں، بالخصوص اسے ذومعنی اور متنازع قسم کے نعروں کی نذر ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔
پھر زندگی تو سدا سے دونوں صنفی پہیوں پر ہی رواں رہی ہے، درحقیقت یہاں کوئی بھی ’اپنی مرضی‘ کرتا ہی نہیں، اور اکثر جگہوں پر یہ ہمارے سماج کا حسن ہے کہ ہم سب بلا تفریقِ صنف بہ خوشی ’دوسرے کی مرضی‘ مانتے ہیں۔۔۔ ’میری مرضی‘ کے دُرشت الفاظ کو دیکھیے، تو معانی و مفاہیم کچھ بھی اخذ کر لیجیے، معذرت کے ساتھ ہماری خانگی زندگی اور عام سماج میں اس سے ایک ’میکانیکیت‘ اور انتہا درجے کی ’غرض‘ چھا جاتی ہے، جب کہ زندگی کی خوب صورتی باہمی مرضی پر استوار ہے۔
’کبھی میری مرضی، تو کبھی تیری مرضی۔۔۔!‘ کبھی یہ سپردگی اس درجہ حسین ہوتی ہے کہ ’میری مرضی، تیری مرضی‘ اور ’تیری مرضی میری مرضی!‘ کا روپ بھی دھار لیتی ہے۔ ایسے میں ہم اگر ’میری مرضی‘ کی دھاڑ لگائیں، تو خود بتلائیے کہ ہماری سماجیات کی اٹھان کیا ہوگی اور ہمارے مسائل کیا رخ اختیار کرنے لگیں گے!
چاہے ہم کوئی بھی نظریہ رکھتے ہوں، لیکن کون ایسے بدبخت ہوں گے، جو خواتین پر کسی بھی قسم کے ظلم، جبر، تشدد، ہراسانی، انھیں تنگ کرنے سے لے کر انھیں ونی کرنے، قرآن سے شادی، اور ’کاری‘ کہہ کر قتل کرنے وغیرہ کے حامی ہوں گے؟ کون خواتین کو زندہ درگور کرنے کو قبائلی روایت کہنے اور بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو مورودِ الزام ٹھیرانے جیسی پست اور بدترین مریضانہ سوچ کو درست کہیں گے؟ کون بیٹے اور بیٹیوں میں فرق پر نہ کُڑھے گا؟
کون ململ کے کپڑے میں لپٹی ہوئی خاک سونگھا کر نوزائیدہ بیٹیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر نہ دہل جاتا ہوگا؟ کون ہوگا جو خواتین کے خلاف وغیرہ وغیرہ شرم ناک اور انسانیت سوز رویوں کے لیے ذرہ برابر بھی کوئی گنجائش رکھتا ہوگا، لیکن جب ’حقوق‘ کے نام پر سماج اور خاندان میں عملاً یوں ’طبلِ جنگ‘ بجا دیا جائے کہ ایسا محسوس ہونے لگے کہ مرد اور خواتین دونوں یک سر الگ مخلوق یا کوئی علاحدہ قوم ہیں، جو ایک دوسرے کے حریف اور ازلی ’دشمن‘ ہیں، تو پھر سوچنا پڑ جاتا ہے۔
ہمارے شہروں تک میں ایسے باپ بھی موجود ہیں، جو ’آزادی‘ کے نام پر اپنی بیٹیوں کو بہت مان دیتے ہیں، لیکن ان کی زندگی کے اہم ترین فیصلے وہی فرسودہ طریقوں سے کرتے ہیں۔۔۔ یعنی لڑکی کی نئی زندگی کا فیصلہ فلانے بیٹھک، فلانی پنچائیت اور فلاں پیر اور ’بزرگ‘ کی منظوری سے ہوگا۔۔۔ وہ حق جو مذہب نے بھی پہلے دن سے عورت کو دیا ہے، اس کا کوئی ذکر خیر ہی نہیں۔۔۔ ساتھ لڑکی کو ’کم تر‘ سمجھنے کا اصل تصور براہ راست اس کی شادی کے موقع پر لڑکے والوں کے آگے ’سرنگوں‘ ہونے سے جڑا ہوا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں، جو کہیں کہ خبردار، جو اب لڑکی والوں سے جہیز، تحائف اور وغیرہ وغیرہ فرسودہ رسومات کے نام پر ’بھیک‘ مانگی یا وصول کی۔۔۔!
پھر بھی لڑکے والے (جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں) کیوں سمدھیانے کو ایسی اکڑ دکھاتے ہیں کہ وہ شادی نہیں، بلکہ لڑکی والوں کا بوجھ اتار رہے ہوں۔۔۔ شاید صنفی تفاوت کی یہ ایک بہت بڑی جڑ ہے، جو بیٹیوں کو کم تر سمجھنے کو پروان چڑھاتی ہے۔۔۔!
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے فرمایا تھا کہ ’’جس تحریک میں عورتیں شامل ہو، تو وہ تحریک کبھی مرتی نہیں ہے!‘‘ سوچیے ہم نے اپنی نسلوں کی تربیت کو ایک دقیانوسی تصور اور ’جبر‘ کہہ کر کس بری طرح رد کر دیا، بہ جائے اس کے کہ عورت کے تاریخ پر اس احسانِ عظیم کو بھرپور طریقے سے تسلیم کرتے اور بتاتے کہ یہ ایک عورت ہی ہوتی ہے، جو وجود انسانی کو تخلیق ہی نہیں کرتی، بلکہ اس کی نسلیں سنوار دیتی ہے۔۔۔ فقط ایک سانس لیتے ہوئے وجود کو مستقبل میں ایک مہذب، مخلص اور فرض شناس فرد بنا کر کسی بھی سماج کی نَیّا پار لگا دیتی ہے۔
لیکن پتا نہیں کیوں ’حقوقِ نسواں‘ صرف خواتین کی ملازمت اور پیشہ وارانہ سرگرمیوں تک ہی محدود تصور کر لیا گیا ہے۔۔۔ جانے یہ کیسے طے کر لیا گیا کہ فقط معاش ہی ایک راہ ہے جس سے خواتین مرد کے شانہ بہ شانہ ہو سکتی ہیں۔۔۔ ارے صاحب، مرد کی یہ بساط ہے بھی کہ وہ کائنات جتنے وسیع کردار کو صرف روزی روٹی سے جوڑ کر ہی عورت کو اپنے شانہ بہ شانہ کرنے کا دعویٰ کر سکے۔۔۔؟ اسے تو یوں کہنا چاہیے کہ دراصل مردوں کو عورتوں کے شانہ بہ شانہ ہونا چاہیے اور ’ماں‘ جیسی صفت کو اپنے میں سموئی ہوئی طاقت کو ’کمزور‘ یا ’’چھوٹا‘‘ کہنے کی سوچ کو عملاً ترک کرنی چاہیے۔
The post میری مرضی، تیری مرضی… تیری مرضی میری مرضی! appeared first on ایکسپریس اردو.