آج کے جدید اور تیزرفتار دور میں جہاں ہر انسان مادی ترقی کے حصول کے لیے کوشاں ہے، جہاں اچھے ذہن کے ساتھ بہترین لباس کے لیے کوشش کی جائے وہاں رُوح کی آسودگی کے لیے کون ا تنی محنت کرتا ہے۔
سائنس کی ترقی اور ٹیکنالوجی میں جدت کی بدولت نجی وپیشہ ورانہ زندگی میں کام یابی کے لیے بہترین حکمت عملی اور مائنڈسیٹ کو ترجیح دی جاتی ہے، لیکن کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اس ساری دوڑ میں انسان کی رُوح کا کیا حشر ہو تا ہے؟ نفسیات اس کا کسی حد تک احاطہ کرتی ہے، لیکن انسانی رُوح کی نشوونما کیسے پرورش پاتی ہے اور انسان کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ اس بارے میں تسلی بخش جواب نہیں دے پاتی۔
انسانی زندگی کا مقصد، کام یابی اور خوش حالی کا تعلق انسان کی رُوح سے ہے جس کی بدولت انسان اپنی زندگی بامقصد طریقے سے گزار سکتا ہے بلکہ اپنی رُوح کی دیکھ بھال کرسکتا ہے۔ آج کے اس آرٹیکل میں ہم رُوح کی نفسیات پر گفتگو کریں گے۔
اگر آپ لغت میں لفظ ’’سائیکی‘‘ کا لفظ دیکھیں تو آپ کو ’’سانس، زندگی کا اصول، رُوح‘‘ لکھا ملے گا۔ لیکن اگر آپ ’’نفسیات‘‘ کو دیکھیں تو آپ کو ’’ذہن اور طرزِعمل کی سائنس‘‘ ملے گا۔ ’’نفسیات‘‘ کا سب سے اہم پہلو کسی نہ کسی طرح اس کے حقیقی جوہر سے مشق تک ترجمہ میں کہیں نہ کہیں کھو گیا ہے۔
روحانی نفسیات(Spiritual Psychology) شعوری بیداری کے فن، سائنس کا مطالعہ اور مشق ہے۔ اس صنف میں مشغول ہونے کے لیے ہمیں انسانی ارتقاء کے جوہر کی تمیز سے آغاز کرنا چاہیے۔ ارتقاء کا مختصراً مطلب یہ ہے کہ روحانی حقیقت کے سیاق و سباق کے اندر کام یابی سے شناخت اور پہچان کا طریقہ کار سیکھنا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح ہتھیار ڈالنا ہے یا چھوڑنا ہے ، کسی بھی ایسی چیز کو جو کسی کے سکون کو متاثر کرتی ہو۔ بنیادی طور پر یہ ’’ہتھیار ڈالنا‘‘ اور ’’قربانی‘‘ وہ کام ہیں جسے ’’شفا‘‘ کہا جا سکتا ہے اور کہا جاتا ہے، جس میں جسمانی، ذہنی، اور جذباتی سطحوں پر اس بات کا گہرا انکشاف کرنے کے لیے علاج شامل ہے کہ ہم واقعی محبت کرنے والے، پرامن، ہم درد اور خوش کن مخلوق ہیں۔ ہم بیداری کی اس سطح کو مستند نفس کہتے ہیں۔
دوسرے طریقے سے دیکھیں تو روحانی نفسیات ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو طالب علموں کو اپنی روزمرہ کی زندگی کے تجربات کو روحانی بیداری کی سیڑھی میں تبدیل کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ اس تعلیمی عمل کے نتیجے میں طلباء کو وہ کون ہیں، ان کی زندگی کا مقصد، اور کام یابی اور تکمیل کی بہتر سطحوں سے زیادہ تعلق کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ انہیں اپنی دُنیا میں بامعنی شراکت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
آپ کا سوال ہو گا کہ آج کے دور میں ہی روحانی نفسیات کیوں اور اب کیوں؟
ہماری دُنیا میں تبدیلی ایک بے مثال رفتار سے ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی کی نوعیت تاریخی طور پر اس لئے مختلف ہے۔ دُنیا کو چیلنج کیا جا رہا ہے کہ وہ سیکھنے کا طریقہ سیکھے یا اس کے نتائج ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائے جو کہ بہت زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مزید چوںکہ تبدیلی کی رفتار واضح طور پر تیز ہو رہی ہے اس لیے ہمارے پاس وقت ضائع کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی ہے۔
روحانی نفسیات کے سیاق و سباق سے حقیقی معنوں میں امن کو فروغ دینے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دُنیا میں رہنے والے افراد زیادہ پرامن ہوں۔ اس تناظر میں یہ کہنا درست ہے کہ جیسے جیسے لوگ روحانی طور پر ترقی کرتے ہیں وہ قدرتی طور پر زیادہ پرامن ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ امن ایک انفرادی رجحان ہے۔ جتنا زیادہ کوئی اپنے اندر جو کچھ بھی تجربہ کرتا ہے اس سے اس کے سکون میں خلل پڑتا ہے اس کو تسلیم کرنا سیکھتا ہے۔ وہ اتنا ہی زیادہ پرامن ہوتا جاتا ہے۔ روحانی نفسیات اس عالمی ضرورت کا جواب ہے۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے، ہمیں ان مہارتیں کی بہت زیادہ قدر ہو گی جب ہم ایک پرامن، انتہائی گلوبلائزڈ دُنیا میں تبدیل ہو جائیں گے۔
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق، نفسیات ’’ذہن اور رویے کا مطالعہ‘‘ ہے۔ سائنس اور مذہب کی تاریخ، ماہرِالہٰیات، اور اعلیٰ درجے کے علما و مشائخ کے تجربات اور دریافتیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ انسان کے مطالعہ کے لیے اس طرح کا مربوط نقطہ نظر ہی اس کے دماغ اور طرزِ عمل کا تعین کرنے والے حقیقی عوامل کی شناخت کا واحد ذریعہ ہے۔
کئی صدیوں سے نفسیات فلسفے کے ایک حصے کے طور پر تیار ہوئی ہے۔ لفظ نفسیات یونانی الفاظ ’’روح‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘سے ماخوذ ہے۔ اس اصطلاح کی ابتدا اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ نفسیات اپنے آغاز سے ہی ’روح کا مطالعہ تھی۔ قرونِ وسطی میں مذہب، خاص طور پر مسیحی فلسفیوں اور ماہرین ِالہٰیات نے نفسیاتی نظریات کی نشوونما پر بہت اہم اثر ڈالا۔ تاہم 19ویں صدی تک جب نفسیات کو تجرباتی تحقیق کی بنیاد پر ایک علیحدہ نظم کے طور پر قائم کیا گیا۔
تجرباتی نفسیات کی طرف اس کا تعصب کافی واضح ہوگیا تھا کیوںکہ یہ رجحان فلسفہ اور سماجی علوم میں عام تھا۔ فطری سائنس میں سائنسی انقلاب نے فلسفے کی ترقی پر الہٰیات اور مذہبی بحثوں کے اثر کو نمایاں طور پر کمزور کردیا تھا۔
امریکی فلسفی اور ماہرِنفسیات ولیم جیمز، جنہیں بہت سے لوگوں نے ’’جدید نفسیات کا باپ‘‘ کہا ہے۔ مذہب کے بارے میں متکبرانہ رویے کی مخالفت کی ہے ۔ انسانی فطرت میں ایک مطالعہ کچھ مصنفین کے خیال میں مذہب کی نفسیات کی بنیاد رکھتا ہے۔ مذہبی اور صوفیانہ حالتوں کا جائزہ لینے کے بعد مصنف نے تین ضروری ’’مذہبی زندگی کی خصوصیات‘‘ کی نشان دہی کی ہے۔
’’ نظر آنے والی دُنیا ایک زیادہ روحانی کائنات کا حصہ ہے جہاں سے یہ اپنی اہم اہمیت حاصل کرتی ہے۔‘‘
’’ اتحاد یا اس اعلیٰ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ رشتہ ہمارا حقیقی انجام ہے۔‘‘
’’ دُعا یا اس کی رُوح کے ساتھ اندرونی میل جول ۔ جو رُوح ’’خُدا‘‘ یا ’’قانون ایک ایسا عمل ہے جس میں واقعی کام کیا جاتا ہے، اور روحانی توانائی غیر معمولی دُنیا کے اندر داخل ہوتی ہے اور اثرات پیدا کرتی ہے۔‘‘
ولیم جیمز نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب زندگی میں ’’ایک نیا جوش‘‘ پیدا کرتا ہے، ’’اطمینان کا مزاج، اور دوسروں کے لئے خلوص سے بھری محبتوں کو فروغ دیتا ہے‘‘۔ یہ ’’ہماری اہم طاقتوں کو تروتازہ کرتا ہے۔‘‘ اس کے ’’اعمال اور برداشت پر غیر معمولی اثر‘‘ کی وجہ سے، صوفیانہ یا مذہبی شعور کو ’’انسان کے سب سے اہم کاموں میں شمار کیا جانا چاہیے۔‘‘
روحانی نفسیات کیا ہے؟
ایک مرکب سائنس اور روحانیت ہے جو روایتی نفسیات پر اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے پھیلتی ہے کہ ایک شخص کے چار درجے ہوتے ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
جسمانی درجہ: آپ کیا کرتے ہیں۔
ذہنی: آپ کیا مانتے ہیں۔
جذباتی: آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔
مستند خود: خوشی، قبولیت اور خود سے ہم دردی کی صلاحیت۔
روایتی نفسیات ایک شخص کو صرف ان تین سطحوں پر ہی مخاطب کرتی ہے۔ جسمانی، ذہنی اور جذباتی۔ یہ تینوں سطحیں جو روایتی علاج کی بنیاد ہیں، سب غیرمستقل مزاجی پر مبنی ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں کیا کرتے ہیں (جسمانی)، آپ کیا سوچتے اور مانتے ہیں (ذہنی) اور کیا محسوس کرتے ہیں (جذباتی)۔ آپ کے بڑھنے، بالغ ہونے، سیکھنے اور مضبوط ہونے کے ساتھ ہی تینوں سطحیں پوری زندگی میں مسلسل بدلتی رہیں گی۔ چوتھا درجہ یہ ہے کہ آپ اپنی ذات میں کون ہیں۔
اس سطح پر آپ غیرمشروط محبت، ہم آہنگی، امن، خوشی اور کائنات کے ساتھ یکجہتی، دوسروں کی قبولیت، اور اپنے لیے ہمدردی کا تجربہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اتفاق سے نہیں، اس سطح سے کمزور تعلق کے ساتھ انسان زندگی سے خالی، بے معنی، غیراطمینان بخش اور ناامید محسوس کر سکتا ہے۔ ڈپریشن، بے اطمینانی، اضطراب، مایوسی، خود سے نفرت اور دیگر پریشان کن تجربات، بشمول ہماری جینے کی خواہش جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اکثر ہم مادے پرستی یا نشہ آور اور تباہ کن طرزِ عمل کو عارضی راحت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ صرف اس احساس کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ’’اور بھی ہونا چاہیے‘‘۔ انسانی زندگی میں چاروں سطحوں کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکے اور آپ کو اپنی زندگی واپس مل سکے۔
تصور کریں کہ زندگی کتنی مختلف ہوتی اگر آپ کی بنیاد مایوسی، افسردگی، پریشانی، غصہ، شرمندگی، ناامیدی اور آپ کے ماضی کی تلخیوں کی بجائے اپنے لیے محبت اور احساس ہو؟ بہت مختلف ہے۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن اس طرح کی تبدیلی کو حاصل کرنے کے لیے، آپ کو کچھ سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔
کیا آپ کی زندگی پھر کبھی توازن سے باہر ہو جائے گی؟ اگر آپ نے ان گہری مہارتوں اور حکمتِ عملیوں کو لاگو کرنا سیکھ لیا ہے تو آپ منفرد طور پر تیار اور بااختیار ہیں کہ آپ کی زندگی میں پیدا ہونے والے ہر نئے مسئلے کو حل کرنے اور اسے حل کرنے کے لیے فضل اور آسانی کے ساتھ اپنے زندگی بسر کریں۔ کارل جنگ سوئس ماہرِنفسیات جس نے تجزیاتی نفسیات کی بنیاد رکھی تھی۔ اُس نے سوچنے کا عمل شروع کیا جو ترقی کرتے کرتے آج روحانی نفسیات کی طرف مائل ہو گیا جیسا کہ ہم اسے آج جانتے ہیں۔
اسٹیفن کوئے کا کہنا ہے ’’ہم سب روحانی ہستیاں ہیں جو جسمانی تجربات کررہے ہیں۔‘‘
نفیسات، سائنس کا علم تو جدید دور کی ایجاد ہیں لیکن رُوح تو ابتداء سے ہے اور انسان کے لیے فائدہ بھی کیا اگر اُس کے پاس دُنیا جہاں کی دولت، آسائش ور چیزیں ہوں اور اُس کی روح بے چین اور بے سکون ہو۔ میرا ماننا یہ ہے کہ آج کے دور میں زندگی کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے اور انسانی معاشرے کی بھلائی وترقی کے لیے روحانی طور پر مضبوط افراد ہی معاشرے کا صحت مند حصہ بن سکتے ہیں۔ خصوصاً ہمارے نوجوان جنہیں زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
روحانی طور پر مضبوط اور بالغ افراد ہی زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ روحانیت کا تعلق مذاہب، عقیدوں سے نہیں بلکہ وہ ذاتی عملی تجربات ہیں جن کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی کے مقصد سے روشناس ہوتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اپنے مقصد کو پائے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
معاشی ترقی اور ٹیکنالوجی نے ہمیں صرف مادی اشیاء کے حصول کو کام یابی اور خوش حالی سے منسوب کررکھا ہے جو کسی حد تک ادھورا اور نامکمل تصور ہے۔ اس لیے زندگی میں مادی خوش حالی کے حامل افراد اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن نہیں۔ روحانی نفسیات انسان کو اُس کے حقیقی خالق سے منسلک رکھنے کا شعور دیتی ہے۔ یہ انسانی رویوں اور علم کو پختگی اور شفافیت عطا کرتی ہے۔
آج اگر ہم اپنی دُنیا کا جائزہ لیں تو یہ روحانی اور نفسیاتی اضطرابی کا شکار ہے۔ لیڈرز اور قومیں اپنی ذاتی انا، خودغرضی اور بے حسی کی وجہ سے وافر مقدار میں سہولیات ہونے کے باوجود، جنگ، غربت، ناخواندگی اور بیماریوں کا شکار ہے۔ یہ دُنیا اب واقعی ہی گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ آج ہم اگر عالمی سطح پر پر امن نہیں تو ہم انفرادی طور پر پر امن نہیں رہ سکتے، کیوںکہ انفرادی ترقی تکبر اور غرور پیدا کرتی ہے جب کہ اجتماعی ترقی انسانی معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔ آئیں اس دنیا کو خوب صورت اور پُرامن بنانے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔
اس تحریک کا آغاز ہماری اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ جب ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم مذہب، رنگ، نسل، ذات اور زبان کی بنیاد پر نہیں انسانیت کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ پیش آئیں گے۔ انسان زندہ ہیں تو انسانیت رہے گی۔ ہم نے تعلیم، دولت، سائنس، ٹیکنالوجی اور زندگی کے ہر شعبے میں بے پنا ہ ترقی کرلی ہے لیکن رُوحانیت میں ترقی کو کہیں پس پردہ ڈال دیا ہے۔ آئیں روحانی طور پر بالغ ہو کر اپنی ذات، خاندان، معاشرے، ملک اور دُنیا کو پُرامن بنانے میں اپنا کلیدی کردار اداکریں۔ دُنیا نہیں تو کسی ایک انسان کی دُنیا ہی بہتر کریں۔
The post روح کی نفسیات؛ انسانی زندگی کا مقصد appeared first on ایکسپریس اردو.