اسلام میں مسلمان عورت کا بلند مقام اور سماجی زندگی میں مؤثر کردار ہے۔
صالح معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مکتب ہے، جب وہ کتاب اﷲ اور سنت رسولؐ پر عمل پیرا ہو۔ کیوں کہ کتاب اﷲ اور سنّت رسول ﷺ کو تھام لینا ہی ہر جہالت و گم راہی سے دُوری کا سبب ہے۔ قرآن مجید میں عورت کی اہمیت اور مقام کے بارے میں کئی ایک آیات موجود ہیں۔ عورت خواہ ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہو، اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
ماں کا شُکر ادا کرنا، اس کے ساتھ نیکی سے پیش آنا اور خدمت کرنا عورت کے اہم ترین حقوق میں سے ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے، کیوں کہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔
اسلام نے عورت کو ناصرف حقوق دیے، بل کہ ترغیب و ترہیب کے ساتھ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا ہے۔
عورتوں کو زندہ رکھنے کا حق: عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا، عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا اور تنبیہ کی کہ جو شخص اس کے حق سے رُوگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیا گیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کو جنّت کی بشارت دی گئی، جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔
عورت بہ حیثیت انسان: اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل و دماغ میں عورت کا جو مقام و مرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی کا مفہوم: ’’اﷲ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔‘‘ (النساء)
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد و عورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ انسان کی حیثیت سے دونوں اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہ کار ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کا حق: انسان کی ترقی کا دار و مدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یا قوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا اور مادی ترقی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا علم کی طلب مرد و زن دونوں پر فرض ہے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا: جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم و تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنّت ہے۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمے داریوں کو ادا کرسکتی ہے، اس لیے مردوں کے ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے ۔
معاشرتی میدان: جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی راہ گزر سے ہٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلام نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت و احترام عطا کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے آپؐ نے اس مظلوم طبقے کو یہ مژدہ جاں فزا سنایا، مفہوم: ’’مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خُوش بُو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بے زاری اور نفرت کوئی زہد و تقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ اﷲ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح و مناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے۔
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ و ثروت کا مالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔
اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کم زور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کم زوری اس کی مظلومیت اور بے چارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انہیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگا دیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
عورت کا نان نفقہ: عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ، بہن ہے تو بھائی، اور بیوی کا اس کے شوہر پر نان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمے ہیں۔
عورت کا حق مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری کا مفہوم: ’’عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمہیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاؤ۔‘‘ (النساء)
وراثت میں عورت کا حق: اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دیا۔ اس کے لیے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ یعنی عورت کا حصہ مرد سے آدھا ہے اور باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
مال و جائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے، کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمے داری نہیں ہے، بل کہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے، اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔
اگر مرد کا وراثت میں دگنا حصہ ہے، مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرے میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی تو وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔ پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنا دیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شُکر ادا کرے کم ہے۔
شوہر کا انتخاب: شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبویؐ کا مفہوم: ’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ (مشکوٰۃ) ہاں! اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء دخل اندازی کرسکتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے۔
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: ’’اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اﷲ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔‘‘ (النساء)
سوچیے! خواتین کو اسلام نے کتنے حقوق دیے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
The post قرآن و سنّت کی روشنی میں حقوقِ نسواں appeared first on ایکسپریس اردو.