حیدرآباد: سندھ اسمبلی نے 38 سال سے عائد طلبا یونینز پر پابندی ختم کرنے کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس طرح سندھ طلبا یونین بحال کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا۔
سندھ اسمبلی ملک کی تمام اسمبلیوں پر سبقت لے گئی۔ 38 سال بعد دوبارہ سیاست اور جمہوریت کی نرسری کا آغاز ہوگا، طلبا کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا اختیار بھی مل گیا۔ سندھ اسمبلی نے 11 فروری2022 بروز جمعہ کو صوبے میں طلبا یونین کی بحالی کا تاریخی بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
سندھ اسمبلی اجلاس کے دوران پیر مجیب الحق نے ’’سندھ اسٹوڈنٹس یونین بل 2019‘‘ پیش کیا، جسے حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ طلبا یونینز کی بحالی سے سندھ کے طلبا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ طلبا یونین کی بحالی سے متفق بل اسمبلی میں پیش کیے جانے سے قبل قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔
قائمہ کمیٹی برائے قانون، پارلیمانی امور اور انسانی حقوق نے سندھ اسٹوڈنٹس یونین بل 2019 کی منظوری گزشتہ دنوں دی تھی۔ کمیٹی کی جانب سے تیار کیے گئے بل کے مطابق نجی و سرکاری کالجز و جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں طلبا یونین ہوگی اور تعلیمی ادارے میں انرول شخص طلبا یونین کو ووٹ دے سکے گا یا انتخابات میں حصہ لے سکے گا۔
ڈرافٹ کے مطابق تعلیمی اداروں کے طلبا انتخابات کے ذریعے 7 سے 11 نمایندوں پر مشتمل یونین کو منتخب کریں گے جب کہ تعلیمی اداروں میں ہر سال طلبا یونین کے انتخابات ہوں گے۔
تعلیمی ادارے کی سینڈیکیٹ میں طلبا یونین کی نمائندگی ہوگی جب کہ تعلیمی ادارے انسداد ہراسمنٹ کمیٹی میں بھی یونین کے نمائندے کو شامل کرے گی۔ ڈرافٹ کے مطابق بل اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد دو ماہ میں تعلیمی ادارے طلبا یونین کے قواعد و ضوابط طے کریں گے۔ کمیٹی کی جانب سے تیار بل میں مزید کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہتھیار رکھنا اور ساتھ لے کر چلنا ممنوع ہوگا، آتش گیر مواد پر بھی پابندی ہوگی، طلبا یونین مفاد عامہ کے پروگرام منعقد کرے گی اور طلبا کی سہولیات و تعلیمی اداروں کے بہتر ماحول کے لیے کام کرے گی۔ کمیٹی چیئرمین پیر مجیب الحق کی صدارت میں یہ بل مرتب کیا گیا۔
طلبا یونین ایکٹ کے تحت تعلیمی ادارے میں خلاف آئین سرگرمی، نفرت و اشتعال انگیز اقدامات اور تدریسی، تعلیمی و انتظامی امور میں رخنہ ڈالنا جرم ہوگا، تفریق، ناانصافی کو روکنے کے لیے طلبا یونینز کردار ادا کریں گی۔ سندھ طلبا یونین ایکٹ کی شق کے تحت تکریم اساتذہ سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ صحت مند بامعنی بامقصد مکالمے کا فروغ طلبا یونین نمائندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی۔ ایکٹ کے تحت کلاسز کا بائیکاٹ، تعلیمی ادارے میں ہڑتال اور درس گاہ کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔
سندھ طلبا یونین ایکٹ کے تحت یونینز طلبا حقوق و مفاد کے تحفظ اور طلبا کی سماجی و تعلیمی بہبود کے لیے کام کریں گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کے فوجی حکم راں جنرل ضیا الحق نے 9 فروری 1984 کو مارشل لا کے دوران طلبا یونین پر پابندی لگائی تھی۔
اس کے بعد کئی جمہوری ادوار بھی آئے لیکن طلبا یونینز پر پابندی برقرار رہی۔ بے نظیر بھٹو شہید نے 1988 میں برسراقتدار آنے کے بعد اس پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا لیکن اس اقدام کو 1990 میں عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا۔ 1993 میں عدالت نے ضابطہ اخلاق سمیت کچھ شرائط کے ساتھ طلبا یونینز کے انتخابات کی بات کی تھی، لیکن اس پر اس وقت عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ گذشتہ دوراقتدار کے آغاز پر اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی طلبا یونینز پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی اپنا یہ وعدہ وفا نہ کرسکے۔
طلبا یونینز نے پاکستان کی قومی سیاست کو جو سیاسی راہ نما دیے ان کی فہرست کافی طویل ہے۔ تاہم ان میں جاوید ہاشمی، شیخ رشید احمد، مشاہد اللہ خان مرحوم، احسن اقبال، لیاقت بلوچ، قمرالزماں کائرہ، اعجاز احمد چوہدری، خواجہ سعد رفیق کے علاوہ مرحوم جہانگیر بدر بھی شامل تھے۔ جب طلبا یونینز پر پابندی لگائی گئی تو اس کی وجہ طلبا یونینز میں تشدد کا بڑھتا رجحان بتایا گیا تھا۔ طلبا یونینز کی بندش کے باعث طلبا میں صحت مند سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے نشے جیسے رجحانات میں اضافہ ہوا اور مباحثے اور مکالمے کا کلچر بھی ختم ہو گیا۔
طلبا یونینز کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبا معاشرتی سرگرمیوں سے کٹ گئے۔ اس پابندی کے باعث تعلیمی اداروں میں طلبا کی نشوونما، بہبود کا کلچر ختم ہوگیا اور طلبا مثبت غیر تدریسی سرگرمیوں سے مکمل محروم ہوچکے تھے۔ طلبا یونین سے مراد کسی بھی تعلیمی ادارے کے اندر طلبا کی منتخب کردہ اس قانونی تنظیم کو کہا جاتا ہے، جو تعلیمی اور سیاسی معاملات میں مختلف فورمز پر طلبا کی نمائندگی کرتی ہے اور مختلف قسم کی ہم نصابی اور فلاحی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ یہ انتخابی عمل کے ذریعے سے منتخب کی جاتی ہیں۔
مختلف پینل اپنے امیدواروں کی نام زدگیاں کرکے بھرپور مہم چلاتے ہیں۔ اس انتخابی عمل کے دوران متعلقہ ادارے کے تمام طلبا و طالبات ووٹ کے ذریعے پورے سال کے لیے اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس طرح تشکیل پانے والی کابینہ کی قانونی حیثیت کو ہر جگہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلبا یونین اور طلبا تنظیم میں واضح فرق ہے۔ طلبا یونین کسی کالج یا یونیورسٹی میں طلبا کی متفقہ اور قانونی منتخب تنظیم ہوتی ہے، جب کہ طلبا تنظیم کسی مخصوص نظریے، علاقے، نسل یا زبان سے تعلق رکھنے والے طلبا کی نمائندگی کرتی ہے۔ آج کا طالب علم کل کا ہونہار سماجی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اہم فرد بھی ہے۔ کل یہی طالب علم ملک و قوم کی تقدیر کا وارث بھی ہوگا۔ طالب علم اگر پہلے اپنی تعلیم پر دھیان دے گا تو بڑے ہو کر اس کی کام یابی کے امکانات روشن اور قابل صد تحسین ہوں گے۔
ہماری طلبہ سیاست کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ برصغیر میں علامہ اقبالؒ کی ہدایت پر طلبا نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی طلبا تھے جنھوں نے 1946 کے انتخابات میں قائد اعظمؒ کے مشورے سے گاؤں گاؤں پھیل کر اسلامی تشخص کو اجاگر کیا۔ انھی طلبا نے لوگوں کے جوش و خروش کو پروان چڑھا کر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا فلک شگاف نعرہ متعارف کروایا۔ تحریک پاکستان کو اگر کام یاب طریقے سے ملک کے طول و عرض میں جس طبقے نے پھیلایا وہ یہ طلبا ہی تھے۔ پاکستان میں پہلا طلبا سیاسی گروپ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھا۔
1947 میں مسلم لیگ کے طلبا ونگ کے طور پر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو پاکستان میں اہمیت حاصل رہی۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدا میں تو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے طلبا یونین کے انتخابات میں کام یابی حاصل کی مگر اندرونی اختلافات کے بعد اس کی جگہ بائیں بازو کی جماعت نے لے لی۔
1950 کی دہائی میں دو طرح کی سیاسی طلبا جماعتوں کا عروج دیکھا گیا۔ بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والی مارکسٹ پارٹیاں جیسے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مذہبی دائیں بازو کی جماعتوں جیسے انجمن طلبا اسلام اور اسلامی جمعیت طلبا۔ اس وقت حکم راں طاقتوں نے بائیں بازو کے گروہوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور 1953 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی قیادت میں ایک احتجاج کے دوران پولیس نے ہجوم پر گولی چلائی جس میں چھ طلبا ہلاک ہوگئے۔
اگلے سال اسی گروپ پر پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی سے ممکنہ تعلقات کی وجہ سے ملک میں پابندی عائد کردی گئی، اس کے فوراً بعد اس کے جانشین گروپ آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پر پابندی لگا دی گئی۔ ان گروہوں کے بعد بائیں بازو کے ایک اور گروپ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کام یابی حاصل کی جو آج تک جاری ہے۔
1960 کی دہائی تک ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا غلبہ رہا اور بعد میں اس پر پابندی عائد ہوئی۔ 1960 کی دہائی میں طلبا یونین بنیادی طور پر بائیں بازو اور مذہبی یونین دائیں بازو کے درمیان اقتدار کی جدوجہد جاری رہی، جس میں بائیں بازو کی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سرفہرست تھیں۔ 1970 کی دہائی نے اپنے ساتھ طلبا کی سیاسی کارروائی میں اضافہ کیا۔1974 اسٹوڈنٹس یونین آرڈیننس منظور کیا گیا تھا۔
اس آرڈیننس نے درحقیقت کیمپس میں طلبا کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی، اور اس دوران کئی نمایاں نئی طلبا تنظیمیں وجود میں آئیں۔ دریں اثنا مارکسٹ اور مذہبی طلبا یونین کے درمیان جدوجہد بڑھی، دونوں فریقوں نے اپنے اپنے اتحاد بنائے۔ حالاںکہ دونوں گروہ سیاسی کشمکش اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔
1970 کی دہائی کے آخر میں اور 1980 کی دہائی میں طلبا گروپوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اور حکومت کے ساتھ پرتشدد تصادم شروع کردیا۔ اس وقت کی حکومت نے ترقی پسند، لبرل اور جمہوریت پسند طلبا کو نشانہ بنایا۔ پی ایس ایف کے طلبا کے لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اس وقت کی حکومت نے طلبا کو غیرنصابی اور سماجی سرگرمیوں کے لیے سوسائٹیز بنانے کی اجازت دی جن کا تعلق کسی سیاسی گروہ یا جماعت سے نہ ہونے کی شرط رکھی گئی۔ حکم نامے کے مطابق کسی کو بھی اسلحہ بارود رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
اگر کوئی طالب علم کسی تعصبانہ سرگرمی میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اس حکم نامے کی خلاف ورزی پر کسی طالب علم کو نکال سکتے تھے۔ 1970 سے 1984 تک کا دور پاکستان میں طلبا یونین کے عروج کا دور تھا۔
تعلیمی ادارے معاشرے کے لیے نظریاتی، تربیت یافتہ اور سیاسی طور پر بالغ قیادت فراہم کر رہے تھے۔ شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود طلبا یونین کے انتخابات کا عمل بڑی خوش اسلوبی اور تسلسل سے ہونا ایک مستحکم جمہوری پاکستان کی نوید تھا۔
طلبا یونین کی 38 سالہ تاریخ میں تعلیمی اداروں کے اندر جن مثبت رجحانات کو پروان چڑھایا، طلبا برادری پر جو اثرات مرتب کیے ان کی جھلک ادبی کونسل، ڈیبیٹنگ سوسائٹی، اسپورٹس کلب، اسٹوڈنٹس ایڈ کلب اور مشاورتی بورڈ، ڈسپلن کمیٹی کی صورت میں آج بھی موجود ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں کتب میلے کی روایت، ہفتہ طلبا، ادبی سرگرمیاں، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، میڈیکل سہولیات کی فراہمی، سوسائٹیز کا قیام، بک بینک، مساجد کا قیام طلبا یونین ہی کی مرہون منت ہیں۔ دنیا بھر میں کسی بھی معاشرے میں جب بھی جمہوریت کو مضبوط اور مستحکم بنانے اور معاشرے میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ان معاشرتی عوامل کو اس بحث کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
اقوام عالم کی جمہوری، معاشی، معاشرتی، سماجی ترقی میں براہ راست حصہ نوجوانوں بالخصوص طلبا کا ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے مالا مال ملک ہے کہ اس کی آبادی کا 60 فی صد سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں جمہوریت سے وابستہ طبقہ نوجوانوں کے حقوق و موثر قانون سازی کی بات تو کرتا ہے مگر عملاً اقتدار ملنے پر تمام کیے وعدے بھول جاتا ہے۔
صحت مند معاشرے اپنی قومی فلاح کے لیے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں زندگی کے حقائق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جب یہ طلبا کالج و یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوں تو اپنے معاشرے کے لیے بہترین کردار ادا کرسکیں۔ درسگاہوں میں طلبا نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ کالج یا یونیورسٹی کے سیاسی عمل میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ طلبا کو ادارے کے قوانین و ضوابط کا پابند بنا کر ایک یونین کے ذریعے طلبا اور کالج یا یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں جس میں طلبا کی فکری، شعوری اور عملی تربیت بنیادی ہدف میں شامل ہوتی ہے۔
1970 سے 1980 کی دو دہائیوں میں طلبا یونین کے پلیٹ فارم سے سیاست، سائنس، طب، انجینئرنگ، ادب، صحافت سمیت ہر شعبے میں ملک کو بہترین قیادت اور غیرمعمولی لوگ میسر آئے۔ طلبا یونین کی تربیت گاہوں سے نکلنے والے افراد نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا بلکہ ملک کے لیے گراں قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔ طلبا یونین پر محض سیاست کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور ان طلبا کی سیاست میں شمولیت مناسب نہیں سمجھی جاتی لیکن انھی یونینز کے پلیٹ فارم سے اپنے عہد کے سیاسی، فلسفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے، آرٹ اور کھیلوں کے مقابلے، ادبی مشاعرے منعقد ہوتے تھے الغرض طلبا اپنے عہد کی دانش سے جڑے رہتے تھے۔
تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات کی فضا میں بے چینی، انتہا پسندی، عدم برداشت، لسانیات، صوبائیت پر مبنی پرتشدد رویوں نے جنم لیا۔ پاکستان میں یہ جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ طلبا کو سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کہ سیاسی سرگرمیاں تعلیمی کارکردگی کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس بات کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کی اچھی یونیورسٹیاں آکسفورڈ سے لے کر ہارورڈ تک سب میں طلبا یونینز ہیں۔ یونینز طلبا کی ایک اجتماعی طاقت ہوتی ہیں جو طلبا کی فیس سے لے کر ہاسٹل اور پالیسیز کے معاملات پر حکام سے بات چیت کرتی ہیں۔ آج جو بھی طالب علم انتظامی بے رخی، نااہلی یا کرپشن پر بات کرتا ہے تو اسے یونیورسٹی سے نکال دیے جانے کا خوف ہوتا ہے۔
طلبا یونین کی بحالی سے اور کیمپس میں جمہوری روایات کے دوبارہ آنے سے طلبا کو انتظامیہ اور حکومت کو احتساب کے دائرے میں لانے کے لیے قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ تعلیمی مشکلات اور بجٹ پالیسیز اور ریگولیشن کا عمل بہتر ہوگا۔ یہ طلبا کے حق میں بہتر ہے۔ یہ صرف طلبا کی ضرورت نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کے لیے صحت بخش ہے۔ طلبا سیاست اور تعلیمی نتائج پر تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ طلبا سیاسی لیڈرشپ بہت سے سیکھنے سمجھنے کے نتائج کے معاملات جیسے علمی پیچیدگیوں، علم کا حصول واطلاق، باہمی اور دوسروں سے تعلقات میں قابلیت کے اعتبار سے مثبت ترقی سے جڑی ہوتی ہے۔
محقق یہ کہتے ہیں کیوں کہ طلبا کی سیاسی سرگرمیاں انھیں حالات اور لوگوں کا سامنا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو اپنے بارے میں سیکھنے، اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنے، شہری ذمہ داری اور معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔ جب تک طلبا خود اپنے مستقبل کی فکر نہیں کریں گے حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔
درس گاہوں کا ماحول طلبا کے تعاون ہی سے خوش گوار بن سکتا ہے۔ طلبا یونینز کو بھی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے ان کے تدارک کے لیے مل جل کر ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا ہوگا جس سے تعلیمی اداروں میں امن، تحقیق، مذہبی ہم آہنگی، برداشت اور مباحثے کا کلچر عام ہو سکے اور طلبا کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی، ملکی و ملی مسائل کا حل اور خطے کی ترقی و استحکام کے لیے معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے اپنا حصہ شامل ہو کیوں کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کا خواب نوجوان طبقے کی حمایت اور موثر شمولیت کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ طلبا یونینز کی بحالی پاکستان خصوصاً سندھ میں جمہوری توسیع کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔
طلبا یونینز نوجوان، تعلیم یافتہ متوسط اور محنت کش طبقے کے نوجوانوں کے لیے سیاست میں آنے کے لیے پلیٹ فارم کا کام کریں گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کریں گی اور نوجوانوں کو نمائندگی فراہم کرنے کے لیے جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں گی۔ جو لوگ طلبا یونینز سے قومی سیاست میں آئے ان کی کارکردگی اور ان کا کردار ہمیشہ ہی ڈرائنگ روم کے سیاست دانوں اور الیکٹیبلز سے بہت بہتر رہا۔ سندھ میں طلبا یونینز کی بحالی خوش آئند اقدام ہے۔ امید ہے کہ باقی صوبے بھی اس کی پیروی کریں گے۔
تعلیمی اداروں میں جمہوری سرگرمیاں ضروری ہیں، بہترین قیادت کے حصول کے لیے صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں طلبا یونینز کے انتخابات کرائے جائیں۔ سندھ حکومت کے اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ سندھ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ساتھ ملا کر طلبا یونین کے انتخابات کے انعقاد کو اپنی پوری روح کے ساتھ قابل عمل بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ ملک میں سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔
طلبا یونین کی بحالی کے بعد ملک کو تازہ دم اور باصلاحیت نوجوان قیادت میسر آئے گی۔ طلبا کو تعلیمی اداروں کی چار دیواری کا تقدس، اساتذہ کا احترام، کتاب اور قلم کا محافظ بننا ہوگا نہ کہ نفرت انگیز، اشتعال پر مبنی سرگرمیوں کے ذریعے کلاسز کا بائیکاٹ کریں۔ طلبا کو آئیڈیل بن کر سامنے آنا ہوگا۔ اگر طلبا کی سرگرمیاں تعلیم دوست ہوں گی تو آنے والے وقت میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یونین بحالی نیک شگون ثابت ہوگی اور تعلیم کا معیار بلند ہوگا۔
The post طلبہ یونین ۔۔۔ جمہوریت کی نرسری appeared first on ایکسپریس اردو.