غزل
پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجرجائے گا
رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا
اور کیا ہوگا بھلا روٹھ کے جانے والے
بس یہ کاجل مرے تکیے پہ بکھر جائے گا
رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
تو اگر عہدِ وفا کر کے مُکر جائے گا
کل اسے دیکھ لیا شہر میں ہنستا بستا
وہ تو کہتا تھا کہ بچھڑے گا تو مر جائے گا
جس نے تاوان میں آنکھوں کے خسارے جھیلے
وہ کوئی خواب بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
آنکھ سلگی ہے تو پھوٹے ہیں ہزاروں جھرنے
دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا؟
صبح کا بھولا ہے ایمان یقیناً اک دن
وہ کبھی شام ڈھلے لوٹ کے گھر جائے گا
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
مرے سپرد کیا ہے نہ خود لیا ہے مجھے
کسی نے حیرتِ امکاں میں رکھ دیا ہے مجھے
بچا نہیں میں ذرا بھی بدن کے برتن میں
ترے خیال نے بے ساختہ پیا ہے مجھے
تو ایک شخص ہے لیکن تری محبت میں
دل و دماغ نے تقسیم کر دیا ہے مجھے
میں اپنی سمت بھی دیکھوں تو کفر لگتا ہے
خدا نے یاد بڑی چاہ سے کیا ہے مجھے
جدائی، رنج، اداسی، اندھیرا، خوف، گھٹن
ہر ایک یار نے دل کھول کر جیا ہے مجھے
تمہارے بعد نہیں اب کسی کی گنجائش
کہ تم نے اتنا محبت سے بھر دیا ہے مجھے
(علی شیران۔ ضلع جھنگ ،تحصیل شورکوٹ)
۔۔۔
غزل
کم ہی سہی پر وصل کا امکان تو ہے نا
جینے کے لئے چل کوئی سامان تو ہے نا
کیوں جی نہیں لگتا وہاں پرکھوں گا کسی دن
اب حسبِ طلب دشت بھی ویران تو ہے نا؟
دیتا ہے منافع بھی کہاں دل کو خوشی اب
نقصان نہ ہونے کا بھی نقصان تو ہے نا
مل جائے ترا جسم جو مسکن کو تو کیا بات
ورنہ یہ مرے جسم کا زندان تو ہے نا
مجنون سمجھتا رہے عزمی ؔکو بھلے شہر
درویش تو ہے نا، اسے وجدان تو ہے نا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
پودے مقدروں کے کچھ ایسے جھڑے ملے
سوکھے ہوئے گلاب زمیں پر پڑے ملے
اک راستہ تھا پیار کا، سُکھ چین، امن کا
اُس راستے پہ بھی ہمیں طوفاں کھڑے ملے
جن کی جڑیں زمین میں گہری تھیں وہ درخت
ہر بار آندھیوں کے مقابل اَڑے ملے
مہلت نہ تھی کہ بیٹھ کے سستا ہی لیں کہیں
جیون کے راستے ہمیں ایسے کڑے ملے
پکے تھے سازشوں میں وہ پانی سماج کے
مٹی کی کوکھ سے ہمیں کچے گھڑے ملے
اک راستہ خدا کی طرف جا رہا تھا اور
اُس راستے پہ لاکھوں مخالف دھڑے ملے
کہنا اُسے کہ ایک بھی دیا نہیں بجھا
دہلیزِ دل کو ہجر کے جھونکے بڑے ملے
ذیشان وہ تو آگ کے گولے تھے اصل میں
ہم کو جو آسمان میں موتی جڑے ملے
(ذیشان ساجد۔چکوال)
۔۔۔
غزل
کسی کہانی، کسی فسانے سے کم نہ ہو گا
یہ درد وہ ہے جو گنگنانے سے کم نہ ہو گا
تمھارے دل میں عزا کی محفل سجی رہے گی
یہ گاؤں کا زخم شہر جانے سے کم نہ ہو گا
تو میرے گھاؤ کو دیکھ اور میرا حوصلہ دیکھ
تِرا دلاسہ تو تازیانے سے کم نہ ہو گا
کسی کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجی رہے گی
شعورِ ہستی ہمارے جانے سے کم نہ ہو گا
جو ہجر دریا ہے خواب سارے نچوڑ دے گا
یہ یاد کرنے سے ،یاد آنے سے کم نہ ہو گا
جو آگہی کا عذاب ہم کو ملا ہے شاکرؔ
یہ نیند آور دوائیں کھانے سے کم نہ ہو گا
(شاکر خان۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
اُن پر اپنا دل آیا ہے ،حد ہو گئی ہے
دل کو ہم نے سمجھایا ہے حد ہو گئی ہے
پیار محبت عشق وفا سب سچ ہے لیکن
آنکھ کو وہ سنگ دل بھایا ہے حد ہو گئی ہے
بے چینی سی بے چینی ہے چین نہیں ہے
عش کا ہم پر بھی سایہ ہے، حد ہو گئی ہے
دل عاشق تھا اُس کو بدن کی دیواروںمیں
ہم نے آپ ہی چنوایا ہے حد ہو گئی ہے
شام و سَحر اب اُس کی یادیں ساتھ ہیں میرے
کھو کر اُس کو کیا پایا ہے ،حد ہو گئی ہے
لے کے ٹوٹا دل پھرتے ہیں عشق کے ہاتھوں
پیار یہ کیسا رنگ لایا ہے حد ہو گئی ہے
اتنا رونا ،اتنا تڑپنا، حد ہوتی ہے
حد نے آخر کہلایا ہے، حد ہو گئی ہے
(عامرمُعان۔ؔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
شوخ سا رنگ سخاوت سے لگا کر دل کو
صبح کے ہاتھ میں رکھوں گا سجا کر دل کو
نرم پڑ جائے تو سوچوں گا نیا عشق کروں
وصل کی یاد میں رکھا ہے بھگا کر دل کو
اس دباؤ کے سبب زرد ہے رنگت میری
ہجر کے بار نے رکھا ہے دبا کر دل کو
کچھ بھی دکھتا ہی نہیں یاد کی گہرائی میں
ہم نے دیکھا ہے کئی بار ڈبا کر دل کو
یاد ِبطحہ نے شرف بخشا ہے دل کو جب سے
ہم نے رکھا ہے ذرا اونچا اٹھا کر دل کو
نہ دھواں ہوتا ہے نہ روشنی ہوتی ہے یہاں
حبس ہوتا ہے جب اٹھتا ہوں جلا کر دل کو
خود کو دیوار کے سائے سے جدا رکھا ہے
اور دیوار سے رکھا ہے لگا کر دل کو
(ابو لویزا علی۔کراچی)
۔۔۔
غزل
کوشش بہت کی ہم نے مگر کچھ نہیں ہوا!
ان پر محبتوں کا اثر کچھ نہیں ہوا
کہنے کو کہہ دیا ہے ہو گا ایک حادثہ
پر ڈر رہی ہوں اب کہ اگر کچھ نہیں ہوا؟
چھالے ہزار پائے پہَ منزل نہیں ملی
اک عمر کر کے دیکھا سفر، کچھ نہیں ہوا
تم جا چکے ہو پھر بھی سلامت ہیں بام و در
سالم کھڑا ہے اب بھی یہ گھر، کچھ نہیں ہوا
سقراط مر گیا کہ وہ بزدل تھا ورنہ تو
میں نے بھی زہر چکھا ہے پر کچھ نہیں ہوا
آرام سے گزر گئیں ساری قیامتیں
پالے ہوئے تھے بے وجہ ڈر، کچھ نہیں ہوا
یعنی یہ خستہ حالی بھی کچھ کام کی نہیں؟
پہنچی ہے ان تلک جو خبر، کچھ نہیں ہوا
تو نے تمام کر لیے سارے معاملے
مجھ سے تو میرے دوست بسر کچھ نہیں ہوا
( ماہم حیا صفدر۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ)
۔۔۔
غزل
ایسا رستہ دیکھ رہے ہیں جس میں سب آسانی ہو
سیر کو جائیں صحرا کی اور وافر ہم کو پانی ہو
خاص سفر پر جانا ہے سو خاص ہو اپنا ساتھی بھی
شاعر وہ اشعارکہ جس کا کوئی بھی نہ ثانی ہو
ہر مشکل کو سہتے آئے چپ کر کے اس آس پہ ہم
شاید اس کے بعد حیاتی میں تھوڑی آسانی ہو
اس سیلاب میں بہہ جانے کا خدشہ سب کو لاحق ہے
اشک بہے ہیں ایسے کہ دریا کی تیز روانی ہو
ایک تو مجھ کو روز محبت ہو جاتی ہے جانے کیوں
اب تو ایک محبت ایسی ہو جو کہ لافانی ہو
(ملک عمر۔ رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
اک دوسرے سے جھوٹ کا رشتہ بحال ہے
پھر بھی نبھا رہے ہیں انوکھا کمال ہے
کس شے نے کردیا ہے گریبان تار تار
اہل جنون عشق سے میرا سوال ہے؟
سچ ہے دیار عشق میں پتھر بھی پھول ہیں
ہر بے ثبات چیز وہاں لازوال ہے
دیکھا تھا بالکونی سے کل رات تنہا چاند
نازش مری طرح وہ بھی غم سے نڈھال ہے
(اے آرنازش۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
سپنے یہ کیسے خود کو دکھاتا رہا ہوں میں
پھر عمر بھر ہی خود کو رلاتا رہا ہوں میں
یہ جانتے ہوئے کہ بڑی بے وفا ہے تُو
اے زیست تیرے ناز اٹھاتا رہا ہوں میں
لوگوں نے میری راہ میں کانٹے بچھائے اور
دنیا کی رہ میں پھول بچھاتا رہا ہوں میں
خوشیوں کو چھوڑتا رہا دنیا کے واسطے
غم مل گیا جہاں بھی اٹھاتا رہا ہوں میں
اس کی ہی باتیں یاد دلا کر اسے اویسؔ
آئینہ بار بار دکھاتا رہا ہوں میں
(محمد اویس خالد۔ ضلع مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
مجھ کو تم کیوں شکار کرتے ہو
غم سے پھر ہم کنار کرتے ہو
زندگی کم ہے پیار کے لیے جاں
اس میں کیوں اختصار کرتے ہو
میں اصولوں کا رسیا ہوں کب سے
توڑ کر بے قرار کرتے ہو
حال دل کا تمہیں نہیں معلوم
مل کے مجھ سے بہار کرتے ہو
جب بھی حق کی میں بات کرتا ہوں
جانے کیوں تم فرار کرتے ہو
(احمد مسعود قریشی ۔ملتان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.