ﷲ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابری نہیں دی، کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر۔ مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے۔ بل کہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بہ حیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
اسلام سے قبل عرب کے دورِ جاہلیت میں غلاموں اور باندیوں کا رواج عام تھا، جو شخص ایک مرتبہ غلام بن جاتا، وہ نسل در نسل غلام ہی رہتا۔ غلاموں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کیا جاتا، اسے دیکھ اور سن کر جسم کا رواں رواں کانپ اٹھتا۔ اﷲ کے رسول ﷺ جب رحمت اللعالمینؐ بن کر دنیا میں تشریف لائے تو آپؐ نے غلاموں کو آزادی دلاکر اس بھیانک تصور کا خاتمہ کیا۔ صحابہ کرام ؓنے ناصرف اپنے غلاموں بل کہ مشرکین کے غلاموں کو بھی اﷲ کی راہ میں خرید کر آزاد کروایا۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق متعین فرما دیے۔
جو لوگ دوسروں کی خدمت کرکے روزی کماتے ہیں، ان کے حقوق و فرائض کی نشان دہی فرما دی اور سب کو پابند فرما دیا کہ ان حقوق کی سختی سے پاس داری کریں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر گھریلو ملازمین، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ قابلِ افسوس بھی ہے اور شرم ناک بھی۔ غربت کے ہاتھوں پِسے ان لوگوں پر ڈھائے گئے ظلم و جبر اور اذیت کی داستانیں آئے روز ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں، لیکن یہ تو وہ چند کہانیاں ہیں، جو کسی طرح سے منظر عام پر آجاتی ہیں، جب کہ چند اچھے گھرانوں کو چھوڑ کر عمومی طور پر ان گھریلو ملازم خواتین اور ملازم بچوں کے ساتھ اہلِ خانہ، خصوصاً گھر کی مالکہ کا رویہ نہایت حقارت انگیز، نازیبا اور توہین آمیز ہوتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر سخت بُرا کہنا، جھڑکنا اور تشدد کرنا ان کا وطیرہ اور معمول ہے، جو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔
گھریلو ملازم کے بنیادی حقوق
معاشرے میں پھیلی برائیوں اور بداعتمادی کے سبب بغیر کسی قابل اعتماد حوالے کسی اجنبی کو گھریلو ملازم رکھنے سے پرہیز کیا جائے۔ ملازم یا خادم رکھتے وقت متعلقہ تھانے میں اس کی رجسٹریشن ضرور کروائیں۔ اسلام میں نامحرم سے پردے کے حکم میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور گھریلو ملازمین کو اس سے استثنٰی حاصل نہیں ہے۔ اس حکم پر عمل درآمد کا اہتمام خود بھی کریں اور گھر کی خواتین سے بھی کروائیں۔ ملازم، خادم رکھنے سے پہلے اسے کام کی نوعیت، اوقات ِکار، تن خواہ اور دیگر شرائط کے بارے میں تفصیل سے مطلع کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی صلاحیت، طاقت اور استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ اس کے ساتھ حُسنِ سلوک، احسان اور انصاف کیا جائے۔ طے شدہ کام اور اوقات کار سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔
اضافی کام اور اضافی اوقاتِ کار کا الگ سے معاوضہ اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق دیا جائے۔ ملازم، خادم کی خطاؤں، لغزشوں کو درگزر اور معاف کیا جائے۔ اس پر کسی بھی قسم کی ناروا سختی، توہین، تشدد یا مارپیٹ سے پرہیز کیا جائے۔ نادانستگی میں ہونے والے نقصان پر اسے معاف کردیا جائے۔ ملازم، خادم کی اجرت، پہننے کے لیے لباس، غذا کی فراہمی اور دیگر ضروریات وقت پر باقاعدگی سے پوری کی جائیں۔ ان کے آرام کا بھی خیال رکھا جائے اور بیماری یا کسی پریشانی میں انہیں مدد، تعاون اور سہولت فراہم کی جائے۔ نیز، جس حد تک ممکن ہو، ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے۔
ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک
خیر کے کاموں میں حُسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے۔ حضور ﷺ اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں آنحضرتؐ کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضور ﷺ نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بَد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ خدام اور ملازمین کے ساتھ ہمیشہ ہم دردانہ رویہ رکھنا چاہیے۔
اگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے، تو ضبط سے کام لینا چاہیے اور بَد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلا دے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’یہ (خادمین) تمہارے بھائی ہیں۔ اﷲ نے انہیں تمہارا دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلاؤ، جو تم خود کھاتے ہو۔ وہی پہناؤ، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔ ‘‘
ملازمین کو اجرت کی بروقت ادائی
طے شدہ اجرت کی ادائی ملازم کو بروقت کرنا چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تن خواہ میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالی کے فرمان کا مفہوم: ’’اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک! اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سور النساء)
عفو و درگزر سے کام لینا
ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنٰی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشاء کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔
اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بہ جائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضورؐ نے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)
ماتحت پر سختی کرنے کی ممانعت
آ ج ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر سختی کرنے، زدوکوب کرنے، یہاں تک کہ انہیں جلا دینے تک کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کی غلطیوں کو تو نظرانداز کردیتے ہیں، لیکن کم سِن ملازم کی ذرا سی غلطی پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ان واقعات میں عموماً بڑے گھرانوں کی خواتین شامل ہوتی ہیں، جن کے دلوں سے خوفِ خدا ختم ہو چکا ہے۔ ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ان معصوم ملازمین پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم، تشدد، زیادتی اور سختی دائیں اور بائیں کاندھوں پر بیٹھے کراماً کاتبین لکھ رہے ہیں۔
روزِ قیامت ان سب واقعات پر مشتمل نامۂ اعمال اﷲ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آخرت کی جزا و سزا اعمال سے مربوط ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا، اﷲ اس پر رحم نہیں کرتا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تم میں سے بُرے لوگ نہ بتاؤں؟ وہ جو اکیلے کھانا کھائے، اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی بخشش کو روکے۔
حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: تین صفات ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی، اﷲ تعالی اس کی موت آسان کردے گا اور اسے جنّت میں داخل کرے گا۔ پہلی: کم زور کے ساتھ نرمی کرنا۔ دوسری: والدین کے ساتھ شفقت کا سلوک اور تیسری اپنے غلاموں اور کنیزوں سے حسنِ سلوک۔ (مشکوۃ شریف)
ماتحتوں سے عدل و انصاف
مزدور اور محنت کش کو اﷲ پاک نے اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ملازم اور خادم بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں، لہذا یہ بھی اﷲ کے دوست ہیں۔ ملازم اور خادم کے ساتھ کام اور اجرت کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لیا جائے، ان سے وہی کام لیا جائے، جس کے لیے انہیں ملازم رکھا ہے، ان کی طاقت و استطاعت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔ ہر شخص پر اپنے مال کی حفاظت لازم ہے۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت گھریلو ملازمین یا کام کرنے والی ماسیوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ کہیں رکھ کر بھول گئے تھے یا کسی گھر والے کی حرکت ہے۔ اس بہتان کی اﷲ کے یہاں سخت پکڑ ہے۔ ملازمین کے معاملے میں عدل و انصاف کا حکم ہے۔
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس میں تمہارے بھائی کو اﷲ تعالی تمہارا مملوک (غلام، خادم) بنادے، اسے وہی کھلاؤ، جو تم کھاتے ہو اور اسے وہی پہناؤ، جو تم پہنتے ہو اور ایسے کام کی اسے تکلیف نہ دو، جو اس پر غالب آجائے اور اگر غالب آنے والے کام کی تکلیف دو، تو اس کی مدد کرو۔ (صحیح بخاری)
ملازم پر مال خرچ کرنا
ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور تن خواہ کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اﷲ کے یہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے، جو ان کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
ماتحتوں کی دینی اور دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا
تعلیم کی جو اہمیت اسلام میں ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں۔ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی پڑھ ہے۔ گھر کے مالکان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو، جہاں تک بھی ممکن ہو، دینی و دنیاوی تعلیم سے بہرور کریں۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے کہ جس کا ثواب انہیں تا قیامت ملتا رہے گا۔ اﷲ کے رسولؐ نے فرمایا کہ آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پڑھا لکھا ملازم، جاہل ملازم سے ہزار درجے بہتر ہے۔ علم کے فروغ کے لیے مالکان اور صاحبِ حیثیت افراد کی یہ کاوشیں ان کے لیے راہِ نجات بھی ہوں گی اور جنّت کے حصول کا ذریعہ بھی۔
اﷲ تبارک تعالی ہمیں اپنے گھریلو ملازمین، خادمین اور دیگر زیرِ کفالت افراد کے ساتھ عدل و احسان کرنے اور ان کے جملہ حقوق احسن طریقے سے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں رحم، درگزر اور معاف کرنے کی صفت پیدا فرمائے۔ آمین
The post ملازمین کے ساتھ حُسن سلوک appeared first on ایکسپریس اردو.