’اچھی ماں‘ کا لفظ سنتے ہی سب سے پہلے جو خیال ذہن میں اتا ہے، وہ یہ ہی ہے کہ ماں وہ ہی اچھی ہو سکتی ہے، جو 24 گھنٹے اپنی اولاد کو دست یاب ہو۔ کیوں کہ عام تاثر یہی ہے کہ عورت گھر پر رہ کر جو پرورش، دیکھ بھال اور نشوو نما اپنی اولاد کی کر سکتی ہے، وہ ایک ’ورکنگ مدر‘ نہیں کر سکتی۔
بالکل اس ہی قسم کا گمان ’اچھے والد‘ کے لیے بھی عام ہے کہ وہی شخص ’اچھا باپ‘ ہے، جو اولاد کو بہت مہنگے اسکول میں پڑھانے، ٹیبلیٹ، لیپ ٹاپ، موبائل فون سے لے کر مہنگے بن کباب اور بڑے ناموں سے مزین ملبوسات تک اس کی ہر خواہش پوری کرے۔
لیکن ذرا ٹھیریے! کیا کبھی اپ نے یہ سوچا ہے کہ ایک بچے کی اچھی پرورش، ذہنی وفکری نشوونما اور ذات کی تکمیل صرف ’ماں کے گھر پر ہونے‘ اور باپ کے ’اچھا کمانے‘ تک محدود نہیں۔ بچے کی متوازن شخصیت اور پرورش کے لیے ماں اور باپ دونوں کو اپنا حصہ ڈالنا ضروری ہے۔
بڑھتے ہوئے معاشرتی اور معاشی مسائل نے خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ معاشی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ آج سے 10، 15 سال پہلے ’ورکنگ مدر‘ ہونا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ بدلتے ہوئے وقت، ٹیکنالوجی کے استعمال، بہتر معیارِ زندگی کی خواہش اور معاشرتی مسائل کے ادراک کے باعث کسی حد تک ’ورکنگ مدرز‘ کی مشکلات میں کمی آئی لیکن نوکری ہو یا پھر بزنس، شیر خوار یا چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر جانا اب بھی ایک ماں کے لیے کسی اذیت ناک چیلنج سے کم نہیں۔
’ورکنگ مدرز‘ کے کام پر ہونے کے دوران بچوں کے لیے محفوظ ترین اور قابل بھروسا ٹھکانہ دادی یا نانی کی آغوش کے سوا کوئی نہیں، لیکن توانائی اور شرارتوں سے بھرپور ان بچوں کو ماں باپ کے مضبوط وجود کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے ڈگمگاتے ہوئے قدموں پر ان کو سہارا دے سکیں، ان کی شرارتوں میں ان کا ساتھ دے سکیں، ان کی مزے دار باتوں پر کُھل کر ان کے ساتھ قہقہے لگا سکیں۔
ہر ’ورکنگ مدر‘ کو یہ ’اختیار‘ میسر نہیں اور جب بچوں کی نانی، دادی یا کوئی اور قریبی رشتے داران کی مناسب دیکھ بھال کے لیے میسر نہ ہو تو پھر ’آیائوں کا ساتھ‘ یا ڈے کیئر سینٹرز ان بچوں کا مقدر ٹھیرتے ہیں۔
لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر ’ورکنگ مدرز‘ کے بچے کی دیکھ بھال اور ذمہ داری ان کے ’اسٹے ایٹ ہوم فادر‘ احسن طریقے سے نبھائیں۔ ارے نہیں نہیں! اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ والد اپنی لگی لگائی نوکریاں اور کاروبار سب چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ ہاں اگر کسی والد کے ڈیوٹی ٹائمنگ ایسے ہیں، جو کہ ماں کی غیر حاضری میں گھر پر ہی موجود ہے، تو یقیناً وہ کسی ڈے کیئر کی میڈم یا میڈز سے زیادہ بہتر انداز سے اپنے بچوں کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر کوئی والد بے روزگاری کے دور سے گزر رہا ہے اور اس کی شریکِ حیات کو ملازمت یا کاروبار کے بہتر مواقع میسر ہیں، تو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ بچہ ’اسٹے ایٹ ہوم ڈیڈ‘ یعنی گھر پر موجود والد کی نگرانی میں رہے، جس سے نہ صرف بچے کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی نشوونما بہتر ہوگی، بلکہ اپنی اولاد کے ساتھ وقت گزار کر والد کو بھی اتنی ہی خوشی، اطمینان اور سکون مل سکتا ہے، جتنا کہ ماں کو بچے کے ساتھ وقت گزار کر ملتا ہے۔
دوسری جانب ایسا کر کے ’اسٹے ایٹ ہوم ڈیڈ‘’ ورکنگ مدر‘ کو عملی طور پر نہ صرف سراہتے اور ساتھ دے سکتے ہیں، بلکہ ’ورکنگ مدر‘ کے ضمیر پر پڑنے والے اس بوجھ کو بھی آدھا کر سکتے ہیں، جو بچے کو کسی ’تیسرے شخص‘ کے حوالے کرنے کے بعد وہ ساری عمر اپنے کندھوں پر ڈھوتی پھرتی ہے، کیوں کہ بچوں کی ماں معیار زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریوں میں اس کا ہاتھ بٹانے میں بھی مصروف ہے۔
ڈاکٹر سمیہ ’ورکنگ مدر‘ ہیں اور مقامی اسپتال میں فل ٹائم ماہر نفسیات کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال رہی ہیں، جب کہ ان کے شوہر یوسف ’اسٹے ایٹ ہوم‘ ڈیڈ ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’ورکنگ مدرز‘ کے لیے اپنی اولاد کو معیاری وقت دینے سے محروم رہنا بھی کسی بڑے امتحان اور چیلنج سے کم نہیں اور اس چیلنج کے باعث زندگی کے ساتھ جڑے ہوئے روز مرہ کا معمول متاثر ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
یوسف صاحب کے مطابق اولاد کی تعلیم تربیت اور بہتر مستقبل کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ عورت اگر نوکری پیشہ ہو تو اولاد کے معاملات ایسی صورت میں پریشانی کا باعث بنتے ہیں، جب مرد کا رویہ گھر اور اولاد کی ذمہ داریوں کی طرف غیر سنجیدہ ہو۔ اگر مرد گھر پر رہ کر عورت کی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھاتا ہے، تو ماں کی غیر حاضری اور خلا کو پورا کر سکتا ہے۔
اولاد کے بہتر مستقبل اور فلاح کے لیے باپ کسی مجبوری کے تحت یا اپنے خاندان کے بہتر مفاد میں اولاد کے لیے گھر پر رہ کر ان کی پرورش کرتا ہے اور دل جمعی کے ساتھ خوش گوار ماحول میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنا وقت اولاد پر صرف کرتا ہے، تو لازماً شریک حیات کے لیے زیادہ مددگار اور مفید ثابت ہوگا۔
دوسری طرف یوسف صاحب کا خیال ہے کہ ’ورکنگ مدر‘ کی کام یابی اور ترقی بھی ایسی ہی صورت حال میں ممکن ہے کہ ان کے ساتھ جڑے ہوئے رشتے مستحکم اور مضبوط ہوں اور وہ اپنی غیر موجودگی میں بھی گھر کے ماحول، اولاد کی تعلیم اور گھریلو معاملات کی طرف سے پرسکون ہوں۔ ماں اور باپ میں سے جو اپنے خاندان کی زیادہ بہتر کفالت کر سکتا ہے، اسے ہی کفالت کرنی چاہئیے اور ’دوسرا ساتھی‘ گھر پر رہ کر بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال کرتا ہے، تو کوئی معیوب بات نہیں۔
جب کہ ڈاکٹر سمیہ بھی خود اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ویسے تو ’ورکنگ مدرز‘ کے لیے ڈے کیئر، نانیز (nannies) یا میڈز جیسے راستے موجود ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی ’ورکنگ مدر‘ کی غیر حاضری میں اگر بچے والد کی زیر نگرانی ہوں، تو اس سے اچھی بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی، کیوں کہ ایسے میں ماں کو یقین ہوتا ہے، کہ بچہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور بچے کا جذباتی تعلق اور دلی لگاؤ جو والدین کے ساتھ ہونا چاہئیے، وہ برقرار رہتا ہے۔
ڈاکٹر سمیہ کہتی ہیں کہ یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی صنف یا اس صنف سے منسلک کیے گئے کام‘ دو الگ الگ زاویے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک ’پارٹنر‘ کی ذمہ داری اگر دوسرا ساتھی احسن طریقے سے نباہ سکتا ہے، تو اس سے کسی کے ’صنف وقار‘ پر حرف نہیں آجاتا۔
آج سے دس، پندرہ سال قبل پاکستان میں جتنا مشکل ’ورکنگ مدرز‘ کو ایک کام یاب عورت تسلیم کرنا تھا، اتنا ہی آج ایک ’اسٹے ایٹ ہوم فادر‘ کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔
اگر ہم اپنے بچوں کو اچھا مستقبل دینے کے ساتھ معاشرے کے سدھار میں اپنا کردار ادا کرنے چاہتے ہیں، تو معاشرے کے لگے بندھے رویوں پر بات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیوں کہ ’ورکنگ مدر‘ کی غیر حاضری میں ’اسٹے ایٹ ہوم ڈیڈ‘ اور ’کمانے والے والد‘ کی غیر موجودگی میں ’ہاؤس وائف ماں‘ ہی اپنے بچوں کے نہ صرف اچھے ’نگراں‘ ہو سکتے ہیں، بلکہ بہترین ’استاد‘ بھی ہوتے ہیں۔
اولاد کا بہتر مستقبل اور ذہنی، فکری وجذباتی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ ذمہ داریوں کو کسی ایک ’صنف‘ سے منسلک کرنے کے بہ جائے ماں اور باپ آپس میں ذہنی ہم آہنگی اور مشترکہ کاوشوں سے اس بوجھ کو بانٹ کر چلیں۔
The post ’ورکنگ مدر‘ اور ’اسٹے ایٹ ہوم ڈیڈ‘ appeared first on ایکسپریس اردو.