حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ’’تم سے پہلی امت کے تین آدمی سفر کررہے تھے۔
رات گزارنے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ پہاڑ سے ایک پتھر نے لڑھک کر غار کے منہ کو بند کردیا۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ اس پتھر سے ایک ہی صورت میں نجات مل سکتی ہے کہ ہم سب اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں۔
چناں چہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اﷲ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے، میں ان سے پہلے کسی کو دودھ نہ پلاتا تھا۔ ایک دن لکڑی کی تلاش میں میں بہت دور نکل گیا، جب شام کو واپس لوٹا تو وہ دونوں سو چکے تھے۔
میں نے ان کے لیے دودھ نکالا اور ان کی خدمت میں لے آیا۔ میں نے ان کو سویا ہُوا پایا۔ میں نے ان کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ان سے پہلے اہل و عیال و خدام کو دودھ دینا بھی پسند نہیں کیا۔ میں پیالا ہاتھ میں لیے ان کے جاگنے کے انتظار میں طلوع فجر تک ٹھہرا رہا۔ حالاں کہ بچے میرے قدموں میں بھوک سے بلبلاتے تھے۔ اسی حالت میں فجر طلوع ہوگئی۔
وہ دونوں بیدار ہوئے اور اپنے شام کے حصے والا دودھ نوش کیا۔ اے اﷲ! اگر یہ کام میں نے تیری رضامندی کی خاطر کیا تو تو اس چٹان والی مصیبت سے نجات عنایت فرما۔ چناں چہ چٹان تھوڑی سی اپنی جگہ سے سرک گئی۔ مگر ابھی غار سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ دوسرے نے کہا: اے اﷲ! میری ایک چچازاد بہن تھی۔ وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے اس سے اپنی نفسانی خواہش پورا کرنے کا اظہار کیا مگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ قحط سالی کا ایک سال پیش آیا جس میں وہ میرے پاس آئی۔ میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ اپنے نفس پر مجھے قابو دے گی۔
اس نے آمادگی ظاہر کی اور قابو دیا۔ جب میں اس کے سامنے بیٹھ گیا تو اس نے کہا تُو اﷲ سے ڈر! اور اس مُہر کو ناحق و ناجائز طور پر مت توڑ۔ چناں چہ میں اس فعل سے باز آگیا، حالاں کہ مجھے اس سے بہت محبت بھی تھی۔ اور میں نے وہ ایک سو بیس دینار اس کو ہبہ کر دیے۔ یااﷲ! اگر میں نے یہ کام خالص تیری رضا جوئی کے لیے کیا تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عنایت فرما جس میں ہم مبتلا ہیں۔
چناں چہ چٹان کچھ اور سرک گئی۔ مگر ابھی تک اس سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ تیسرے نے کہا: یااﷲ! میں نے کچھ مزدور اجرت پر لگائے اور ان تمام کو مزدوری دے دی۔ مگر ایک آدمی ان میں سے اپنی مزدوری چھوڑ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کاروبار میں لگا دی۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ مال اس سے جمع ہوگیا۔ ایک عرصے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اﷲ کے بندے! میری مزدوری مجھے عنایت کردو۔ میں نے کہا: تم اپنے سامنے جتنے اونٹ، گائیں، بکریاں اور غلام دیکھ رہے ہو، یہ تمام تیری مزدوری ہے۔
اس نے کہا: اے اﷲ کے بندے! میرا مذاق مت اڑا۔ میں نے کہا: میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ چناں چہ وہ سارا مال لے گیا اور اس میں سے ذرّہ برابر بھی نہیں چھوڑا۔ اے اﷲ! اگر میں نے یہ تیری رضامندی کے لیے کیا تو تو اس مصیبت سے جس میں ہم مبتلا ہیں، ہمیں نجات عطا فرما۔ پھر کیا تھا چٹان ہٹ گئی اور تینوں باہر نکل گئے۔ (بہ حوالہ: مسلم)
مذکورہ حدیث میں نیک اعمال کے وسیلے سے دعا مانگی گئی۔ وسیلہ کا مطلب ہے کہ کسی مقبول عمل یا مقرب بندے مثلاً حضور اکرم ﷺ کا واسطہ پیش کرکے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگنا۔ یعنی اس بات کا پورا یقین اور ایمان کہ دینے والی، بخشنے والی صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی نیک بندہ خدائی میں شریک نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کے بعد اپنے کسی مقبول عمل یا حضور اکرم ﷺ کا واسطہ پیش کرکے اﷲ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا وسیلہ کہلاتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگنے والا صرف یہ یقین رکھتا ہے کہ ِاس کے ذریعے اُس کی دعا کا بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں کی قبولیت کے لیے وسیلہ شرط نہیں ہے، مگر مفید اور کارگر ضرور ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں وارد ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک بار قحط پڑا۔ حضور اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی نے کہا یا رسول اﷲ! مال تباہ ہوگیا اور اہل و عیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔
آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے۔ اس وقت بادل کا ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ابھی آپؐ نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور ابھی آپ ﷺ منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہا تھا۔
اس دن، اس کے بعد اور پھر متواتر آئندہ جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو یہی اعرابی پھر کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور مال و اسباب ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے دعا کیجیے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اﷲ! اب دوسری طرف بارش برسائیے اور ہم سے روک دیجیے۔ آپ ﷺ ہاتھ سے بادل کے جس طرف بھی اشارہ کرتے ادھر مطلع صاف ہوجاتا ۔ (صحیح بخاری )
موضوع بحث حدیث میں تین نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگی گئی: والدین کی خدمت۔ اﷲ کے خوف کی وجہ سے زنا سے بچنا۔ اور حقوق العباد کی کماحقہ ادائیگی اور معاملات میں صفائی۔
والدین کی خدمت
قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ احادیث میں بھی والدین کی فرماں برداری کی خاص اہمیت و تاکید اور اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا بنائے۔ ان کی فرماں برداری کرنے والا بنائے۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کماحقہ ادا کرنے والا بنائے۔
شرم گاہ کی حفاظت
اﷲ تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات میں انسان کی کام یابی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقے کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ ان آیات کے اختتام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوت نفس کو تسکین دینا قابل ملامت نہیں بل کہ انسان کی ضرورت ہے۔
لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے کو منع فرمایا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے۔
آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد و عورت کا کثرت سے اختلاط، بے پردگی اور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں کیوں کہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مرد و عورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔
حقوق العباد کی ادائیگی اور معاملات میں صفائی
ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے‘ ایک حق والے کو (اس کے حق کے بہ قدر) نیکیاں دی جائیں گی۔
ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بہ قدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بہ قدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم )
The post مسائل و مشکلات سے نجات، مگر کیسے۔۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.