Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بچوں کو اپنی مرضی بھی کرنے دیجیے۔۔۔

$
0
0

تمام بچے یک ساں نہیں ہوتے۔ ان میں بہت سی معاشرتی اور بہت سی موروثی خصوصیات ہوتی ہیں اور ماحول جس میں وہ پرورش پاتے ہیں ، بچے کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

نہ صرف جسمانی صحت، نشوونما، بلکہ ذہنی صحت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ والدین کا ماحول اس کی ذہانت اور قابلیت کو بھی پروان چڑھاتا ہے، کیوں کہ والدین کی ان صلاحیتوں کی نشوونما مکمل طور پر ماحول کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔

بچے کے ابتدائی چند سالوں تک آپ کس طرح خیال رکھتے ہیں اور اس کی ذہنی اور جسمانی کیفیات کو کس طرح سمجھتے اور سمجھاتے ہیں اس سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ آگے چل کر یا بڑے ہوتے ہوئے وہ کتنے بہتر طریقے سے اپنے ذہن کو بروئے کار لاتے ہیں۔

چوں کہ ہر بچہ اپنی انفرادیت رکھتا ہے، اس لیے سب بچوں سے ایک جیسی صلاحیتوں کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، حالاں کہ سب ہی والدین یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کا بچہ تعلیم کے میدان میں اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سب بچوں سے آگے ہو۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے بچے کا موازنہ پیچھے رہ جانے والے بچوں یا گزشتہ سال کے کام یاب بچے سے کیا جانے لگتا ہے۔

کام یابی حاصل کرنے والے بچے کے والدین کے اندر احساس تفاخر اور احساس برتری آجانا تو ایک عام سی بات ہے، جب کہ ایسے والدین جن کا بچہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا ہو، احساس کمتری اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ احساس کمتری ان والدین میں جھنجھلاہٹ اور مایوسی پیدا کر دیتا ہے، جو وہ اپنے بچے پر کبھی غصہ کر کے اور کبھی مارپیٹ تک کر کے نکالتے ہیں۔ دراصل آج کا دور مقابلے بازی کا دور ہے اور والدین نہیں چاہتے کہ ان کے بچے مقابلے کی اس دوڑ میں دیگر بچوں سے پیچھے رہ جائیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’موازنہ اور مقابلہ خوشی اور لطف کی موت ہیں‘‘ کیوں کہ موازنہ بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک بچے کی خود اعتمادی اس وقت بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے، جب بچہ اپنے والدین کی توقعات پر پورا نہ اترسکے اور والدین اس کا موازنہ مسلسل دوسرے بچوں سے کرتے آرہے ہوں۔ اس طرح بچہ اپنے ساتھی بچے کے مقابلے میں خود کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔

بچے کے رویے میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے کچھ مختلف رویہ رکھنے لگتا ہے اور اکثر ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے کہ اس کے والدین کی توجہ اس کی طرف رہے۔ بہترین کارکردگی کے لیے والدین کی طرف سے ڈالا جانے والا دبائو بچے کو بے بس کر دیتا ہے۔ دوسرے بچوں کے علاوہ بہن بھائیوں میں کیا جانے والا موازنہ بعض اوقات ان کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیتا ہے اور ایک دوسرے سے حسد بھی کرنے لگتے ہیں۔

موازنہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو قطعی کسی اور کے بچوں کے جیسا بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں کو ان کے اپنے منفرد انداز سے آگے بڑھنے دیں۔ بچوں کو اپنی زندگی میں جوش، خوشی اور تفریح کے ساتھ بہت سیآزادی حاصل ہونی چاہیے، کسی دوسرے بچے سے کی جانے والی مسابقت بچے سے اس کا بچپن چھین لیتی ہے۔

بچے پر ڈالے جانے والا بے جا دبائو اس کو ایک خوش و خرم شخصیت کے روپ میں بڑھنے نہیں دیتا، بلکہ اس کی شخصیت کو مسخ کر دیتا ہے۔ بہت سے بچوں کے درمیان کوئی بھی مقابلہ ہو تو مسابقت اور موازنے کا لیول بہت بڑھ جاتا ہے اس لیے ایسے بچوں کے والدین یقیناً احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، جن کے بچوں میں غیر نصابی صلاحیتوں کی کمی ہو دوسری جانب بچوں پر بھی دبائو بڑھنے لگتا ہے اور اس کا اعتماد بری طرح سے متاثر ہونے لگتا ہے، ان کی شخصیت کی تعمیر مایوس کن ہوتی ہے۔ موازنہ تضحیک کی علامت ہے۔

موازنہ دراصل تخلیقی صلاحیت کا دشمن ہے ۔ والدین سمجھتے ہیں کہ مہنگے ترین انگلش میڈیم اسکول میں پڑھانے اور اپنے بچے کو کئی طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رکھنے سے ان کا بچہ نمایاں اور اہم بن جائے گا وہ اپنے بچے سے بہت ساری توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، لیکن دراصل والدین یہ سب کر کے بچے پر دبائو ڈال دیتے ہیں، اس طرح بچہ دن بھر مصروف رہتا ہے۔

اسے فارغ وقت نہیں ملتا، یہ رویہ اور طریقہ بچے کے سماجی رویے پر اثر ڈالتا ہے اور بچہ اپنی سوچ کو صرف خود تک ہی محدود رکھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ صرف میں ہی ہوں۔ دوسرے لوگوں کو وہ کچھ نہیں سمجھتا اور نہ ہی اپنے سوا اس کے لیے کسی کی اہمیت ہے۔ لہٰذا اپنے بچے کا بہت سی مختلف سرگرمیوں کی کلاسوں میں داخلہ کروانے کے بہ جائے یہ دیکھیں کہ اس کی دل چسپی کس چیز میں ہے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر استعمال کر سکے۔

دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل سکے ان سے دوستی کر سکے۔ کچھ نئے ’رسک‘ لے سکے اور اپنی شخصیت کو مضبوط بنا سکے، تاہم اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب مثبت انداز میں ہو، تاکہ بچے کی فطری صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں اور اس کی شخصیت بااعتماد ہو۔

والدین اپنے بچے کا موازنہ کسی بھی دوسرے بچے کے ساتھ ہرگز نہ کریں یہ نہایت ناپسندیدہ فعل ہے یہ آپ کے بچے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی نقصان پہنچاسکتا ہے۔

والدین کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ اپنے بچے کے مزاج اور رجحان کو سمجھیں، اس کی دل چسپیوں کو جانیں اس کی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور اس کو کوئی بھی ہدف دینے سے قبل اس ہدف کی تکمیل میں درپیش ممکنہ مسائل کے بارے میں بھی سوچیں، اگر آپ اپنے بچے کی مرضی، اس کی دل چسپی اور رجحان کے برخلاف، ایسی ہی کسی سرگرمی میں مصروف کرتے ہیں، تو بچہ اس سے لطف اندوز ہونے کے بہ جائے بوریت محسوس کرنے لگے گا۔ اس کی عدم دل چسپی اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا سکتی ہے اور یہ سب باتیں اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

والدین کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر بچے کا موازنہ مسلسل دیگر بچوں کے ساتھ کیا جاتا رہے، تو بچہ خود کو زیر بار محسوس کرتا رہتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری بچے پر اس کی کارکردگی کے حوالے سے دبائو ڈال کر اس کی صلاحیتوں کو دبانا اور نیندیں اڑانا ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے جو اس

کی کارکردگی پر اثر انداز ہو رہا ہے تو بچے کے ساتھ بیٹھ کر حل کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ورنہ بچہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دوسرے بچے اس سے کہیں بہتر ہیں اور اس کے اندر اچھی کارکردگی دکھانے کے گر نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اپنے والدین کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے۔

یہ احساسات بچے کی شخصیت کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں اور بچے تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پیچھے رہے جاتے ہیں۔ کوشش کے باوجود بچہ اگر دوسرے بچوں سے بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے، تو اس کے اعتماد میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ ناکارہ اور نالائق ہے۔ اسی طرح بچے کے مقابلے میں اگر آپ زیادہ کام یابی حاصل کرنے والے بچے کی تعریف کریں گے، تب بھی بچہ منفی سوچ کا حامل ہو سکتا ہے اور عدم تحفظ کا شکار بھی ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے بچے سے دوری ہرگز اختیار نہ کریں۔

اپنے بچے کی ہمیشہ مثبت کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں، اس چھوٹے سے عمل سے بچے کے اندر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ بچہ کی اپنی دل چسپی اور رجحان ایک ایسا عنصر ہے، جو اس کو کسی بھی شعبے میں کام یاب کروا سکتا ہے۔ بہ جائے اس کے کہ آپ یہ خواہش کریں کہ آپ کا بچہ وہی کرے، جو آپ چاہتے ہیں، بہتر یہ ہوگا کہ بچے کو اس کی مرضی اور اس کی پسند کے حوالے سے راہ نمائی کریں دوسرے بچوں سے موازنہ کرنے کے بجائے اپنے بچے کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں اس کی مدد کریں اور اپنے بچے کے ساتھ نرمی اور حوصلہ افزائی والا سلوک رکھیں۔

خواہ وہ آپ کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ اس کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں اس کی کوششوں کا اعتراف سب کے سامنے کریں۔ اپنے بچے کا موزانہ اس سے بہتر کارکردگی دکھانے والے بچوں سے ہرگز نہ کریں بلکہ اپنے بچے کو اچھی طرح جانیں اور اس سے حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کریں۔ اپنے ادھورے رہ جانے والے خوابوں کو اپنے بچوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ یہ بات سمجھ لیں کہ ہر بچہ مختلف ہے اور اس کی دل چسپیاں الگ ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور کمزوریاں متفرق ہیں۔ ہر بچے کا الگ مزاج اور سوچ ہے۔ اپنے بچے کو دوسرے بچوں کی تقلید کرنے کے لیے نہ کہیں اور ان پر کسی بھی قسم کا دبائو نہ ڈالیں۔ اسے اپنے انداز اور رجحان کے مطابق آگے بڑھنے دیں۔

The post بچوں کو اپنی مرضی بھی کرنے دیجیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>