خدائے عزوجل نے تخلیق کائنات کے ساتھ ہی ایک خاص حکمت کے تحت خیر و شر کا وجود بھی پیدا فرمایا۔ منشائے ایزدی اگر چاہتی تو اس کائنات رنگ و بُو میں مجرد خیر کی قوت ہی فروغ پاتی۔
طاغوتی قوتوں کا نام و نشان ہی موجود نہ ہوتا۔ اور تا حّد نگاہ ارض و سما فردوس بریں کا منظر پیش کرتے۔ فساد فی الارض کا تصور ہی نہ پایا جاتا اور نہ نسل آدمیت باہم دست و گریباں ہو کر جنگ و قتال میں مصروف ہوتی۔ لیکن یہ حقیقت قانون فطرت کے عین خلاف نظر آتی ہے۔ کشاکش حق و باطل کا سلسلہ انسانوں کی آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ اور پھر خود شناسی و خدا شناسی کے لیے انبیاء و رُسلؑ کا ایک وسیع سلسلہ تخلیق کیا گیا جن کی حیات ہائے اقدس فوز و فلاح انسانیت کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
ابوالبشر سیّدنا حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ہزاروں انبیاء علیہ السلام تشریف لائے اور رب کائنات کی ربوبیت کی حقانیت کا علم بلند کرنے میں مصروف رہے۔ حتیٰ کہ اس بے مثال جدوجہد میں اپنی جانیں تک کھپا دیں۔ تاریخ بتاتی ہے کسی نبی کو آرے سے چیرا گیا، کسی کو سولی پر لٹکایا گیا اور کسی کو آتش نمرود میں پھینکا گیا مگر ان رسولان محتشمؑ کے قدوم میمنت لزوم میں کبھی لغزیدہ خرامی نہیں آئی۔
لیکن بعض انبیائؑ طویل اور صبر آزما کش مکش حق و باطل کے بعد اپنی اقوام و ملل کے فنا کے لیے بَد دعا پر مجبور ہوگئے۔ ان میں حضرت نوح علیہ السلام کی مثال قرآن میں موجود ہے۔ اﷲ رب العزت نے اپنی ان محبوب ہستیوں کو ایک دوسرے پر فضیلتوں اور عظمتوں سے بھی بہرہ یاب کیا اور ’’وسلام علی المرسلین‘‘ کہہ کر اپنی قربتوں سے نوازا۔
حضرت آدم ؑ سے لے کر ابن مریم علیہ السلام تک تمام انبیاء و رُسل اﷲ کے محبوبین و مقربین تھے مگر جن اعزازت و انعامات اور ارتفاع و شوکت سے امام الانبیاء سرکار رسالت مآب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بہرہ یاب کیا گیا، تمام صحائف سماوات اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں مثلاً جناب موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کی جانب سے بار بار دیدار خداوندی کی تمنّا کا اظہار کیا گیا۔ لیکن ہر بار لن ترانی کا جواب آتا رہا۔
فقط غایت اصرار کلیم اﷲ علیہ السلام کی بنا پر اتنا شرف پذیرائی بخشا گیا کہ انہیں کوہ طور پر جلوۂ خالق کائنات دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ جناب موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام محض ایک تجلی کی گراں باری برداشت نہ کر سکے اور بے ہوش ہوگئے اس کے برعکس امام الانبیاء حضور سرور کائنات ﷺ شب معراج مسجد الاقصیٰ میں انبیاء علیہ السلام کی امامت کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد ’’بہ مقامے کہ رسیدی نہ رسد ہیچ نبی‘‘ (مفہوم: آپؐ اُس مقام بلند تک پہنچے جہاں تک کسی نبی کی رسائی نہیں ہوئی) اور پورے حواس کے ساتھ لطافت دیدار الٰہی سے فیض یاب ہوتے رہے۔
موسیٰ زہوش رفت بہ یک جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری و در تبسّمی
(مفہوم: حضرت موسیؑ تو تجلیٔ صفات کے بالواسطہ نظارے سے ہی بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ لیکن اے نبیؐ! آپؐ نے عین ذات کا دیدار کیا اور تبسّم کی کیفیت میں کیا۔)
تمام انبیاء علیہ السلام میں فقط حضور سرور کائنات ﷺ کو ہی یہ اعزاز و شرف حاصل ہے کہ اﷲ رب العزت آپ کی ذات گرامی پر ناصرف خود اور اس کے فرشتے ہمہ وقت درود بھیج رہے ہیں بلکہ اہل ایمان کو یہ حکم ہے کہ وہ بھی صبح و مسا اس کے حبیب مکرم ﷺ پر درور و سلام کی برسات کریں اور اس عظیم سعادت کے حصول کا کوئی وقت متعین نہیں، بس دل و نگاہ کی تطہیر و تقدیس کا ہونا ضروری ہے۔ درود بھیجتے وقت قلب و نظر ہر دنیاوی آلائش سے منزّہ ہونے چاہییں۔ یہ انسان کی بڑی بدنختی ہے کہ زبان پر تو مدح ممدوح رب العالمین ﷺ جاری ہو اور دل میں تخریب کاری کے منصوبے پروان چڑھ رہے ہوں اور تخیل کی اڑان حقوق اﷲ اور حقوق العباد سے راہ فرار اختیار کرنے کے مذموم عزائم کا احاطہ کیے ہوئے ہو۔ آقائے گیتی پناہ ﷺ کے ذکر جمیل کے لیے آنسوئوں سے وضو کرنا لازم و واجب ہو جاتا ہے۔
راقم کا ایک شعر ہے
میں آنسوئوں سے ذرا کیوں نہ اب وضو کر لوں
کہ ذکر سرور خیر الانام (ﷺ) ہوتا ہے
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپؐ کی ذات والا صفات پر درود و سلام بھیجنا کیوں ضروری ہے۔۔؟ ایک عام سا دستور حیات ہے کہ ہم دنیاوی امور میں اپنے محسنوں کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں یہ اُن کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہم محسن کُشی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں اور پھر یہ بات محسن کے دل پر بھی گراں گزرتی ہے یہ تصور تو عام شخصیات کے لیے مختلف شعبہ ہائے حیات میں پایا جاتا ہے لیکن جہاں بات ہو اس محسن انسانیت ﷺ کی جس کی تشریف آوری سے دنیا کی کشت ویراں میں بہار آگئی۔
مقصد حیات سے بھٹکی ہوئی نسل آدمیت کو مرکزیت مل گئی، جس نے غلامی کے حلقہ ہائے سلاسل کو توڑ کر ’’لقدکرمنا بنی آدم‘‘ کا تاج زرّیں پہنایا، جس نے شب تار الست کو صبح نُور میں بدل دیا، جس نے باد سموم کو نسیم صبح کا پیرہن عطا کیا، جس نے ریگ زار عرب کو طلوع آفتاب کی تابش عطا کی، عالم آب و خاک کو جس کے ظہور سے فروغ ملا، جس نے صنم پرستوں کو خدا پرستی کے عظیم شرف سے بہرہ یاب کیا، جس نے حرمت انسانی پامال کرنے والوں کو تہذیب و اخلاق کی نئی جہتیں عطا کیں، جس نے زندگی کو بندگی اور بندگی کو درخشندگی کا جمال آگیں تصور عطا کیا۔
جس نے دست جفا کو توڑ کر چنبیلی و نسترن کی مہک سے مالا مال کیا، جس نے دبیز اندھیروں کو صبح نو کی کرنیں عطا کیں، جس نے سطوت کی خسروی سے تخت و تاج و حکومت چھین کر صحرائے عرب کے ریگ زاروں پر شب باشیاں کرنے والے بدوئوں کو نواز دیا، جس نے اہل دنیا کو حسن معاشرت، باہمی رواداری، اتحاد، شرف انسانی کی پہچان، اعتدال پسندی اور عبادات کا ایسا خُوب صورت تصوّر پیش کیا جو سراسر فلاح انسانیت کا ضامن ہے۔ تو پھر ہم اس محسن کائنات ﷺ کے حضور کیوں نہ درود و سلام کا نذرانہ پیش کریں۔
اُن احسانات کا شکر کیوں نہ ادا کریں اور احسانات بھی ایسے تاریخ جن کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے آقا ؐ کی اس سے بڑی عنایت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنی خطا کار اُمت کو آتش جہنّم کے ہول ناک شعلوں سے بچانے کے لیے بارگاہ خدا وندی میں تسلسل سے اشک بار رہے، لہذا حضور ﷺ کی بے مثال و بے کراں عنایات کا شکریہ ادا کرنے کا سب سے وجد آفرین طریقہ خود رب کائنات نے تجویز فرمایا اور طریقہ بھی ایسا جس پر وہ خود اور اس کے فرشتے ہمہ دم عمل پیرا ہیں اور یہ اظہار تشکر محض تخیلاتی اشارہ نہیں بل کہ حکماً کہا گیا کہ اس محسن اعظم ﷺ کی مہربانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو تو میرے اور میرے فرشتوں کی ادائوں پر غور کرو جو ہر لحظہ اپنے رسول معظم ﷺ پر درود و سلا م کی بارش کر رہے ہیں۔ ذات محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ درود و سلام کا نذرانہ ہی اُن کے ساتھ اعتراف محبت بھی ہے اور اُن کی نوازشوں کا شکریہ بھی۔
ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے بھی کیا خوب فرمایا:
کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
The post دُرود اس پر کہ جس کے خُلق کی تفسیر قرآں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.