آثار یہ خوش کُن خبر دیتے ہیں کہ جلد شہرقائد کی خوب صورت شناختوں میں ایک اور اضافہ ہونے کو ہے۔۔۔’’کراچی۔۔۔۔جہاں عالمی اردو کانفرنس ہوتی ہے۔‘‘
آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیراہتمام مہکتی اور رنگ بکھیرتی محفلوں کا یہ چمن زار ہر برس کے آخر میں کِھل اُٹھتا ہے، اور اپنی خوشبو لُٹا کر جاتے سال کی چوکھٹ پر یوں بکھرتا ہے کہ اردو کے چاہنے والوں اور فن وثقافت کے متوالوں کے دامن خوش نما لفظوں کے پھول کلیوں سے بھر بھر جاتے ہیں۔
چند روز قبل اختتام کو پہنچنے والی عالمی اردو کانفرنس اس روشن سلسلے کی چودھویں کڑی تھی، پاکستان اور دنیا بھر ہی میں اردو کے نام سے سجائی جانے والی محفلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پُررونق اور تاب ناک محفل ہی نہیں، اپنے سلسلے کے میلوں میں بھی سب سے زیادہ چہل پہل لیے اور جہتیں سمیٹے۔
مسلسل چودہ سال سے اس کانفرنس کا کام یاب انعقاد کراچی آرٹس کونسل اور اس کے کرتا دھرتا احمدشاہ کا وہ کارنامہ ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ حالیہ کانفرنس گذشتہ اردوکانفرنسوں کے مقابلے میں مندوبین کی شرکت اور سیشنز کی تعداد اور تنوع کے اعتبار سے کہیں بڑی تھی۔ پھر آن لائن شرکت اور تقاریر کا سلسلہ اس میلے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا وہ عنصر ہے جو سرحدوں پر علم وادب کے جھونکوں کا راستہ روکے کھڑی پابندیوں کو بے معنی کرکے رکھ دیتا ہے۔
چند روز کو بسنے والے اس شہرِاردو میں میں زبان وادب کے ساتھ رقص وموسیقی اور دیگر فنون کی گلیاں کوچے اس کا حُسن بڑھادیتے ہیں۔ سو یہ شاعروں، ادیبوں اور شعروادب سے علاقہ رکھنے والوں کے ساتھ ہر طرح کے فن کاروں کا بھی میلہ بن چکا ہے، ایک ایسا میلہ جو سجتا تو کراچی میں ہے لیکن سارے ملک کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتا اور سارے پاکستان کی ثقافتوں کو اپنے دھنک سے سجے آسمان تلے کھینچ لاتا ہے۔ چودھویں عالمی اردو کانفرنس بھی ایک ایسا ہی رنگارنگ میلہ ثابت ہوئی۔
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے عالمی کہا کہ انتہا پسندی کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ادبا اور شعرا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو کتابوں کے قریب لانا ہوگا۔ ہر ضلع میں نئی لائبریریاں قائم کی جائیں گی۔ ادب اور اردو زبان کے فروغ کے لیے حکومت سندھ ہر ممکن تعاون کرے گی، شعرا اور ادبا کی کہی ہوئی باتیں دیرپا اثر رکھتی ہیں لہٰذا انہیں معاشرے میں موجود بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔
اس موقع پر صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار علی شاہ، مشیروزیراعلیٰ سندھ اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیرتعلیم سردار علی شاہ نے کہا کہ عالمی اردو کانفرنس سے محبت کرنے والوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا میلہ ہے جس کا سہرا آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے، برصغیر میں بولی جانے والی تمام زبانوں نے مل کر اردو زبان کو جنم دیا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اہل علم و دانش نے کہا ہے کہ اردو زبان کی آواز اور چاشنی ان سب تک پہنچتی ہے جو دل اور احساس رکھتے ہیں اردو زبان کا معجزہ ہے، تخلیق کاروں کو جس فضا کی ضرورت ہوتی ہے وہ مکمل طور پر انہیں دستیاب نہیں مگر وہ کسی حد تک اپنے لیے راہ نکال لیتے ہیں۔ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت زہرا نگاہ، اسد محمد خان، کشور ناہید، منیزہ ہاشمی، نورالہدیٰ شاہ، یوسف خٹک، منور سعید اور بھارت سے آن لائن گوپی چند نارنگ نے کی جب کہ محقق اور ماہرین تعلیم ڈاکٹر جعفر احمد اور ماہرلسانیات ڈاکٹر طارق رحمٰن نے کلیدی مقالے پیش کیے۔
بھارت سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے گوپی چند نارنگ نے کہا کہ مجھے اردو کا جادو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں کا فیضان بعد میں نصیب ہوا مگر اردو میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردو زبان میرے لیے رازوں بھرا بستہ ہے اور یہ زبان میرے وجود کا حصہ بنتی چلی گئی ہے۔ اردو جیسی زبان اور شیرینی جس میں عربی اور فارسی کی لطافت اور شائستگی کے ساتھ ساتھ ہماری مٹی کی خوشبو بھی موجود ہے اردو زبان میں ہماری دھرتی کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، عربی اور فارسی کے لفظ اردو زبان میں جس طرح گھل مل گئے ہیں اس سے اردو زبان کی خوب صورتی مزید بڑھ گئی ہے۔
ماہرتعلیم اور محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ اردو اور تہذیب کے باہمی تعلق کی صورت حال نے ادب کی پرورش کی ہے۔ اس سے ہمارا کلچر بھی بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کلچر کی وسعت کم ہورہی ہے، ہم اپنے کلچر کا جشن ایسے حالات میں منارہے ہیں جو ہمارے لیے موافق نہیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ان وجوہات پر بھی نظر رکھیں کہ جن کیاریوں میں ادب کے پھول کھلتے ہیں اس میں عدم برداشت کا زہریلا پانی کس تیزی سے چھوڑا جارہا ہے۔ اجلاس میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیے۔
پہلے دن ’’ایک شام فیض کے نام‘‘ کے زیرعنوان محفل منعقد ہوئی، جس سے خطاب کرتے ہوئے شعرا اور ادیبوں نے کہا کہ فیض احمد فیض نے حقائق سے شاعری کو کشید کیا ہے لہٰذا ان کی شاعری کو کسی موقع مناسبت سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کی کئی نظمیں ضیا الحق کے دور سے قبل بھی کہی ہیں۔
اس موقع پر ادیبہ زہرہ نگاہ نے کہا کہ ضیا الحق کی وجہ سے فیض صاحب پاکستان میں کم رہے، ادیب وشاعر افتخارعارف نے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ان کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پر دنیا میں جتنی گفتگو ہوئی کبھی کسی اور نظم پر نہیں ہوئی، جب کہ اس نظم کا عنوان سورہ رحمٰن سے اخذ کیا گیا تھا۔
ادیب نعمان الحق نے کہا کہ ہم فیض صاحب کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں۔ فیض احمد فیض کی صاحبزادی منیزہ ہاشمی نے کہا کہ آج صبح اتفاقاً میرا گزر ہمارے پرانے گھر پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 کے سامنے سے ہوا۔ مجھے لگا کہ ہمارا گھر وہاں پر موجود نہیں ہوگا لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو گھر موجود تھا لیکن زیر تعمیر ہونے کے سبب اس کا نقشہ بدل گیا تھا۔ البتہ وہ برآمدہ جہاں فیض صاحب شاعری کرتے تھے موجود تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 13فروری کو میری کتاب کی رونمائی ہے۔ اس کتاب میں فیض صاحب کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے مجھے لکھے تھے۔
کانفرنس کے پہلے روز کے اختتامی لمحات رقصاں پیروں سے اٹھتی کھنک اور موسیقی کے سُروں سے گونج اٹھے۔ معروف کلاسیکل ڈانسر شیماسید اور زاشا نے ملک نے فیض کی غزلوں پر زبردست کلاسیکل رقص پیش کیا۔ اس موقع پر آرٹس کونسل میوزک اکیڈمی کے طلبہ نے فیض احمد فیض کی نظمیں اور غزلیں گاکر شرکا کو جھومنے پر مجبور کردیا۔ احسن باری، ارمان رحیم اور محمد زبیر اور دیگر نے شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ عدنان آفاق، عمران مومنہ (عمو) شاہد رحمٰن، ذیشان پرویز، شمس العارفین، جوشفہ بھٹی، عزیز قاضی، مصطفیٰ بلوچ، سلمان وزیر، نعمان حسن، سمیراحمد، لیزاگل، حرا حنیف، سلمان شبیر، رضوان، احسن شیخ، ارسلان ملک اور حذیفہ نے موسیقی کے پروگرام میں زبردست مظاہرہ کیا۔
کانفرنس کا دوسرا روز نئے رنگ بکھیرتا اُترا۔ اس دن ساتویں سیشن میں بھارتی شاعر اور کہانی کارجاوید صدیقی کی کتاب ’’مٹھی بھر کہانیاں‘‘ کی تقریب اجراء ہوئی، جسے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے شائع کیا ہے۔ جاوید صدیقی نے بھارت سے آن لائن خطاب میں آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میری کتاب کی انتہائی کم مدت میں اشاعت کو یقینی بنا کر آرٹس کونسل کراچی نے درحقیقت ہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے۔
تقریب سے معروف شاعر گلزار صاحب نے بھی بھارت سے آن لائن خطاب کیا جب کہ صدارت زہرا نگاہ نے کی۔ گلزار صاحب نے کہا کہ اردو جہاں بھی جاتی ہے وہاں اپنا لہجہ بنا لیتی ہے۔ انہوں نے کہا جاوید صدیقی کی کہانیوں اور خاکوں میں جو اْردو ملتی ہے وہ اپنے ساتھ ایک مکمل تہذیب لیے ہوتی ہے۔ زہرا نگاہ نے کہا کہ آج کے جدید دور میں یہی وہ مشینی حالات ہیں جو ہم سب کو جوڑ کر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلزار کی شاعری میں اردو کو بہت خوب صورت انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔
محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ یہ اعزاز آرٹس کونسل کراچی کو حاصل ہوا ہے، اس کتاب کا انتساب بھی گلزار صاحب کے نام ہے، مبین مرزا نے کہا کہ جاوید صدیقی کے خاکوں میں ایک روشنی کا ہالا سا بن جاتا ہے وہ شخصیت ایک عام شخص کی بھی ہو سکتی ہے۔
اس روز ’’اْردو ناول کی عصری صورت حال‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں شرکانے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ناول آج کی سب سے مقبول صنف ہے، کیوںکہ یہ دنیا بھر میں ادب کے ایجنڈے کی خبر دیتا ہے۔ ناول اپنے بیانیے میں ایسی قوتِ اظہار رکھتا ہے جو اسے دیگر اصناف میں ممتاز کرتی ہے۔ بھارت کے شہر ممبئی سے رحمٰن عباس نے ’’نسائی شعور اور اردو ناول کے مطالعات‘‘ اور کلکتہ سے صدیق عالم نے ’’نئی انسانی صورت حال اور اْردو ناول‘‘ پر آن لائن گفتگو کی۔
کانفرنس میں ’’بچوں کا ادب اور نئی دنیا‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے معروف صحافی و شاعرمحمود شام نے کہا کہ بچوں کا ادب صرف رنگ بھرنے یا پہیلیاں بوجھنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے آگے کی طرف جانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ پرائمری تعلیم ہی سے تربیت پر زیادہ توجہ دی جائے۔ اجلاس بہ عنوان ’’ہم سب اُمید سے ہیں‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے کہاکہ دوسروں کو ہنسانا اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ لانا لکھنے والے کی ذمے داری ہوتی ہے نہ کہ کامیڈین اداکار کی۔ اگر لکھنے والا مزاح لکھتے وقت دوسروں کو ہنسا نہیں سکتا تو میری نظر میں وہ ایک ناکام رائٹر ہے۔
اردو کانفرنس کا تیسرا دن بھی شرکا کے ذہنوں کو شاداب اور دلوں کو آباد کرتا رہا۔ اس روز ’’تعلیم کے پچھترسال‘‘ پر سیشن ہوا، جس میں زبیدہ مصطفیٰ کی کتاب کی تقریبِ اجراء بھی ہوئی۔ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ مادری زبان میں تعلیم کی بہت بڑی اہمیت ہے جو بچہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کے لیے اردو سمیت دوسری زبان سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔ تعلیم کے مقاصد مختلف ادوار میں تبدیل ہوتے رہے اور آج بھی تبدیل ہورہے ہیں۔
سیشن سے سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ غلام اکبر لغاری، ڈاکٹر جعفر احمد، صادقہ صلاح الدین، بیلہ رضا اور زبیدہ مصطفیٰ نے خطاب کیا۔ نظامت ڈاکٹر فوزیہ خان نے کی۔ مقررین نے کہا کہ زبیدہ مصطفیٰ نے اپنی کتاب میں بچے اور اس کی نفسیات کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور مادری زبان میں تعلیم کو اجاگر کیا ہے۔
تیسرے روز اردو افسانے پر نشست جمی، جس کی صدارت عامر حسین اور زاہدہ حنا نے کی، نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے نبھائے۔ ’’پنجابی زبان و ادب‘‘ پر سیشن کا انعقاد بھی کیاگیا جس میں بابا نجمی، بشریٰ اعجاز، صغریٰ صدف نے گفتگو اور نظامت توقیرچغتائی نے کی۔ اس موقع پر بابا نجمی نے کہا کہ میں پنجابی بولنے اور لکھنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ پنجابی زبان میری ماں ہے، میں لاہور میں پیدا ہوا مگر کراچی نے مجھے تراشا ہے۔ صغریٰ صدف نے کہاکہ اگر پنجابی زبان اپنے وجود کو برقرار رکھ پارہی ہے تو اس میں صوفیائے کرام کی شاعری کا بڑا ہاتھ ہے۔ بشریٰ اعجاز نے کہا کہ پنجابی کی بات پنجابی زبان میں کرنا احسن اقدام ہے۔
تیسرے دن سہ پہر ان ادیبوں کو بھی یاد کیا گیا، جو وبائی دور میں ہم سے جدا ہوئے، اصغر ندیم سید نے مسعود اشعر، شاہدہ حسن نے نصیر ترابی، سلمان صدیقی نے جاذب قریشی، امجد طفیل نے رشید امجد، جب کہ اقبال خورشید نے معروف ہندوستان فکشن نگار، مشرف عالم ذوقی پر اظہار خیال کیا۔
اس روز ’’پاکستان کا سماجی و ثقافتی منظرنامہ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس سے جاوید جبار، شہناز وزیرعلی، عارف حسن، طارق رحمان اور نعمان نقوی نے خطاب کیا، نظامت حارث خلیق نے کی۔ جاوید جبار نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کے سدھار کے لیے شرکت پہلی شرط ہے یعنی ہر شہری اپنی ذمے داری کا محسوس کرے تب ہی وہ معاشرے کی بہتر تبدیلی میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔ شہناز وزیر علی نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کی ثقافت کے بارے میں بچوں کو بتانا ہوگا کہ بہت ساری قومیتوں سے مل کر یہ پاکستان بنا ہے۔
عارف حسن نے کہا کہ ثقافت کے لیے بھی ایک ماحول ضروری ہوتا ہے جس میں وہ جڑ پکڑتی ہے۔ طارق رحمان نے کہا کہ مکالمہ بے حد ضروری ہے تاکہ جو لوگ غلط کررہے ہیں انہیں معلوم ہوسکے کہ وہ غلطی پر ہیں۔ نعمان نقوی نے کہا کہ تقسیم کا عمل آج تک چل رہا ہے جو ثقافتوں کو بھی الگ الگ کررہا ہے۔
’’اردو نظم کی صورت و معنی‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیشن کی صدارت افضال احمد سید نے کی۔ اس موقع پر یاسمین حمید نے ’’آزادی کے بعد جدید نظم کا موضوعاتی تناظر‘‘ تنویر انجم نے ’’آزادی کے بننعد تجربات اور نثری نظم‘‘ حمید شاہین نے ’’جدید نظم میں نسائی احساس کا اظہار‘‘ فہیم شناس کاظمی نے ’’ جدید نظم اور عصری حسیت‘‘ پیرزادہ سلمان نے بدلتی انسانی صورت حال اور جدید نظم‘‘ کے عنوان پر اظہارخیال کیا۔
نظامت شکیل جاذب نے کی۔ تنویر انجم نے کہا کہ ہمارے ملک کی آزادی بڑا واقعہ تھی اور اس طرح اردو شاعری میں نثری نظم کا آغاز تحریک ایک اہم تبدیلی کا تجربہ تھا۔ یاسمین حمید نے کہا کہ ہماری زبان کا اردو شاعری میں مضامین اور ان کی ترسیل کا بہت گہرا تعلق ان کرداروں سے بھی ہے جو شاعری کا لازمی جز ہیں۔ پیر زادہ سلمان نے کہا کہ معاشرے میں اجتماعی غصے اور برہمی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ حمیدہ شاہین نے کہا کہ جدید اردو نظم اردو ادب کا کھلا آسمان ہے اس کی وسعتیں سمتوں سے آزاد ہیں۔
کانفرنس کے تیسرے روز افتخار عارف کے نئے شاعری مجموعے ’باغ گل سرخ‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ زہرا نگاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افتخار عارف نے پابند اور ردیف و قافیہ کی شاعری کی ہے، اس کتاب میں شاعری کی نسبت عقیدے کا اظہار زیادہ ہے۔ سیشن کی نظامت و گفتگو مشہور معروف شاعری کے تنقید نگار ناصر عباس نیر نے کی، ہائبرڈ نشست کے ذریعے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے شاعر افتخار عارف نے کہا کہ میں اپنے زمانے کا ایک چھوٹا سا شاعر ہوں۔ میں نے جو کچھ بھی تحریر کیا وہ اپنی روحانی واردات کو بیان کیا ہے۔
کانفرنس میں مختلفکتابوں کی رونمائی کی گئی جن میں ناصر عباس نیر کی کتاب ’’جدیدیت اور نوآبادیات ‘‘ پر نعمان نقوی، سلمان ثروت کی کتاب ’’میں استعاروں میں جی رہا ہوں‘‘ پر فراست رضوی، شائستہ مفتی کی کتاب ’’چاک اور چراغ‘‘ پر شاداب احسانی اور طاہر کاظمی کی کتاب ’’مجھے فیمنسٹ نہ کہو‘‘ پر تسنیم احمر، سید مظہر جمیل کی کتاب ’’مغنی آتش نفس‘‘ پر قاضی عابد، فرخ یار کی کتاب ’’دوراہے‘‘ پر شریف اعوان نے گفتگو کی۔ نظامت عباس نقوی نے کی۔ کتابوں پر فاطمہ حسن، یوسف خشک اور اقبال خورشید نے بھی اظہارخیال کیا۔
کانفرنس میں اردو غزل نئی تشکیلات پر سیشن منعقد ہوا، نظامت ناصرہ زبیری نے کی۔ اس موقع پر عنبرین حسیب عنبر نے اپنا مقالہ ’’ہم عصرغزل اور نیا سیاسی شعور‘‘ پیش کیا۔ انہوں کہا کہ سماج کو بہتر بنانا ادیب اور شاعر کی بھی ذمے داری ہے۔ فاطمہ حسن نے کہا کہ اردو غزل کا سفر نہ کبھی رکا ہے اور نہ رکے گا۔ طارق ہاشمی نے کہا کہ منیر نیازی اور ناصر کاظمی نے نظم کے مقابلے میں غزل کا چراغ ایسے روشن کیا جس کی تابانی آج تک جاری ہے، شاداب احسانی نے اقبال کی غزل اور پاکستان بیانیہ پر کہا کہ غزل میں ہمیشہ بیانہ کا عنصر ملنا چاہیے۔
اردو کانفرنس کے آخری روز ’’عورت اور پاکستانی سماج‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن میں عارفہ سیدہ زہرا ، نورالہدیٰ شاہ، انیس ہارون اور وسعت اﷲ خان نے گفتگو کی، نظامت نصرت حارث نے کی۔ عارفہ سیدہ زہرا نے کہا کہ ہماری قوم اور ریاست کو اب تک پتا ہی نہیں چلا کہ پاکستانی سماج اور عورت کا کیا کردار ہے۔ انیس ہارون نے کہا کہ امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ معاشرہ کتنا مہذب ہے جس میں مرد اور عورت دونوں ہوتے ہیں تو آپ دیکھیں کے اس سماج نے عورت کو کیا حیثیت دی ہے۔
آخر اردو کانفرنس کے جگمگاتے اور ذہنوں کو اجالتے لمحوں نے چوتھے دن کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اردو کا یہ گلشن سجانے والے اور صدر کراچی آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ شدت پسندی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے انٹلیکچول آگے آئیں۔ انہوں نے کہاکہ مذہب کے نام پر جو کچھ یہاں ہوتا ہے ایسا معاشرہ ہمیں نہیں چاہیے۔ انسانی تاریخ نے جو سفر طے کیا ہم پیچھے جانے کو تیار نہیں ہیں۔ اردو کانفرنس نے اپنا دامن اور وسیع کیا ہے، دنیا بھر سے مندوبین شریک ہوئے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں ادب اور ثقافت سے محبت کرنے والوں کا استقبال کرنا چاہیے، آج نفرت کی کوئی آواز نہیں آئی، آج میں شہر کراچی سے بہت خوش ہوں کراچی نے ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے اپنا سینہ کشادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی کی جانب سے پہلا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ زہرا نگاہ کو دیا گیا، دوسرا مستنصر حسین تارڑ، تیسرا سندھی ادیب امداد حسینی اور چوتھا ایوارڈ ادیب رضوی کو دیا گیا جو انور مقصود نے وصول کیا، جبکہ BOP نے ایوارڈ یافتہ شخصیات کو چار چار لاکھ روپے دیے، آرٹس کونسل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس کے پرنسپل شاہد رسام نے ایوارڈ ڈیزائن کیا۔
اختتامی اجلاس میں مجلس صدارت میں انور مقصود، زہرا نگاہ، مستنصر حسین تارڑ، کشور ناہید، منور سعید، عارفہ سیدہ زہرا، نورالہدیٰ شاہ، نعمان الحق، ڈاکٹر فاطمہ حسن، امداد حسینی، اعجاز احمد فاروقی، فریداحمد، رضوان حسین، سلمان حسین شریک تھے۔ بعد ازاں ستار نواز نفیس خان کی دھن پربین الاقوامی شہرت یافتہ رقاصہ ناہید صدیقی نے اپنی شاندار پرفارمنس پیش کی جس کو شائقین نے بے حد سراہا۔ اور تالیاں بجاکر داد دی۔ بعد ازآں قوالی ہوئی جس میں مشہور و معروف قوال فرید ایاز اور ابو محمد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کلام پیش کیا اور سْروں کا جادوئی سماں باندھ دیا جس پر سامعین محفل جھوم اْٹھے۔
’’تہذیب وثقافت کا بچانا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے‘‘ قرارداد
چودھویں عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر دنیائے ادب کے سیکڑوں ادیبوں، شاعروں، اسکالرز، اساتذہ اور محققین سمیت کانفرنس کے ہزاروں شرکا اہل قلم، ادب، فن و ثقافت نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی۔ قرارداد میں مرکزی، صوبائی حکومت اور ریاست کے جملہ متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ ملک میں امن کی فضا بحال کرنے کے لیے اپنے آئینی فرائض پورے کریں، ثقافت اور ادب سے وابستہ لوگ اپنی صفوں میں اتحاد کے ذریعے تہذیبی بقا کی جدوجہد میں کسی تساہل کا مظاہرہ نہ کریں، پاکستان میں تہذیب و ثقافت کا بچانا اور تحقیقی سرگرمیوں کی بحالی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے، قرارداد صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے ہزاروں افراد کے سامنے پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔
The post وہ جو کِھل اُٹّھا تھا اردو کا چمن زار یہاں appeared first on ایکسپریس اردو.