آخری صلیبی جنگ
مصنف : ادریس آزاد،قیمت :800 روپے
ناشر: مکتبہ القریش، سرکلر روڈ، چوک اردو بازار، لاہور
رابطہ نمبر:03004183997
زیر نظر کہانی ایک لحاظ سے صلیبی جنگوں کے معروف سلسلے کی آخری کہانی ہے۔ یہ ناول ترکوں کے دورِ شجاعت کی آخری کہانیوں میں سے ایک ہے جب ترک دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھے اور درفش کاویانی ( ترک فوج کا جھنڈا ) کا سایہ پورے یونان ، مصر، عراق ، یمن ، کریمیا اور بلغاریہ تک پھیلا ہوا تھا۔
کہانی یونان کے ایک شہر مقدونیا سے شروع ہوکر کوہ بلقان کی سیر کرتی ہوئی قسطنطنیہ ( استنبول ) میں داخل ہوتی ہے اور پھر آبنائے باسفورس کے راستے بحر اسود میں تیرتی ہوئی کریمیا تک چلی جاتی ہے۔ دریائے پرتھ کے کنارے روس کے عظیم بادشاہ ’ پیٹر دی گریٹ ‘ اور ترک سپہ سالار ’ ربلط جی ‘ کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ دریائے پرتھ کے کنارے ہی یہ کہانی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے لیکن افسانہ چند قدم آگے چل کر دوبارہ مقدونیا کے مضافات میں آکر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ممکن ہے ، بعض لوگوں اس ناول کے نام پر اعتراض کریں کہ صلیبی جنگیں ختم ہی نہیں ہوئیں ، امریکا اور افغانستان ، عراق کی جنگیں بھی تو صلیبی ہی ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے: ’’ دستاویزی طور پر ہم مجبور ہیں کہ ’ دریائے پرتھ ‘ کے کنارے ہونے والی اس عظیم جنگ کو آخری صلیبی جنگ کا نام دیں۔ وہ آخری جنگ جو صلیبی پرچم کے سائے میں لڑی گئی ، یہی تھی جسے میں نے اپنے نام کی کہانی کے طور پر چنا ہے۔ روس کے شہنشاہ یعنی زار روس پیٹر اعظم المعروف پیٹر دی گریٹ کے پرچم پر لکھا تھا:
’’ خدا اور مسیحیت کے لئے ‘‘
یہ جنگ 1711ء میں ہوئی اور مسلمانوں نے ہلالی پرچم کے سائے تلے ’ پیٹر دی گریٹ ‘ سے یہ جنگ جیت لی۔ جنگ شروع کیسے ہوئی ، درمیان میں کیسے کیسے اتار چڑھائو اور مسلمانوں نے جیتی کیسے؟ اس ناول میں پڑھیے اور سر دھنیے۔
بدھ کا نظریہ امن اور لہو لہو روہنگیا
مصنفہ : ڈاکٹر فرحت نسیم علوی، قیمت: 700 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ
لاہور کینٹ ، رابطہ : 03000515101
زیرنظر کتاب کا عنوان ہی اس کا مکمل تعارف ہے ۔ مصنفہ تحقیق اور تصنیف کے میدانوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں ۔ ان دنوں یونیورسٹی آف سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی، بعدازاں کینیڈا میں قیام کے دوران مختلف این جی اوز کی سرگرمیوں کا بغور جائزہ لیتی رہیں۔ اسلام اور جدید دنیا ، تقابل ادیان جیسے موضوعات پر خاص ملکہ رکھتی ہیں۔
روہنگیا کے مسئلہ سے کون واقف نہیں ، ہر فرد جانتا ہے کہ وہاں روہنگیا مسلمانوں سے کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے، اور انھیں بار بار نسل کشی کے ادوار سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ پناہ کی غرض سے جہاں بھی جاتے ہیں ، مسائل کے پہاڑ ان پر توڑے جاتے ہیں۔ اپنے ہی وطن سے نکالے گئے ، اور دنیا میں کہیں کوئی پرسکون جائے پناہ انھیں میسر نہیں ۔ اس اعتبار سے ان جیسی بدقسمت قوم دنیا میں کہیں نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرحت نسیم علوی جیسی جید سکالر نے اس مسئلے کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔
یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ میانمار ( برما ) ایک تعارف ، میانمار ( برما ) : سیاسی حالات و واقعات کے تناظر میں، اراکان ( رکھائن ) تاریخی تناظر میں، روہنگیا : تاریخ ، مسائل ، وجوہات ۔ بدھ کا نظریہ امن اور روہنگیا اقلیت کی نسل کشی ، بین الاقوامی کردار ، روہنگیا : آئندہ کا لائحہ عمل۔
اس کتاب کے مطالعہ سے روہنگیا کے مسئلہ پر کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ سکتا۔ ایک مکمل تصویر دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی یہ کتاب حقیقی معنوں میں ایک تصنیف ہے۔ ان کی اس کاوش سے اس سنگین انسانی المیے کے بارے میں آگاہی بڑھے گی اور اس کے مطالعے سے ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا جو روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے خاتمے کے لئے کوئی عملی اقدام کرنا چاہتے ہیں۔
مجموعہ شمس الرحمن فاروقی
بڑے ادیب کی کسی تخلیق پر تبصرہ تو دور کی بات تعارف لکھنا بھی آسان نہیں ہوتا ۔’ مجموعہ شمس الرحمن فاروقی ‘مہینوں تک میز پر پڑا رہا۔ جب بھی اس کا تعارف لکھنے کا ارادہ باندھتا ، اور اپنے ہاں دستیاب لفظوں پر نظر ڈالتا تو وہ بہت معمولی محسوس ہوتے۔ نتیجتاً ہاتھ میں پکڑی ہوئی ساڑھے سات سو سے زائد صفحات کی ضخیم کتاب واپس میز پر رکھ دیتا۔ مہینوں بعد آج پھر کچھ لکھنے کا فیصلہ کیا، تاہم سوچ رہا ہوںکہ ایک بڑے ادیب کے مجموعہ کا تعارف لکھنے کے لئے ایسے غیرمعمولی لفظ کہاں سے لائوں ، جو حق ادا کر سکیں۔
شمس الرحمن فاروقی کے ایک ناول ( کئی چاند تھے سرآسماں ) کے بارے میں انتظار حسین نے لکھا تھا : ’ مدتوں بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندوپاک کی ادبی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔‘ پھر انتظار حسین سوچتے رہے کہ کیا اس ( ناول ) کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو ’’ امرائو جان ادا ‘‘ نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی ؟ جب انتظار حسین ایسا بلند مرتب ادیب کسی تخلیق کار کی تخلیق کے بارے میں ایسی باتیں کہے تو پھر کیوں نہ اردو ادب کی اس جید شخصیت کے فکشن کو اردو کا ایک مکمل باب قرار دیا جائے!
اردو ادب کے اس باب کے دو حصے ہیں۔ ایک ناول لکھا : ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ اور دوسرا ان کا ’ مجموعہ شمس الرحمن فاروقی‘ ، جس میں ان کا باقی سارا کام ہے۔ یہ مجموعہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ان کا غیر مدون افسانہ ’’ فانی باقی ‘‘ ہے۔ اس کے آغاز میں فاروقی صاحب کی ’ پہلی بات ‘ پڑھیں گے تو کئی ایک راز کی باتیں معلوم ہوں گی ، جنھیں جاننے کے بعد افسانہ پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوگا۔
دوسرے حصے میں وہ پانچ افسانے ہیں جو شمس الرحمن فاروقی کی زندگی میں ہی ایک مجموعے ’’ سوار اور دوسرے افسانے ‘‘ کی صورت ، ان کے اپنے نام کے ساتھ ، ایک خاص ترتیب میں سامنے آچکے تھے۔ اس میں ’ غالب افسانہ‘ بھی ہے جو ان کے قلم کا معجزہ ہے۔ تیسرے حصے میں فاروقی صاحب کا مختصر ناول ’’ قبض زماں ‘‘ ہے۔ یہ کہانی کسی ایک عہد کی تہذیبی زندگی پر محیط نہیں ، اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس ناول میں ایک ایسا شخص ہے جس سے اس کا اپنا زمانہ اور وہ اپنے زمانے سے بچھڑ گیا ہے۔ وہ عجیب اور ناقابل یقین حالات سے گزرتے ہوئے ایک اور زمانے میں جا پڑتا ہے۔
چوتھے حصے میں وہ افسانے ہیں جو طبع زاد تو ہیں مگر کسی اور نام سے چھپے اور اسی حصے میں وہ افسانے بھی شامل کردیے گئے ہیں جن کا خیال یا اسلوب ماخوذ تھا۔ پانچویں اور آخری حصے میں فاروقی صاحب کے کیے ہوئے انگریزی کے ، یا انگریزی سے دوسری زبانوں کے افسانوں کے تراجم ہیں۔ اس میں جان کولئیر کا افسانہ ’ کتے کی موت‘ ، اڈگرایلن پو کا ’ موسیو والد مار کی موت کا راز ‘ ، ای ایف بنسن کا ’ اس کی تصویر ‘ ، شموئیل یوزف انیان کا ’چار قدم ‘ ، ایلن وائکس کا ’ پرچھائیں کا شیطان ‘ ، آلن روب گرئیے کا ’ خفیہ کمرہ‘ ، ولیم سین سم کا ’ بھیانک افسانہ‘ ، ہوانگ سونوان کا ’ نقابیں ‘ ، ژانگ شن شن سانگ یے کا ’ کژم کا درخت ‘اور ایلن کیپرو کا ’ دو وقوعے‘۔ اسی حصے میں ان کے کیے ہوئے ڈراموں کے تراجم بھی فراہم کردیے گئے ہیں۔ فرنانڈو آر بال کا ڈرامہ ’ دو جلاد ‘، گارسیا لورکا کا ’ عقد خونیں ‘ اور سیموئل بیکٹ کا ’ چپ سوانگ‘۔ بتایا جاچکا ہے کہ یہ تراجم بھی فاروقی صاحب کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے تاہم ان میں ایلن کیپرو کی ایک ایسی تحریر بھی شامل ہے جسے ترجمہ تو مہرافشاں فاروقی نے کیا ہے مگر ترجمے کی نظر ثانی میں فاروقی صاحب کا اپنا نام موجود ہے۔
آخر میں ضمیمہ کے طور پر ’ کئی چاند تھے سر آسماں ‘ ( ناول ) کے چند ابتدائی ابواب بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ ضمیمہ ان قارئین کے لئے ایک گراں قدر تحفہ ہے جنھوں نے تاحال یہ ناول نہیں پڑھا۔ کتاب میں ہرحصے سے پہلے مرتب جناب محمد حمید شاہد نے تعارف لکھا ہے۔ یوں لطف دوبالا ہوگیا ہے ۔ مجموعہ کا مطالعہ کرنے والا کسی بھی پہلو سے تشنہ نہیں رہے گا۔ ’ بک کارنر ‘ جہلم (رابطہ : 03144440882 ) نے یہ مجموعہ اس کے شایان شان شائع کیا ہے، یہ 1800روپے میں حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
ادھ کھلا گلاب
شاعری کرنا اور شعر کہنا مادی کام نہیں بلکہ جس شعر میں قدرت نظر آئے اسے ایک مکمل شعر کہا جائے گا ۔ اگر اس زبان کو سمجھنے کے لئے قدرت کے نزدیک ہونا لازم ہے تو اس زبان کو بولنے میں مہارت رکھنے والوں کا مقام بھی بہت بلند ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کے لئے جسے بھی تخلیق کیا مکمل کیا اور اس کو سمجھنے کے لئے انسان کو نہ صرف عقل اور علم عطا کئے بلکہ احساس اور محبت کی لڑی میں بھی پرو دیا۔ انہی احساس اور محبت کو شاعری کی زبان دے کر دنیا تک ہمیشہ کے لئے پہچانے کا کام شعراء کرام اور ادیبوں کے سپرد کیا گیا۔
دنیا میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ برصغیر پاک و ہند میں زبان اور شعر پر بہت زور و شور سے کام جاری ہے ۔ دنیا بھر میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں بھی اسی شعری و ادبی کام کی وجہ سے ہی اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ نصرت یاب خان نصرت کی کتاب ”ادھ کھلا” گلاب جب مجھے موصول ہوئی تو علم ہوا کہ ان کا شعری سفر ان تک ہی نہیں بلکہ نسل در نسل جاری ہے ۔ نصرت یاب خان نصرت کے دادا، ان کے والد اور بذات خود نصرت یاب خان نصرت بھی ایک شاعر ہیں ۔
شعر کہنا اور شاعری کرنا نہ صرف ان کے خون میں شامل ہے بلکہ اس ادبی ورثہ کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں جو کہ آج کل کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ حال ہی میں نصرت یاب خان نصرت کا پہلا شعری مجموعہ ”ادھ کھلا گلاب” کے نام سے منظر عام پر آیا۔ چونکہ نصرت یاب خان نصرت غزلیات کہنے کا فن زیادہ جانتے ہیں اور یہی ان کے مزاج کا حصہ بھی ہے اسی وجہ سے انہوں نے غزلیات کی شکل میں یہ مجموعہ شائع کیا۔ نصرت یاب خان نصرت کے مجموعہ کلام ”ادھ کھلا گلاب” کا عنوان ہو یا پھر شاعری، دونوں میں ”قدرت سے قربت” دکھائی دیتی ہے۔
قدرت کی ان کہی بات کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت دکھائی دیتی ہے ۔ اور قدرت کی اس ان کہی بات کو سمجھ کر دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کہنا بھی آسان بات نہیں کہ جسے ذمہ داری کے ساتھ پورا کیا گیا ہے ۔ کسی قسم کی قید نہیں رکھی گئی یعنی خارجی اور داخلی دونوں طرح کے موضوعات پر اشعار کہے گئے ہیں ۔
قدیم بات کو نئے انداز میں کہنے کا ہنر شاعر بخوبی جانتا ہے جس وجہ سے انہیں جدید شاعر کہا جائے تو بالکل درست ہو گا۔ اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شاعر جدید شاعر ہے مگر جب اس کی شاعری پڑھی جائے تو جدت والی بات کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ جدید شاعر اسے ہی کہا جائے گا کہ جس کی شاعری میں یہ رنگ کھل کر دکھائی دے۔
ہاتھوں میں کہہ رہا تھا جو اک ادھ کھلا گلاب
دل کی کلی بھی بات وہی بولتی رہی
رات کی تاریکیوں میں چاند تاروں کی چمک
ہے توازن بھی بھلا! دن کا اور اس تنویر کا
شاعر سے ذاتی طور پر میری ملاقات بھی رہتی ہے اور ان کی شخصیت کی اہم بات یہ ہے کہ شاعر ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں جو کہ ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر حساسیت کہاں سے پیدا ہوئی۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے لکھاری ذاتی زندگی سے متعلق کافی بیان کرتے ہیں جب کہ نصرت یاب خان نصرت نے نہ صرف ذات پر بلکہ اردگرد کے ماحول پر زیادہ اچھے انداز سے بیان کیا ہے۔ ایک نقطہ نہایت اہم ہے کہ شاعر نے اس حساسیت کو اپنی شاعری میں حاوی رکھ کر نہیں لکھا ۔ اس کے برعکس آسانی سے بیان کیا ہے تاکہ پڑھنے والے پر بھی یہ احساس حاوی نہ ہو بلکہ اسے محسوس کیا جا سکے۔
بے باک ہو کے تو کوئی ایسا سوال پوچھ
دنیائے ہست و بود کی کوئی مثال پوچھ
ادھ کھلا گلاب کا شاعر سنجیدہ اور پختہ بات کو مشکل کر کے بیان کرنے کی بجائے سہل انداز میں کہنے کا ہنر بخوبی جانتا ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی بات کسی ایک طبقہ یا مخصوص قبیلے کے لوگوں کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے کلام کہا گیا ہے جسے سمجھنا ہر پڑھنے والے کے لئے آسان ہے۔ عام طور پر شعر میں جہاں مشکل الفاظ استعمال ہوں تو عام پڑھنے یا سننے والے کے لئے اس ایک لفظ کی وجہ سے معانی سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے مگر یہاں معاملہ الگ ہے ۔
مشکل لفظ کو بھی شعر میں اس آسان طریقہ سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے لئے شعر کا مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نصرت یاب خان نصرت ایک منفرد انداز رکھتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شعر کہتے وقت شاعر نے نہ صرف شعری اسلوب کو سامنے رکھا بلکہ فنی اعتبار سے عام پڑھنے اور سننے والوں کی ترجیحات کو بھی مدِ نظر رکھا ۔ جہاں نئے الفاظ جو عام طور پر پڑھنے یا لکھنے میں نہیں ملتے وہ استعمال ہوئے ہیں تو اسی کلام کے آخر میں ان کے معانی لکھے گئے ہیں ۔ تاکہ پڑھنے والے کو اگر کوئی نیا لفظ سمجھنے میں مشکل پیش آئے بھی تو وہ معانی دیکھ کر مکمل شعر کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور یہ ایک بہترین سوچ ہے۔
زباں کی نوک پہ تقریر اس نے لکھی ہے
عجیب لفظوں میں تحریر اس نے لکھی ہے
وہ کیسا شخص ہے جو خواب دیکھتا ہی نہیں
مگر یہ سچ ہے کہ تعبیر اس نے لکھی ہے
نصرت یاب خان نصرت چونکہ ایک عرصہ سے حمد و نعت بھی کہہ رہے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ جلد ہی ان کا نعتیہ مجموعہ بھی سامنے آنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادھ کھلا گلاب میں بھی حمد و نعت سے شروعات کی گئی ہیں جو کہ شاعر کے عین مزاج کے مطابق شروعات کہی جائیں تو بالکل درست ہو گا۔ اس کے علاوہ موضوعات کی کوئی قید نظر نہیں آتی۔ جو بھی لکھا صاف اور کھرے الفاظ میں لکھا۔ ”ادھ کھلا گلاب” کو سامنے رکھتے ہوئے اگر تمام کتاب پڑھی جائے تو معلوم ہو گا جیسے اس نام کو خوب نبھایا گیا ہے۔ لیکن زیادہ تر بات محبت کو بڑھانے پر کی گئی ہے اور نفی میں کہی گئی بات نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انسانیت کو دئے جانے والے درس کو آگے بڑھتے رہنے پر زور دیا گیا ہے ۔
بھلائی کے اگر کچھ کام ہو جائیں تو بہتر ہے
دلوں میں میل کو یوں ہی جو دھو جائیں تو بہتر ہے
رہیں پھر ہر طرف سائے گلوں کی خوشبوئیں باقی
شجر کل کے لئے ہم آج بو جائیں تو بہتر ہے
عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ تر غزلیات لمبی بحور میں کہی گئی ہیں جس سے شاعر کا استادانہ رویہ کھل کر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مجموعہ مکمل کرنے کی غرض سے غزلیں لکھ دی جاتی ہیں مگر وہ چاشنی نہیں ملتی جب کہ یہاں ایسا کوئی معاملہ نظر نہیں آئے گا۔ الفاظ کو جس خوبصورتی سے شعر کی لڑی میں پرو دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کا شروع سے آخر تک ہر غزل کو پڑھنے کا من کرتا ہے۔ ہر غزل کا ہر شعر معیاری کہا گیا ہے اور معیار پر بالکل سمجھوتا نہیں کیا گیا ۔ نہ صرف پرانے لکھنے والوں کے لئے بلکہ غزلیات نئے لکھنے والوں کے لئے اور شعر کہنے والوں کے لئے ایک مکمل مجموعہ ہے۔
مرے ہمنوا مجھے بھول جا، مجھے آزمانے کی ضد نہ کر
مرے دل کا جو ہے معاملہ اسے لب پہ لانے کی ضد نہ کر
وہ جو دل میں تیرے چبھن سی تھی! تو یقین کر وہ چبھن نہیں
اسے پیار کہتے ہیں دل ربا! اسے یوں چھپانے کی ضد نہ کر
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.