کراچی: طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں میٹرنل مورٹیلیٹی کی تیسری اہم وجہ (Sepsis) سیپسز ہے، انفیکشن بڑھنے کی ایک وجہ اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال ہے، انفیکشن پر قابو پانے کے لیے ہیلتھ کئیر پرووائڈرز کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے، حفاظتی تدابیر پر عمل کرکے ہی انفیکشن کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھنا انتہائی ضروری اور اہم عمل ہے، خواتین اور لڑکیوں سمیت نچلی سطح تک آگاہی کے ذریعے میٹرنل مورٹیلیٹی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار طبی ماہرین نے ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام سوسائٹی آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکولوجسٹس آف پاکستان (ایس او جی پی) اورMétier Groupe کے اشتراک سے ’’انفیکشن پریوینشن ان ہیلتھ کئیر اینڈ ویمن ہائجین‘‘ (صحت کی دیکھ بھال اور خواتین کی حفظان صحت میں انفیکشن کی روک تھام) کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سیمینار میں بطور مہمان خصوصی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر عبدالحفیظ ابڑو نے شرکت کی جبکہ دیگر مقررین میں صدر ایس او جی پی پروفیسر رضیہ کوریجو، پروفیسر فرخ ناہید، پروفیسر سارہ قاضی، پروفیسر راحیل سکندر، پروفیسر شہناز حسینی، پروفیسر سمبل سہیل، ڈاکٹر قرۃالامان، محمد کامران، پروفیسر سبحانہ طیب، پروفیسر تزئین عباس، پروفیسر حلیمہ یاسمین، ڈائریکٹر مارکیٹنگMétier Groupe محمد ریاض شریک ہوئے، پروفیسر فرخ ناہید نے سیمینار میں موڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔
سیمینار میں مقررین نے خواتین و لڑکیوں میں انفیکشن ہونے کی وجوہات، اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط، اور حمل کے دوران خواتین کو درپیش انفیکشن کے باعث پیچیدگیوں سے متعلق آگاہی فراہم کی۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر عبد الحفیظ ابڑو کا کہنا تھا کہ احتیاط بہت ہی اہم موضوع ہے، ہیلتھ کئیر سسٹم پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے ہیلتھ کئیر ورکرز سندھ کے مختلف اضلاع میں بہترین کام کر رہے ہیں جس کی تفصیل میں جاؤں تو گھنٹوں لگ جائیں گے، ہمیں انفیکشن سے احتیاط کی آگاہی زیادہ سے زیادہ دینے کی ضرورت ہے، ہم ہیلتھ کئیر ورکرز کی باقاعدگی سے تربیت بھی کرتے ہیں، ایس او جی پی کے ساتھ انکی اس آگاہی مہم میں ہر قسم کا تعاون کریں گے۔
سیمینار میں سندھ صوبے کی بڑی گائناکولوجسٹس شامل ہوئیں، ہماری 22 ہزار لیڈی ہیلتھ کئیر ورکرز پرائمری ہیلتھ کئیر میں کام کر رہی ہیں، خاص طور پر پریونٹوو سائیڈ پر ہی کام کر رہی ہیں، ہمارے یہاں میٹرنٹی مورٹیلیٹی ریٹ کافی الارمنگ ہے، شاید ہم دنیا میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتے ہیں جہاں سب سے زیادہ عورتیں ڈیلیوری کے دوران یا ڈیلیوری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہیں جس کی اہم وجہ ڈیلیوری سے قبل اپنائی جانے والی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آگاہی نہ ہونا ہے، امید ہے ہم آئندہ بھی ایسے پروگرامز کرتے رہیں گے اور احتیاطی تدابیر نچلی سطح تک لے کر جائیں گے۔
پروفیسر سارہ قاضی کا کہنا تھا کہ احتیاط اور حفاظت ہمارے ہاتھ میں ہے، اس سیمینار میں حاملہ خواتین اور لڑکیوں کو حفظان صحت کا خیال رکھنے کے حوالے سے آگاہی دینا ہمارا مقصد ہے،سب سے پہلے کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو صاف ستھرا رکھنا انتہائی ضروری اور اہم ہے، سینیٹائزر کے استعمال اور باقاعدگی سے ہاتھ دھونے سے ہم ہاتھوں کو ساف ستھرا رکھ سکتے ہیں، گاوئنز، دستانے اور گوگلز کے استعمال، انسٹرومینٹ اسٹرالائزیشن کے ذریعے انفیکشن سے احتیاط کی جاسکتی ہے، انھوں نے حاملہ خواتین کو جن غذاؤں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ان سے متعلق آگاہی فراہم کی۔
انھوں نے پیرینٹل ایجوکیشن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو کم عمری میں ہی انکو ہائجین کے حوالے سے آگاہی دینی چاہیے، پروفیسر راحیل سکندر نے میٹرنل مورٹیلیٹی اور سیپسز کے حوالے سے آگاہی فراہم کی انکا کہنا تھا کہ سیپسز میڈیکل ایمرجنسی ہوتی ہے جو میٹرنل مورٹیلٹی کی تیسری وجہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ڈیلیوری کے بعد مریضہ کی مانیٹرنگ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، علاج کے بعد مریض کو مانیٹر کیا جانا چاہیے، میٹرنل سیپسز بنڈل سے متعلق بھی آگاہی دی اور کہا کہ اب سیپسز بنڈل کے استعمال سے بھی ہم انفیکشنز سے بچ سکتے ہیں جسے صرف ڈاکٹرز ہی نہیں کوئی بھی باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر راحیل کا کہنا تھا کہ میٹرنل مورٹیلیٹی کی تین اہم وجوہات ہیمبرج، ہائیپر ٹینسوو ڈس آرڈر اور انفیکشن ہے، انفیکشن بہت بڑھنے کی وجہ اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال ہے، اسپتالوں میں جتنا مریضوں کا رش ہوتا ہے وہاں انفیکشن کنٹرول کرنا بھی ایک چیلنج ہے، ہوم ڈیلیوریز میں انفیکشن کنٹرول نہیں ہوپاتا، ایک اسپیشلسٹ ہی نہیں بلکہ فاسٹ ایم بنڈل کے زریعے مورٹیلیٹی ریٹ میں کمی لاسکتے ہیں جسے ہر کوئی بآسانی استعمال کرسکتا ہے، اس طرح بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔
پروفیسر سمبل سہیل کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے خواتین کو کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، غیر ضروری اینٹی بائیوٹک کے استعمال کی روک تھام کے لیے ہمیں آگاہی دینے کی ضرورت ہے جس کے لیے زیادہ سے زیادہ سیمینارز ہونے چاہیئں۔
پروفیسر شہناز حسینی کا کہنا تھا کہ بنڈل آف سیپسز کا مسئلہ بہت اہم ہے، میٹرنل مورٹیلٹی کی ایک وجہ سیپسز بھی ہوتی ہے، اس حوالے سے ہمیں آگاہی پھیلانے کی بہت ضرورت ہے۔
ڈاکٹر قرۃ الامان کا کہنا تھا کہ اس سیمینار میں بہت ہی معلوماتی لیکچرز تھے، مریض شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہمیں ان سے ایک بہتر انداز میں ہر سوال پوچھنا چاہیئے جس کا جواب دینے میں مریض جھجک یا شرم محسوس نہ کرے، میں نے اپنے سوالات پوچھنے کا انداز تبدیل کیا ہے۔
مسٹر محمد کامران کا پائیوڈین کے استعمال سے متعلق آگاہی دیتے ہوئے کہنا تھا کہMétier Groupe پاکستان کی پہلی کمپنی ہے جس نے پرائمری پیکجنگ کا مسئلہ حل کیا، ہم بڑی بڑی مختلف فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو پرائمری پیکجنگ سولیوشن دے رہے ہیں، پائیوڈین کے مختلف ویجائنل واش بھی بازاروں میں دستیاب ہیں، پائیوڈین کو معیار میں کوئی ہرا نہیں سکتا، اس میں آیوڈین موجود رہتا ہے، پائیوڈین وائرس ختم کرنے، فنگس کے خاتمے، بیکٹیریا کے خاتمے سمیت اسکن انفیکشن بھی ختم کرتا ہے، پایوڈین کھلے زخموں سمیت بند زخموں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ اس وبائی صورتحال میں پائیوڈین کا ماوتھ واش بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
پروفیسر سبحانہ طیب اور پروفیسر تزئین عباس نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا انکا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی بیٹیوں اور لڑکیوں کو ہائیجین سے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے، ہمیں احتیاط اور انفیکشن کنٹرول کے لیے اقدامات کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے، پوسٹ گریجوئیٹس کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے سیمینارز میں شرکت کریں، ایس او جی پی کا شکریہ جنہوں نے معلومات فراہم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے، انفیکشن سے بچاو چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ہوتا ہے مسئلہ آگاہی نہ ہونا ہے۔
ڈاکٹر سبحانہ طیب کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد انفیکشن پر کنٹرول کرنا اور ویمن کی ہائیجین کے حوالے سے آگاہی دینا ہے، لڑکیوں کو پہلے اس حوالے سے آگاہی دینا برا سمجھا جاتا تھا، اس حوالے سے بچیوں کو بھی آگاہی ہونی چاہیئے، ہم گلوبلی اس پر کام کر رہے ہیں، ہمیں بچیوں کو بتانا چاہیے کہ ماہواری میں انھیں کیا کرنا چاہییے، ماہواری کے دنوں میں نہ نہانا، پرانے کپڑے استعمال کرنے سے انفیکشن کئی حد تک بڑھ سکتا ہے، ماہواری میں دوسرے دن ہی نہایا جاسکتا ہے، پائیوڈین سولیوشن کو پانی میں ملا کر استعمال کرنا چاہیے جس سے انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے، ہمیں آگاہی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، دنیا بھر میں آگاہی دی جاتی ہے اب ہم بھی اپنی بچیوں کو آگاہی دے رہے ہیں کیونکہ انھی لڑکیوں کو کل ایک ماں بننا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رضیہ کوریجو کا کہنا تھا کہ یہ سب جانتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے، 30 سال قبل میٹرنل مورٹیلیٹی 70 فیصد تھی جسکی تیسری اہم وجہ سیپسز ہوتی تھی، یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ سیپسز میں کمی آئی ہے، 60 فیصد ڈیلیوری گھروں میں دائیاں کرتی ہیں ہم نے دائیوں کی تربیت و آگاہی کے لیے بھی ورکشاپس منعقد کروائی ہیں، بنڈل اپروچ ایک ایمرجنسی ٹریٹمنٹ ہے صرف ٹیکنالوجی تبدیل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر رضیہ کوریجو کا کہنا تھا کہ کلین اینڈ سیف ڈیلیوری کے زریعے ان اموات پر قابو پایا جاسکتا ہے، ہیلتھ کئیر پرووائڈرز کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے، حفاظتی تدابیر پر عمل کرکے ہی انفیکشن کنٹرول کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹرز انفیکشن سے محفوظ رہیں گے تو مریض محفوظ رہیں گے اور اس طرح ان کے لواحقین بھی انفیکشن سے محفوظ رہ سکیں گے، انفیکشن کے پھیلاؤ میں حفاظتی تدابیر پر عمل کے زریعے بہت کمی آئی ہے، پاکستان میں میڑنل مورٹیلیٹی کی سب سے پہلی وجہ ہیمبرج، دوسری ہائیپرٹینسوو ڈس آرڈر اور تیسرا سیپسز ہے، سیپسز پر حفاظتی اقدامات کے زریعے کافی حد تک قابو پالیا ہے، آگاہی کے ذریعے ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں۔
ڈائریکٹر مارکیٹنگMétier Groupe محمد ریاض کا کہنا تھا کہ ہماری سوسائٹی کا بنیادی مسئلہ آگاہی نہ ہونا ہے، اس سوسائٹی نے بہت اہم مسئلے پر سیمینار کا انعقاد کیا ہے، یہاں نہ ماں بیٹی کو، نہ باپ بیٹے کو آگاہی دیتا ہے، ہمیں اپنی ہائجین کی حفاظت کرنے کی بہت ضرورت ہے، آنے والے وقت میں انشااللہ یہ خواتین کی ہائجین کے مسئلے بھی آگاہی کے ذریعے حل ہوجائیں گے۔
پروفیسر حلیمہ یاسمین نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر رضیہ کوریجو نے تمام مہمانوں کو اعزازی شیلڈز بھی پیش کیں، سیمینار کے اختتام پر محمد ریاض نے سیمینار کے انعقاد کو سراہا اور تمام مقررین اور شرکاکا شکریہ ادا کیا۔
The post زچگی کے دوران شرح اموات بڑھ رہی ہے، ماہرین طب appeared first on ایکسپریس اردو.