لاہور: گزشتہ چند سال سے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت لفظ پاکستان کے خالق محترم چودھری رحمت علی مرحوم کے کارنامے (یعنی لفظ پاکستان کی اختراع اور یکہ وتنہا ایک الگ، آزاد وخودمختار مسلم ملک پاکستان کے حصول کی تحریک) کو کسی اور سے منسوب کرتے ہوئے ایسے مغالطے پیدا کیے جارہے ہیں اور ایسا پرچار کیا جارہا ہے جس سے نئی نسل کے ساتھ ساتھ پرانی نسل بھی کچھ کچھ مرعوب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ماضی میں روزنامہ ایکسپریس سے بطور کالم نگار منسلک، ممتاز محقق جناب سہیل احمد صدیقی نے بھی اپنے دو مضامین میں اس کا بالتحقیق رَدّ کیا اور دیگر اہل قلم کی نگارشات بھی منظرعام پر آئیں، مگر یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں، لہٰذا خاکسار تمام مواد کا نکتہ وار جواب بالتحقیق پیش کررہا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
ہم بوجوہ ان حضرات کے اسماء دُہرانے سے گریز کرتے ہیں جنھوں نے اپنی پرانی تحریروں کو باربار تحقیق کے نام پر پیش کرکے اہل وطن کو گمراہ کرنے کی پیہم کوشش کی ہے۔ الفاظ کی لسانی تحقیق پر مبنی ایک کتاب میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ لفظ پاکستان، سب سے پہلے خواجہ عبدالرحیم نے اختراع کیا تھا جو سابق گو رنر پنجاب خواجہ طارق رحیم کے والد تھے۔
مصنف موصوف نے حوالے کے طور پر نامور مؤرخ ڈاکٹر کے ۔کے عزیز کا نام غلط طور پر دے دیا، مگر کے۔کے عزیز کا نقطہ نظر شامل نہیں کیا، جنھوں نے مخالفین کے اس دعوے کی بالتحقیق تر دید کی ہے۔ اس بابت خواجہ صاحب موصوف نے کوئی دعویٰ اپنی زندگی میں کیا نہ ہی یہ دعویٰ دُہرانے والے ڈاکٹر جہانگیر خان اور میاں عبدالحق نے اس کا کوئی ثبوت فراہم کیا۔
راقم کی تحقیق کے مطابق ایسی کسی مہم کا بنیاد ی سبب یہ ہے کہ چو دھری رحمت علی مسلم لیگ کی پالیسیوں پر تنقید کر تے تھے، جس کا مقصد اگر چہ ان کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں اور ملک وملت کی فلاح وبہبود ہی تھا، لیکن تحریکِ پاکستان کے اکثر مصنفین نے، اسی بناء پر انھیں پورے منظرنامے سے نکالنے کی بھرپور کوشش کی ۔
اس کوشش میں کئی حضرات نے تو چودھری صاحب موصوف کے خلاف بے بنیاد، گمراہ کن اور من گھڑت الزام تراشی بھی کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ماقبل علامہ محمد اقبال اور محمد اسلم خان خٹک کو بھی لفظ”پاکستان”کا خالق قرار دینے کی نا کام کو شش کی جا چکی ہے، جبکہ علامہ محمد اقبال اس لفظ تو کیا چودھری صاحب موصوف کی پاکستان ا سکیم ہی سے لاتعلقی کا اظہار کرچکے تھے۔ (خط بنام ایڈورڈ ٹامسن مؤرخہ4مارچ1934)، جبکہ محمد اسلم خان خٹک نے یہ دعویٰ چودھری رحمت علی کے انتقال کے بعد کیا اور اُن کی دستاویز ‘Now or Never’پر برمحل کیے گئے اپنے دستخط سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ کسی دوست کے یوں مخالف ہوجانے کی مثال بھی انوکھی نہیں۔
ان سب مخالفین کا مقصد صرف یہ ہے کہ چودھری رحمت علی سے ان کا ہر اعزاز چھین لیا جائے۔ چاہے وہ لفظ” پاکستان” کی تخلیق ہو یا سب سے پہلے ایک آزاد اقتدار اعلیٰ کے حامل (Sovereign) مسلم ملک کا سب سے واضح مطالبہ پیش کر نے کا اعزاز ہو، وہ بھی اس وقت جب مسلم لیگ کے مندوبین، لندن کی گول میز کانفرنس[Round Table Conference] میں، اقلّیتوں کے چند اعتراضات رَفع کرنے کے عوض، ایک کُل ہند وفاق [All India Federation] کی تشکیل پر راضی ہوچکے تھے۔
با ت دراصل یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے، کسی بھی مسئلے میں، اصولی اختلاف رائے کو ملک دشمنی اور اپنے بڑے راہنمائوں کی توہین سمجھتے رہے ہیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات مثبت اختلاف رائے سے نئی راہیں کھلتی ہیں، نئی سوچ جنم لیتی ہے، نئے نظریات و تصورات سامنے آتے ہیں۔ اگر چودھری رحمت علی گول میز کانفرنس کے مندوبین سے اختلاف نہ کر تے اور اپنی ’’پاکستان ا سکیم‘‘ پیش نہ کر تے تو شاید پاکستان کبھی قائم نہ ہوتا اور آج ہم (غلام) شمال مغربی ہندوستان میں رہ رہے ہوتے۔
چودھری رحمت علی کو بطور نقاش پاکستان قبول کرنے کے ایک مخالف نے لکھا ہے کہ ’’خواجہ عبدالرحیم نے بھی اپنی زندگی میں ایوان نوائے وقت راولپنڈی میں ایک اجلاس میں بتایا تھا کہ لفظ پاکستان کے خالق وہ ہیں‘‘۔ موصوف کا یہ حوالہ بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ خواجہ عبدالرحیم نے نہیں بلکہ محمد اسلم خان خٹک نے 21دسمبر1987ء کو ایوان نوائے وقت راولپنڈی میں کیا تھا۔ خواجہ عبدالرحیم تو 1974میں انتقال کرچکے تھے۔
خواجہ عبدالرحیم نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اس کے برعکس خواجہ عبدالرحیم کے ایک بیان کا حوالہ ڈاکٹر کے۔ کے عزیز نے دیا ہے، جس کے مطابق خواجہ عبدالرحیم نے ایچی سن کالج میں ’’یوم چودھری رحمت علی‘‘ کی تقریب میں تقریر کر تے ہو ئے کہا:’’ہم سب اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے، جب چودھری رحمت علی نے ہمارے ملک کا نام پاکستان تجویز کیا۔ میں خود اقبال کو یہ بات بتانے کے لیے گیا۔ وہ دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھے ہو ئے تھے۔ اور جو کچھ میں نے انہیں بتایا، اسے سن کر وہ خوشی کے مارے اپنی کر سی سے اچھل پڑے اور کہا یہ تو اتنا اچھا نام ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے، کم ہے‘‘۔ (چودھری رحمت علی، سوانح حیات از پروفیسرڈاکٹربیرسٹر کے۔ کے عزیز، صفحہ485)۔
جب خواجہ عبدالرحیم خود چودھری رحمت علی کو اس نام کا خالق قرار دے رہے ہیں تو ان کے حمایتیوں بشمول ڈاکٹرجہانگیر خان کے دعوؤں میں کیا وزن رہا؟….یہاں یہ بھی یاد رہے کہ خواجہ عبدالرحیم وہی شخص ہیں جنہوں نے پیر احسن الدین کے ساتھ مل کر، 1940ء میں کولمبو (سری لنکا) جاکر چودھری رحمت علی کو انڈیا آنے سے رو کنے کی کو شش کی تھی۔ لیکن چودھری موصوف نے ان کی بات نہ مانی اور اُنھیں اپنے ان دونوں سابق دوستوں کے رویے سے شدید دکھ اور افسوس ہوا تھا (سوانح حیات صفحہ 199)۔
اُنھی مذکوربالا معترض نے کہیں لکھا ہے:’’انھوں (کے ۔کے عزیز) نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر جہانگیرخان کے محولہ بالا انٹرویو کا حوالہ تو دیا ہے مگر اس بات پر کوئی گفتگو نہیں کی کہ لفظ”پاکستان”کا اصل خالق کو ن تھا، چودھری رحمت علی یا خواجہ عبدالرحیم”۔ حقیقت یہ ہے کہ پروفسرکے۔کے عزیز نے خواجہ عبدالرحیم کے لفظ پاکستان کا خالق نہ ہو نے پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ انگریزی سے واقف، کوئی بھی شخص اسے اصل انگریزی کتاب کے صفحہ 422سے 424، نیز اُردو ترجمے کے صفحہ484 سے487 تک خود پڑھ سکتا ہے۔
[Rehmat Ali A Biography- K.K Aziz, Sang-e-Meel Publications,25-Lower Mall,Lahore,Ph:042-37220100,37228143]
(اردو تر جمہ۔ چودھری رحمت علی۔ سوانح حیات، مکتبہ جمال، تیسری منزل حسن مارکیٹ، اردو بازار لاہور ۔ فون:0322-4786128)
ڈاکٹر کے ۔کے عزیز، خواجہ عبدالرحیم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اپنے تیسرے مضمون میں انور نے جواب دیا کہ یہ (عبدالحق کی) بالکل غلط بیانی ہے اور بتایا کہ عبدالرحیم نے خود اپنی زندگی میں کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا تھا …عبدالحق کا خاص مقصد رحمت علی کی اہمیت کو کم کرنا تھا…. عبدالحق نے (خواجہ عبدالرحیم کے معاملے میں) سوائے اپنی یادداشت کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
امیر الدین (مسلم لیگ کے ایک لیڈر) جو اگرچہ رحمت علی کے سخت نکتہ چیں تھے اور عبدالرحیم کے سسر بھی تھے، انہوں نے بھی کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ عبدالرحیم نے اس لفظ کو تخلیق کیا تھا …. انھیں (جہانگیر خان اور میاں عبدالحق کو) کسی اور ذرائع کی حمایت حاصل نہیں، وہ (عبدالرحیم کے دعوے کے بارے میں) کوئی تحریری ثبوت پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف اپنی یادداشت کی قوت پر ہی انحصار کر تے ہیں۔
یہ سب کچھ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ان کی یادداشت بہت دیر کے بعد اچانک جاگ اٹھی (اور انھوں نے یہ دعویٰ کردیا)۔ رحمت علی کے اس دعوے کی کہ انھوں نے یہ لفظ تخلیق کیا تھا، تیس سال سے زیادہ عرصے تک کسی نے تر دید نہ کی۔ پھر اچانک کوئی اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس لفظ کا اصل خالق تو رحیم ہے۔ پھر کوئی اور اپنی یادداشت سے اس بات کی تصدیق کردیتا ہے۔
چودہ سال کے بعد کیمبرج کا ایک اور آدمی نیند سے بیدار ہو تا ہے اور تین طلبہ کی بعیداَزقیاس کہانی سناتا ہے جو علامہ اقبال سے ملنے جاتے ہیں اور اُنھیں دریا کے کنارے بیٹھا ہوا پاتے ہیں۔ قارئین کرام! جس معاملے پر ہم غور کر رہے ہیں، اس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:
پہلا سوال یہ ہے کہ اتنے اہم معاملے میں یہ لوگ اتنے سال خاموش کیوں رہے؟
اُن کی یادداشت کو واپس آنے کے لیے انور کے مضمون کی چبھن کی ضرورت کیوں پڑی؟
کیا وہ مذاق اور خوش گپّی کے طور پر چودھری رحمت علی کا ذکر کر رہے تھے۔ یا قصداً ان کی بے عزتی کر رہے تھے؟
کیا اُن کے اِن بیانات کے پیچھے کچھ مخصوص مفادات کارفرما تھے؟
خاکسار عرض کرتا ہے۔ میاں عبدالحق کو اس کی شدید دُشنام طرازی کے باعث قابل اعتبار وقائع نگار تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ جہانگیر نے اپنے انٹرویو میں اتنی الزام تراشی اور طعن و تشنیع کی ہے کہ اسے ایک مخالف (hostile) گواہ کہنا پڑتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ چودھری رحمت علی کے اس بیان کا کہ انھوں نے کب اور کیسے یہ لفظ تخلیق کیا، ان لوگوں کو اچھی طرح علم تھا۔ انھوں (رحمت علی) نے پہلی مرتبہ یہ لفظ جنوری1933ء کے پمفلٹ میں استعمال کیا تھا، اور بعد میں دو مقامات پر واضح انداز میں بتایا کہ انہوں نے یہ لفظ 1932ء کے آخر میں سوچ لیا تھا، یعنی وضع کرلیا تھا، مگر کہیں لکھ کر محفوظ نہ کیا تھا۔
اب جبکہ میاں عبدالحق اُن (رحمت علی) کا ہم عصر، قریبی دوست اور رفیق کار ہونے کا دعویٰ کر تے ہیں، تو یہ بجا طور پر فرض کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف ان کی تمام تحریروں سے واقف تھے بلکہ وہ خود چودھری صاحب موصوف کی تحریک (پاکستان نیشنل موومنٹ) کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیتے رہے ہوں گے۔ اگر چودھری رحمت علی کا دعویٰ جھوٹا تھا تو پھر انھیں (رحمت علی کو) اسی وقت بے نقاب نہ کرنے اور ان کی تحریک میں سر گرمی سے حصہ لیتے رہنے کے باعث، وہ خود بھی ایک فراڈ ی شخص کے معاون قرار پائے۔
اگر وہ موومنٹ میں شامل ہی نہیں تھے تو پھر ہمیں اُن کے الفاظ کو ایسے معاملے میں تسلیم کر نے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے جسے وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ اگر اُن کے پاس ایسا کوئی ثبوت موجود تھا جو اُن کے دعوے کی تصدیق کرتا (جیسے رحمت علی کا کوئی خط یا 1930ء کی دہائی میں شائع ہو نے والا کوئی مواد۔ لیکن وہ ہمیں یہ ثبوت نہیں دیتے تو پھر ہمیں اس باب میں قوی شکوک ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ (ثبوت) اتنا شرمیلا کیوں ہے کہ وہ انسانی یادداشت کے فریبی پردے کے پیچھے چھپ رہا ہے؟
آخری بات یہ ہے کہ جہانگیر خان اور میاں عبدالحق اس بات کی کیا وضاحت پیش کر سکتے ہیں کہ عبدالرحیم نے اپنی زندگی میں اس قسم کا کوئی دعویٰ کیوں نہ کیا؟ آخر کسی وقت وہ (یعنی خواجہ عبدالرحیم) رحمت علی کے دو ست تھے اور1940ء میں انھوں نے حکومت پنجاب کے خفیہ نمائندے (Emissary) کے طور پر کولمبو کا سفر کیا تاکہ وہ رحمت علی کو انڈیا آنے سے روکیں۔
اُن کی دوستی اسی روز ختم ہوگئی تھی۔ بعد میں عبدالرحیم کے والد کی طرف سے صلح کی پیش کش بھی چودھری صاحب نے ٹھکرا دی تھی، کیونکہ غداروں کی سرپرستی اُن کی اخلاقیات کا حصہ نہ تھی۔ 1940ء سے لے کر اپنے انتقال تک عبدالرحیم کے پاس بدلہ لینے اور یہ دعویٰ کر نے کا بہت زیادہ موقع تھا کہ یہ لفظ (پاکستان) تو ان کی تخلیق تھا۔
اپنی خودپرستی کے با وجود اور رحمت علی سے سخت اختلاف رکھنے کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ چونکہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ یہ دعویٰ کر سکتے۔ رحمت علی کے خلاف ان کے سابق ’’دوستوں‘‘ کی طرف سے لگائے گئے الزام کی تردید کے لیے اتنا ہی کافی ہو نا چاہیے‘‘۔ (صفحہ484۔487:سوانح حیات)۔
خواجہ عبدالرحیم کے بعد، لفظ ’پاکستان‘ کی تخلیق کا سہرا، ایبٹ آباد کے غلام حسن شاہ کاظمی کے سر پر باندھا گیا، جنھوں نے بقول کسے، 1928ء یا1929ء میں ہفت روزہ اخبار بعنوان ’’پاکستان‘‘کے اجراء کی منظوری ( Declaration) کے لیے ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد کے دفتر میں درخواست جمع کروائی تھی، مگر اصل کاغذ کہاں ہے؟ معترضین نے اس درخواست کا عکس پیش کرنے کی بجائے ایس اے عزیز چشتی کی وضاحتی درخواست کا عکس شائع کیا ہے۔
کاظمی صاحب کے بھائی میرن شاہ کے 21 مئی1929ء کے خط کا جو عکس شائع کیا گیا ہے اس کی حالت بالکل ایسی نہیں ہے جو کسی 85-80 سال پرانے خط کی ہوتی ہے۔ مزید انکشاف یہ ہے کہ جب 1928ء کی اس درخواست کی تصدیق کے لیے ایبٹ آباد کے رہائشی اور راقم کے ایک مہربان انور کلوروی نے متعلق دفتر سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ اُس زمانے کا ریکارڈ موجود نہیں، جل چکا ہے۔ یاد رہے کہ انور کلوروی ایبٹ آباد کی معروف شخصیت اورکئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر صابر کلو روی کے بھائی ہیں۔
اب جس دفتری دستاویز کی متعلق دفتر کے ریکارڈ سے تصدیق نہ کی جا سکے، اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔ چودھری رحمت علی کے ایک کٹر مخالف نے لکھا کہ ’’غلام حسن شاہ نے ہفت روزہ پاکستان کے دوسرے شمارے (مؤرخہ08مئی 1936ء) میں ہفت روزہ کا نام پاکستان رکھنے کا سبب ان الفاظ میں بیان کیا ہے، اخبار کا نام ہم نے پاکستان کیوں پسند کیا۔ یہ نام اس لیے اختیار کیا گیا کہ غیرمسلم اس سے بہت گھبراتے تھے۔
اُنھیں بتایا جائے کہ یہ کوئی خطر ناک نام نہیںـ‘‘ اب غور طلب بات یہ ہے کہ کاظمی صاحب نے یہاں فقرہ ’’اختیار کیا گیا‘‘ استعمال کیا ہے،’’تخلیق کیا گیا‘‘، استعمال نہیں کیا یعنی ممکن ہے کہ کسی اور کے تخلیق کردہ نام کو استعمال کر لیا ہو۔ نیز ایک اور بات جو کاظمی صاحب کے خالقِ لفظِ پاکستان نہ ہو نا ثابت کر تی ہے، وہ ہے خود اُن کا اپنا بیان۔
تاریخی ریکارڈ اس بات کی واضح گواہی دیتا ہے کہ لفظ پاکستان 1928ء میں (جب اس ہفت روزہ کی مفروضہ درخواست دی گئی) زبان زد عام بالکل نہیں تھا۔1925ء سے 1932ء کے دو ران میں کسی اخباری بیان، کسی تجویز، کسی کتاب ، کسی جلسے کی کارروائی میں یہ نام استعمال نہیں ہوا۔ 1925ء سے1932ء کے عرصے میں علیٰحدگی کی چالیس تجاویز منظرعام پر آئیں (سوانح حیات ، ازپروفیسرکے۔کے عزیز:ص62-56)کسی تجویز میں پاکستان کا نام نہیں ہے۔
یہ نام تو جنوری1933ء میں منظرعام پر آیا اور زبان زدعام ہوا۔ یعنی یہ کام 1925ء کے بعد نہیں بلکہ1933ء کے بعد شروع ہوا تھا، جب اسے چوہدری رحمت علی نے اپنے رسالے اب یا کبھی نہیں میں پہلی بار پیش کیا تھا۔ تو جب یہ نام پاکستان 1928ء میں کسی کی زبان پر ہی نہ تھا تو غلام حسن شاہ کاظمی نے اپنے ہفت روزہ کا نام پاکستان کیسے رکھ لیا، جبکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے خود تو یہ نام تخلیق نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ سید غلام حسن شاہ کاظمی کے فرزند کی بیان کر دہ تاریخ 1925ء نہیں بلکہ1933ء کی ہے اور یہ درخواست 1928ء میں نہیں بلکہ1933ء کے بعد ہی دی گئی ہوگی۔
والد اور فرزند کی مذکورہ بالا بات چیت سے دو نتائج نکلتے ہیں۔ اول یہ کہ سید غلام حسن شاہ کاظمی نے یہ اقرار کیا ہے کہ یہ نام انھوں نے خود تخلیق نہیں کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے اس اَمر کی تردید نہیں کی کہ یہ نام چو دھری رحمت علی نے رکھا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر صابر کلو روی نے 1977ء میں غلام حسن شاہ کاظمی کا ایک انٹرویو کیا تھا جو راقم کو اُن کے بھائی انور کلوروی نے ان کی ڈائری سے نقل کرکے بھیجا ہے۔
صا بر کلوری نے سوال کیا کہ آپ کو پاکستان اخبار کا خیال کیسے آیا ؟ جواب:’’یہ نام پہلے سے چل رہا تھا‘‘۔ یہاں بھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ نام انہوں نے خود تخلیق کیا تھا۔ مذکوربالامعترض نے لکھا ہے کہ’’غلام حسن شاہ کاظمی اپنی پہلی درخواست کے استرداد سے مایوس نہیں ہوئے اور انہوں نے 1935ء میں آل انڈیا ایکٹ کے نفاذ کے بعد ایک مر تبہ پھر ہفت روزہ پاکستان کی منظوری کی درخواست داخل کی۔
اس مر تبہ وہ کامیاب رہے اور یکم مئی 1936ء کو ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کی اشاعت کا آغاز ہو گیا‘‘۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ 1935ء میں ڈیکلریشن کے لیے دی گئی، وہ دوسری درخواست کہاں ہے؟
محترم کے ۔کے عزیز نے بھی اس ہفت روزہ کے آغاز کی تاریخ (شیر بہادر خان پنی کی ’’تاریخ ہزارہ‘‘ کے صفحہ 792کے حوالہ سے )1935ء ہی لکھی ہے۔ (صفحہ202: سوانح حیات)
’’ہزارہ میں اردو زبان و ادب کی تاریخ‘‘ کے مصنف پروفیسر بشیر احمد سوز کے بیان کی رُو سے شیر بہادر خان پنی، غلام حسن شاہ کاظمی کے دو ست تھے (صفحہ 7)۔ انور کلوروی کے قول کے مطابق 1928-30ء کے زمانہ میں چند دیگر حکومت مخالف رسائل واخبارات (پیغام سرحد، اسرار سرحد وغیرہ) بھی شائع ہو رہے تھے تو پھر یہ بات حیران کن ہے کہ ہفت روزہ پاکستان کو منظوری کیوں نہیں دی گئی۔ لہٰذا اُن کے بیان کے مطابق بھی یہ درخواست 1928ء میں نہیں بلکہ1935ء ہی میں دی گئی ہوگی۔ جب یہ نام چودھری رحمت علی کے 1933ء کے رسالے ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے ذریعے منظرعام پر آچکا تھا۔
چودھری رحمت علی کے ایک بڑے مخالف سرظفراللہ خان نے بھی، (جنھوں نے چوہدری رحمت علی کے مطالبہ پاکستان کو جوائینٹ سلیکٹ کمیٹی میں ـ’’ایک طالب علم کی غیراہم اسکیم‘‘ کہہ کر رَد کیا تھا) یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ نام چودھری رحمت علی ہی نے رکھا تھا (سر ظفراللہ خان کی یادداشتیں۔ ترجمہ پروفیسر پرویز پروازی۔ صفحہ 161۔ اشاعت اول 2004ء، کاغذی پیرہن،72 بیڈن روڈ، لاہور)۔ چودھری خلیق الزمان اور دیگر کئی مستند مؤرخین نے بھی چوہدری رحمت علی ہی کو اس نام کا خالق قرار دیا ہے۔
جناب سہیل احمد صدیقی ودیگر محققین اہل قلم کی نگارشات میں یہ ساری تفصیل بیان کی جاچکی ہے کہ چودھری رحمت علی نے کس طرح یکہ وتنہا تحریک پاکستان چلائی۔
اس ساری بحث کا نقطہ عروج یہ ہے کہ کئی کتب کے مصنف، بے باک صحافی اور انگریز کی مخالفت کے سبب، قید وبند کی صعوبت برداشت کرنے والے غلام حسن شاہ کاظمی نے آخر کیوں اس منفرد نام کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش نہیں کی اور کیوں ساری عمر چودھری رحمت علی کے خالق لفظ پاکستان ہونے کے پرچار کی مخالفت نہیں کی؟
اور اب آخر میں پاکستان کے اس عظیم اور دوراَندیش مفکر (چودھری رحمت علی) کے بارے میں چند مغربی مصنفین کی رائے پیش خدمت ہے، جس نے قیام پاکستان سے چو دہ سال پہلے (1933ء میں) پاکستان کا تصور پیش کردیا تھا، اور جو علیٰحدہ مسلم مملکت کے قیام کی تجویز 1915ء میں پیش کر چکا تھا، جسے پاکستان کے اکثر مصنفین نے جعلی، ناقابل عمل منصوبہ ساز اور پاکستان کا مخالف ثابت کرنے کی پوری کو شش کی ہے:
ایک انگریز Edward Welbourne نے لکھا ہے:’’اس بات پر میرا پختہ یقین ہے کہ جب تک انھوں (رحمت علی) نے اپنا پمفلٹ جاری نہیں کیا تھا، پاکستان کا مقصد آنکھوں سے اوجھل تھا۔ انھوں نے ایک مسلم مملکت کے قیام کے لیے اپنی پوری زندگی قربان کردی۔ وہ اپنے کام کو سیاست نہیں، اپنے مذہب کا حصہ سمجھتے تھے”۔ (خط بنام محمد انور 12مئی1964ء شائع شدہ ہفت روزہ ستلج، لاہور، مؤرخہ12فر وری1976ء، صفحہ 22)۔ ایک اور انگریز کا اعتراف:’’اٹلی کے مازینی کی طرح وہ ایک ایسے پیامبر تھے، جس کے پراپیگنڈا کی وجہ سے ایک نئی ریاست معرض وجود میں آئی، جس پر دوسرے لوگوں نے حکومت کی اور خود اُس پر اس ملک کی قومی زندگی میں کسی قسم کا حصہ لینے پر مکمل اور نہایت مؤثر پابندی لگا دی گئی”۔
(Lenard Holling Worth کا خط بنام پروفیسرکے ۔کے عزیز ۔ صفحہ 502 سوانح حیات)۔ یہ بھی ایک انگریز کا خراج تحسین ہے:’’بیس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک میں نے مبہم طور پر محسوس کیا ہے کہ رحمت علی کو افسوس ناک حد تک نظرانداز کیا گیا ہے یا یہ کہ پاکستان میں اُن کی خدمات کے مطابق ان کو احترام نہیں دیا گیا۔
یعنی وہ ملک جس کا نام تخلیق کر کے انھوں نے بلاشک و شبہ ایک عظیم اور ابدی خدمت سرانجام دی ہے، اگر تمہاری سخاوت اجازت دے تو کیا تم یہ نہیں سوچ سکتے کہ ایک مردہ شخص کے وہ الفاظ، جس نے اپنے آخری سال کسمپرسی اور شدید مفلسی کی حالت میں گزارے ہوں اور ایسے حالات میں جو کچھ اس نے لکھا یا کہا ہو، چاہے وہ سخت ناگوار اور اشتعال انگیز ہی کیوں نہ ہو، اب اتنے عرصہ کے بعد ان الفاظ کو یادداشت سے نکال دینا چاہیے اور پاکستان کی طرف سے اسے کوئی بچا کھچا قومی اعزاز مل جانا چاہیے؟‘‘(The Statesmanکے ایڈیٹرIan Stephens کا میاں عبدالحق کو ان کے رحمت علی کے خلاف ایک خط کا جواب۔31جو لائی1970ء، مشمولہ سوانح حیات چودھری رحمت علی ازپروفیسر ڈاکٹربیرسٹر کے ۔کے عزیز، صفحہ498)۔
میں یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اربابِ اقتدار، تمام اہل سیاست اور تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق سرکردہ شخصیات سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ اگر اُس عظیم محسن کی قبرکے لیے یہاں جگہ نہیں دے سکتے تو کم ازکم اُن کی دلوں میں موجود عظمت کم کرنے کی گھٹیا سازشوں کا حصہ تو نہ بنیں۔
The post چوہدری رحمت علی۔۔۔۔پروپیگنڈا اور حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.