لاہور: پاکستان میں انسانی بالوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی بڑھتاجارہا ہے،یہ انسانی بال وگوں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، گنجے پن اوربالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار افراد جہاں اب پیوندکاری کروا رہے ہیں وہیں آج بھی بڑی تعداد وگ کے استعمال کو ترجیع دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت سینی تھیٹک وگیں بھی دستیاب ہیں تاہم ان کے مقابلے میں قدرتی بالوں سے تیاروگ زیادہ مہنگی اورپسند کی جاتی ہے۔ نوجوان جہاں شخصیت کی خوبصورتی کے لئے وگ استعمال کرتے ہیں وہیں خواتین شادی بیاہ اور مختلف تقریبات میں شرکت کے موقع پر منفرداندازکی وگ استعمال کرتی ہیں۔
ناصر حسین لاہور کے انارکلی بازارمیں وگیں تیارکرنے والے سب سے پرانے کاریگرہیں، 60 سال پہلے ان کے والد نے یہ کام شروع کیا تھا جسے آج ناصر حسین اور ان کے بھائی چلارہے ہیں۔
ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناصرحسین نے بتایا ان کے پاس مرد وخواتین دونوں کے لئے وگیں موجود ہیں،مردوں کے استعمال کے لئے وگیں انسانی بالوں سے ہی تیارہوتی ہیں جبکہ خواتین کے استعمال کے فینسی وگیں مصنوعی بالوں سے تیارکی جاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ وگیں تیارکرنے والے کئی کاریگرہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پہلے پورے سر کے لئے وگ تیارکی جاتی تھی جوکافی مشکل ہوتا تھا تاہم پارٹس کی شکل میں وگ تیار ہوتی ہے جو زیادہ آسان ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی مدد سے بالوں کی صفائی اورانہیں اکٹھا کرنا بھی آسان ہوگیا ہے۔
وگ کی تیاری کے لئے انسانی بال چارسے پانچ ہزارروپے فی کلوخریدے جاتے ہیں اور پھر صفائی کے بعد 10 سے 12 ہزار روپےکلومیں فروخت ہوتے ہیں۔ انسانی بال گھروں اور خاص طورپر خواتین کے پارلرزسے خریدے جاتے ہیں۔ بال جتنے زیادہ لمبے ہوتے ہیں ان کی قیمت بھی اسی قدرزیادہ ہوتی ہے،انسانی بالوں کی سب سے زیادہ خریدوفروخت انڈیا میں ہوتی ہیں جہاں خواتین مذہبی رسم کے طورپر سر کے بال منڈواتی ہیں۔
ناصر حسین کہتے ہیں یہ بال بھارت اور بنگلا دیش سمیت مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ جب سے پاکستان میں خواتین پارلر زیادہ کھلے ہیں اس وجہ سے بھی انسانی بال آسانی سے مل جاتے ہیں ،پہلے ان کی قیمت کم تھی لیکن جب سے یہ بال چائنہ ایکسپورٹ شروع ہونا شروع ہوئے ہیں ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ایک وگ کی تیاری میں دوہفتے لگ جاتے ہیں، ایک وگ کی قیمت 5 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے جو 10 پندرہ ہزار تک جاتی ہے۔ وگ اس طریقے سے تیارکی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنا اور اتارا جاسکتا ہے، اگر کسی حصے سے بال گرجائیں تو وہ دوبارہ لگائے جاسکتے ہیں، وگ کی مرمت بھی ہوجاتی ہے، ایک وگ کا اگر اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے تو دو سال تک چل جاتی ہے۔انسانی بالوں سے تیار وگ کو پسند کا ہیرکلر بھی کیا جاسکتا ہے۔
وگ خریدنے آئے ایک نوجوان فضل خان نے بتایا کہ ان کی عمر ابھی 24 سال ہے لیکن ان کے سر کے بال تیزی سے گررہے ہیں، اس لئے وہ وگ استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرسنلٹی اچھی لگے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شادی شدہ ہیں، ان کی بیوی توانہیں گرتے بالوں کے ساتھ بھی پسندکرتی ہیں لیکن مسلہ بیوی کا نہیں بلکہ سوسائٹی کا ہے۔ اگرکہیں سیروتفریح کے لئے جاناہو یا پھرآفس میں جب بزنس میٹنگ ہوتی ہے توانہیں عجیت لگتا ہے۔ وہ زیادہ عمرکے لگتے ہیں۔
ایک خاتون نادیہ طفیل نے بتایا ہماری خوراک، آب وہوا اورمختلف بیماریوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی بال گرناشروع ہوجاتے ہیں ، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح کینسر کی مریض خواتین جن کے کیموتھراپی کے دوران بال بالکل ختم ہوجاتے ہیں ان کے لئے بھی پھرکااستعمال ضروری ہوجاتا ہے۔ وگ ضرورت کی ماں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین شادی بیاہ اوردیگرتقریبات کے موقع پر بھی خوبصورت دکھانی دینے کے لئے وگ استعمال کرتی ہیں، ایسی وگیں عموما مصنوعی بالوں سے تیارکی گئی ہوتی ہیں جو چند بار کے استعمال کے بعد فارغ ہوجاتی ہے، ان کے اپنے بال بھی چھوٹے ہیں اور گرتے ہیں اس لئے کسی تقریب میں جانے کے لیے وہ وگ استعمال کرتی ہیں۔
وگ میکر خریدار کے سر کے سائزاوراس کی پسند کے مطابق وگ تیارکرتے ہیں، وگ کے اندرپلاسٹک اورچپکنے والا سٹکراستعمال کیاجاتا ہے جسے آسانی سے پہنا اوراتاراجاسکتا ہے، بالوں کے گرنے کے مسائل سے دوچار نوجوان پیوندکاری کی بجائے وگ لگواتے ہیں۔
گنجے پن کا شکارکئی افرادپیوندکاری کرواتے ہیں تاہم یہ پراسیس کافی مہنگا ہونے اوراس کے سائیڈافیکٹس کی وجہ سے کئی لوگ بالوں کی پیوندکاری سے ڈرتے ہیں ،فلموں ، ڈراموں کے اداکار اور خواجہ سرا بھی یہ وگیں استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ناصرحسین جیسے وگیں تیارکرنیوالے کاریگروں کا روزگارچل رہاہے۔
The post گنج پن کے لئے وگ کا انتخاب کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.