’انڈیا ونز فریڈم‘ کی ایک ’نئی اشاعت‘
مولانا ابو الکلام آزاد کی مشہور زمانہ تصنیف ’انڈیا ونز فریڈم‘ کے متعدد ایڈیشن مختلف مترجمین کی جانب سے اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں، پھر اس میں 1988ء تک سربہمر رہنے والے 30 صفحات بھی شامل کیے گئے، یوں پھر اس مکمل کتاب کے ایڈیشن بھی شایع ہوئے۔۔۔ اب 1988ء کو بھی 32 برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔ لیکن اب اس کتاب کا ایک اور تاریخی نسخہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
یہ کتاب مشہور صحافی غلام رسول مہر صاحب کا کیا گیا ترجمہ ہے، جو انھوں نے 1959ء میں کیا تھا۔ ناشر لکھتے ہیں کہ ’اس دور کے قواعد کے مطابق اس کے چھے رف پروف متعلقہ اداروں کو بھی دیے گئے، لیکن کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں مل سکی۔۔۔‘ وقت گزرا قاعدے قانون بدلے اور 2014ء میں ناشر کی جانب سے ’رف پروف‘ ہی شایع کر دیا گیا۔
اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہونے کے بعد اس کتاب کی ازسرنو کتابت کرائی گئی اور باقی ماندہ 30 صفحات بھی اس میں شامل کرا دیے۔۔۔ اب مولانا غلام رسول مہر تو دنیا میں موجود نہیں، لیکن ان کے صحافتی ورثے کے نگہ بان امجد سلیم علوی صاحب کو اللہ سلامت رکھے۔
جنھوں نے نہ صرف اس کتاب سے پروف کی غلطیاں دور کیں، (جو 1959ء میں اشاعت کی اجازت نہ ملنے کے سبب درست نہ کی جا سکی تھیں) بلکہ اپنے روایتی تحقیقی میلان کو بروئے کار لاتے ہوئے نہایت عرق ریزی سے ہمایوں کبیر کے ’انڈیا ونز فریڈم‘ کے 1988ء کی اشاعت میں موجود اغلاط کی بھی نشان دہی کی اور جہاں واقعاتی کمزوری پائی یا حقائق کا ٹکرائو دیکھا، وہاں حاشیہ بھی لکھ دیا۔۔۔ اس لیے اب ہمیں ناشر کی رائے سے متفق ہونے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ یہ ایک بالکل نئی کتاب ہے۔۔۔
کتاب کے مرتب اور غلام رسول مہر کے صاحب زادے امجد سلیم علوی لکھتے ہیں کہ انھوں نے کتاب کے 1959ء اور 1988ء کی اشاعتوں کے اختلاف اور ترجمے کے فرق پر بھی جہاں محسوس کیا، قوسین میں یا ’حاشیے‘ میں لکھ دیا ہے۔ یوں بھی غلام رسول مہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے درمیان مسلسل ایک ایسا رشتہ قائم تھا، جو اختلاف ہونے کے باوجود اٹوٹ تھا۔ دونوں کبھی نظریاتی طور پر فاصلے سے نظر آنے کے باوجود بہت سے مقام پر ایک دوسرے کے آزو بازو سے دکھائی دیتے ہیں، دونوں قدآور شخصیات کے درمیان خط وکتابت کتابی صورت میں بھی شایع ہوئی ہے۔
اس قربت کے تذکرے کا مقصد اس حقیقت کو دہرانا ہے کہ ابوالکلام آزاد کی اس کتاب کا ترجمہ اگرچہ سرحد کے اِس طرف کی ایک شخصیت نے ضرور کیا، لیکن انھیں ابو الکلام آزاد سے تعلق کی بھی ایک خصوصی نسبت اور سبقت حاصل ہے اور سونے پہ سہاگہ امجد سلیم علوی کی تحقیقی نگاہ۔۔۔ سب مل ملا کر برصغیر کی تاریخ ٹٹولنے والوں کی دل چسپی کے لیے یہ ایک نئی دستاویز ہے۔ ضخامت 614 صفحات اور ناشر غلام علی اینڈ سنز (0300-4701175, 042-37323951) ہیں۔
کتابوں کی کتاب
اردو کالم نگاری میں طنز ومزاح کی ایک دیرینہ روایت رہی ہے، پھر سنجیدہ اور سیاسی کالم نگاری زیادہ ہونے لگی، جس میں پھر کسی نے ثقیل تجزیوں اور سیاسی رائے کے اظہار کو اپنایا، تو کسی نے ہلکے پھلکے روزنامچے کے طرز کو، کسی نے کہانی اور واقعاتی رنگ کو چُن لیا۔۔۔ کہنے کو ’کالم‘ کے ’چوکھٹے‘ اور کالموں کے صفحے پر چھپنے والی تمام تحریروں کو ہی کالم سمجھا اور بتایا جانے لگا، لیکن جمیل الدین عالی اور مقتدا منصور نے اپنے کالم کو ’اظہاریہ‘ کہا، توصیف احمدخان اپنی تحریر کو ’آرٹیکل‘ قرار دیتے ہیں۔
دوسری طرف کچھ ’’کالم نگار‘‘ ایسے بھی ہیں جو ’کالم‘ سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ اپنی ہر تحریر کو ہی کالم کہہ کر پکارتے ہیں۔۔۔ بہرحال اس بحث سے قطعہ نظر بہت سے کالم نگاروں نے اپنے کالم میں چھوٹے چھوٹے واقعات پر اظہارخیال کیا۔
کچھ ادبی وثقافتی تقاریب اور نئی کتب پر اظہار خیال کا سلسلہ بھی رہا۔۔۔ لیکن رفیع الزماں زبیری اس اعتبار سے انفرادیت کے درجے پر فائز ہیں کہ انھوں نے اپنا پورا کالم ہی کسی نہ کسی نئی کتاب سے منسوب کیا اور اسی مناسبت سے اپنے کالم کا مستقل عنوان بھی ’’کتابوں کی باتیں‘‘ رکھا۔۔۔ جس میں وہ جستہ جستہ تبصرہ بھی کرتے جاتے ہیں اور دل چسپ اقتباسات بھی قارئین تک پہنچاتے جاتے ہیں۔۔۔ یوں تو وہ ریڈیو پاکستان کے سابق نیوز کنٹرولر اور کراچی آرٹ ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے نائب صدر ہیں، لیکن ’ہمدرد‘ فائونڈیشن میں حکیم محمد سعید کی رفاقت میں انھوں نے ’نونہال ادب‘ اور ’نوجوان ادب‘ سے جس محنت ومشقت سے دیدہ زیب کتابیں شایع کیں، وہ ہم نوے کی دہائی والے ’’بچے‘‘ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔۔۔ حکیم سعید کے بعد ’نونہال‘ کے مدیر مسعود احمد برکاتی کے ساتھ بھی انھوں نے کافی عرصے ہمدرد کی کتابوں کی طباعت واشاعت کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھا اور آج وہ صحیح معنوں میں بہ یک وقت ہمارے مندرجہ بالا دونوں عظیم بزرگوں کی پرچھائیں دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ ’کتابیں ہیں چمن‘ ان کے ’ایکسپریس‘ میں شایع ہونے والے کالموں کا ساتواں مجموعہ ہے۔
جس میں 32 کالموں کو شامل کیا گیا ہے، گویا لگ بھگ اتنی ہی کتب سے قارئین کی ایک مفصل ’ملاقات‘ کرائی ہے۔ ایک آدھ کالم میں انھوں نے عمومی طور پر کچھ کتابوں سے تذکرے شامل کیے۔ 123 صفحاتی مجلد مجموعے کی قیمت 400 روپے، جب کہ ناشر فضلی سنز (0335-3252374، 021-32629724) ہیں۔
’’یادِ ایّام‘‘
نواب احمد سعید خان کی خود نوشت ’’یاد ایام‘‘ 1943ء میں دلی سے شایع ہوئی۔ اس کے بعد 2013ء میں علی گڑھ سے اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شایع ہوا اور کراچی میں تین جلدوں پر مشتمل اس اہم خود نوشت کو ایک جلد میں یک جا کر کے راشد اشرف کے مشہور سلسلے ’زندہ کتابیں‘ میں شایع کیا گیا ہے۔
نواب احمد سعید خان مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے مطالبے کو لیگ کا بھائو تائو کرنے کا ایک طریقہ قرار دیتے ہیں کہ جب انگریز اور ملک کی غالب اکثریت مخالف ہو تو یہ مطالبہ کیسے مانا جا سکتا تھا کہ ملک تقسیم کر دیا جائے۔ بٹوارے سے قبل کی یہ خود نوشت آخری حصے میں ’روزنامچے‘ کا سا رنگ بھی اختیار کر لیتی ہے، جس سے اس وقت پیش آنے والے مختلف واقعات کے حوالے سے اس وقت کے اثرات کا خوب پتا چلتے ہیں۔ دراصل وہ باقاعدگی سے ڈائری لکھتے تھے، جسے بجا طور پر اس خود نوشت میں محسوس بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کتاب میں ان کی مختلف شخصیات سے ہونے والی خط وکتابت بھی شامل کی گئی ہے۔ 619 صفحات کی اس اہم تاریخی اہمیت کی حامل یہ کتاب ہندوستانی سیاست، انگریز اور تقسیم کے حوالے سے تو اہم ہے ہی، ساتھ ہی ریاست حیدرآباد کے حوالے سے بھی ایک اہم حوالہ قرار پاتی ہے۔
اگرچہ تمام معاملات کو انھوں نے اپنی نظر سے دیکھا اور پھر ان پر اپنی رائے دی اور اس وقت اپنی چارہ جوئی کا ذکر بھی کیا، جس سے اتفاق اختلاف اپنی جگہ، لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر ان باتوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کتاب کے تینوں حصوں میں اگرچہ چھوٹے چھوٹے ضمنی مضامین شامل ہیں، جنھیں اگر فہرست کی صورت میں لکھ دیا جاتا، تو یہ امر قاری کے لیے سہولت کا باعث ہوتا، اس نادر کتاب کی قیمت فقط 500 روپے اور ناشر فضلی سنز کراچی ہے۔
’ہوا‘ کے ایک حالیہ ’فتنے‘ کا ذکر
2019ء کے آخر میں دنیا میں ایک وبا ’کورونا‘ کے نام سے اپنے پنجے گاڑ گئی اور اسی اعتبار سے اِسے ’’کوووڈ 19‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔۔۔ دنیا میں کوئی بھی نئی مشکل اور پریشانی جہاں اپنے اندر پراسراریت اور ایک خوف رکھتی ہے، وہیں اِس کٹھنائی میں بہت سے سبق اور پیغامات بھی پنہاں ہوتے ہیں، لیکن بعضے اوقات ان کا سمجھنا عام شخص کے لیے اتنا آسان نہیں ہوتا، اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اِن ’پوشیدہ پیغامات‘ کو کسی طرح لوگوں تک پہنچایا بھی جائے، کیوں کہ اچانک افتاد پر انسان حواس باختہ اور بوکھلایا ہوا سا ہوتا ہے۔
’ایکسرپیس‘ کی معروف کالم نگار زاہدہ حنا کے کالموں پر مشتمل یہ کتاب کچھ ایسے ہی ’پیغامات‘ پر مشتمل ہے، جو انھوں نے 15 مارچ 2020ء تا یکم اگست 2020ء کے درمیان لکھے۔ زاہدہ حنا ادیبہ بھی ہیں، اس تعلق سے گاہے گاہے ان کے کالموں میں اس کا رنگ بھی جھلکتا رہتا ہے، لیکن اس تقریباً پانچ ماہ کے عرصے میں انھوں نے اپنے 28 کالم، یعنی لگ بھگ 68 فی صد کالم ’کورونا‘ کے حوالے سے لکھے، کیوں کہ وہ ہفتے میں دو کالم لکھتی ہیں۔
اس کتاب میں جہاں کورونا کے حوالے سے دنیا میں پیش آنے والے مختلف حالات و واقعات کا تجزیہ کیا گیا ہے، وہیں ماضی کی مختلف وبائوں کی بازگشت اور حقیقت حال کے ساتھ انسانیت کی نذر کچھ ’نامے‘ بھی ہیں، جسے ’عجب فتنہ ہوا کا تھا‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ (آئی ایچ ایس آر) نے 135 صفحاتی کتاب میں یک جا کیا ہے۔
’’پاجامے والے سیکریٹری‘‘
’Sir گزشت‘ کی اشاعت اول 2012ء میں ہوئی، جس کے بعد اب راشد اشرف نے اپنے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے تحت دوبارہ شایع کیا ہے، جس میں ڈاکٹر اسلم فرخی، احمد حاطب صدیقی، سید محمد منظر سادات پوری، شیخ راشد، سید معراج جامی، غضنفر علی خاں اور احمد حسین کی آرا بھی شامل ہے۔
کتب کی فہرست میں دیکھیے تو 54 صفحات تو مذکورہ بالا معزز احباب کے تذکرے سے گویا ڈھکے ہوئے ہیں، اور جب صفحہ نمبر 55 سے خود نوشت شروع ہوتی ہے، تو بلا تکان 366 ویں صفحے پر جا کر ہی دَم لیتی ہے۔ ’بلا تکان‘ ہم نے اس لیے لکھا کہ فہرست میں اس کے مندرجات، ابواب، مضامین یا عنوانات کا کوئی ذکر خیر نہیں ملتا، لیکن ورق گردانی کیجیے، تو ہر دوسرے صفحے پر دل چسپ اور توجہ کھینچ لینے والی سرخیاں سجی اور سنوری دکھائی دیتی ہیں۔۔۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے نثری ٹکڑے مختلف ابواب میں بھی بٹے ہوئے ہیں، یقیناً ان ابواب یا عنوانات کی فہرست مرتب نہ ہونا ناشر کے سہو کا نتیجہ رہی ہوگی۔
1992ء میں ریٹائر ہونے والے شاہ محی الحق فاروقی جیسے وضع دار شخصیت کو فقط بیوروکریٹ کہہ دینا ان کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اور اگر ہماری روایتی بیوروکریسی کو سامنے رکھیے، تو یہ امر ’گستاخی‘ میں بھی گنا جا سکتا ہے۔۔۔ شاہ محی الحق فاروقی کی ملازمتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کا ادبی ذوق وشوق کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا۔ ان کی خود نوشت میں زیادہ تر بیسویں صدی کی بازگشت اور سرحد پار اپنی جنم بھومی کی یادوں کے نادرونایاب اور سریلے ساز سنائی دیتے ہیں، ہر چند کہ وہ بیوروکریسی میں ’پاجامے والے سیکریٹری‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔
’یو پی‘ میں ان کے آبائی قصبے ’بحری آباد‘ کی ٹھیٹ اردو کا نمونہ بھی زبان وبیان سے ذوق شوق رکھنے والوں کو خوب شاد کرتا ہے۔ کتاب میں خصوصی طور پر ان کے صاحب زادے تسنیم فاروقی کے مضمون کے علاوہ شاہ محی الحق فاروقی صاحب کے مضامین بھی بہ عنوان ’تبرکات‘ شامل کیے گئے ہیں۔ 455 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 680 روپے اور اشاعت فضلی بک سپر مارکیٹ (0335-3252374، 021-32629724) کے تحت ہوئی ہے۔
’نسائیات‘ اور ’اصول تحقیق‘
جامعہ کراچی کی رئیسہ کلیہ فنون وسماجی علوم ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے تحریر وتحقیق کے سنگھاسن سے مزید دو تصنیف وتالیف کا اضافہ کیا ہے۔۔۔ دونوں مطبوعات کی اشاعت کا اہتمام ’سینٹر آف ایکسی لینس فار ویمنز اسٹڈیز، جامعہ کراچی‘ نے کیا ہے۔ ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ گذشتہ 33برسوں سے تدریس وتحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اس میدان میں گاہے گاہے اپنی تحقیق سے مستفید بھی کرتی رہتی ہیں۔
گذشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی ان کی ایک کتاب ’’عورت، جستجو اور نسائی اندازِفکر‘‘ کی ترتیب وتدوین انھوں نے کی ہے، 252 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے، اس کے مندرجات میں شامل دس ابواب میں نسائی تحریک کی تعریف وادبی تجزیہ (سیما منظور)، تحریک نسواں کے مختلف ادوار (دعا رحما)، نسائیت: مکاتب فکر (شگفتہ نسرین)، صنف اور جنس: نسائی نقطۂ نظر (شازیہ شرافت)، نسائیت اور برصغیر پاک وہند میں تحریکِ نسواں (اسما منظور)، پاکستان میں صنفی تفریق (نسرین اسلم شاہ، شگفتہ نسرین)، پِدرشاہی نظام اور صنفی تفریق (شگفتہ جہانگیر)، صنفی تشدد اور اس کا سدباب (رخسانہ صدیقی)، عصرِحاضر اور نسائیت (علیہ علی) اور نسائی تحقیق (نسرین اسلم شاہ) شامل ہیں۔
جیسا کہ عنوانات سے ظاہر ہے کہ صنف نازک سے تعلق رکھنے والے مختلف روایتی اور غیرروایتی مسائل، تصورات، رجحانات اور تغیرات وتبدیلیاں مکمل اعدادوشمار کے ساتھ جمع کی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ حوالہ جات کا بھی مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری کتاب کا تعلق براہ راست تحقیق کے میدان سے ہے۔ تحقیق کیا ہے اور ایک منظم تحقیق کیسے کی جا سکتی ہے، اس کی اقسام اور معیارات وغیرہ سے لے کر اس کی تاریخ، نظریات اور تصورات وغیرہ تک چیدہ چیدہ عنوانات کا احاطہ اس کتاب میں موجود ہے، جس کا عنوان ’اصول تحقیق‘ ہے اور تدوین وترتیب ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے کی ہے، کتاب میں 15 ابواب کے ساتھ آخری حصے میں خصوصی طور پر ’ضمیمہ جات‘ بھی شامل کیے گئے ہیں، جس میں نوآموز محققین کو اپنے کام کو سمجھنے میں خاصی سہولت رہتی ہے۔
مرکزی ابواب میں شامل مختلف موضوعات کو چھوٹے چھوٹے موضوعات میں بانٹا گیا ہے۔ اس کے ساتھ اِس کتاب ’اصول تحقیق‘ کے لیے بھی ڈاکٹر نسرین اسلم نے اچھی خاصی تحقیق کا سہارا لیا ہے، جس کے ’ثبوت‘ یعنی تمام حوالہ جات، انھوں نے ابواب کے آخر میں جمع کر دیے ہیں، جن کی تعداد 175 ہے۔ 256 صفحاتی اس کتاب کی قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.