Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

فوڈ مینوفیکچررز مصنوعات کو صحت مند کیوں نہیں بناتے؟

$
0
0

گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک ’ میڈیکل نیوز ٹوڈے ‘ نامی ایک برطانوی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ کا مطالعہ کیا جس میں بتایا گیا کہ دنیا کی 10عالمی فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کمپنیوں نے کیسے اپنی مصنوعات کو صحت مند بنانے کی مہم کا حصہ بننے سے عملی طور پر انکار کردیا۔

برطانوی حکومت نے ایک مہم چلائی جس میں ان کمپنیوں کو خود ہی مصنوعات میں مضر صحت اجزا کی مقدار کم سے کم کرنے پر قائل کیا گیا ۔ تاہم کمپنیوں نے اس مہم کا کوئی خاص اثر نہ لیا۔

واضح رہے کہ ماہرین صحت کے مطابق ناقص غذائیں جن میں کیلوریز، چینی اور نمک کی زیادہ مقدار شامل ہوتی ہے ، دل کے امراض، کینسر اور دیگر مہلک امراض کا سبب بنتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیق ہوئی تھی جس کے مطابق برطانیہ میں امراض قلب، اسٹروک اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا 18.2فیصد سبب ناقص غذائیں تھی۔

اس کے بعد ملک میں مہم چلائی گئی جس میں فوڈ مینوفیکچرز کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنی تیارہ کردہ غذاؤں کو زیادہ سے زیادہ صحت افزا بنائیں، ان میں مضر صحت اجزا کی مقدار کم سے کم تر کریں ، بالخصوصمصنوعات میں کیلوریز ، چینی اور نمک کی مقدار کم کریں۔ اس کے بعد برطانوی حکومت نے اس حوالے سے کوئی جائزہ نہیں لیا کہ یہ مہم فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کے مینوفیکچرز پر کس حد تک اثر انداز ہوئی۔ حالانکہ اس معاملے کا جائزہ لینے سے پالیسی سازوں کو عوام کی صحت بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنے تئیں ایک جائزہ لیا کہ دنیا کی چوٹی کی 10فوڈ اور مشروب سازکمپنیوں نے اس مہم سے کیا اثر لیا یعنی انھوں نے اپنی مصنوعات کی غذائی قدر و قیمت میں کتنا اضافہ کیا۔ جائزے کے دوران معلوم ہوا کہ کمپنیوں نے برطانوی مہم کا ذرا سا بھی اثر نہیں لیا۔ رپورٹ کے آخر میں سفارش کی گئی کہ حکومت کی طرف سے مزید اقدامات ، شفاف مانیٹرنگ اور تشخیصی نظام کو بہتر بنائے بغیر صورت حال میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دان یورو مانیٹر کی مدد سے دنیا کی دس بڑی فوڈ اور سافٹ ڈرنک کمپنیوں کی سن دوہزار پندرہ سے دوہزار اٹھارہ تک ، مصنوعات اور فروخت کے ریکارڈ کا جائزہ لیتے رہے۔ ان میں کوکا کولا، مونڈیلیز انٹرنیشنل اور پریمئیر فوڈز جیسی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔

بعدازاں ایک نجی کمپنی نے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی بنیاد پر تجزیہ کرنے کے لئے غذائیت سے متعلق ایک پروفائل ماڈل تیار کیا اور ہر پراڈکٹ کو ریٹنگ دینے کا فیصلہ کیا کہ وہ کس قدر غذائی قدر و قیمت کی حامل ہے۔ یہ قدر وقیمت ان مصنوعات میں موجود انرجی ، سیچوریٹیڈ فیٹ ، چینی ، سوڈیم لیول ، فائبر اور پروٹین کی مقدار کو دیکھ کر طے کئی گئی اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان میں پھل ، میوے اور سبزیوں کے اجزا کی مقدار کتنی ہے۔

جائزے کے دوران معلوم ہوا کہ سن دو ہزار پندرہ سے دو ہزار اٹھارہ تک کے عرصہ میں ان کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات کی تعداد 3471 سے کم ہو کر 3273 ہوگئی۔ جبکہ اصل سوال کا جواب یہ نکلا کہ صحت مند مصنوعات کی تعداد میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوا۔ مصنوعات کے صحت مند ہونے کے جو اصول وضع کیے گئے تھے۔

ان کے مطابق 2015ء میں 46 فیصد پراڈکٹس معیار پر پورا اتریں جب کہ 2018ء میں یہ شرح 48 فیصد ہوگئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ 2015ء کی نسبت 2018ء میں ان مصنوعات کی فروخت میں اضافہ ہوا جنھیں صحت مندی کی اچھی رینکنگ ملی۔2015ء میں یہ شرح 44 فیصد تھی جبکہ 2018ء میں51 فیصد ہوگئی۔

زیادہ فروخت ہونے والی مصنوعات میں بوتل بند پانی اور پھلوں کے جوسز شامل تھے اور ایسی مصنوعات بھی جن میں کیلوریز بہت کم یا بالکل بھی نہیں تھیں۔ اس جائزے کا مجموعی نتیجہ نکلا کہ برطانوی حکومت کی طرف سے تمام تر مہم کے باوجود کمپنیوں نے معیار کو بہتر بنانے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ مزید براں کمپنیوں نے ایسی مصنوعات کے معیار کو کم کردیا جن کی تشہیر کی گئی۔

نتیجتاً برطانوی حکومت نے صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے ایک قدم اٹھایا۔2018 میں ’ سافٹ ڈرنکس انڈسٹری لیوی‘ نے ایسے مشروبات پر زیادہ ٹیکس لگا دیا جن میں چینی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً جس مشروب کی 100ملی لیٹر مقدار میں آٹھ گرام چینی ہوگی تو اس پر 0.24 پونڈ ٹیکس دینا پڑے گا۔ اسی طرح جس مشروب کی 100 گرام مقدار میں پانچ سے آٹھ گرام تک چینی ہوگی تو اس پر 0.18  پونڈ ٹیکس عائد ہوگا۔ اگر 100ملی لیٹر میں پانچ گرام سے کم چینی ہوگی تو کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔

اگر کسی حکومت نے اپنی قوم کو صحت مند بنانا ہو، انھیں بیماریوں سے دور رکھنا ہو تو وہ اسی انداز میں فکر مند ہوتی ہے اور اسی قسم کے اقدامات کرتی ہے۔ اب اس رپورٹ کے تناظر میں ہم پاکستان کی صورت حال کو دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل یا مقامی فوڈ اور سافٹ ڈرنکس کمپنیوں کی مصنوعات کی صحت مندی کا جائزہ لینے کے لئے انفراسٹرکچر فعال ہے؟ کیا وہ مصنوعات میں مضر صحت اجزا کم کرنے کے لئے فکر مند ہے اور پالیسیاں بنا رہا ہے؟

بدقسمتی سے ان سوالوں کے جوابات ’ ہاں ‘میں نہیں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر پاکستانی قوم کو صحت مند بنانے کی فکر اور اقدامات کیوں نہیں ہوتے؟ سبب نااہلی ہے یا غفلت اور سستی ؟ یا پھر فوڈ اور ڈرنکس کمپنیاں معیار چیک کرنے والے ذمہ داروں کو خفیہ طور پر خوش کرکے خاموش کردیتی ہیں؟ آخر قوم کی صحت برباد کرنے والوں کو کیوں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے؟

ان سب سوالوں پر ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا۔ پاکستانی قوم صحت مند اور بیماریوں سے محفوظ ہوگی ، تب ہی پاکستان ایک خوشحال ریاست بن سکتا ہے ۔

The post فوڈ مینوفیکچررز مصنوعات کو صحت مند کیوں نہیں بناتے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>