’’چیخ ‘‘
بوجھ لفظوں کا سینے پہ رکھے ہوئے
دخ اندھیروں کا جھیلیں گے ہم کب تلک
کب تلک چپ کی وحشت سے دَم سادھنا
دھڑکنوں کا خجل زیر و بم کب تلک
یہ ستم کب تلک!
کب تلک ہم سہیں کج ادائی کا دکھ
ہجر کی بے محابا کمائی کا دکھ،
ادھ ادھورے خیالات کی خستہ پائی کا دکھ
نارسائی کا دکھ!
دوستا یہ گھٹن یہ خموشی ہمیں
دھیرے دھیرے اچاٹے گی کھا جائے گی
یہ شکستہ لبی خامشی کو زیادہ نہ سہہ پائے گی
اور ہمیں ڈھائے گی!
دوستا مار دے گی اذیت ہمیں،ہم اگر چپ رہے
تو فنا کی دشا میں دھکیلے گی وحشت ہمیں
توڑ ڈالے گی چپ کی مشقت ہمیں
حکم کر ہم یہ چپ توڑ دیں
موت کی سمت جاتی ہوئی سانس کے زاویے موڑ دیں
دے اجازت ہمیں!
تاکہ ہم بے نوائی کا ماتم کریں
چیخ کر، شور کر کے نسوں میں اترتے ہوئے
زہر کے غلغلے کو ذرا کم کریں
موت کی تابناکی کو مدہم کریں
اور ترا غم کریں!
دے اجازت ہمیں!
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
منفعت کا یہ سفر کارِ زیاں تک آ گیا
کوئے جاناں سے چلا تھا سوزِ جاں تک آ گیا
تھام لیتی ہے مجھے مشکل میں پرواز جنوں
جست بھر لی جو مکاں سے لامکاں تک آ گیا
گفتگو حور و ملائک میں مری ہونے لگی
یہ زمیں زادہ تھا کیسے آسماں تک آ گیا
وصل کا لمحہ جو آیا سلسلۂ شوق میں
میں سکوتِ برف سے سیلِ رواں تک آ گیا
اک تڑپ سجدے کی شفقت تھی جبین ِناز کو
سر مرا پھر تیرے سنگ ِآستاں تک آ گیا
(شفقت حسین۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
دشت ،دریا، کوہسارو ! تخلیہ
اے وفا کی رہگزارو !تخلیہ
سب چراغِ آرزو بجھنے کو ہیں
آخر ِ شب کے ستارو! تخلیہ
اب نہیں اس مانگ کو پھولوں کی چاہ
اب نہ یہ زلفیں سنوارو ،تخلیہ !
جب قرارِ بے قراری موت ہے
نہ مر اصدقہ اتارو، تخلیہ
مر رہی ہے ہر طرف ہی زندگی
اے صلیب و تختہ دارو، تخلیہ
ڈوبتے دیکھو مجھے اب دور سے
واپسی نہ اب پکارو ، تخلیہ
جب سفینے غرق سارے ہو گئے
کیا بچاؤ گے سہارو؟ تخلیہ
لڑ پڑا گرداب سے تنہا کوئی
کشتیو،لہرو، کنارو تخلیہ
آخری سانسیں ہیں یہ بیمار کی
لوٹ جاؤ غم گسارو ! تخلیہ
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کہیں ہنسی تو کہیں پر فسردگی میری
تباہ کرتے ہیں دونوں ہی پختگی میری
قریب ہے کہ ہواؤں کی نذر ہو جاؤں
مجھے بکھیر رہی ہے یہ خستگی میری
حضور آج مہک ہے تو کل نہیں ہو گی
حضور! پھول کے جیسی ہے زندگی میری
میں ایک شعر ترے لب پہ خوب جچتا ہوا
زمانہ یاد رکھے گا ادائیگی میری
وگرنہ مجھ کو سنورنے کا ڈھب نہیں آتا
تمھارا حسنِ بصیرت ہے عمدگی میری
(سبحان خالد۔ تلہ گنگ، چکوال)
۔۔۔
غزل
امیدوں کا قصر گرانا پڑتا ہے
عشق کریں تو جان سے جانا پڑتا ہے
آنکھوں میں دنیا داری کی رونق ہے
خود کو یہ احساس دلانا پڑتا ہے
وہ کرتا ہے روز کوئی وعدہ لیکن
اس کو کیا معلوم، نبھانا پڑتا ہے
روز طلب کرتا ہے مجھ سے جان مری
میں ناراض ہوں روز بتانا پڑتا ہے
تیرے میرے بیچ ہے دوری صدیوں کی
تیرے میرے بیچ زمانہ پڑتا ہے
تجھ سے بچھڑی ہوں تو مجھ پہ راز کھلا
ہجر میںکیا کیا درد کمانا پڑتا ہے
یاد کے جگنو ہاتھ میں لانے کی خاطر
ہجرت کا ماحول بنانا پڑتا ہے
کوئی ہما ؔاس گھر کا رستہ بھول گیا
اب بس یاد سے دل بہلانا پڑتا ہے
(سیدہ ہما طاہر۔ کراچی )
۔۔۔
غزل
گہے چراغ ،گہے آئینہ بدلنے لگی
ہر ایک چیز وہ اپنے سوا بدلنے لگی
ہماری خاک پہ وحشت نے خوب رقص کیا
تمھارے بعد کچھ ایسے فضا بدلنے لگی
ہدف کو کیسے پہنچتے کہ ہم وہ تیر تھے جو
کماں سے نکلے تو پہلو ہوا بدلنے لگی
اور اب کی بار چمن میں بہار کیا اتری
کہ بات بات پہ تیور صبا بدلنے لگی
تمام شہر پہ چھائی ہوئی تھی خاموشی
پھر ایک چیخ اٹھی اور فضا بدلنے لگی
سفر کا فیصلہ ہم نے خدا پہ چھوڑ دیا
ہماری کشتیوں کا رخ ہوا بدلنے لگی
یہ کس پری نے پڑاؤ کیا مرے دل میں
کہ اندرون کی آب و ہوا بدلنے لگی
(ذیشان مرتضیٰ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
کوئی مہتاب نہیں، کوئی ستارا بھی نہیں
اے خدا! بحرِ محبت کا کنارا بھی نہیں
ہاں وہی شخص کہ تھا لفظ جدائی سے خفا
دم ِرخصت مجھے ظالم نے پکارا بھی نہیں
کیا سکھائے گا وہ آدابِ محبت مجھ کو
راہِ الفت میں جسے رنج گوارا بھی نہیں
شبِ ہجراں میں لیے بیٹھی ہوں اشکوں کے چراغ
کیا کروں اِس کے سوا تو کوئی چارہ بھی نہیں
اس کی پُرشوق نگاہوں سے سجا کرتی تھی
وہ گیا ہے تو کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں
غمِ دوراں نے شفق ؔظلم کیا ہے ایسا
بے بسی میں غم ِجاناں کا سہارا بھی نہیں
(نیر رانی شفق۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
شیشے جیسے عکس کو اوڑھا جا سکتا ہے
دل تو پتھر کا بھی توڑا جا سکتا ہے
رستہ تکتے تکتے پتھر ہو جاتی ہیں
ورنہ ان آنکھوں کو پھوڑا جا سکتا ہے
ہیں کس کام کے دولت، شہرت، رشتے ناتے
ساتھ میں کوئی لے کر تھوڑا جا سکتا ہے
اب بھی میرے کپڑوں میں ہے خوشبو اس کی
ہجر سے اب بھی وصل نچوڑا جا سکتا ہے
جانے والی گاڑی پکڑی جا سکتی ہے
زخمی پیروں سے بھی دوڑا جا سکتا ہے
عشق نگر ہے اجڑے دل والوں کی بستی
قیس تو کر کے سینہ چوڑا جا سکتا ہے
(ضمیر قیس ۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
تُو نہیں ہے تو کوئی بات نہیں
آج کل میں بھی اپنے ساتھ نہیں
جب وہ روٹھا تھا میں نے جاتے وقت
پاؤں پکڑے تھے اس کے ہاتھ نہیں
کھارا پانی ہے میٹھی آنکھوں میں
واقعہ ہے یہ واردات نہیں
جب سے بچھڑا ہے تب سے میرے تو
دن بھی کالے ہیں صرف رات نہیں
اس کی آنکھیں خیال دیتی ہیں
غزلیں ہونی ہیں،فردیات نہیں
چاہتا کون ہے وہ بات کرے
دیکھ لیتا ہے تھوڑی بات نہیں
میں مزاجاََ بگڑ گیا کاتبؔ
اب طبعیت میں کچھ ثَبات نہیں
(سجاد کاتب۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
تُو نہیں جانتا! لیکن یہ جہاں جانتا ہے
دردمندوں کی اذیت تُو کہاں جانتا ہے
جاننے والے تو محشر کی خبر رکھتے ہیں
تُو فقط اتنا بتا، اردو زباں جانتا ہے؟
بس اسی آس پہ مرنے کو غنیمت جانا
کہ کوئی ہے جو ہمیں یار وہاں جانتا ہے
زندگی کیا ہے مرے یار قفس والوں کی
نہ مکیں جانتے ہیں اور نہ مکاں جانتا ہے
تیرے آتے ہی چلی آتی ہے خلقت ساری
ہر کوئی جو ترے قدموں کے نشاں جانتا ہے
پوچھنے والے نے پوچھا تھا مرے بارے میں
پہلے چپ چاپ رہا پھر کہا ہاں جانتا ہے
(رمضان نجمی ۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
اک مسافر نے لگائی تھی صدا، پانی ہے!
ریت چمکی تو اسے بھی یہ لگا پانی ہے
اس پہ فتوے بھی لگائیں اسے پروا بھی نہیں
ایک پیاسے نے کہا میرا خدا پانی ہے
اتنے پتھر بھی نہ ڈالو کہ تمہیں کچھ نہ ملے
پہلے مٹکے میں بھی دیکھو نا ذرا پانی ہے
جتنے جنگجو تھے، بہادر تھے، سبھی رونے لگے
پیاسے اصغر نے فقط اتنا کہا! پانی ہے
ڈوبنے والوں پہ جو نظم کہی تھی میں نے
اس کا عنوان مجھے رکھنا پڑا پانی ہے
بچ کے نکلی وہ پری زاد تو بولی سب سے
اس کی آنکھوں سے بچو اِن میں بڑا پانی ہے
(مصور عباس۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.