وائٹ ہاؤس کے مکین صدر بائیڈن نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ 31 اگست کو افغانستان سے غیر ملکی افواج نکل جائیں گی۔ ساتھ ہی امریکی صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ اب افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری وہاں کی مسلح افواج پر ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان ’ دوحہ معاہدے‘ کے بعد ، ستمبر 2020 ء سے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں بات چیت جاری ہے لیکن ابھی تک فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔
طالبان نے دو ماہ قبل افغانستان حکومت کی اس اکیس رکنی کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں شامل ارکان اس قد کاٹھ کے نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے یا اگر ان کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا جائے تو وہ پھر اس معاہدے پرعملدرآمد کے لئے افغانستان کی حکومت کو مجبور کر سکیں ۔
افغانستان حکومت کی اکیس رکنی کمیٹی پر عدم اعتماد کے بعد طالبان ہی کے مطالبے پر افغانستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں ایک وفد بات چیت کے لئے طالبان کے پاس دوحہ بھیجا تھا لیکن فریقین کے درمیان کسی معاہدے پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اب چونکہ بیرونی افواج کے انخلا میں چند ہفتے ہی باقی ہیں لیکن ابھی تک ’ دوحہ معاہدے ‘ کے مطابق بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کئے جا سکے اس لئے دوحہ میں بڑوں کی بڑی بیٹھک شروع ہوگئی ہے۔
امریکا ، چین ، روس ، برطانیہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک اس میں شریک ہیں لیکن حالات دیکھ کر معلوم ایسے ہو رہا ہے کہ کوئی بڑی پیش رفت ممکن نہیں ۔ اگر ان چند ہفتوں میں کوئی بڑی پیش رفت ہوگئی تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگا ۔
اس وقت افغانستان کی صورت حال نے پوری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ افغان عوام خود سوال کر رہے ہیں کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو سکے گا یا نہیں ؟ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اور طالبان اپنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا موقف ہے کہ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے، وہ ملک کے منتخب صدر ہیں، اس لئے طالبان ان کی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔ اس کے بر عکس طالبان کا موقف ہے کہ 2001ء میں ان کی اسلامی امارت کو غیر قانونی طریقے سے ختم کیا گیا ۔ اس لئے انھیں اسلامی امارت دوبارہ قائم کرنے دی جائے۔
اگر افغانستان کی حکومت اور طالبان کسی معاہدے پر متفق نہ ہوئے تو پھر ایک اور جنگ اس خطے کا مقدر ہوگی۔ اگر افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوگئی تو یہ امریکہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہوگا۔ کیونکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات میں امریکا نے افغانستان کی حکومت کو یکسر نظر انداز کیا تھا۔
معاہدہ کرتے وقت بھی امریکی حکام نے افغانستان کے لئے فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے کوئی سیاسی نظام تجویز نہیںکیا تھا۔ اگر دوحہ معاہدے کے ساتھ ہی امریکا افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان ریاست کو چلانے کا کوئی معاہدہ کرتے تو پھر آج صورتحال مختلف ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے پیش قدمی شروع کر دی ۔ ان کی کوشش ہے کہ افغانستان حکومت کو معاشی طور پر اتنا کمزور کر دیں کہ وہ چل ہی نہ سکے۔
اس مقصد کے لئے انھوں نے سب سے پہلے ان صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ، جہاں سے تجارت ہو رہی ہے۔ افغانستان کے صوبہ بدخشان پر طالبان نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ واخان کوریڈور کے ساتھ متصل ہے جو ایک تجارتی راستہ ہے ۔ یہاں اب جو بھی تجارت ہو رہی ہے وہ طالبان کی آمدن میں اضافہ کا ذریعہ بن رہی ہے۔ قندھار پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ قندھار دوحوالوں سے اہم ہے۔
ایک یہ کہ یہاں سے پوری دنیا کے ساتھ تجارت ہو رہی ہے۔ کسٹم کے دفاتر پر طالبان قابض ہیں ۔ ٹیکس وہی وصول کرتے ہیں جس سے طالبان معاشی طور پر مضبوط جبکہ افغانستان کی حکومت کمزور ہو رہی ہے۔ دوسرا قندھار طالبان کے لئے اس لئے اہم ہے کہ وہ اس شہر کو اسلامی امارات کا دارالخلافہ بنانا چاہتے ہیں۔
طالبان کی منصوبہ بندی یہ ہے وہ قندھار کو اپنا مرکز بنائیں گے۔ یہاں سے ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے متوازی حکومت قائم کریں گے ۔ پورے افغانستان پر قابض ہو نے کے بعد دارالحکومت کابل پر قبضہ کریں گے۔ اس وقت طالبان نے ان دونوں صوبوں پر قبضہ کیا ہے جہاں سے دنیا کے ساتھ تجارت ہو رہی ہے۔
طالبان کا اگلا ہدف صوبہ ننگرہار پر قبضہ کرنا ہے۔ طورخم بارڈر افغانستان اور دنیا کے درمیان ایک بڑی تجارتی شاہراہ ہے۔ اگر ننگرہار پر طالبان قابض ہو گئے تو اشرف غنی حکومت معاشی طور پر اتنی کمزور ہو جائے گی کہ اس کے لئے صدارتی محل کو چلانا ممکن نہیں رہے گا ، پارلیمنٹ کے اخراجات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔
مسلح افواج اور دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سرکاری ملازمین حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں گے جبکہ مسلح افواج کے اہلکار تنخواہیں نہ ملنے پر طالبان کے خلاف لڑنے سے انکاری ہو جائیں گے۔
طالبان اس وقت افغانستان پر قبضہ کرنے کے لئے پوری طرح منصوبہ بندی کر چکے ہیں ۔ وہ ہرگز کسی ایسے نظام کا حصہ نہیں بنیں گے کہ جس میں ان کا حصہ ان کی توقعات کے مطابق نہ ہو مگر بد قسمتی یہ ہے کہ دوسرا فریق افغانستان کی حکومت یعنی ڈاکٹر اشرف غنی اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی بھی منصوبہ بندی نہیں کر ر ہے ہیں۔ وہ اب بھی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں ۔ وہ اب بھی بھارت کی زبان بول رہے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے اور طالبان کو پسپا کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی کرتے لیکن وہ صرف پاکستان پر الزامات لگانے میں ہی مصروف ہیں ۔ ان کی حکومت میں شامل لوگ بھی طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے منصوبہ بندی کرنے کے بجائے اسلام آباد پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں ۔
اس کے برعکس طالبان کسی پر الزام تراشی کرنے یا کسی دوسرے کے ساتھ الجھنے کے بجائے افغانستان پر قابض ہونے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔ ترکی نے جب کابل ائیر پورٹ کی سیکیورٹی سنبھالنے کی خواہش ظاہر کی تو طالبان نے اس کی مخالفت میں ایک بیان جاری کیا ۔ انھوں نے ترکی کے ساتھ الجھنے سے گریز کیا ۔ بھارت کے طیاروں نے ان پر بمباری کی لیکن طالبان نے اس کے ساتھ بھی الجھنے کی بجائے ایک مذمتی بیان جاری کرکے معاملہ ختم کر دیا ۔ اس لئے کہ اس وقت وہ اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ افغانستان پر کسی طرح سے قابض ہوا جا سکے ۔
طالبان کے برعکس امریکا اور افغانستان کی حکومتیں جن کی بنیادی ذمہ داری افغانستان کا دفاع کرنا ہے وہ افغانستان کا دفاع کرنے کے بجائے اس منصوبہ بندی میں مصروف ہیں کہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ سارے کا سارا پاکستان پر ڈال دیں۔ امریکہ عالمی رسوائی سے بچنے کے لئے اپنی ناکامی کا ملبہ اسلام آباد پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ صدر اشرف غنی کو یہ خوش فہمی ہے کہ امریکا ہی ان کے اقتدار کو بچا سکتا ہے اس لئے اقتدار بچانے کے لئے منصوبہ بندی کے بجائے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کو ہی اپنے اقتدار کی ضمانت سمجھتے ہیں ۔
امریکہ قصداً انخلا کے بعد اس خطے کو جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ چین ، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے منصوبے کو کسی طرح روکا جا سکے۔ بھارت بھی اس منصوبے میں امریکا کا پشتی بان ہے جبکہ اشرف غنی دوبرسوں کا اقتدار بچانے کی خاطر اس منصوبے میں امریکا اور بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔
اس وقت افغانستان کی صورتحال خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ جن صوبوں پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے وہاں جیلوں میں قید تمام قیدیوں کو آزاد کردیا گیا ہے ۔ آزاد ہونے والوں میں خطرناک مجرم بھی شامل ہیں۔ القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے خطرناک قیدی بھی رہا ہو چکے ہیں ۔
اگر افغانستان کی حکومت اور طالبان کسی متفقہ نظام پر متفق نہ ہوئے تو ماضی کے یہ انتہا پسند افغانستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان پر الزامات لگانے کے بجائے طالبان سے مذاکرات پر توجہ دینا ہوگی تاکہ اس خطے کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے ۔ اگر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کی ٹیم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر اس خطہ کو شدید انسانی المیے کا شکار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
امریکا 20 برسوں تک اس خطے میں رہا لیکن وہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا۔ اب بھی اس کی کوشش یہی ہے کہ اس خطے میں خون اور آگ کی ہولی اسی طرح جاری رہے لیکن یہ اب افغانستان کی حکومت اور طالبان پر منحصر ہے کہ وہ اس منصوبے کو ناکام بناتے ہیں یا ان کے آلہ کار بن کر یہاں کے انسانوں کو ایک اور آزمائش میں ڈالتے ہیں ۔
حالات کے جو تیور ہیں وہ یہی بتا رہے ہیں کہ ہنوز دلی دور است ۔ لیکن اس تمام صورت حال میں پاکستان کو وہ قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی جو اس پر واجب بھی نہیں۔ افغانستان میں اگر خانہ جنگی شروع ہوئی یا حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا، دونوں صورتوں میں پاکستان براہ راست متاثر ہوگا ۔ دونوں صورتوں میں پاکستان کو حالات پر گہری نگاہ رکھ کر منصوبہ بندی کرنا ہوگی ورنہ نتائج بدتر ہو سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کے مسئلے کے جتنے بھی فریقین ہیں وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔
The post افغانستان؛ طالبان کی حکمت عملی کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.