غزل
اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے
سرد موسم تھا ترے شہر کے ہوٹل پہ اسدؔ
بے سہاروں کی طرح رات گزاری میں نے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ایسے موسم میں یوں افسردہ نہیں بیٹھتے ہیں
چائے پیتے ہیں چلو چل کے کہیں بیٹھتے ہیں
اپنا معیار زمانے سے الگ ہے کہ ہمیں
پیار ملتا ہے جہاں جا کے وہیں بیٹھتے ہیں
آج کچھ وقت ہے اور وقت امر کرنے کو
کسی درویش کے حُجرے میں کہیں بیٹھتے ہیں
لا کے قدموں میں ستارے نہ بچھا، رہنے دے
ہم تو بیٹھیں گے جہاں خاک نشیں بیٹھتے ہیں
جانے اِس میز سے کیسی انہیں نسبت ہے کہ وہ
جب کبھی آتے ہیں کیفے میں یہیں بیٹھتے ہیں
چاہے جتنا بھی اندھیرا ہو مجھے خوف نہیں
میری محفل میں کئی زہرہ جبیں بیٹھتے ہیں
اب درختوں پہ پرندے ہوں کہ مُوڑھوں پہ بزرگ
شام کے وقت اکیلے تو نہیں بیٹھتے ہیں
(اسد رحمان۔ پپلاں)
۔۔۔
غزل
ہجر زادوں کو بھی خوشحال بنا دیتی ہے
سرخیٔ شام ترے گال بنا دیتی ہے
بیٹھ جاتے ہیں ملنگ اپنی کہانی لے کر
بھوک درگاہوںکو چوپال بنا دیتی ہے
اس لیے تم کو پریشان نہیں لگتا ہوں
ماں کی عادت ہے مرے بال بنا دیتی ہے
جانے والے ابھی اوجھل نہیں ہونے پاتے
دھول وحشت کے خد و خال بنا دیتی ہے
کوچۂ عشق تری خاک کے کیا کہنے ہیں
سر میں پڑتی ہے تو ابدال بنا دیتی ہے
ہم وہ احساس کے مارے ہوئے حاتم، ساجدؔ
اک سخاوت جنہیں کنگال بنا دیتی ہے
(لطیف ساجد۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
کس واسطے وفا سے گریزاں ہے آج بھی
یہ روگ عمر بھر کا فروزاں ہے آج بھی
محفل میں گرچہ اور بھی ہیں حسن والے لوگ
لیکن مرا نگار نمایاں ہے آج بھی
تعبیر ہو گی کس طرح دیرینہ خواب کی
تکمیل کی تلاش میں ارماں ہے آج بھی
عمرِ رواں نے فرق تو چہرے پہ ڈالا ہے
لیکن وہ اس کی چشمِ غزالاں ہے آج بھی
اب وہ کہاں ہے صحبتِ احبابِ مخلصاں
کہنے کو ایک حلقۂ یاراں ہے آج بھی
ساجد ؔتم اُس کی راہ کو بس دیکھتے رہو
اور اُس کے بھول جانے کا امکاں ہے آج بھی
(شیخ محمد ساجد۔لاہور)
۔۔۔
غزل
خوں پسینہ ہوا ہاتھ چھالے ہوئے
پر نہ محرومیوں کے ازالے ہوئے
چند ٹکڑے جگر کے سنبھالے ہوئے
اے شبِ ہجر تیرے حوالے ہوئے
تیرے در سے اٹھائے گئے تو کھلا
ہم تھے جنت سے پہلے نکالے ہوئے
ہاتھ دیکھا مرا تب سے خاموش ہے
جوتشی سر گریباں میں ڈالے ہوئے
خون ہم نے دیا پر تری بزم میں
سرخرو چوریاں کھانے والے ہوئے
چل چراغِ شبِ ہجر ہی سے سہی
جھونپڑی میں مری بھی اجالے ہوئے
زور ہم کیا دکھائیں کہ شہزاد جی
سب مقابل ہیں ہاتھوں کے پالے ہوئے
(شہزاد احمد کھرل۔جلالپور جٹاں)
۔۔۔
غزل
خواہش و خواب نگر سے مجھے کیا لینا ہے
ایک بے فیض سفر سے مجھے کیا لینا ہے
اوڑھ کر دشت میں سو لیتا ہوں وحشت اپنی
ایک اجڑے ہو ئے گھر سے مجھے کیا لینا ہے
میں ابھی ہوش میں آیا ہی کہاں ہوں لوگو
کسی مدہوش نظر سے مجھے کیا لینا ہے
اور لاکھوں ہیں ثمردار میسر مجھ کو
ایک ممنوعہ شجر سے مجھے کیا لینا ہے
میں زمیں زاد یہی خاک ہے مسکن میرا
چاند تاروں کے نگر سے مجھے کیا لینا ہے
مانگتا ہوں میں کسی اور ہی در سے زاہدؔ
ایک مفلوک کے در سے مجھے کیا لینا ہے
(حکیم زاہد محبوب۔منڈی بہائُ الدین)
۔۔۔
غزل
کہ جن پہ کرتے رہے غور کتنے راستے ہیں
تمہارے پاس ابھی اور کتنے راستے ہیں
زمانوں بعد کی باتیں فسانہ لگتی ہے
ہمیں بتاؤ کہ فی الفور کتنے راستے ہیں
قریب آ کے وہ معصومیت سے پوچھتا ہے
جو لے کے جاتے ہیں لاہور کتنے راستے ہیں
جو آپ کہتے ہیں اس راہ پر نہیں چلنا
بغیر ظلم، ستم، جور کتنے راستے ہیں
امیرِ شہر بتا کیا ہوئے ترے وعدے
دکھائیں ہم کو نیا دور کتنے راستے ہیں
(عنبرین خان ۔لاہور)
۔۔۔
غزل
میں سمجھا نہیں تھا کبھی یار کا دکھ
نہ پوچھا سمندر سے اس پار کا دکھ
نہیں جانتے امن میں میرے دشمن
مری زنگ آلو د تلوار کا دکھ
یہ کندھے جھکے جا رہے ہیں گلی میں
اٹھائے ہوئے گھر کے انبار کا دکھ
یہ دنیا ہماری ہے لیکن کریں کیا
لیے پھرتے ہیں اس کے انکار کا دکھ
یونہی کٹ رہی ہے خرابے میں اپنی
یوںہی پال رکھا ہے بیکار کا دکھ
کوئی جان سکتا نہیں ہے یہاں پر
کسی ہجر کے مارے بیمار کا دکھ
مجھے روکتی ہے یہ پاؤں کی بیڑی
مرا مسئلہ تو ہے رفتار کا دکھ
(امتیاز علی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
نگاہوں کی حکایت کون سمجھے کون جانے
پسِ پردہ محبت کون سمجھے کون جانے
تمھارے نام کی نسبت سے شہرت یہ ملی ہے
ہماری تم سے نسبت کون سمجھے کون جانے
تمھاری یہ ادائیں ہم نشیں ہم جانتے ہیں
تمھاری یہ نزاکت کون سمجھے کون جانے
نظر آتی ہے چہرے پر تو رعنائی بظاہر
مگر اندر کی وحشت کون سمجھے کون جانے
قیامت کیا ہے ،کیسی ہے کبھی راحلؔ سے پوچھو
جدائی ہے قیامت کون سمجھے کون جانے
(علی راحل ۔ بورے والا)
۔۔۔
غزل
بدن کی قید سے نکلیں گے مل کے روئیں گے
ہم اپنے اپنے مقدر پہ کھل کے روئیں گے
ہمارے رونے کو کچھ اور ہی نہ سمجھیں لوگ
مزید جو بھی ہے کمرے میں چل کے روئیں گے
ہمیں تو لوگوں کی باتوں سے خوف آتا ہے
ہم اگلی بار ذرا سا سنبھل کے روئیں گے
یہ اپنے سینے میں پتھر سا دل ہی رکھتے ہیں
عجیب لوگ ہیں کلیاں مسل کے روئیں گے
ہم اپنے ماضی کو ایسے خراج بخشیں گے
ہم اپنے ماضی سے آگے نکل کے روئیں گے
ہمارے چہروں سے لگنا نہیں کہ روئے ہیں
چلو کہ ہم وہاں چہرہ بدل کے روئیں گے
(محمد احمد لنگاہ۔عارف والا، پنجاب)
۔۔۔
غزل
شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں، خیبر پختونخوا)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.