زباں فہمی 105
اردو زبان کی وسعت، ہمہ گیری اور مماثل الفاظ یا ایک ہی ہجے پر مبنی بظاہر مماثل، بباطن (یعنی معانی اور استعمال میں) مختلف الفاظ کے ذخیرے کے متعلق شاید کوئی ایک مبسوط کتاب اب تک تحریر نہیں کی گئی۔ یہ اور بات کہ اس موضوع پر جابجا نگارشات نظر آتی ہیں، مگر پھر بھی ایسی کسی کتاب کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔
زباں فہمی کالم نمبر101 ’’رنگ باتیں کریں‘‘ مؤرخہ تیرہ جون سن دوہزار اکیس میں خاکسار نے کچھ رنگوں کے متعلق گفتگو کی، جو بوجوہ ادھوری رہی۔ عالمی زبانوں میں بہت کم کوئی ایسی مثال ملے گی کہ کسی زبان میں ایک ہی ہجے سے لکھے جانے والے متعدد الفاظ، مفاہیم کے لحاظ سے، یکسر جُدا اور مختلف ہوں۔
سیاہ، شیاہ، کالا، کارا اور قرہ یہ ایک ہی رنگ کے مختلف نام ہیں۔ خاکسار کے کالم مذکور کے علاوہ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات میں بیان کردہ تفصیل بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔ ہم فی الحال یہ کہیں گے کہ اسی رنگ سے جُڑے ہوئے تین الفاظ، نیز اِس سے مماثل دیگر الفاظ بھی ہماری بول چال کا حسین اور دل چسپ حصہ ہیں۔ کاف لام اور واؤ ملائیں تو یہ الفاظ معرضِ وجود میں آتے ہیں: کَلّو،کَلّوُ، کُلُو (اور اس سے جڑا ہوا کالا کُلُو)۔ سب سے پہلے کَلّو کی بات کرتے ہیں۔ یہ لفظ بطور اِسم مؤنث (واؤمجہول کے ساتھ) مستعمل ہے اور اس کا استعمال کسی سیاہ فام لڑکی یا عورت کے لیے طنزاً، تحقیراً کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں تو کسی ایسی لڑکی یا عورت کی مزید تضحیک یا تحقیر کے لیے ’’کلّو پری‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جدید دور میں مغرب نے جہاں دیگر اُمور میں ہمارے سماجی رجحانات تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں اس ضمن میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ یورپ اور امریکا میں سیاہ فام عورتوں کے جسمانی خُطوط (کی پیمائش) کی بناء پردل کش قرار دینے کے لیے، مقابلہ ہائے حسن منعقد ہوتے ہیں۔
پاکستان کے مغرب زدہ طبقے نے آزادی نسواں اور نام نہاد روشن خیالی کے منفی پرچار میں شامل ہوتے ہوئے، اپنے وطن کی بیٹیوں کے مابین مقابلہ ہائے حسن منعقد کرنا شروع کردیے ہیں، (اندرون ملک کم کم، بیرونِ ملک زیادہ)، مگر ابھی تک کسی سیاہ فام لڑکی کا نمبر نہیں آیا، ورنہ ’’کلّو پری‘‘ کا لقب شاید وہاں موزوں اور مستحسن سمجھا جاتا۔ بہ امر مجبوری اپنی نئی نسل کی تفہیم کے لیے راقم یہاں رومن رسم الخط میں بھی ہجے درج کررہا ہے: Kal’lo۔ پھر دوسرا لفظ ہے کَلّو، [Kal’lu] یہ ماقبل بیان کی گئی مثال کا مذکر ہے۔
یہ لفظ بھی کسی سیاہ فام شخص کے لیے تحقیراً استعمال ہوتا ہے، مگر بعض لوگوں کی عرفیت بھی ہوتی ہے، جیسے میرتقی میرؔ کے چھوٹے بیٹے میرحسن عسکری، میرکلّو مشہور تھے۔ ان کا تخلص عرشؔ مشہور ہوا، ویسے وہ زارؔلکھنوی بھی لکھتے تھے۔
اُن کا یہ مصرع ضرب المثل ہے: ع ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے۔ پورا شعر یوں ہے : ؎ دنیا میں فکریاں ہے، عدم میں عذاب ہے+ہر طرح سے غریب کی مٹی خراب ہے۔ وہ اپنے حالات کی وجہ سے بہت کم رسمی تعلیم حاصل کرسکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ باپ سے زیادہ بدصورت اور بددماغ تھے۔ شاعر تو پیدائشی تھے، اصلاح کے لیے امام بخش ناسخؔ سے رجوع کرتے تھے۔ یہ بھی بیان ہوا کہ پہلے پہل اپنے والد کے شاگرد ہوئے، پھر خواجہ میردردؔ سے اصلاح لی اور مابعد سوداؔ سے استفادہ کرتے ہوئے ان تینوں اساتذہ فن کی پیروی کی۔
میرکلّو عرشؔ کا مزاج واقعی عرش پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا تھا کہ مشاعرے میں کسی قسم کی تقدیم وتاخیر کی پروا کیے بغیر، جب چاہتے، شامل ہوتے، اپنا حقّہ (لازماً) ہمراہ لے کر، اپنا کلام سناتے اور جب چاہتے، محفل مشاعرہ سے رخصت ہوجاتے تھے۔ (ویسے ہم نے اپنے دور میں اپنے کئی بزرگ معاصرین کو یہی حرکت کرتے ہوئے دیکھا کہ کسی بہانے، تقدیم وتاخیر کی روایت شکنی کرتے ہوئے، اپنی مرضی سے آئے، کلام سنایا اور چل دیے۔
ہمارے ایک بزرگ معاصر نے اردو کی ایک نہایت معروف شاعرہ کا آنکھوں دیکھا قصہ سنایا کہ کیسے ایک مشاعرے میں اپنی مصروفیت کا عُذر پیش کرتے ہوئے، جلد کلام پیش کرکے رخصت ہوئیں اور پھر جب یہ بزرگ مع چند دیگر شعراء، رات گئے، مشاعرے کے اختتام کے بعد، کسی ہوٹل میں یک جا ہوئے تو اُنھیں………….کے ہمراہ وہاں پایا۔ اب وہ شاعرہ اور اُن کے ہمراہی مقبول شاعر دونوں ہی اس جہان میں نہیں تو نامناسب ہے کہ احوال واقعی کے بیان سے گناہوں میں اضافہ کیا جائے)۔ میرکلّو عرش ؔکا ایک اور شعر ملاحظہ کیجئے: ؎ زلف کے سوز میں روتا ہوں میں جُوں ابرِبہار+روزِروشن میرا ساون کی اندھیری شب ہے۔ اُن کا انتقال ۱۸۶۷ء میں ہوا اور اُن کے شاگرد شیخ محمد جان شادؔ (پیروئے میرؔ) نے ان کا دیوان مطبع کارنامہ، لکھنو ٔ سے ۱۸۸۵ء میں شایع کرایا جو انجمن ترقی اردوہند کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔
میرؔ صاحب کے بڑے بیٹے فیض علی فیضؔ بھی شاعر تھے۔ (اردو اَدب کی مختصر ترین تاریخ از ڈاکٹر سلیم اختر و اردو کے اُمّی شعراء از شاہ عزیز الکلام)۔}یہاں ایک ضمنی، مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ سال سے فیس بک پر ایک شعر مع حکایت زیرِگردش ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میر تقی میرؔ نے اپنی اکلوتی بیٹی کی رخصتی یا وفات پر یوں حالِ دل رقم کیا۔ میرے ناقص مطالعے میں ابھی تک کسی مستند ماخذ سے اس بیان کی تصدیق نہیں ہوئی، اگر قارئین کرام میرؔ کی کسی ایسی بیٹی کے وجود سے آگاہ ہوں تو بحوالہ مطلع فرمائیں۔
بات کی بات ہے کہ لفظ کَلّو کی تصغیر (بول چال میں) کلوا (کل وا) بھی مستعمل ہے۔ ویسے ہمارے یہاں بھی کسی کو تسلّی دینی ہو، محض بات رفع دفع کرنی ہو یا بہ اندازِدِگر، تضحیک مقصود ہو تو کہہ دیتے ہیں: بھئی دیکھو ! کالا رنگ تو بہت مقدس ہے۔ کالا، کالو، کالُو، کلّو، کلُّو کے بعد فہرست دیکھیں تو لغات میں کلوٹا اور کلوٹی (نیز کلونٹا، کلونٹی، بعض اہل زبان کے مقامی لہجے کے مطابق) بھی موجود ہیں اور اَب ان کا استعمال کم کم دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔
اس کے بعد ایک اور لفظ یاد آتا ہے، کَلّن۔ یہ لفظ بھی کالا، کالُو، کلّو اور کلُّو کے خاندان کا ہے۔ کسی شخص کو بہت زیادہ کالا ہونے کی وجہ سے یہ عرف ملتا ہے۔ اگلے وقتوں میں تو بعض حضرات اپنے محلے، علاقے یا شہر میں، میرزا کلّن ، کلّن میاں اور کلّن صاحب کی عرفیت سے جانے جاتے تھے، پھر یہ نام تقریباً ختم ہوچلا تھا کہ ہمارے دور میں ایک رُسوائے زمانہ شخص کو اُسی کے پرانے ساتھیوں اور منحرف پیروکاروں نے یہ نام دیا اور کیا خوب دیا۔
آگے بڑھیں تو ایک ہندی الاصل لفظ ملتا ہے کلونس۔ ہرچند کہ یہ لفظ اِن دنوں سننے میں نہیں آتا، مگر بہرحال متروک نہیں۔ یہ لفظ ہندی الاصل ہے اور اس کا مطلب ہے ’سیاہی‘۔ بعض لوگ اسے کالونس بھی بولتے ہیں۔ اردولغت بورڈ کی مختصراردولغت (جلد دوم) کے بیان کی رو سے کلونس کے معانی یہ ہیں:۱۔ کالک، سیاہی ۲۔ (مجازاً) کلنک (یعنی داغ، دھبا)، داغ، رسوائی، بدنامی۔ نوراللغات (جلد دوم) میں معانی یوں بیان کیے گئے ہیں: ۱۔(ہ۔نون غُنّہ) مؤنث۔ (ہندو) سیاہی، کاجل۔۲۔ (کنایتاً) الزام، بدنامی، کلونس کا ٹِیکا، کلنک کا ٹیِکا، کلونس لگانا (ہندو) عیب لگانا، رُوسیاہ کرنا۔ آن لائن لغات میں کچھ بہتر کام اس لغت میں نظر آتا ہے:www.urduinc.com۔ یہاں کلونس کے مندرجہ ذیل مترادفات نقل کیے گئے ہیں:
کلنک، کاجل، ٹیکا، عیب، سیاہی، رسوائی، دھبا، داغ، بدنامی، الزام۔ ایک اور آن لائن لغت ہے:www.urduseek.com۔ اس میں کلونس کے یہ معانی بیان کیے گئے ہیں: کالس، کالک، کالاپن، سیاہی، تاریکی۔ (یہاں ضمناً عرض کروں کہ لفظ کالَس، نوراللغات میں موجود نہیں، یہ غالباً کسی خاص علاقے یا شہر کی چالو عوامی بولی یعنی Slang کا نمونہ ہے)۔ برسبیل تذکرہ ایک لفظ ’’کجری‘‘ بھی ذہن میں دَر آیا ہے۔ اس ہندی الاصل لفظ کے معانی ملاحظہ فرمائیں۔
آن لائن لغت ریختہ ڈکشنری میں نقل کیا گیا ہے: ایک زنانہ کھیل جو برسات کے موسم میں شام کے وقت کھیلا جاتا ہے، مرزاپور کے خاص قسم کے گیت جو عموماً برسات میں گائے جاتے ہیں، ایک قسم کا دھان جو ہلکا کالا ہوتا ہے، کالک کا دھبّا، سیاہ دھبّا، کلونس، کالی۔ راقم کی جستجو سے معلوم ہوا کہ مرزا پور کے یہ گیت، ہولی کے موقع پر گائے جاتے ہیں۔ یہ انکشاف کیا، نوراللغات کے فاضل مرتب نے۔
گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہیں۔ کاف، لام اور واؤ پر مشتمل، ایک یکسر مختلف موضوع سے متعلق لفظ ملاحظہ کیجئے: کُلُو[Kuloo]۔ یہ پاکستانی سیب کی ایک رس بھری قسم ہے جس کا رنگ سنہری پیلا ہوتا ہے (جسے بجا طور پر Goldenکہنا چاہیے، مگر گولڈن گلابی رنگ کا ہوتا ہے)، اور یہ محض اتفاق ہے کہ اس کے مخصوص ذائقے کو ہمارے گھر میں پذیرائی ملتی ہے نہ شہر میں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی ٹھیلے والا اگر محض کُلُو سیب (تنہا) بیچنے نکلتا ہے تو اُسے دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس بارے میں تو کوئی ماہرِاثمار ہی بتا سکتا ہے، مگر میری ناقص رائے میں شاید یہ وجہ ہو کہ گولڈن اور مماثل گلابی سیبوں کی نسبت اس کا ذائقہ مختلف ہے، اکثر یہی گمان ہوتا ہے کہ اس میں کسی نے ٹِیکا[Injection] لگاکر ذائقہ بدلا ہے۔
ممکن ہے یہ ہمارے اہل خانہ ہی کی رائے ہو اور دیگر لوگ اس سے اتفاق نہ کریں، مگر خاکسار نے جب کبھی کسی سے اس بے چارے سیب کا پوچھا، اکثر یہی جواب ملا کہ عجیب Injection والا ذائقہ ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو ہمیں ملتا ہے کالا کُلُو۔ یہ بھی سیب کی ایک قسم ہے جس کا بظاہر کُلُو سے کوئی تعلق محسوس نہیں ہوتا۔ کالا کُلُو کی دو قسمیں، پاکستانی اور ایرانی بتائی جاتی ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی چند سال پرانی خبر میں بلوچستان کے رسیلے سیبوں میں، طور کُلُو اور شین کُلُو کا نام بھی بتایا گیا تھا، بہرحال ہم جیسے محبانِ’’آم شریف‘‘ سیب کے متعلق کم کم جانتے ہیں۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ ہمیں اس پھل سے کوئی کَد ہے۔ کالا کُلُو سیب سیاہی مائل گہرے گلابی رنگ کا (اکثر بڑا اور گُودے سے بھرپور) ، نسبتاً سخت جلدکا حامل ہوتا ہے اور ناواقف خریدار اسے بھی گولڈن سمجھ کر خرید لیتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہمارے ہوشیار ثمر (پھل) فروش کئی قسم کے سیبوں (بشمول ایرانی، ایرانی گولڈن، اَمری، کشمیری اور رانی) کو گولڈن کہہ کر بیچ دیتے ہیں اور دام بھی وہی کھرے کرتے ہیں جو اصلی گولڈن کے مقرر ہوں۔
اب ہم سیبوں کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے موضوع پر واپس آتے ہیں۔ اسی ترتیب میں ایک لفظ کِلو [Kilo] بھی ہے جسے ہمارے یہاں لوگ کی لو بھی بولتے اور لکھتے ہیں۔ اس یونانی الاصل انگریزی لفظ کا مطلب ہے: ہزار۔ یہ بہرحال ہمارے موضوع سے خارج ہے کہ ہم اس کی بابت طبع آزمائی کریں۔ اگر ہم سیاہ یعنی کالے رنگ کے متعلق گفتگو کا سلسلہ دراز کریں تو یہ بات بھی یقیناً زیرِبحث آئے گی کہ مغرب میں جہاں اس رنگ سے امتیازی سلوک کا سلسلہ صدیوں پر محیط ہے، وہیں ایسے اقوال بھی مشہور ہوئے جن سے سیاہ رنگ کی دل کشی اور جاذبیت معتبر قرار پائی جیسے Black is Beautiful. جو سیاہ فام برادری کی۱۹۶۰ء کے عشرے میں چلنے والی مہم کا نعرہ تھا۔ بات چل نکلی تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ کسی نے کہہ دیا:
“Black is always elegant. It is the most complete colour in the
whole world, made of all the colors in the palette.”- Riccardo Tisci
ترجمہ نامناسب ہوگا، قارئین کرام اَزخود تفہیم کی زحمت گوارا کریں۔
٭٭٭
ذرائع ابلاغ، خصوصاً ہمارے ٹیلی وژن چینلز جس تَن دِہی سے اردو کا ستیاناس کررہے ہیں، اس کا تدارُک ہرگز آسان نہیں۔ خبررساں چینلز نے تو گویا اسی کام کے لیے کمر کَس لی ہے کہ حتی الامکان غلط اردو ہی بولو اور جہاں کوئی غیرملکی، خصوصاً انگریزی لفظ ملے، اُس کا بھی حسب ِ توفیق بیڑا غرق کرو۔ بہت سے الفاظ ہماری اور بعض دیگر فاضل اہل قلم کی مسلسل مساعی کے باوجود، ناصرف ٹی وی پر، بلکہ کم وبیش ہر مقام پر، غلط ہی بولے اور لکھے جارہے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ایسی تحریریں پڑھتا ہی کون ہے۔
جس طرح کچھ سرپھِرے لکھنے میں وقت صَرف کرتے ہیں، اسی طرح تعداد میں اُن کے برابر یا اُن سے بھی کم لوگ پڑھتے ہیں۔ یہ بات دُہراتے ہوئے مجھے کوئی عار نہیں کہ ہمارے یہاں تقریباً ہر شعبے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کم علمی اور لاعلمی کو اپنے لیے باعث شرمساری نہیں، بلکہ باعث اطمینان سمجھتے ہیں۔ ہمارے ایک خوردمعاصر (شاعر اور ٹی وی خبر خواں) نے ایک مرتبہ کراچی کے ایک علاقے کے تھانے کا نام، مُبینہ ٹاؤن کی بجائے مُبَیّنہ ٹاؤن لیا ….جو کم وبیش چوبیس گھنٹے دُہرایا جاتا رہا، ہم نے انھیں فیس بک میسنجر پر پیغام بھی دیا تھا، مگر وہ ہم سے زیادہ مصروف و معروف ہیں۔
لہٰذا دیکھ نہ سکے، (مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا نام خاکسار اور اُس کے اہل خانہ، مزاحاً اس علاقے کا ذکر کرتے ہوئے بہت پہلے سے لیتے آرہے ہیں)، بس جناب پھر کیا تھا، کچھ عرصے کے بعد، کسی اور نے بھی یہی نام غلط پکارا۔ بعض خبرخواں مرد و خواتین اِسے مُبے نا بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ مُبَیّنہ (جیسے مُبَیّنہ طور پر ایسا ہوا) کو بھی مُبے نا پڑھ رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، لوگ باگ اپنے مغربی آقاؤں کے نام بھی غلط پکارنے لگے ہیں …..ہَے ہَے، کیا قیامت ہے۔
کہیں وہ سن لیں تو خفا نہ ہوجائیں اور ہمارے لیے نئے مسائل نہ پیدا ہوجائیں۔ اُنتیس جون دوہزار اکیس کو سابق امریکی وزیردِفاع Donald Rumsfeld اس دارِفانی سے کوچ کرگئے، مگر جاتے ہوئے ہمارے ٹی وی چینلز کو یہ نہ بتاسکے کہ میرے نام کا درست تلفظ کیا ہے….اب وہ جیسے مناسب سمجھیں بولیں، قصور تو مرنے والے کا ہوا نا۔ اردو زبان وادب میں موضوعات کا ہمہ وقت تنوع ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ زباں فہمی میں پٹڑیاں بدل بدل کے چلتے رہیں، سو ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ بلاضرورت، دقیق، مشکل اور نامانوس الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جائے اور دل چسپی کا عنصر بھی برقرار رہے، پھر بھی بندہ بشر ہے اور ناصرف یہ کالم، بلکہ تقریباً تمام موضوعات پر، قلم برداشتہ نہیں، Mouse برداشتہ لکھنے کی برسوں پرانی روش پر گامزن ہے۔
کئی سال ہوئے کہ قلم میں روشنائی نہیں بھری۔ اب ایسے فی البدیہ، قلم برداشتہ لکھتے ہوئے، تحریر ہر ایک کے لیے قابل قبول ہو، پسندِخاطر ہو اور کوئی شہ پارہ معرض وجود میں آئے تو یہ کسی بھی قاری کا گمان یا خوش گمانی ہوسکتی ہے، ہمارا وعدہ نہیں۔ پچھلے دنوں خاکسار نے اپنے ایک مداح اور واٹس ایپ بزم زباں فہمی کے رُکن، ایم فِل اسکالر سے گزارش کی کہ زباں فہمی کے زیرِگردش کالم پر تنقید فرمائیں تو انھوں نے میری ستائش کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ مشکل الفاظ کا استعمال، کبھی کبھی غیرضروری تفصیل (یعنی جزئیات نگاری) اور شگفتگی کا فقدان اس علمی نگارش کے مجموعی تأثر کے لیے اچھا نہیں……باقی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے، بندہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ بچپن سے مزاج ایسا پایا ہے کہ شگفتہ سے نہیں بنی (بلکہ اُس کے پورے گھرانے سے نہیں بنی) …………یہ اور بات کہ اُن دنوں وہ جوان تھی اور ہم لڑکے بالے تھے …..اب بھلا کہاں سے شگفتگی لائیں………… کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟؟
The post زباں فہمی؛ کَلّو،کَلّوُ، کُلُو اور کالا کُلُو appeared first on ایکسپریس اردو.