آذربائیجان کے ساحلی علاقوں کے باشندوں نے ان کو حیرت سے نہیں دیکھا ہوگا، بحرخزر ( CASPIAN SEA) سے ان کی جانب جہاز اکثر سامان تجارت سے لیس ہو کر آتے تھے، لیکن ان معصوم شہریوں کو یہ علم نہ ہوسکا کہ ان 500 جہازوں پر جو لوگ سوار ہیں ان کی نیت تجارت نہیں ہے اور جب تک وہ اس بات کو سمجھتے بہت دیر ہوچکی تھی۔
قوم خزر کے یہودی خاقان (تمام قدیم مورخین کے مطابق سلطنت خزر کا خاقان اور اس کا سپہ سالار جس کو یبغو بھی کہہ کر پکارا جاتا ہے وہ یہودیت کو بطور مذہب قبول کرچکے تھے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سفرنامہ ابن فضلان، تاریخ المسعودی) کی چال کام یاب ہوچکی تھی اور وحشی روسی پانچ سو جہازوں پر سوار ہوکر آذربائیجان پر دھاوا بولنے کے لیے تیار تھے۔
یہ لوگ یہاں کے باشندوں کے لیے نئے نہیں تھے اکثر ان کا اکا دکا جہاز تجارت کرنے ادھر نکل آتا تھا، جس کے پاس سلطنت خزر سے خریدے ہوئے لونڈی و غلام اور جانوروں کی کھالیں ہوتیں جن کو وہ مسلمان منڈیوں میں مہنگے داموں فروخت کرسکتے تھے۔
یہ وحشی روسی، جن کے متعلق کچھ مغربی تحقیق نگاروں کا ماننا ہے کہ دراصل روسی نہ تھے بلکہ اسیکنڈے نیویا کے وحشی باشندے تھے جن کو ’’وائکنگ‘‘ کہہ کے پکارا جاتا ہے، مغربی محقیقین کی یہ وضاحت کافی نہیں ہے اور اختلافی بھی ہے اور اس کے پیچھے موجودہ جغرافیے کی ایک رمز بھی چھپی ہوئی ہے، تاکہ ان خطوں کو یورپی قرار دیا جاسکے، قدیم مورخین نے ان کی وحشت کے جو نمونے بیان کیے ہیں وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس لیے وہ جان توڑ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا تعلق اسیکنڈے نیویا کے اس خطے سے جوڑ دیا جائے جہاں سے یہ وائکنگ نکل کر یورپ پر حملہ آور ہوئے تھے اور موجودہ یورپی نسلیں دراصل انہی کی یادگار ہیں۔ یہ وحشی روس کے دریا ڈان کو عبور کرتے ہوئے بحرِازوف (بحر الاسود کا شمالی حصہ جو کہ آبنائے کرچ کے ذریعے اس سے منسلک ہے۔
اس کے شمال میں یوکرین، مشرق میں روس اور مغرب میں جزیرہ نما کریمیا ہے اور یہ سب سوویت روس کے حصے رہے ہیں) میں سلطنت خزر تک پہنچے جہاں پر مسلم ممالک پر حملہ کرنے کے لیے انہیں بحرخزر یا کیسپین تک پہنچنا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ دریا کی وہ کھاڑی جو کہ بحر خزر سے جاملتی تھی، اس پر سلطنت خزر کے یہودی خاقان نے بڑی مضبوط چوکیاں قائم کررکھی تھیں جو کہ اس نے ہمسایہ قبیلے اوغوز کے حملے سے نمٹنے کے لیے بنائی تھیں۔ مسعودی اس کی وجہ یوں بیان کرتا ہے:
’’اس کی وجہ یہ تھی کہ اوغوز ترک سردیوں میں اپنا کیمپ اس طرف لگاتے تھے اور پانی کا وہ راستہ جو کے بحرخزر کو پونٹس (پونٹس کی یہ کھاڑی کونسی ہے اس کے متعلق جدید جغرافیہ دانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے) کی کھاڑی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے سردیوں میں منجمد ہوجاتا اور اس حد تک منجمد ہوتا کہ اوغوز (ایک اور ترک قبیلہ جس کی سلطنت، سلطنت خزاریہ کی ساتھ ہی واقع تھی۔
ان دونوں کے درمیان اختلاف کی درست وجوہات معلوم نہیں، لیکن اوغوز ہی مسلمانوں کے مشہور خاندان ’’سلاجقہ‘‘ کے آباواجداد ہیں) بہ آسانی اس کو گھوڑوں پر عبور کرسکتے تھے اور وہ اس راستے سے سلطنت خزر کی زمینوں پر حملہ آور ہوجاتے۔ کئی مواقع پر اس کھاڑی پر مامور پہرے دار فوج بھی ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہتی اور مجبوراً خاقان خزر کو خود ان کے مقابلے کے لیے نکلنا پڑتا، تاکہ وہ ان کو برف کا یہ میدان عبور کرنے سے روک سکے اور اپنی سلطنت کو ان سے بچا سکے، لیکن موسم گرما میں برف پھر دریا میں تبدیل ہوجاتی اور کوئی بھی طریقہ نہ بچتا کہ اوغوز اسے عبور کرسکیں۔‘‘
وحشی روسیوں کو اس کھاڑی سے گزرنے کے لیے عجیب طریقہ سوجھا۔ انہوں نے سلطنت خزر کے یہودی بادشاہ کو پیغام پہنچایا کہ انہیں گزرنے دیا جائے اور واپسی پر جو لوٹ کا مال ہوگا۔ اس میں سے وہ اسے پچاس فی صد دے دیں گے۔ یہودی بادشاہ کو مال کا لالچ ہو یا نہ ہو لیکن وہ اس بات کو کبھی نہ بھول سکتا تھا کہ البانیہ، آذربائیجان، آرمینہ کے وسیع و عریض علاقے اموی شہزادے مروان ابن محمد نے آٹھویں صدی عیسوی میں ان سے چھین لیے تھے اور قوم خزر کو اپنا دارالحکومت بلنجر چھوڑ کر دریائے وولگا کے دوردراز کونوں تک اپنی سلطنت کو محدود کرنا پڑا تھا۔
یہ مسلمانوں کی تاتاری خطے میں پہلی ایسی یلغار تھی جس میں وہ تاتاریوں کو مارتے ہوئے ان کے دوردراز علاقوں تک گھس گئے تھے اور تاتاریوں کی ہیبت کہانیوں کا حصہ بن چکی تھی۔ یہاں تک کے تیرھویں صدی عیسوی میں یہ منگولوں کی قیادت میں دوبارہ نمودار ہوئے۔
یہودی بادشاہ کو اپنے یہاں رہنے والے مسلمان فوجیوں اور عوام کا خوف تھا، لیکن اس کے شاطر یہودی ذہن نے فوراً یہ بات سوچی کہ وحشیوں کے کھاڑی پار کرنے پر عوام کو شک نہیں ہوگا کیوںکہ اکثر تجارتی جہاز اسی طرح اجازت لے کر اس راستے سے گزرتے رہتے ہیں۔ اس نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ مال غنیمت کا پچاس فی صد اسے دیا جائے گا اور روسی 500 جہاز لے کر جس میں سے ہر ایک میں 100 جنگجو سوار تھے دریائے ڈان سے ہوتے ہوئے بحر کیسپین میں اتر گئے، طبرستان، آرمینہ، آذربائیجان کے ساحلی علاقے اب ان کے نشانے پر تھے۔
ابن فضلان (احمد بن فضلان بن العباس بن راشد بن حماد، عباسی خلیفہ المقتدر کا سفیر، جس نے قوم بلغار کے بادشاہ المش کی درخواست پر، جس نے نیا نیا اسلام قبول کیا تھا، 921-22 میں اسٹیپی کا دورہ کیا۔ اس کا سفرنامہ ان قوموں کے حالات کی جامع تصویر کشی کرتا ہے، خاص طور پر اس نے قومِ روس اور ان کی عادات کا مفصل حال بیان کیا ہے) جس نے اس واقعے یعنی 913 کے حملے کے محض 9 سال بعد 921 عیسوی میں قومِ روس کو دریائے وولگا کے کنارے قوم بلغار کے علاقے میں دیکھا تھا، وہ ان کا حلیہ و جنگی حال یوں بیان کرتا ہے:
’’میں نے روسیہ کو دیکھا، جب وہ اپنے تجارتی سفر کے دوران بحرِاتل (مراد دریائے وولگا ہے) پر لنگرانداز ہوئے میں نے کبھی بھی ایسی شان دار جسامت والی قوم نہیں دیکھی۔ وہ کھجوروں کے تنوں کی مانند تھے۔ ان کی رنگت سرخی مائل سفید تھی۔
وہ کسی بھی قسم کی پگڑی یا ٹوپی نہیں پہنتے۔ ان کے مرد ایک چادر اوڑھ لیتے ہیں جس کے ساتھ وہ اپنے آدھے جسم کو ڈھانپ لیتے ہیں اور ان کا ایک بازو برہنہ رہتا ہے (احرام کی مانند)۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک کلہاڑا، ایک تلوار اور ایک خنجر ہوتا ہے اور یہ ان ہتھیاروں کو اپنے آپ سے کبھی الگ نہیں کرتے۔ یہ چوڑے اور کند پھلوں والی فرنگی تلواریں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مردوں کے اجسام سر سے لے کر پاؤں تک مختلف اقسام کے نقش ونگار مزین ہوتے ہیں جن میں درختوں اور مختلف اقسام کی تصاویر شامل ہوتی ہیں۔‘‘
احمد بن رستہ اصفہانی نے اس جنگ سے محض چند سال پہلے ان کی جنگی قوت و وحشت کا حال یوں بیان کیا ہے:
’’یہ سلیمانی تلواریں استعمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی دشمن ان سے جنگ کرتا ہے تو یہ سب مل کر اس پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی بھی اپنی صفوف کو منتشر نہیں ہونے دیتے۔ یہ جسدِواحد کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں، یہاں تک کے یہ اس پر غالب آجائیں۔‘‘
ابن رستہ مزید لکھتا ہے:
’’میدان جنگ میں ان کی قوت برداشت اور قوت استطاعت قابل تعریف ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے دشمن کو ذبح کیے بغیر میدان جنگ نہیں چھوڑتے۔ وہ عورتوں کو گرفتار کرکے لونڈیاں بنا لیتے ہیں۔ ان کا قدوقامت ان کی جسامت اور ان کی بہادری سب قابل تعریف ہے۔ وہ سمندری جنگی جہازوں پر زیادہ بہتر لڑ سکتے ہیں لیکن گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں۔‘‘
گیارھویں صدی عیسوی کا مشہور زمانہ مورخ اور علم حیوانات کا ماہر شرف الزماں طاہر المروزی ان کا حال کچھ یوں بیان کرتا ہے:
’’یہ مضبوط و توانا انسان ہیں اور علاقوں پر حملہ کرنے کے لیے میلوں پیدل چلتے ہیں۔ یہ بحرکیسپین میں کشتی رانی بھی کرتے ہیں اور جہازوں کو یرغمال بنالیتے ہیں اور مال و اسباب لوٹ لیتے ہیں۔ یہ قسطنطنیہ تک بحرپونٹس کے راستے پہنچ جاتے ہیں۔ گوکہ خلیج میں زنجیریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک بار یہ بحر خزر تک پہنچ گئے تھے اور بردع کے کچھ عرصے تک حکم راں بھی رہے۔ ان کی دہشت اور بہادری معروف ہے۔ ان میں سے ہر ایک کسی بھی دوسری قوم کی تعداد پر بھاری ہے۔ اگر ان کے پاس گھوڑے ہوتے اور یہ گھڑسوار ہوتے تو یہ انسانیت کے لیے بہت ہی خطرناک ثابت ہوتے۔‘‘
یہ وحشی قوم اپنے مُردوں کو جلا دیتی تھی اور عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند استعمال کرتی۔ اگر کوئی سردار مرجاتا تو اس کی باندیوں کو اس کے ساتھ ہی جلا دیا جاتا۔ یہ سرعام مباشرت کا فعل سرانجام دیتے اور ایک ہی وقت میں ایک ہی عورت کے ساتھ کئی مرد اس فعل قبیح میں مشغول ہوجاتے۔ صفائی و ستھرائی کا ان کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ ابن فضلان نے ان کی گندگی کا حال یوں بیان کیا ہے:
’’یہ خدا کی سب سے گندی مخلوق ہیں۔ یہ حوائج ضروریہ سے فراغت کے بعد اپنے آپ کو نہیں دھوتے اور نہ ہی مباشرت کے بعد یہ ایسا کرتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد بھی یہ اپنے ہاتھ نہیں دھوتے یہ آوارہ گدھوں کی مانند ہیں۔‘‘
ابن فضلان ان کے پانی کے ساتھ ربط کا ایک عجیب نقشہ باندھتا ہے:
’’بغیر کسی تعطل کے ہر دن یہ اپنے ہاتھ اور منہ سب سے گندے و غلیظ پانی کے ساتھ دھوتے ہیں، ہر دن ایک جوان ملازمہ ناشتہ اور پانی کا ایک بڑا سا برتن لے کر آتی ہے، جس کو وہ سب سے پہلے اپنے مالک کو پیش کرتی ہے اور وہ اس میں اپنا ہاتھ و منہ دھوتا ہے اور اپنے بال بھی، اپنا سر دھونے کے بعد وہ اسی برتن کے پیندے میں پڑی کنگھی سے اپنے بال سنوارتا ہے اور پھر اسی پانی میں اپنا ناک ڈبو کر اپنا سارا گند و بلا خارج کردیتا ہے۔ جب وہ یہ کر گزرتا ہے تو ملازمہ اسی پانی کے برتن کو لے کر اگلے مرد کی طرف بڑھ جاتی ہے اور اسی طرح یہ باری اگلے مرد تک چلتی رہتی ہے اور ان میں سے ہر کوئی اس پانی میں تھوکتا بھی ہے اور اپنی ناک سے رطوبت بھی خارج کرتا ہے اور اسی پانی سے اپنے چہرے و ہاتھوں کو دھو لیتا ہے۔‘‘
اور یہ خوںخوار وحشی مسلم ساحلی علاقوں پر حملہ آور ہوگئے۔ المسعودی نے 913 عیسوی میں ان کے حملے کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
’’ان کے جہاز پھیل گئے اور پھر گشتی چھاپا مار پارٹیاں گیلان، دیلم طبرستان اور جرجان (ایران میں واقع ایک قدیم شہر) کی ساحلی پٹی پر واقع بندرگاہ آبسکون پر حملہ کرنے لگے۔ انہوں نے گندھک کی سرزمینوں پر بھی حملہ کردیا اور آذربائیجان تک بڑھتے چلتے گئے، جس کا شہر اردبیل سمندر سے محض تین دن کی دوری پر واقع ہے۔
ان وحشیوں نے خون کے دریا بہا دیے، عورتوں و بچوں کو غلام بنالیا اور جائیدادوں کو تباہ کردیا، گیلان و دیلم و ساحل جرجان اور بردع کی سرحد، البانیہ، بیلقلان اور آذربائیجان کے لوگوں اور اس کے علاوہ ایک مسلم جنرل ابن ابی الساج کی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے گندھک کے سواحل تک بڑھتے چلے آئے جس کو ’’باکو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کا کچھ حصہ سلطنت شروان میں واقع ہے۔ (ان تمام علاقوں کی لوٹ مار و بربادی کے بعد) جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کچھ دیر کے لیے گندھک کے سواحل سے کچھ میل کی دوری پر جزائر میں قیام کیا۔
اس وقت شروان کا حاکم علی ابن الحاتم تھا، اس نے اپنے فوجی دستوں کو متحرک کیا اور کشتیوں کو تجارتی سامان کے لیے مختص جہازوں پر سوار ہوکر ان جزائر کی طرف چل پڑا، لیکن روسی ان پر پل پڑے اور ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا اور بے شمار ڈوب گئے۔ روسی یہاں پر کئی ماہ رُکے رہے اور وہی کچھ کرتے رہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور ان علاقوں کے رہائشیوں میں سے کوئی بھی ان کی مزاحمت کرنے پر قادر نہ تھا۔ ان ساحلی علاقوں کی آبادی بہت زیادہ تھی۔ وہ اپنی سی کوشش کرتے رہتے اور ان کے حملوں کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔‘‘
وحشی روسیوں کا ارادہ ان علاقوں کو محض تاراج کرنے کا تھا اور لوٹ مار کرنے کا، کئی ماہ کی لوٹ مار و وحشت و بربریت کے بعد انہوں نے واپس ہونے کی ٹھان لی اور اسی سرحدی سمندری پٹی پر واپس پہنچ گئے جہاں سے وہ سلطنت خزر کو پار کرتے ہوئے دوبارہ اپنے علاقے میں واپس جاسکتے تھے۔ انہوں نے بمطابق وعدہ خزر کے یہودی خاقان کے ہاں سفیر لوٹ مار کے آدھے حصے کے ساتھ روانہ کردیا، تاکہ وہ انہیں گزرنے کی اجازت دے دے، لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، آگے کی کہانی ہمیں المسعودی یوں سناتے ہیں:
’’لوٹ کے مال سے لدے پھندے اور جنگ سے تھکے ہوئے روسی بحرخزر کے پاس پہنچ گئے اور خزر کو لوٹ کے مال سے اس حصے کے ساتھ جس کا وہ اس کے ساتھ وعدہ کرچکے تھے پیغام بھیجا۔ یہ شہزادہ (خاقان خزر) بحری جہاز نہیں رکھتا اور نہی سمندری راستوں سے واقف ہے، وگرنہ یہ بھی مسلمین کے لیے ایک عذاب ہوتا۔ لیکن اسی اثنا میں الرئیسیہ (موجودہ ایران میں واقع ایک قدیم شہر) اور سلطنت خزر میں رہنے والے دیگر مسلمین کو اس قتل عام و لوٹ مار کی خبر پہنچ گئی، جو کے روسیوں نے ان کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کی تھی، وہ برہم ہو کر یہودی خاقان کے پاس پہنچے اور اسے کہنے لگے کہ ’’ہمیں ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے ہمارے مسلمان بھائیوں کی سرزمینوں کو تباہ کردیا ہے۔
ان کا خون بہایا ہے اور ان کی عورتوں و بچوں کو لونڈی و غلام بنایا ہے ہماری مرضی کرنے دو‘‘ خاقان ان کو روکنے پر قادر نہ تھا لیکن اس نے روسیوں کو خفیہ طور پر خبردار کردیا کہ مسلمان ان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مسلمانوں نے فوج اکھٹی کی اور روسیوں سے مقابلے کے لیے چل پڑے۔ جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کی حد نگاہ میں پہنچیں تو روسی اپنے جہازوں سے اتر آئے۔ (50 ہزار روسیوں کے مقابلے پر) مسلمانوں کی تعداد 15000 تھی، جو کہ گھوڑے اور مناسب ہتھیار رکھتی تھی۔ ان کے ساتھ اتل کے عیسائی رہائشی بھی تھے۔
دونوں میں تین دن شدید جنگ ہوئی اور پھر اللہ نے مسلمین کو فتح سے نواز دیا اور انہوں نے روسیوں کو تلوار کی نوک پر رکھ لیا اور کئی کو ڈبو دیا۔ 30 ہزار روسی دریائے خزر کے کنارے قتل ہوئے 5000 کشتیوں میں جان بچا کر دریا کے دوسرے کنارے میں برطاس (مروج الذھب) کے علاقے تک جاپہنچے یا کشتیاں چھوڑ کر خشکی کے راستے بھاگے، جن کو برطاس کے لوگوں نے مار ڈالا اور کچھ مسلم علاقے بلغار تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے اور وہاں کے مسلمین نے ان کا خاتمہ کردیا۔‘‘
آج ہم اس جہاد کے کمان داروں کے نام سے واقف نہیں اور ہمیں یہ بات بھی حیرت میں ڈالے دیتی ہے کہ کیسے کچھ مسلمان یہودی خاقان کی رعایا بن کر رہ سکتے ہیں اور کیسے یہودی خاقان نے اپنی مسلمان رعایا کو اپنے اصل ارادوں سے بے خبر رکھا، لیکن اس مہذب دنیا میں رہتے ہوئے شاید ہم قبائلی اصولوں کو نہیں سمجھ سکتے جو کہ ایک قبائلی معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں اور جس میں نسل و قبیلہ مذہب سے زیادہ طاقت ور ہوجاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ واقعہ اس امر کی یاد بھی دلاتا ہے کہ اسلام کی تاریخ ایسے ان گنت معرکوں و لوگوں سے بھری ہوئی ہے جس کا شاید کہیں کوئی ذکر نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کی تفصیل میسر نہیں، لیکن ان گم نام لوگوں نے اسلام کی تاریخ کی تشکیل میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔
The post جب 15ہزار مسلمانوں نے 50 ہزار روسیوں کو شکست فاش دی appeared first on ایکسپریس اردو.