مکۃ المکرمہ ایک قدیم شہر ہے۔ حضرت آدم ؑ دنیا کے پہلے انسان بھی ہیں اور پہلے پیغمبر بھی۔ آپ ہی کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی سب سے پہلی انسانی تعمیر ہوئی۔ پھر آپؑ نے اس کا طواف کیا۔
اس طرح حضرت آدم پہلے انسان پہلے پیغمبر پہلے ماہرتعمیر پہلے شوہر اور پہلے باپ کہلاتے ہیں ۔ اس طرح گویا نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ جاری رہا جو ہوتا ہوا حضرت ابراہیم ؑ تک پہنچ گیا۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اب سے کوئی تقریباً 5 ہزار سال قبل اس مقدس گھر کی تعمیر اپنے بیٹے حضرت اسمعٰیل ؑ کے ساتھ فرمائی تھی جس کا ذکر قرآن حکیم میں اس طرح سے آیا ہے۔
ترجمہ: ’’ابراہیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ اے پروردگار تو ہم سے (یہ تعمیر) قبول فرما تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ آیت 127) اس مقدس تعمیر کے بعد اس مقام کو کئی ایک نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے بیت اللہ، بیت العتیق، بیت الحرام، خانۂ کعبہ، الحرم وغیرہ وغیرہ تاہم بعثیت نبوی تک اسے بیت العتیق کہا جاتا رہا ہے۔
اس کی تعمیر کی غرض و غایت یہی بتائی جاتی ہے کہ یہ خدا پرستوں کا مرکز بنے اور رہتی دنیا تک امن کا مرکز بنا رہے۔ فرمایا گیا ترجمہ’’ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن و امان کی جگہ بنائی۔ ‘‘ (بقرہ آیت 125) آیۂ مبارکہ میں اسے ثواب حاصل کرنے کی جگہ سے تعبیر کیا ہے جب کہ اس کے دوسرے معنی مثابہ سے یہ بھی بنتے ہیں کہ بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ یعنی جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت کر لیتا ہے، اس کی ایک مرتبہ چلے جانے سے تسکین نہیں ہوتی۔ تین تین چار چار بار چلا جاتا ہے اور یہ ایسا شوق ہے کہ اس کی تسکین پھر بھی نہیں ہوتی اور بے قراریوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اسی آیۂ مبارکہ میں آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ترجمہ’’ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔ آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تعمیر کا منشاء عبادت رکھا ہے۔ یعنی آنے والا اس گھر کا طواف کرے واضح رہے کہ طواف یعنی خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانے کو ایک طواف کہا جاتا ہے اور اس طواف کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کی جاتی ہے۔ یہ طواف والی عبادت صرف اسی مقام کے ساتھ مخصوص اور مشروط ہے کسی بھی اور مقام پر یہ عبادت نہیں کی جا سکتی۔
پھر فرمایا کہ رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو۔ توحید مسلمانوں کے ارکان اسلام کا پہلا رکن ہے۔ یعنی سب سے پہلے اللہ کی ذات کو واحد مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی بھی شریک کی نفی کی جائے۔ تب ہی بندہ مومن کہلائے گا۔ پھر دوسرا رکن نماز ہے جسے عربی میں صلوٰۃ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ عبادت علی الا علان کی جاتی ہے اور جیسا کہ آیت میں رکوع اور سجدہ کا ذکر ہے وہ اسی نماز کے اجزاء ہیں۔
رکوع کے معنی جھکنا یعنی دوران نماز ایک خاص طریقے سے اپنے اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری برتنا سجدہ کے معنی مخصوص طریقے سے زمین پر اپنی پیشانی کو ٹیکنا۔ یہ اپنے آپ کو کم تر ظاہر کرنے کی بہترین علامت ہے۔ دوران نماز دو سجدے ادا کیے جاتے ہیں جو نماز کی ہر رکعت میں لازم ہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ پہلے سجدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اسی مٹی سے تخلیق ہوئے ہیں جب کہ دوسرا سجدہ یہ بتاتا ہے کہ ہم دوبارہ اسی مٹی میں مل جائیں گے اور جب دوسرے سجدے سے واپسی ہوتی ہے تو ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دوبارہ زندہ ہو کراس مالک حقیقی کے روبرو پیش ہوں گے۔
اسلام کی بنیاد (عقائد) جن پانچ ستونوں پر کھڑی ہوئی ہے ان کا آخری اور پانچواں ستون حج ہے۔ جو عبادات کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔ حج فریضہ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے ترجمہ ’’پہلا گھر جو لوگوں کے لیے (عبادت) کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ وہی ہے جو مکہ میں ہے با برکت اور جہاں کے لیے موجب ہدایت اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (مقام ابراہیم) ہے جو شخص اس مبارک گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا اور لوگوں پر خدا کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے۔ وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہل عالم سے بے نیاز ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران آیات 96-97)
ان آیات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کی سب سے پہلی عبادت گاہ یہی بیت اللہ ہے۔ اس میں ایک پتھر وہ بھی رکھا ہوا ہے جسے مقام ابراہیم کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر فرما رہے تھے۔ اس پتھر کی یہ خصوصیت رہی کہ وہ ضرورت کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا تھا۔ طول میں بھی اور عرض میں بھی بلند اور پست بھی اسی مطابقت سے ہوجاتا تھا۔ گویا اس کی خصوصیت ابراہیم ؑ کے قدموں تلے موم یا ربر کی سی ہوتی تھی۔ اس پتھر پر آپؑ کے قدموں کے نشان آج بھی ثبت ہیں جو ایک کھلا معجزہ ہے۔ اس مقدس پتھر کو سعودی حکومت نے اب ایک شیشے کے مرتبان میں (جالی دار قبہ) فٹ کروا کر مطاف میں عین باب کعبہ کے سامنے رکھوا دیا ہے اور اب امام کعبہ قرآن حکیم کی اس آیت ترجمہ:’’تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کرلو‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 125) پنج وقتہ نماز اسی کو سامنے رکھ کر ادا کرواتے ہیں۔
حج کے دوران چوںکہ مجمع 40لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے اس لیے مطاف میں جگہ کم پڑجانے کی وجہ سے چند روز وہ اپنے مصلیٰ کی جگہ تبدیل کرلیتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ نمازی خانہ کعبہ کو سامنے رکھ کر مطاف میں سجدہ ریز ہوسکیں پھر فرمایا گیا کہ جو اس گھر میں آجائے اس نے امن پالیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو بھی شخص یہاں آجاتا ہے وہ یقیناً امن حاصل کرلیتا ہے۔ یہاں جدال و قتال اور خو ں ریزی منع کیا گیا ہے حتیٰ کہ شکار اور درخت وغیرہ کاٹنا تک منع ہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہی وہ آیت ہے کہ جس سے صاحب استطاعت پر حج کی فرضیت کا حکم واضح ہو رہا ہے۔
30 فٹ بلند کعبۃ اللہ کی چار سمتیں (کونے) ہیں (۱) رکن حجر اسود مشرقی کو نہ، (۲) رکن عراقی شمالی کونہ (۳) رکن شامی مغربی کونہ اور (۴) رکن یمانی جنوبی کونہ۔ حجر اسود کی سمت سے یہ طواف Anti Clock Vise شروع کیا جاتا ہے۔ یہاں سے رکن عراقی کی جانب بڑھتے ہیں۔ درمیان میں ملتزم ہے یعنی خانہ کعبہ کی دیوار کا وہ حصہ جہاں حضور اکرم ؐ اس سے لپٹ کر اور بلک بلک کر اپنے لیے اور امت کے لیے بخشش کی دعائیں طلب فرمایا کرتے تھے۔ اسی کے برابر باب کعبہ ہے جو زمین سے تقریباً 7فٹ بلند ایک دروازہ ہے جو خانۂ کعبہ کے اندر کی جانب کھلتا ہے۔ عام حالات میں یہ مقفل ہوتا ہے مخصوص دنوں میں ہی کھولا جاتا ہے۔ آنحضور ؐ اس کی چوکھٹ پکڑ کر بھی خوب دعائیں مانگا کرتے تھے۔
یہ دونوں ہی قبولیت دعا کے مقام ہیں۔ انہی کے مقابل زمین پر چند گز فاصلے پر دو اور مقامات ہیں یعنی مقام ابراہیم اور پھر زم زم کا کنواں۔ مقام ابراہیم کے پیچھے طواف کے نوافل اور امام کعبہ کا مصلیٰ پنج وقتہ نماز کی غرض سے بچھا یا جاتا ہے اور زم زم کا وہ معروف چشمہ جسے کنویں کی شکل میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اب انڈر گراؤنڈ ہے، جہاں جدید مشنری لگا کر ایک انجینئر متعین کردیا گیا ہے جو 24گھنٹے زم زم کی صورت حال مانیٹر کرتا رہتا ہے۔ اوپر صرف اسکا لوہے کا ڈھکن طواف کے دوران ہمارے قدموں کے نیچے آتا ہے، جس پر زم زم لکھا ہوا ہے۔ یہ وہی مقام مقدس ہے جہاں ننھے اسماعیل کی ایڑیوں کی رگڑ سے اور ایک روایت کے مطابق جبرئیل ؑ کے پَر مارنے سے یہ چشمہ پھوٹ پڑا تھا اور حضرت ہاجرہ نے مٹی کی باڑھ لگاتے ہوئے کہا تھا زم زم یعنی ٹھہر جا۔ آج اس مقدس پانی سے روزانہ لاکھوں افراد سیراب ہوتے ہیں۔
پھر رکن عراقی اور رکن شامی ہیں۔ ان کا استلام نہیں کیا جاتا کیوںکہ یہ اب بنائے ابراہیمی سے باہر ہیں۔ ان دونوں کے درمیان خانہ کعبہ سے باہر مگر اس سے جُڑی ہوئی8 فٹ کی جگہ حطیم کہلاتی ہے۔ روایات کے مطابق یہ جگہ کعبہ ہی کا حصہ ہے۔ بعثت نبوی کے وقت سرمائے کی کمی کے باعث اس مقام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت اندر شامل نہ کیا جا سکا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایک مرتبہ آنحضور ؐ سے کعبے کے اندر جا کر عبادت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپؐ نے کعبہ کے دروازے کو نہیں کھلوایا بلکہ آپؐ نے انہیں حطیم میں لے جا کر فرمایا، یہیں پر عبادت کرلو کیوںکہ یہ بھی کعبۃ اللہ ہی کا حصہ ہے۔ چناںچہ آپ ؓنے وہیں پر نماز ادا فرمائی۔
حطیم کے اندر کھڑے ہوکر آسمان کی جانب دیکھا جائے تو ایک پرنالہ نظر آتا ہے جو خانہ کعبہ کی چھت میں نصب ہے۔ اس کے ذریعے بارش کا پانی حطیم میں گرتا ہے۔ بارش کے وقت لوگوں کا ایک جم غفیر یہاں جمع ہوجاتا ہے تاکہ اس پانی سے نہا کر اپنے گناہوں کو دھولے۔ اس پر نالے کو میزاب رحمت کہا جاتا ہے، جو چاندی سے بنا ہے اور اس کا وزن 25 سیر ہے۔ اس میزاب کے اوپری جانب چاندی کی کیلیں لگی ہوئیں ہیں تاکہ کوئی پرندہ اس پر بیٹھ کر حطیم میں گندگی نہ کر سکے۔ میزاب کے کناروں پر بسم اللہ شریف لکھی ہوئی ہے اور جس سوراخ سے پانی گرتا ہے اس کے شٹر Shutter پر یااللہ لکھا ہوا ہے۔ یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے یہاں ضرور دعا کریں۔
حطیم سے نکل کر رکن شامی سے رکن یمانی کی طرف چلتے ہیں۔ دوران طواف اگر موقع مل سکے تو دائیں ہاتھ سے رکن یمانی کو بغیر دیکھے چھولیں۔ ورنہ استلام ہی کافی ہے پھر یہاں سے حجراسود کی جانب چلتے ہیں۔ اس مقام پر یہ دعا پڑھتے رہنا چاہیے۔ ربنا اٰتنا ترجمہ’’اے ہمارے رب ہمیں دین دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخر ت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘، (سورہ بقرہ آیت201) یہ بھی قبولیت دعا کا مقام ہے۔
خانہ ٔ کعبہ شروع ہی سے لوگوں کے لیے قابل احترام رہا صرف ایک مرتبہ یمن کے بادشاہ ابرہہ نے یہ کوشش کی کہ یمن ہی میں کعبہ کی تعمیر کرکے وہاں حج اور طواف شروع کروایا جائے اور ہاتھیوں کا ایک لشکر لے کر اسے گرانے کے لیے وادیٔ محسر کے قریب جو کہ منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے، پہنچ گیا، جہاں ابابیل کے غولوں نے کنکریوں سے اس لشکر کو نیست و نا بود کردیا۔ اس طرح گویا اللہ نے ننھے پرندوں کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کروائی۔
کہا جاتا ہے کہ ان ہی ابابیل کی نسل آج بھی خانہ کعبہ کی حفاظت کررہی ہے۔ وہ انسانوں کی طرح Vise Anti Clock چکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ گویا کعبے کا طواف کررہے ہوں اور کیا مجال کہ کوئی ابابیل وہاں گندگی پھیلا دے۔
The post خانۂ کعبہ قبولیت دعا کا مقام appeared first on ایکسپریس اردو.