اﷲ تعالیٰ نے سُود کو حرام قرار دیا ہے۔
سوچیے! جب ایک چیز کو اﷲ تعالیٰ جیسی حکیم و خبیر ذات خود حرام قرار دے رہی ہو تو اس میں کس قدر نقصانات ہوں گے؟ سُود کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ اﷲ کی ناراضی کا سبب ہے بل کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے اعلان جنگ ہے۔
سُود کھانا اپنی ماں سے زنا کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اﷲ کے عذاب کا سبب ہے۔ انسان کے جہنم میں جانے کا باعث ہے۔ اﷲ کی رحمت سے دوری کا ذریعہ ہے۔ انسانوں کے حق میں مفید معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ سُود کی قرآن و سنت میں بہت سخت قباحتیں اور وعیدیں مذکور ہیں۔
٭ سُود سابقہ شریعتوں میں:
یہودیوں کے بارے قرآن کریم میں ہے، مفہوم آیت: ’’اور یہودیوں کے سُود لینے کی وجہ سے عذاب آیا، حالاں کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا۔ (سورۃ النساء)
اس آیت کے تحت مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ شریعت محمدیہؐ کی طرح سُود سابقہ شریعتوں میں بھی حرام تھا۔
٭ سُود حرام ہے:
مفہوم آیت: ’’سُود کھانے والے لوگ جب قیامت والے دن قبروں سے اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چُھو کر پاگل بنا دیا ہو، یہ عذاب اس لیے ہوگا کہ دنیا میں یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ بیع (خرید و فروخت) بھی تو سُود کی طرح ہوتی ہے، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے بیع کو حلال جب کہ سُود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت (سُود کی واضح حرمت) آگئی ہو اور وہ اس کی وجہ سے سُودی معاملات سے آئندہ کے لیے باز آگیا تو گزشتہ زمانے میں جو کچھ سُودی معاملہ ہو چکا، سو وہ ہوچکا۔ اس کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے۔ اور جو شخص دوبارہ سُود والے حرام کام کی طرف لوٹا وہ جہنمی ہے وہ ہمیشہ اسی میں رہے گا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
ہمارا عقیدہ اور نظریہ یہ ہے کفر و شرک کے علاوہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا بل کہ اپنے گناہوں کی سزا پا لینے کے بعد بالآخر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ سے بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ سُود کھانے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا، حالاں کہ ایسا نہیں۔ آیت مبارکہ میں جس شخص کا ذکر ہے وہ وہ شخص ہے جو سرے سے سُود کی حرمت کا قائل نہیں ہے بل کہ کہتا ہے کہ سُود بھی تو بیع کی طرح ہے ایسا شخص سُود کو حرام نہ ماننے کی وجہ سے کافر ہے اور کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
سُود کو اﷲ گھٹاتے ہیں: مفہوم آیت : ’’اﷲ تعالیٰ سُود کے مال کو گھٹاتے ہیں اور صدقہ کے مال کو بڑھاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’سُود اگرچہ دیکھنے کے اعتبار سے زیادہ ہی دکھائی دے لیکن انجام کے اعتبار سے کم ہی ہوتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)
٭ سُودی معاملات فی الفور چھوڑ دیے جائیں:
مفہوم آیت: ’’اے ایمان والو! اگر تم واقعی پکے سچے مومن ہو تو اﷲ سے ڈرو اور سُود کے سابقہ معاملات چھوڑ دو۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
٭ حجۃ الوداع پر اعلان:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ زمانہ جاہلیت کا ہر قسم کا سُود ختم ہوچکا ہے لہٰذا تمہارے لیے اب تمہارا اصل مال (باقی) ہے نہ تم خود کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی کسی اور کے ظلم کا شکار بنو۔ عباس بن عبدالمطلب کا سُود سارے کا سارا ختم ہے۔‘‘
(جامع الترمذی)
سُود کی حرمت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی آخری سالوں میں ہوئی اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام لوگوں کے سامنے اس کی حرمت کو عملی شکل دی گئی۔
٭ سُود خور سے اﷲ کا اعلان جنگ:
مفہوم آیت:’’پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا، یعنی سُودی معاملات کو نہ چھوڑا تو اﷲ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کر لو، سُودی معاملات کو یکسر چھوڑ دو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے وہ تم لے لو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر کوئی اور ظلم کرے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)
قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر کبیرہ گناہوں کی سزا میں اس قدر شدت بیان نہیں کی گئی جتنی سُود کی سزا میں بیان کی گئی ہے۔ یعنی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ۔ جب اﷲ کی طرف سے اعلان جنگ ہو تو خود سوچیے کہ بندے کا کیا بچے گا؟ اﷲ کریم ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
٭ سُودی معاملات سے متعلقہ تمام افراد پر لعنت:
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے سُود کھانے، سُود دینے، سُودی حسابات و معاملات لکھنے اور سُودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تمام لوگ گناہ گار ہونے میں برابر کے شریک ہیں۔ (صحیح مسلم)
بے شک انسان خود سُود نہ بھی لے لیکن اگر وہ سُودی معاملات میں کسی درجے بھی شریک ہوتا ہے تو اس کو بھی ایسا ہی عذاب دیا جائے گا جیسا سُود لینے اور دینے والے کو ہوگا۔ اس لیے تمام سُودی معاملات سے خود کو دور رکھیں۔ ورنہ انسان ان تمام وعیدوں اور عذابوں کا مستحق بن جاتا ہے جو قرآن و سنت میں مذکور ہیں۔
٭ ماں سے زنا کرنے سے بھی بڑا گناہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’سُود کے اندر ستّر قسم کے گناہ پائے جاتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم درجے کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
٭ عذاب کی مستحق قوم:
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کسی قوم میں زنا اور سُود پھیل جائے تو وہ قوم اپنے آپ کو اﷲ کے عذاب کا مستحق بنا لیتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان)
اس وقت پورے عالَم پر جو عذاب ہے اس میں مسلمانوں کے کبیرہ گناہوں کو بھی دخل ہے۔ اس لیے ہم سب کو تمام گناہوں سے سچی توبہ کرنا ہوگی۔ خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی حرام کے لقمے سے بچائیں۔ اسلام تو شبہ والی بات سے بھی بچنے کا حکم دیتا ہے اور سُود تو واضح طور پر حرام ہے۔
لقمہ حرام کی نحوست سے انسان دنیا و آخرت کا خسارہ اٹھاتا ہے۔ دنیا میں انسان پر بیماریوں کا حملہ ہونا، ذہنی اذیت میں مبتلا ہونا، اولاد کا نافرمان ہونا، گھریلو جھگڑوں کا بڑھ جانا اور حادثات کا پیش آنا سب شامل ہے جب کہ آخرت میں اﷲ کی ناراضی، شفاعت سے محرومی اور جہنم کی آگ کا مستحق ہونا شامل ہے۔ اس لیے محض ارادہ نہیں بل کہ فیصلہ کریں کہ نہ خود سُود کھائیں گے اور نہ ہی کسی طرح کے سُودی معاملات میں شریک ہوں گے اور اپنی اولاد کو بھی اس سے بچائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں رزق حلال پاکیزہ وسعت والا عطا فرمائے اور حرام سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
The post سُود کی حرمت اور قباحت appeared first on ایکسپریس اردو.