1922ء کو پشاور کے قصہ خوانی بازار سے طلوع ہونے والا سورج لگ بھگ ایک صدی تک برصغیر پاک وہند کے سماج اور ماحول کے پیچ وخم ناپتا ہوا بالآخر کل سات جولائی 2021ء کو ممبئی میں غروب ہوگیا۔۔۔
فٹ بالر بننے کا خواب دیکھنے والا پھلوں کے تاجر کا ایک ’پشاور کا لڑکا‘ جسے 1940ء کی دہائی میں معروف اداکارہ اور فلم ساز دیویکا رانی نے ’دلیپ کمار‘ بنا دیا۔ ہوا یوں کہ وہ تو صرف فلم کی عکس بندی دیکھ رہے تھے کہ جب دیویکا نے ان سے پوچھا کہ وہ اردو جانتے ہیں؟ اور کیا وہ اداکاری کرنا پسند کریں گے تو ان دونوں کے جواب اثبات میں دے کر گویا ایک عہد کا آغاز کر دیا۔
وہیں انھیں ’دلیپ کمار‘ کا نام دیا گیا، کیوں کہ خیال یہ تھا کہ ’یوسف خان‘ نام جچے گا نہیں۔۔۔ غالباً وہ فلموں کے مخالف والد سے بھی کچھ پردے داری چاہتے تھے۔۔۔ اس لیے انھوں نے دلیپ کمار نام کے پیچھے پناہ لی اور عجیب بات یہ ہے کہ ساٹھ، پینسٹھ فلموں میں سوائے ’مغل اعظم‘ کے شہزادہ سلیم کے کوئی بھی مسلمان کردار ادا نہیں کیا۔
’مغل اعظم‘ کے بعد جس فلم میں دلیپ کمار کی بہت زیادہ تعریف ہوئی وہ ان کی فلم گنگا جمنا‘ تھی۔ امیتابھ بچن نے اعتراف کیا ہے کہ جب وہ الہ آباد میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، تو انھوں نے یہ فلم بار بار اس لیے دیکھی کہ جس پٹھان کا ’یوپی‘ سے دور دور تک کوئی رابطہ نہیں تھا وہ وہاں کی بولی کو اس درجہ کمال کے ساتھ کیسے بول سکتا تھا۔ بعد میں ان دونوں نے رمیش سیپی کی فلم ’شکتی‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔
دلیپ کمار 1940ء تا 1960ء کی دہائی میں ہندوستانی سینما پر چھا ئے رہے، انھوں نے 60 سے 65 فلموں میں کام کیا، ان کی مشہور فلموں میں دیوداس، سنگ دل، امر، آن، انداز، نیادور، کرما اور مغل اعظم شامل ہیں۔
دلیپ کمار نے اداکارہ سائرہ بانو سے 1966ء میں شادی کی۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے امیتابھ بچن اور ریکھا کی پریم کہانی چلی اور ادھوری رہ گئی، کیوں کہ امیتابھ کی شادی پہلے ہی جیا سے ہو چکی تھی، ایسے ہی دلیپ کمار کی محبت اداکارہ کامنی کوشل تھیں، لیکن صورت حال کچھ ایسی ہی بنی کہ کامنی کوشل اپنی آنجہانی بہن کے شوہر سے شادی کر چکی تھیں کہ ان کے بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکیں۔۔۔ اس لیے وہ دلیپ کمار کی خواہش پوری نہ کر سکیں۔۔۔ دوسری طرف کامنی کوشل کے بھائی بھی اس رشتے کے سخت مخالف تھے، ہندوستانی ذرایع اِبلاغ میں تو یہاں تک دعویٰ کیا گیا کہ دھمکیوں کے باوجود دونوں کی محبت ختم کرنے میں ناکامی پر کامنی کے بھائی نے خود کو گولی مار کر خودکُشی کرلی تھی۔
دلیپ کمار کی سب سے مقبول جوڑی مدھوبالا کے ساتھ بنی اور وہ ان کی محبت میں بھی مبتلا ہوئے۔ دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ مدھوبالا پر فریفتہ تھے ایک فن کار اور ایک خاتون دونوں حیثیت سے۔ دلیپ کا کہنا ہے کہ مدھوبالا ایک بہت ہی زندہ دل اور پھرتیلی خاتون تھیں، جنھیں مجھ جیسے شرمیلے اور تشویش کرنے والے انسان سے بات چیت کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی تھی۔ مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھور بھوشن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’ابا کو لگتا تھا کہ دلیپ کمار ان سے عمر میں بڑے ہیں۔
حالاں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے بنے تھے، لیکن ابا نہیں مانتے تھے، لیکن وہ ان کی نہیں سنتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ وہ دلیپ سے محبت کرتی ہیں۔ لیکن جب نیا دور فلم سے متعلق بی آر چوپڑا کے ساتھ عدالتی معاملہ ہوا تو میرے والد اور دلیپ صاحب کے مابین پھوٹ پڑ گئی۔ عدالت میں ان کے مابین ایک سمجھوتا بھی ہوا، پھر دلیپ صاحب نے کہا کہ آؤ ہم شادی کر لیں۔ اس پر مدھوبالا نے کہا کہ ہم شادی ضرور کریں گے لیکن پہلے آپ میرے والد سے سوری کہیں گے۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ گھر میں ہی ان سے گلے مل لیجیے، لیکن دلیپ کمار اس پر بھی راضی نہیں ہوئے۔
دلیپ کمار 2000ء تا 2006ء ہندوستان کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) کے رکن بھی رہے، پنڈت جواہر لال نہرو ان کے آئیڈیل تھے۔ 1962 میں نہرو کے کہنے پر انہوں نے شمالی ممبئی سے وی کے کرشنا مینن کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا۔ دلیپ کمار کو کتابوں کا بہت شوق رہا ہے۔ ان کے کتب خانے میں اردو ، فارسی اور انگریزی ادب سے متعلق کتب موجود رہیں۔ وہ قرآن پڑھتے تھے اور گیتا بھی۔ اپنے لڑکپن میں وہ بہت شرمیلے تھے۔ انہی دنوں دلیپ کمار اور راج کپور دونوں ممبئی کے خالصہ کالج میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ایک بار وہ گھر سے لڑ کر ممبئی سے بھاگ کر ’پُونا‘ چلے گئے اور برطانوی آرمی کینٹین میں کام کرنے لگے۔ کینٹین میں ان کے تیار کردہ سینڈوچ کافی مشہور تھے۔ یہ آزادی سے پہلے کا دور تھا اور اس ملک پر انگریزوں کا راج تھا۔ دلیپ کمار نے ایک دن پونے میں تقریر کی کہ انڈیا کی آزادی کی جنگ جائز ہے اور برطانوی حکمران غلط ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’دلیپ کمار، دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ برطانوی مخالف تقریر پر مجھے جیل بھیج دیا گیا۔
ہر کردار میں ڈوب جانے والے دلیپ کمار کو ’شہنشاہ جذبات‘ کا خطاب بھی دیا گیا، انھوں نے فلم ’کوہ نور‘ کے ایک گیت میں سِتار بجانے کا کردار ادا کرنے کے لیے دلیپ کمار نے برسوں تک استاد عبدالحلیم جعفر خان سے سِتار بجانا سیکھا۔ فلم ’نیا دور‘ کی عکس بندی کے لیے انھوں نے باقاعدہ تانگہ چلانے والوں سے تانگہ چلانے کی تربیت لی۔ اگرچہ دلیپ کمار کو ‘ٹریجڈی کِنگ’ کہا جاتا ہے لیکن اصل زندگی میں وہ ایک اچھے خاصے مزاحیہ انسان تھے۔ سائرہ بانو کا کہنا تھا کہ وہ کتھک ڈانسر گوپی کرشنا کی بھی نقل کرتے تھے، جو کہ بہت مشکل رقص تھا اور ایک بار تو ستارہ دیوی اور گوپی جی بھی موجود تھے وہ لوگ خوب ہنسے تھے۔
دلیپ کمارکو انڈین فلم کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ انہیں پاکستانی حکومت کی طرف سے 1998 میں نشان امتیاز سے نوازا گیا، جس پر کئی بار انتہا پسندوں نے مطالبہ کیا کہ وہ یہ اعزاز واپس کردیں، لیکن انھوں نے اس اعزاز کو مقدم رکھا اور 98 برس کی عمر میں برصغیر پاک وہند سمیت دنیا بھر کے اردو سمجھنے والے کروڑوں شائقین کو سوگوار چھوڑ کر بہت دور چلے گئے۔ دلیپ کمار کی وفات پر عثمان جامعی نے یہ شعر کہہ کر ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کردیا ہے:
فن تھا، تہذیب تھا، کمال تھا وہ
ذکر جس کے ہے بے مثال تھا وہ
٭ دلیپ کمار نے کہا ’ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشکل ہو جاتی ہے‘
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی سوانح عمری ’نیدر اے ہاک نور اے ڈو‘ (Neither a Hawk Nor a Dove) میں لکھا ہے کہ کارگل محاذ کی شکایت کے لیے جب ’ٹیلیفون پر اٹل بہاری واجپائی نے نواز شریف سے شکایت کی اور کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے بات کریں، جو میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور میری اور آپ کی گفتگو سن رہے ہیں۔
نواز شریف نے فون پر جو آواز سنی، اسے نہ صرف وہ بلکہ پورا برصغیر پہچانتا تھا۔ یہ آواز نسل در نسل پاک وہند کی فلمی شائقین کے دلوں پر راج کرنے والے دلیپ کمار کی تھی۔ دلیپ کمار نے کہا ’میاں صاحب، آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا ہے، تو ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال بہت پیچیدہ ہو جاتی ہے اور انھیں اپنے گھروں سے باہر جانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے کچھ کریں۔‘
پہلی فلم، ہیئراسٹائل اور مسکراہٹ
یوسف خان کی پہلی سپر ہٹ فلم ’’جگنو‘‘ 1947ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان کی ہیروئن نورجہاں تھیں۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی اور موسیقار فیروز نظامی تھے۔ اس فلم میں ان کی بے ساختہ اداکاری، دل کش ہیئر سٹائل اور محبت بھری مسکراہٹ نے لڑکیوں کے دل موہ لیے تھے۔ ان کے بالوں کی تراش ’’دلیپ کمار کٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی اب نوجوان ان کے انداز میں بال کٹوانے لگے تھے (جگنو گولڈن جوبلی فلم ثابت ہوئی)، اس فلم میں نورجہاں اور محمد رفیع کے گائے ہوئے اس گیت سے محمد رفیع کو بھی شہرت ملی، اس فلم کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس گیت کے بول کوہاٹ کے شاعر آذر سرحدی نے لکھے تھے جس کے بول یہ ہیں
یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
محبت کر کے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکا ہے
دلیپ کمار اور پشاور
دلیپ کمار دو مرتبہ اپنے جنم بھومی شہر پشاور آئے۔ پہلی مرتبہ 1988ء میں فاطمید فاؤنڈیشن کے سربراہ ناظم جیوا کی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ پشاور میں انہوں نے تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کے لیے قائم کردہ ’’فاطمید بلڈ ٹرانسفیوژن اسپتال‘‘ کا افتتاح کیا۔ اہل پشاور نے ان کا فقیدالمثال استقبال کیا تھا۔ پورے شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا۔ ان کے چھوٹے بھائی احسن خان بھی ان کے ہم راہ تھے۔ اپنے قیام کے دوران وہ اپنے آبائی گھر بھی گئے جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ انہوں نے سائرہ بانو کو وہ طاق بھی دکھایا جس میں وہ اپنے پیسے چھپا کر رکھتے تھے۔
پشاور سے وہ اسلام آباد، لاہور اور پھر کراچی گئے جہاں انہوں نے سائرہ بانو کے والد اور اپنے سسر میاں احسان کی عیادت کی تھی جو سخت بیمار تھے۔ دوسری مرتبہ 1998ء میں حکومت پاکستان کی دعوت پر سب سے بڑے شہری اعزاز ’’تمغہ امتیاز‘‘ وصول کرنے اسلام آباد آئے تھے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے نام ور اداکار سنیل دت کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس دوران یوسف خان نے پشاور کا بھی دورہ کیا۔ اس مرتبہ انہوں نے پشاور کے تاریخی قلعہ بالا حصار کی بلندی سے اپنے شہر پشاور کا نظارہ کیا تھا۔
دلیپ کمار کا گھر
اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں اس وقت کے صوبائی وزیرثقافت میاں افتخارحسین نے دلیپ کمار کی 89 ویں سال گرہ کے موقع پر ان کے آبائی مکان کا دورہ کر کے اسے ثقافتی ورثہ قرار دینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد دلیپ کمار نے ٹوئٹر پیغام میں اس اقدام کو سراہا اور اسے اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں یہ بھی بتایا تھا کہ اس آبائی مکان میں ان کا بچپن کیسا گزرا اور کون کون ان کے ساتھ وہاں رہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مکان کا نام ذہن میں آتے ہی انہیں تمام رشتہ داروں، والدین، چچا اور بالخصوص ماں کی یاد آتی ہے جو سارا دن باورچی خانہ میں کام کرتی تھیں۔
دلیپ کمار تاریخی قصہ خوانی بازار میں گزرے ہوئے وقتوں کو یاد کر کے کہتے تھے کہ انہوں نے کہانی نویسی کی ابتدائی تعلیم وہاں سے سیکھی جو بعد میں فلمی دنیا میں مکالمے لکھنے اور کہنے میں ان کے کام آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ قصہ خوانی بازار کے وسط میں شام کے وقت کوئی شخص آکر پرانے قصے سنایا کرتا تھا اور سب لوگ وہاں بیٹھ کر اسے غور سے سنا کرتے تھے۔ ان قصوں میں جنگوں اور بہادری کا خصوصی ذکر ہوتا تھا۔ واضح رہے کہ قصہ خوانی بازار میں واقع دلیپ کمار کا آبائی مکان پانچ مرلے اور تین منزلوں پر مشتمل ہے، جسے قومی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔
انھوں نے وعدہ وفا کردیا
ملک کے نام ور سنیئر اداکار اور پرائڈ آف پرفارمنس نجیب اللہ انجم کا کہنا ہے کہ جب برصغیر کے عظیم اداکار پاکستان آئے تو مجھے بھی ان سے ملاقات کا موقع ملا وہ بڑے پیار سے ملے اور پشاور سے متعلق باتیں کرتے رہے۔ اس موقع پر انہوں نے میرے کام کو سراہا بھی جو میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ اسی طرح معروف براڈ کاسٹر، پروڈیوسر، اداکار، منصف، اسکرپٹ رائٹر اور سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیواسٹیشن پشاور نثار محمد خان (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے) نے ماضی کریدتے ہوئے بتایا تھا کہ 1987ء میں کرکٹ ورلڈکپ کے سلسلے میں انڈیا جانے کا اتفاق ہوا میری دلی خواہش تھی کہ اپنے ہیرو دلیپ کمار سے ضرور ملوں گا۔ میں جب ان کے گھر گیا تو ان کی خادمہ نے بتایا کہ صاحب گئے ہوئے ہیں۔
میں مایوسی کے عالم میں پلٹا ہی تھا کہ ان کی بیگم سائرہ بانو کی آواز نے میرے قدم روک دیے۔ انہوں نے کہا کہ دلیپ کی یہ خصوصی تاکید ہے کہ کسی بھی خصوصاً پشاور سے آئے ہوئے مہمان کو بغیر خاطر تواضع نہیں جانے دیا جائے۔ سو انہوں نے پشاوریوں کی طرح خوب مہمان نوازی کی اور ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ جب بھی پشاور آنا ہوا تو ریڈیوپاکستان پشاور ضرور آئیں گے اور انہوں نے اپنا وعدہ اگلے ہی سال ایفا کردیا۔ جب 1988ء میں عظیم اداکار پشاور کے دورے پر آئے تو انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور اسٹیشن کا بھی دورہ کیا۔
اس موقع پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا وہ فرداً فرداً ہر ایک سے ملے اور پھر اسٹیشن ڈائریکٹر کے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس دوران انہوں نے روایتی پشاوری انداز میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پشاور سے متعلق باتیں کیں، اور کہا کہ گوکہ میں اب پشاور سے کوسوں دور رہتا ہوں مگر پشاور مجھ میں بستاہے، کیوں کہ یہ میری جنم بھومی ہے، میری پہچان اور شناخت ہے، اور اپنی اس شناخت کو کھونا نہیں چاہتا ہوں۔
اسی طرح پشاور ہی میں رہائش پذیر بھارتی فلم انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ شاہ رخ خان کے چچا زاد بھائی اور غلام محمد گاما کے فرزند منصور احمد نے بتایا کہ 2011ء میں جب میں اور میری بہن (نورجہان) انڈیا اپنے کزن شاہ رخ خان سے ملنے گئے تو وہاں دلیپ کمار کے ہاں بھی جانا ہوا۔ وہاں ان کے بھائیوں احسن خان اور اسلم خان سے خوب گپ شپ ہوتی رہی جب کہ دلیپ کمار نے اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود ہمارے ساتھ چار گھنٹے جی بھر کر باتیں کیں اور ان کی طرف سے بہت پیار ملا۔ انہوں نے بتایا کہ احسن خان، اسلم خان اور سریندر کپور اب بھی پشاوری ہندکو میں بات کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ وہاں ان لوگوں سے جو پیار ملا اس کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔
The post برصغیر کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار اپنی ساری خوشبو اور روشنی لیے دنیا چھوڑ گئے appeared first on ایکسپریس اردو.