شہر علم کے دروازے پر( مجموعہ حمد و نعت، سلام و منقبت )
شاعر: افتخار عارف، قیمت : 700 روپے، ناشر:بک کارنر ،جہلم
واٹس ایپ 03215440882
فیض احمد فیض نے کہا تھا : ’’ افتخار عارف نے جدید مضامین و مطالب کی ادائیگی میں روایت کے خزینے سے یوں کسب فیض کیا ہے کہ تلمیح کو علامت اور علامت کو استعارے کا روپ دے کر نظم اور غزل دونوں کے لئے رمز و کنایہ کا نیا سامان پیدا کیا ہے۔ اس ضمن میں اب سے پہلے عشق و طلب ، ایثار و جاں فروشی ، جبر و تعدّی کا بیان صرف منصور و قیس اور فرہاد و جم کے حوالے سے کیا جاتا تھا۔ پھر جب گھر میں دارورسن کی بات چلی تو مسیح و صلیب کے حوالے بھی آگئے، لیکن المیہ کربلا اور اس کے محترم کرداروں کا ذکر بیشتر سلام اور مرثیے تک محدود رہا۔ صرف اقبال کی نگاہ وہاں تک پہنچی۔‘‘
انتظار حسین کا افتخار عارف کی شاعری سے متعلق خیال تھا :
’’ واقعہ کربلا کے حوالے سے جو شاعری افتخار عارف نے کی ہے، اس میں ایک علامتی سطح بھی ابھرتی نظر آتی ہے۔ پہلی بار اقبال کے یہاں کربلا نے تخلیقی سطح پر استعاراتی شکل پائی تھی۔ دوسری مرتبہ یہ واقعہ افتخار عارف کی شاعری میں گزر۔ افتخار عارف کی شاعری میں دو وصف ایسے ہیں جن میں ان کا کوئی ہم عصر حصہ بٹاتا نظر نہیں آتا۔ سو ان کے بل پر وہ اپنے ہم عصروں کے بیچ ممتاز نظر آتے ہیں۔
ان میں اوّل ان کی مذہبی شاعری ہے ، مگر افتخار عارف نعت گو نہیں ہیں، نہ مرثیہ نگار ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان کے یہاں بے گھری کا احساس ہے۔ اک ہجرت اور اک مسلسل دربدری کا قصہ۔ کس کس رنگ سے ، کبھی اعلانیہ ، کبھی کسی پردے میں چھپ کر کسی علامت ، کسی استعارے میں گوندھ کر وہ اس شاعری میں اپنا اظہار پاتا ہے۔‘‘
زیرنظر مجموعہ کا تعارف خود جناب افتخار عارف کچھ یوں کراتے ہیں: ’ شہر علم کے دروازے پر‘ میری شاعری کا وہ انتخاب ہے جو میرے عقیدہ و عقیدت کی نشان دہی کرتا ہے۔ میں اپنی شاعری میں ملی شاعری، مذہبی شاعری اور آفاقی شاعری وغیرہ کی تقسیم کا قائل نہیں ہوں۔ میں نے بساط بھر ساری زندگی میں کوشش کی ہے کہ جو میرے لہو میں گردش کرتی ہوئی سچائیاں ہیں جن کا تعلق میرے عقیدے سے ہو ، میرے ایمان و عبادات سے ہو، میرے زمینی تعلقات سے ہو، باہمی رشتوں اور روابط کے نشیب و فراز سے ہو، سب میرے وجود کا حصہ ہیں۔‘‘یہ مجموعہ اول تا آخر سچائیوں سے ہی بھرا ہوا ہے۔ کتاب کا سرورق حنیف رامے کا بنایا ہوا ہے۔ ’ بک کارنر ‘ نے مجموعہ کو اس کے شایان شان شائع کیا۔
درود و سلام کی بہاریں
مصنف: علامہ امام محمد یوسف بن اسماعیل نبہانی، قیمت :480 روپے
ناشر… بک کارنر ،جہلم، واٹس ایپ 03215440882
زیرنظر کتاب معروف عرب مصنف اور شاعر علامہ امام محمد یوسف بن اسماعیل نبہانی کی عربی کتاب ’ افضل الصلوات علیٰ سید السادات ‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ امام نبہانی فلسطین میں پیدا ہوئے، شام میں زندگی بسر کی ، مدینہ منورہ میں بھی ایک عرصہ تک رہے اور تصنیف و تالیف کا کام کرتے رہے۔ ’ درود و سلام کی بہاریں‘ ( افضل الصلوات علیٰ سید السادات) درودوں پر مشتمل انتہائی مستند اور جامع مجموعہ ہے۔ یہ درود عربی زبان میں فصاحت و بلاغت کے نادر نمونے ہیں۔ یہ بڑے بڑے علما و فقہا ، صوفیا اور اولیا کاملین و محققین کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جو شریعت و طریقت و حقیقت کے جامع اور علم و عرفان کے آفتاب ہیں۔
کتاب کے پہلے سات ابواب میں آیات صلاۃ و سلام کی تفسیر بیان کی گئی ہے جبکہ فضائل درود شریف کے متعلق احادیث مبارکہ ، جمعۃ المبارک اور شب جمعہ کو درود شریف پڑھنے کی ترغیب دلانے والی احادیث مبارکہ، کثرت درود شریف کی ترغیب دلانے والی احادیث مبارکہ ، درود شریف پڑھنے والوں کی شفاعت کے بارے میں احادیث نبویہ ﷺ ، حضور نبی کرم ﷺ کے ذکر کے وقت درود شریف نہ پڑھنے پر وعید کے بارے میں احادیث مبارکہ کا مفصل بیان شامل ہے۔ ایک باب میں درود شریف پڑھنے والوں کے لئے انعامات و اکرامات کا بھی تفصیلی تذکرہ ہے۔
اس کے بعد 70سے زائد درود شریف اور ان کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ علامہ حافظ بشیر احمد سعیدی کا ہے جبکہ تزئین و تادیب کا فریضہ پروفیسر محمد اکرم مدنی نے ادا کیا ہے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک منفرد کتاب ہے جو ہر اس فرد کے لئے زادراہ کی حیثیت رکھتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سے سرشار زندگی بسر کرنا اور اس کے نتیجے میں انعامات واکرامات سمیٹنا چاہتا ہے۔
جنگ مقدس (ناول)
مصنف: قمر اجنالوی، قیمت: 900 روپے
ناشر: مکتبۃ القریش، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور، رابطہ: 03004183997
زیر نظر ناول تیسری صلیبی جنگ کی مستند تاریخ پر مبنی ہے ، یہ بیت المقدس کے لئے غازیان اسلام اور اہل صلیب کے درمیان جنگی معرکوں کی ایمان افروز اور ولولہ انگیز روداد ہے۔ اس صلیبی جنگ کے پیچھے ایشیا اور یورپ کے کروڑوں لوگوں کے دل دھڑکتے ہیں۔ جنگ کا اختتام یوں ہوا کہ رچرڈ اپنے دل پر شکست و ناکامی کے داغ لے کر انگلستان چلاگیا، واپسی پر آسٹریا میں اسے مارکوئیس کانرڈ کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا جبکہ مسلمانوں کا سلطان واپس دمشق پہنچا تو اس کا فقید المثال استقبال ہوا اور عالم اسلام کی فضائیں ’ اہلاً و سھلاً ، مرحبا ‘ اور ’ اللہ اکبر‘ کے پرجوش نعروں سے گونج اٹھیں۔
ہمارے ہاں فکشن پر تاریخ کا ٹھپہ لگا کر تاریخ سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ عموماً تاریخی ناولوں میں اچھا پلاٹ بناتے ہوئے مصنفین تاریخی حقائق کو مسخ کردیتے ہیں، انھیں اپنی مرضی کا رنگ دیتے ہیں، کہانی میں ایسے کردار شامل کرتے ہیں جو بالکل ایک نئی من گھڑت ’ تاریخ ‘ رقم کرتے ہیں۔
قمر اجنالوی ایسا نہیں کرتے، ہر گز نہیں کرتے۔ وہ جہاں پلاٹ اور اظہار بیان کی شگفتگی کو قائم رکھتے ہیں وہاں تاریخ کی صحت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ کہانی اس قدر عمدگی سے بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اسی دنیا کا باقاعدہ ایک حصہ بن جاتا ہے، تجسس اس قدر شاندار ہوتا ہے کہ واقعتاً دل کی دھڑکن غیرمعمولی طور پر تیز ہوجاتی ہے۔
’’ جنگ مقدس ‘ میں ہلال و صلیب کی خونریز آویزشوں کا جو پس منظر بیان کیا گیا ہے اس میں عربوں اور افرنگیوں کی فوجی چھاؤنیوں کا تذکرہ اور فلسطین میں طویل فوجی کشمکش کے دوران فریقین کی عسکری زندگی کا نقشہ اس عمیق ترین مطالعہ و مشاہدہ کی نشاندہی کرتا ہے جو ایک مصنف کو کئی برسوں کی تاریخی اور ادبی ریاضت کے بعد ہی نصیب ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسا شاندار ناول ہے جو بوڑھوں کو جوان کردیتا ہے، پژمردہ جسموں میں توانائیاں بھر دیتا ہے، ایسا بھلا کیسے اور کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب آپ کو ناول پڑھنے سے ملے گا۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.